آصف رشید
بیلاروس مشرقی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جسکی آبادی 95 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ بیلاروس کی سرحدیں روس، یوکرائن، پولینڈ اور لیتھوینیا سے منسلک ہیں۔ بیلاروس اپنی سٹریٹجک لوکیشن کے حوالے سے ایک اہم ملک ہے جو یورپ کو ایشیا کے ساتھ ملاتا ہے۔ یہ سابقہ سوویت یونین سے علیحدہ ہونے والا وہ واحد ملک ہے جس کی معیشت کا بڑا حصہ ابھی بھی سرکاری ملکیت میں ہے۔ 1994ءمیں اقتدار میں آنے کے بعد صدر ’لوکاشینکو‘ نے ریاستی ملکیت کو کافی حد تک بحال رکھا۔ ساتھ ہی بڑے پیمانے کی نجکاری کو روکتے ہوئے معیشت کے کلیدی شعبوں کو بیوروکریٹک منصوبہ بندی کے تحت چلایا۔ 2008ءکے عالمی معاشی بحران سے پہلے بیلاروس ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں بہت اوپر تھا۔ جہاں مفت علاج، تعلیم، رہائش، پنشن اور روزگار وغیرہ کی ذمہ داری ریاست کی تھی۔ لیکن عالمی سرمایہ داری سے جڑے ہونے کے باعث سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے اثرات بیلاروس پر بھی پڑے۔ اس دوران ڈھائی دہائیوں سے صدر چلے آ رہے آمر لوکاشینکو کی جابرانہ حکومت نے ہر قسم کی جمہوری آزادیوں کی پامالی بھی کی۔ بیلاروس میں موجودہ سیاسی بحران کسی طور پر بھی کوئی حادثاتی امر نہیں اور نہ ہی کسی بیرونی سازش کا نتیجہ ہے۔ یہ اسی سماجی بے چینی اور معاشی بحران کا ناگزیر اظہار ہے جس سے بیلاروس پچھلے کچھ سالوں سے گزر رہا تھا۔
جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں ملک میں مظاہرین 9 اگست کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ہو نے والی شدید دھاندلی کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کر رہے ہیں اور صدر الیگزینڈر لوکاشینکو سے استعفے اور شفاف جمہوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ایک فیکٹری میں مزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے صدر لوکاشینکو نے کہا ہے کہ ”جب تک آپ مجھے قتل نہیں کرتے‘ اس وقت تک کوئی اور انتخابات نہیں ہوسکتے ہیں۔“
اس دوران پر امن احتجاجی مظاہروں کو پولیس نے وحشیانہ جبر سے روکنے کی کوشش کی، ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا اور وحشیانہ جبر کے نتیجے میں دو افراد ہلاک بھی ہوئے اور سرکاری جیلوں میں مار پیٹ اور تشدد کی بڑے پیمانے پر اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ زخمیوں کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد لوگوں کی بہت بڑی تعدادنے مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کی ہے۔
دارالحکومت منسک کے قریب زوڈینو میں سرکاری منسک آٹو موبل پلانٹ (ایم اے زیڈ) اور منسک ٹریکٹر ورکس (ایم ٹی زیڈ) کے علاوہ دیودہ بیلاز آٹو موبل پلانٹ سے مزدوروں نے کام بند کر کے مظاہروں کا رخ کیا۔ اگلے دنوں میں تقریباً ہر بڑی صنعت اور خدمات کے شعبے کے مزدوروں نے مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ہڑتالیں منعقد کیں۔ اس دوران ملک میں بعض مقامات پر دو لاکھ سے بھی زیادہ لوگوں نے احتجاج کیا جو ملک کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔
حالیہ انتخابات وہ چنگاری ثابت ہوئے جس نے بیلاروس میں معاشرتی عدم اطمینان کی آگ کو بھڑکا دیا ہے۔ حالیہ عرصے میں بحران زدہ معیشت کے نتیجے میں حکومت نے مزدوروں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے ہیں اور ریاست نے کورونا وبا کے حوالے سے کسی قسم کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا۔ ابھی تک 70 ہزار سے زائد لوگ کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اس دوران کسی قسم کے حفاظتی اقدامات اور لاک ڈاﺅن کو یکسر مسترد کرتے ہوئے لوکاشینکو نے لوگوں کو نہانے اور ووڈکا پینے کا مشورہ دیا۔
درحقیقت موجودہ بحران کی ابتدا 1991ءمیں سوویت یونین کے انہدام اور بیلاروس کی علیحدگی کے عرصے میں ہی ہوچکی تھی۔ سابق سوویت بیوروکریٹوں کی طرح لوکاشینکو خود ایک اجتماعی کھیت کاسابق منیجر ہے۔ جس نے خود کو ریاستی کاروباری اداروں کے منتظم کی حیثیت سے مستحکم کیا اور اقتدار پر براجمان ہوا۔ اپنے اقتدار اور معاشرتی استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے بیلاروس کے حکمران طبقے کی حکمت عملی مغربی اور روسی سامراج کے توسیع پسندانہ عزائم کے مابین ایک محتاط توازن کے ذریعے ہی انجام دی جا سکتی تھی۔ جس کے لئے لوکاشینکو نے غیر ملکی قرضوں اور سبسڈی کے فوائد کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے عوام کی داخلی مخالفت کو دبانے کے لئے بنیادی جمہوری آزادیوں کو صلب کیا۔
لیکن بیلاروس کی سرکاری ملکیت اور بیوروکریٹک کنٹرول میں منظم معیشت بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور اپنی بھاری صنعت کی پیداوری صلاحیت کو فروغ دینے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے اس کا روسی تیل کی سبسڈی اور برآمدی منڈیوں پر انحصار بڑھتا گیا۔ بیلاروس یوکرائن یا روس کی مافیا سرمایہ داری سے بہت مختلف ہے لیکن منصوبہ بند معیشت سے بھی بہت دور ہے۔ ایک دہائی سے زائد عرصے سے بیلاروس قرضوں پر سود کی ادائیگی، معاشی جمود، کرنسی کے بحران اور قیمتوں میں عدم استحکام کے مسائل کے گھن چکر میں پس رہا ہے۔
روسی تیل کی مسلسل ترسیل کو جاری رکھنے کی خاطر لوکاشینکو روس کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ لیکن اس نے ہمیشہ نجکاری کی طرف کسی فیصلہ کن اقدام میں بھی تاخیر یا مزاحمت کی ہے جس کی وجہ سے اسے ہمیشہ داخلی لبرل اشرافیہ کی مزاحمت کا بھی سامنا رہا ہے۔
معاشی جمود کے باوجود کئی دہائیوں تک لوکاشینکو سستے روسی تیل کو پراسیس کر کے اس کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کو اپنی عوام پر خرچ کرنے کے قابل تھا تاکہ ملک کی آبادی کے لئے کم از کم مناسب معیار زندگی فراہم کیا جاسکے۔ جس کے نتیجے میں اس کی حکومت محنت کش طبقے میں خاصی حد تک اپنی حمایت برقرار رکھنے اور ساتھ ہی ساتھ بیلاروس کی سول سوسائٹی پر اپنی آہنی گرفت قائم کرنے میں کامیاب رہی۔ جمہوری تحریکیں وقتاً فوقتاً اپنا اظہار کرتی رہی ہیں لیکن وہ کبھی بھی وسیع تر عوامی حمایت حاصل نہیں کر سکیں اور ان تحریکو ں کو باآسانی جبر کے ذریعے دبا دیا جا تا تھا۔
2008ءکے معاشی بحران کی وجہ سے روس نے تیل کی سبسڈی ختم کر دی جس کی وجہ سے تیل کی ترسیل میں خلل سے بیلاروس کی معیشت شدید بحران کا شکار ہوگئی۔ معاشی بحران کے پریشر کے باعث لوکاشینکو نے یورپی یونین کے ساتھ ”بات چیت“ کا آغاز کیا جس کا مقصد یورپی امداد میں اضافے کی صورت میں معاشی اصلاحات نافذ کرنا تھا۔
2015ءسے لے کر 2017ءکے معاشی بحران کے دوران مقروض ریاست کوئی خاطر خواہ منصوبہ بندی کرنے سے قاصر رہی اور کرنسی کی قدر میں کمی اور قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں لوگوں کی حقیقی آمدنی میں 13 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ معاشی مسائل کے حل کے لیے لوکاشینکو نے محنت کش طبقے پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ 2015ءمیں نام نہاد ”پیراسائٹ قانون“ لایا گیا تھا جس کے مطابق اگر کسی کے پاس ریاستی طور پر منظور شدہ روزگار نہیں ہے تو اسے سپیشل ٹیکس ادا کرنا پڑے گا بصورت دیگر اسے کمیونٹی سروس کی صورت میں سزا دی جائے گی۔ یہ حکم 2018ءمیں واپس لے لیا گیا تھا لیکن بے روزگاروں کو ریاستی خدمات کی ادائیگی پر جبراًمجبور کیا جاتا ہے۔ 6 ماہ تک بے روزگار رہنے والے فرد کو چھ ما ہ تک قید کی سزا دی جاتی ہے۔ 2017ءمیں لیبر کوڈ میں ترامیم کے ذریعے 90 فیصد مزدوروں کا مستقل روزگار ختم کر کے ان کو عارضی معاہدوں پر منتقل کر دیا گیا۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں وسیع پیمانے پر کٹوتیوں کا نفاذ کیا گیا اور ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دی گئی۔ ان اقدامات کے نتیجے میں پھیلنے والا عدم اطمینان ایک بڑی عوامی تحریک کا موجب بنا ہے۔ جس نے محنت کش طبقے کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور اسے تمام شعبوں اور ملک کے ہر حصے میں مزدوروں کی حمایت حاصل ہے۔
احتجاج کے ابتدائی دنوں میں تحریک کے مطالبات بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں نئے انتخابات اور نظر بند سیاسی کارکنوں کی رہائی تک محدود تھے۔ لیکن اب بڑے پیمانے پر مظاہرے لوکاشینکو کے فوری استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس تحریک نے اپنی ایک رفتار اور شدت قائم کی ہے جو حکومت کے جواز کو تیزی سے ختم کر رہی ہے۔
اگر احتجاج جاری رہتا ہے اور ہڑتالوں کی تحریک معیشت کے بیشتر حصوں کو مفلوج کرنے کی طرف بڑھتی ہے تو لوکاشینکو کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ یا تو عوامی طاقت کے سامنے ہتھیار ڈال دے یا پھر ایک خونی کریک ڈان کرے۔ ابھی تک پولیس اور فوج کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے۔ البتہ پولیس اور فوج کے کچھ اہلکاروں کی مظاہروں میں شامل ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور مظاہرین کو فوجیوں سے بغاوت میں شامل ہونے کی اپیل کرتے ہوئے فلمایا بھی گیا ہے۔
جبر اور تشد اگر جاری رہتاہے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ فوج کے اندر ایک پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ پیوٹن نے دونوں ملکوں کے فوجی معاہدے کے مطابق لوکاشینکو کی فوجی امداد کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن روس کے اپنے معاشی حالات اور سیاسی صورتحال کسی فوجی کاروائی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
اقتدار کی کسی بھی طرح کی ”منظم منتقلی“ بیوروکریسی کے کچھ حصوں کے لئے ایک ترجیحی متبادل بن سکتی ہے۔ لبرل اپوزیشن کے بہت سے رہنما، جو معاشی لبرلائزیشن اور عالمی منڈیوں میں مکمل انضمام کی حمایت کرتے ہیں، یا تو قیدمیں ہیں یا بیرون ملک فرار ہیں۔ ایک بات واضح رہنی چاہئے کہ لبرل اپوزیشن کا ایجنڈا نجکاری، زمینوں کی سرکاری ملکیت کا خاتمہ، قیمتوں پر کنٹرول کا خاتمہ اور روس اور یورپی سامراجیوں کے لیے فری ٹریڈ زون کا قیام عمل میں لانا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں لایا جائے اور اپنے منافعوں میں اضافہ کیا جائے۔ یورپ کے بڑے سرمایہ داروں کا ملک میں آنے کا مطلب ہے کہ محنت کش طبقے کو سرمائے کی مکمل غلامی میں دھکیل کر خوار کر دیا جائے گا۔ مشرقی یورپ کے ملکوں کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مغرب کی حمایت یافتہ لبرل بورژوازی نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں ملکی اثاثوں کو فروخت کیا اور دولت کے انبار لگائے ہیں۔
اس وقت تک موجودہ تحریک کی کوئی واضح سیاسی قیادت نہیں ہے۔ یہ ایک خود رو تحریک ہے جس کا خمیر عوامی عدم اطمینان سے اٹھاہے۔ تحریک اس وقت ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا اس کا تعین اس بات پر ہے کہ کس طرح کی سیاسی قیادت ابھرتی ہے۔ انتخابات میں حزب اختلاف کی امیدوار سویتلانا تخانوسکایا نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہونے کے لئے تیار ہے اور اس نے لیتھوینیا میں جلا وطنی سے ایک خود ساختہ قومی ’رابطہ کمیٹی‘ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس نے کہاہے کہ ”میں آپ سے رابطہ کونسل میں متحد ہونے کو کہتی ہوں۔ اس میں بات چیت اور اقتدار کی پر امن منتقلی پر یقین رکھنے والے ورکنگ گروپس، پارٹیوں، ٹریڈ یونینوں اور سول سوسائٹی کی دیگر تمام تنظیموں کو شامل ہونا چاہئے۔“ تخانووسکایا یورپی یونین اور نیٹو ممالک کی حمایت یافتہ لبرل اپوزیشن کی ایک رہنما ہے۔ بہت سے لوگ اب تخانووسکایا کے صدارت کے دعوے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے اور یورپی یونین سے جلاوطن سول سوسائٹی کے رہنماں اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن یہ تحریک کے لیے ایک تباہ کن غلطی ہوگی کہ حزب اختلاف کے سرمایہ دارانہ رہنماں یا ان کے یورپی ’دوستوں‘ پر اعتماد کرے۔ نہ ہی اس نام نہاد ’رابطہ کمیٹی‘ کوتسلیم کیا جانا چاہئے۔ یہ عوامی طاقت ہے جس نے تحریک کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ عوام کو لبرل متوسط طبقے کے نمائندوں کو اس کے ثمرات نہیں لینے دینے چاہئے۔
نہ ہی نام نہاد ”آزاد انتخابات“ بیلاروس کی معیشت کے تضادات کی وجہ سے پیدا ہونے والے مصائب کو دور کریں گے۔ اگر عوامی تحریک کسی متبادل پروگرام کے گرد اپنے آپ کو منظم نہیں کرتی اور منظم انداز میں اقتدار کی منتقلی کو یقینی نہیں بناتی تو لوکاشینکو کی رخصتی سے نجکاری کا ایک جارحانہ نیولبرل پروگرام لاگو ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں جس سے محنت کش طبقہ مزید برباد ہو گا اور بیلاروس کو یورپی یونین اور جرمنی کی نیم کالونی بنا دیا جائے گا۔ 90ءکی دہائی میں پولینڈ اور بالٹک ریاستوں کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت سے عوام کے معیار زندگی پر اوربھی زیادہ حملے ہوں گے جو محنت کشوں کی بچی کھچی حاصلات کو بھی تیزی سے ختم کر دیں گے۔ کورونا وائرس بحران کے حالات میں ایک نئی ”شاک تھراپی“ بیلاروس میں ایک معاشرتی تباہی کا باعث ہو گی۔ محنت کش طبقے کو ہر حال میں تحریک کو لبرل اپوزیشن سے آزادانہ طور پر منظم کرنا ہو گا۔
تمام صنعتی و خدماتی شعبوں کے مزدوروں کی شمولیت کے ساتھ ایک عام ہڑتال ہی محنت کش طبقے کاسب سے طاقتور ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پولیس کو غیر مسلح کرتے ہوئے عوامی مسلح ملیشیاکا قیام ہی ریاستی جبر کا مقابلہ اور انقلابی تحریک کا دفاع کرنے کا ایک اہم اوزار ثابت ہو سکتا ہے۔ موجودہ ریاست کی جگہ محنت کشوں کی منتخب کونسلوں پر مشتمل حکومت کا قیام ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ اور یہ حکومت معیشت کے بیوروکریٹک کنٹرول کا خاتمہ کر کے کلیدی شعبوں کا انتظام مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیتے ہوئے ہنگامی معاشی منصوبے کا اعلان کرے۔ امریکہ، روس اور یورپی یونین کی سامرجی مداخلت کی کسی بھی کوشش کی صورت میں پوری دنیا کے انقلابیوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ بیلاروس کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔ نہ تو یورپی یونین کی نیولبرل اصلاحات اور نہ ہی پیوٹن کی مافیا سرمایہ داری بیلاروس کے عوام کو کوئی ریلیف دے سکتی ہے۔ بیلاروس کے نوجوان اور محنت کش اگر مذکورہ بالا خطوط پر ایک انقلابی مثال قائم کرتے ہیں تو یہ پولینڈ، روس، یوکرائن اور پورے مشرقی یورپ کے محنت کش طبقے کو جدوجہد کے میدان عمل میں داخل کر سکتی ہے۔