ظفر اللہ

29 اپریل 2018ءکو عمران خان نے مینارِ پاکستان لاہور میں ایک بہت بڑے جلسہِ عام سے خطاب کرتے ہوئے گیارہ نکات پر مشتمل الیکشن پروگرام پیش کیا تھا۔ جس میں خودمختاری اور سماجی ترقی کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے تھے۔ اس سے پہلے بھی مختلف اجتماعات میں موصوف نے کئی انقلابی اقدمات کا اعلان کیا تھا کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت بنتی ہے تو ان اعلانات کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ اسی طرح الیکشن 2018ءسے ایک ماہ قبل حکومت بننے کی صورت میں پہلے سو دن کے پروگرام کی بھی رونمائی کی گئی جس میں کم آمدنی والے لوگوں کے لئے پچاس لاکھ سستے گھروں کی تعمیر، ایک کروڑ نوکریوں اور ماحولیات کے تحفظ سمیت مختلف نکات کا اعلان کیا گیا تھا۔

یہ بلاشبہ آبادی کی وسیع اکثریت کے سلگتے ہوئے مسائل تھے جن کے حل نہ ہو سکنے کی ساری ذمہ داری مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں پر ڈالی گئی اور ان کی کرپشن کو معاشی اور سماجی ابتری کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ یہ اپنی حکومت میں انقلابی اقدامات اٹھائے گا اور لوگوں کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر ترقی کے راستے پر گامزن کرے گا۔ زیادہ تر اعلانات اور وعدے درمیانے طبقے کی مختلف پرتوں کے مسائل کو مدِنظر رکھ کرکیے گئے تھے۔ جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ تحریکِ انصاف کی سماجی بنیادیں سماج کی کس پرت میں پیوست ہیں۔ پاکستان اور اس جیسے دوسرے غریب ممالک میں سیاست کا یہ عام چلن ہے کہ زمینی حقائق کی بجائے پاپولر پروگرام پیش کر کے انتخابی سیاست کی جاتی ہے اور اقتدار میں آکر ان ناقابل عمل پروگراموں کو پس پشت ڈال کر طاقت اور دولت کی سیاست کے ذریعے مال جمع کر کے پھر سے پیسے کے بلبوتے پر سیاست کی جاتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ حکمران طبقات کے ان نو دولتی سیاسی دھڑوں کے رہنماﺅں کو حقیقت کا ادراک نہیں ہے۔ بلکہ ان کے زیادہ تر وزرا اور پارٹی رہنما مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہی کے سابقہ وزرا اور مشیر ہیں۔ جو کہ پاکستان کی معیشت، سیاست اور سماجیات سے بخوبی واقف ہیں۔ مگر ہر دفعہ عوام کو نئے جال سے شکار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کٹھ پتلی حکومت کو اپنے ان کھوکھلے نعروں کی حقیقت کا علم نہ ہو۔ مگر پھر بھی ایک خبطی ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ سنجیدہ کاوش پنہاں ہو سکتی ہے کہ پاکستان کے معاشی اور سیاسی مسائل‘ بدانتظامی اور کرپٹ قیادت کی بدولت ہیں۔ اس لئے بری گورننس اور کرپشن کے بنیادی نعروں پر سیاست کی گئی۔

یہ بات اب راز نہیں رہی کہ تحریک انصاف کے اقتدار کے حصول میں ’حقیقی مقتدرہ‘ کا کتنا گہرا کردار تھا۔ بطور مارکسسٹ ہماری پاکستان اور اس جیسی دوسری نو آبادیاتی ریاستوں کے بارے میں ایک واضح پوزیشن ہے کہ یہ ریاستیں کس طرح سامراج اور اجارہ داریوں کی موجودگی میں اپنی تاریخی تاخیر زدگی کی وجہ سے ترقی کے زینے نہیں چڑھ سکتیں۔ نتیجتاً یہ سامراج کی گماشتگی کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہیں اور سرمایہ داری کی مخصوص موجودہ بین الاقوامی اور قومی کیفیات میں وہ مسائل حل نہیں کر سکتیں جو ان ممالک کو ایک جدید ترقی یافتہ ریاست اور سماج میں ڈھال سکیں۔ یہ سرمایہ داری کا ایک نامیاتی مسئلہ ہے جو ایک سوشلسٹ انقلاب کی چھلانگ کے بغیر حل نہیں ہو سکتا۔ یہاں مسئلہ کرپشن اور بدانتظامی کا نہیں بلکہ یہ مسئلے کی علامات ہیں جو نظام کی پسماندگی سے جڑی ہوئی ہیں۔

آج تحریک انصاف کی حکومت کی دو سالہ کارکردگی کا پھیکا جشن ان حکمرانوں کے چہروں کی زردی سے عیاں ہے۔ کب ایسا نہیں ہوا کہ مسائل کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو نہ ٹھہرایا گیا ہو۔ آج عمران خان اور اس کے چاپلوس وزیروں اور مشیروں کے منہ سے ہر وقت یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ یہ بحران اور مسائل سابقہ حکومتوں سے ورثے میں ملے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکمران طبقہ تسلیم کر چکا ہے کہ یہ مسائل اس مملکت کے جنم سے لے کر آج تک حل نہیں ہو سکے اور ہم بہت اعتما د سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسائل اس نظام میں حل نہیں ہو سکتے۔ اس حکومت کے معاشی کارناموں کا جائزہ لیا جائے تو معیشت منفی 0.38 فی صد کی شرح ترقی پہ چل رہی ہے۔ دراصل یہ کورونا کی وجہ سے نہیں بلکہ پہلے سے خود بورژوا معیشت دان معیشت کے سکڑاﺅ کی پیش گوئی کر چکے تھے۔ کورونا نے صرف اونٹ کی کمر پہ آخری تنکے کا کردار ادا کیا ہے۔ اب اتنے معاشی سکڑاﺅ کا مطلب ہے کہ معیشت گراوٹ کا شکار ہے۔ طلب گر رہی ہے اور پیدا وار میں بہت بڑی گراوٹ ہے جس کا ناگزیر نتیجہ تجارتی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں کمی کی شکل میں سامنے آنا تھا جس کو بڑھا چڑھا کر کامیابیوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام لوگ اتنی معاشی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتے مگر وہ زندگی کے حقیقی سکول سے سیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کی زندگیوں کی تلخی، ضروریات زندگی کی عدم تکمیل اور معیار زندگی میں گراوٹ نے ان کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کے لئے یہ جشن ایک بیہودہ تماشے کے سوا کچھ نہیں۔

قرضوں کے جس پہاڑ کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اس کی حالت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے 73 سالوں میں پاکستان کے کل قرضے کا 35 فیصد صرف تحریک انصاف کی حکومت کے دوران لیا گیا ہے۔ یہ وہ قرضے ہیں جو کئی دہائیوں سے پاکستان کی غریب عوام اپنے خون سے ادا کر رہی ہے اور جب تک سرمایہ داری ہے یہ قرضے ختم نہیں ہو سکتے۔ پاکستانی ریاست ان قرضوں کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ آٹھ ہزار ارب روپے کی ٹیکس وصولی کا جو ہدف عمران خان نے رکھا تھا وہ دیوانے کا خواب بن چکا ہے۔ سرمایہ داروں نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے حصول کی کوششوں میں پوری معیشت سے سرمایہ واپس کھینچ لیا گیا ہے جو معاشی سکڑاﺅ کا سبب بنا ہے۔ ہم کئی دہائیوں سے لکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی حقیقی معیشت کے متوازی ایک اور غیر دستاویزی کالی معیشت ہے اور اس کو کنٹرول کرنے یا ضابطے میں لانے کی کوئی بھی کوشش حقیقی معیشت کے انہدام کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ بڑے فخر سے ٹیکس کے نظام کو بہتر کرنے کے لئے جس (ٹیکس چوری کرنے کے طریقے بتانے والے) گرو شبر زیدی کو چیئرمین ایف بی آر بنایا گیا تھا وہ اب اس عہدے سے استعفیٰ دے کر پس منظر میں جا چکا ہے۔ دو سال میں ایف بی آر کے پانچ چیئرمین تبدیل ہو چکے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ بحران کتنا گہرا ہے۔ سامراجی اداروں کے مسلط کردہ حفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک براہِ راست معیشت کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ کر سامراجی مفادات کی بلاواسطہ نگہبانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے محسوس کرایا ہے کہ سنجیدہ معاشی اصلاحات کی گنجائش نہیں ہے لہٰذا ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھا جائے اور روایتی طریقوں سے ڈنگ ٹپاﺅ کام چلایا جائے۔ وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کا کل قرضہ 36 ہزار ارب روپے ہے جس میں 11 ہزار ارب روپے صرف پی ٹی آئی نے اپنے دو سالہ اقتدار میں لیا ہے۔

ریاستی ڈھانچے کو دیکھا جائے تو یہ ایک کمزور اور لاغر بنیادوں پر لڑکھڑا رہا ہے۔ مختلف معاشی مفادات کے تضادات کے حامل گروہ ہیں جن میں سنجیدہ تناﺅ ہے۔ بظاہر سب ایک پیج پر ہیں مگر ہر کسی کا اپنا اپنا پیج ہے جو چھینا جھپٹی میں پھٹ رہا ہے۔ افواہیں گردش میں ہیں کہ موجودہ حکومت کو بنانے والے اس سے ناخوش ہیں اور سیٹ اپ کی تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ متبادل آپشن بھی وہی پٹے ہوئے مہرے ہیں جو عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ امکان ہے کہ اسی سیٹ اپ کو ہی چلایا جائے گا۔ دراصل شدید معاشی حملوں سے گھائل عوام کی داد رسی کے لئے بعض اوقات حقیقی حکمرانوں کی طرف سے ایسے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ڈوریاں ہلانے والے بیک وقت مختلف کٹھ پتلیوں کی ڈوریں ہلا رہے ہوتے ہیں اور ہر وقت مختلف” متبادلوں“ کو اقتدار کی ہڈیاں دکھا کر ان کی رال ٹپکوا رہے ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو موجودہ حکومت سے کسی سنجیدہ مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ ویسے بھی کٹھ پتلیوں کی اوقات ہی کیا جو اپنے آقاﺅں کو آنکھیں دکھائیں۔

بہر حال کسی ممکنہ عوامی بغاوت کو کند کرنے کے لئے مختلف آپشنز کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن کی ساری پارٹیاں (چند انفرادی استثناﺅں کے علاوہ) پرانی تنخواہ پہ کام کرنے کو ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ نیب کا خوف اور اقتدار کی خواہش ان پارٹیوں کی قیادت کو خصی کر دیتی ہے۔ دیکھا جائے تو موجودہ اپوزیشن پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ حکومت کی سہولت کاری کا ثبوت دے رہی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے 10 قوانین کو قومی مفاد میں اپوزیشن منظور کر چکی ہے۔ ماسوائے دو قوانین کے جن کے ذریعے ان کے اپنے گلے میں پھندا ڈالا جا سکتا ہے۔ حکومت کو سنجیدہ نوعیت کی ہر قسم کی قانون سازی میں اپوزیشن کی طرف سے کسی مزاحمت کا سامنانہیں کرنا پڑا۔ بلکہ حکومتی کارندے میڈیا پر اپوزیشن کے اس خصی پن کو عیاں کرکے ان کا مذاق تک اڑاتے رہے۔ ن لیگ کی نام نہاد انقلابی قیادت کا ڈنگ بھی نکل چکا ہے۔ نواز شریف کچھ دنوں بعد لندن کی سڑکوں پہ چہل قدمی کی تصویریں میڈیا کو بھیج کر حکومتی بے بسی اور اس کے کٹھ پتلی ہونے کے تاثر کو تقویت دے کر ان کا مذاق اڑاتا ہے تو مریم نواز اپنی خصی مزاحمت کے شو کے لئے کبھی کبھار کارکنوں کو سڑکوں پر پولیس کے ڈنڈے کھانے کے لئے چھوڑ جاتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے سنیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے اپوزیشن کے کردار پر بہت خوب تبصرہ کیا ہے کہ اگر اپوزیشن اپنا کردار ادا نہیں کرے گی تو عوام سے لاتعلق ہو جائیگی۔ اسے پتہ نہیں کہ ایک خاموش اکثریت ایک طویل عرصے سے اس بے ہودہ سیاست سے لاتعلق ہو بھی چکی ہے۔ اس سیاست میں دس پندرہ فیصد عوام کی شمولیت دراصل درمیانے طبقے کی مختلف پرتوں کے سیاسی کارکنان اور ہمدردوں کی ایک اقلیت ہے جو ہمیں نظر آتی ہے۔ عوام کی ایک وسیع اکثریت کی خاموشی درحقیقت ایک ممکنہ طوفان کی علامت ہے جو جب بولے گی تو سیاست میں بھونچال پیدا کر دے گی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے سعودی عرب اور او آئی سی کی کشمیر کے مسئلے پر خاموشی کے ردعمل میں بیان سے نظر آتا ہے کہ کس طرح مختلف طاقتور ریاستی دھڑے مختلف بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ میں ہیں۔ امریکی اور چینی لابی کے تضادات اور دوسری طرف ا س کے نتیجے میں سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ مختلف دھڑوں کی مخاصمت شدید اندرونی خلفشار کی غمازی کرتی ہے۔ اگرچہ اس بات کے امکانات کم ہیں کہ سعودی عرب جیسی دیوہیکل اور دولتمندد ریاست کے مقابلے میں ایران، ترکی اور ملائیشیا کلب میں واضح طور پر پاکستانی ریاست شمولیت اختیار کرے۔ مگر ایسے واضح اور کھلم کھلا اشارے اس انتشار کی شدت کی علامت ہیں۔ نواز شریف کی واپسی کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طاقتور دھڑے اس ممکنہ ڈیل سے خوش نہیں ہیں جس کے ذریعے نواز شریف کو باہر بھیجا گیا۔ در اصل مسلم لیگ ن کے اندر شہباز شریف دھڑے کی کوششوں اور گماشتگی سے یہ ڈیل منقی انجام تک پہنچی تھی۔ حکومت کے ایک اہم مشیر ندیم افضل چن نے ایک ٹی وی شو پر برملا اس ڈیل کی حال ہی میں تصدیق کر دی ہے۔ نواز شریف اگلی پیشی پر حاضر نہیں ہوتا تو یہ تضادات شدت اختیار کرتے ہوئے اس سیاسی توازن میں مزید بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں۔ شطرنج کے کھیل میں ایک چال زگ زوانگ کہلاتی ہے جس میں حریف کی ہر چال اس کی مات کا سبب بن سکتی ہے۔ یہی کیفیت آج پاکستان کے حکمرانوں کی ہے۔

مزدور تحریک ایک طویل عرصے سے تعطل کا شکار رہی ہے۔ بے تحاشہ بے روزگاری، روایتی قیادتوں کی غداریوں اور سیاسی افق پر کسی متبادل کی عدم موجودگی تحریک میں جمود کی بڑی وجوہات تھیں۔ چھوٹی چھوٹی تحریکیں ابھرتی رہیں لیکن کسی بڑی عوامی تحریک کا موجب نہ بن سکیں۔ لیکن حالیہ حکومت کی مزدور دشمن پالیسیوں، تنخواہوں میں عدم اضافے اور نوکریوں سے برطرفیوں سے محنت کش طبقے میں ایک اضطراب جنم لے رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ شدید معاشی حملے تحریک کو کمزور اور محنت کش طبقے کو مایوس کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ مگر جدلیاتی طور پر اپنی بقا کے لئے محنت کش کسی ایک حکومتی اقدام سے بھڑک بھی سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں محنت کش طبقے کے ابتدائی شکل میں اتحاد بھی بن رہے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنی نو خیز حالت میں ہیں جو وقت کے ساتھ مختلف حالات میں مزید توانا بھی ہو سکتے ہیں۔ ایک معمولی سی فتح سے حوصلہ مند ہو کر محنت کشوں کے یہ اتحاد پاکستان کی تاریخ کی بڑی قوت بھی بن سکتے ہیں۔ جو حکمران طبقے کو چیلنج کرنے کی طرف جا سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر بھی عوام کی نجات کا سارا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ہے جو حرکت میں آکر کروڑوں لوگوں کا نجات دہندہ بن کر پورے جنوب ایشیا اور دنیا پر اثرات مرتب کر سکتا ہے۔