ڈاکٹر چنگیز ملک
عالمی سرمایہ دارانہ نظام تاریخی طورپر ایسی بند گلی میں جا چکا ہے جہاں اب یہ سماج کو ترقی دینے سے قاصر ہے۔ سرمایہ داروں کی تجوریوں کو بھرنے کےلئے پوری دنیا میں محنت کشوں سے وہ تمام مراعات چھینی جا رہی ہیں جو انہوں نے مسلسل جدوجہد سے حاصل کی تھیں۔ نجکاری، ڈاﺅن سائزنگ، رائٹ سائزنگ، جبری برطرفیاں، مستقل روزگار کی بجائے کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمتیں، پنشن کا خاتمہ، سالانہ انکریمنٹ کا خاتمہ اور تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے جیسے مزدور دشمن اقدامات معمول بن چکے ہیں۔ سرمایہ داری کے عالمی بحران میں چین کے ووہان شہر سے شروع ہونے والی کورونا وبا نے پوری دنیا کو جب اپنی لپیٹ میں لیا تو تمام معاشی سرگرمیوں کوبند کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وبا نے بحران میں عمل انگیز کا کردار ادا کیا۔ آج سے چار سال پہلے ڈاکٹر لال خان نے پریس کلب راولپنڈی میں منعقدہ ایک تقریب میں کہا تھا کہ’ ’ اگر پاکستان تحریک انصاف کو منصب اقتدار سونپا جاتا ہے تو اس کی کارکردگی صرف چھ ماہ کے مختصر ترین عرصہ کے اندر یہاں کے محنت کشوں پر عیاں ہو جائے گی اور تبدیلی کے تمام تر دعوے اپنی الٹ میں بدل جائیں گے۔ “ چھ ماہ تو دور عمران خان اور اس کی پارٹی کا بھیانک چہرہ دو سے تین ماہ کے اندر ہی اس وقت سامنے آیا جب یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی بندش اور ہزاروں خاندانوں کے روزگار کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ادارے کی باہمت اور جرات مند قیادت نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود چار دن کے مختصر ترین عرصہ میں تبدیلی سرکار کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ دوسرا حملہ ریڈیو پاکستان پر کیا گیا تو وہاں بھی حکومت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ تیسرا حملہ سٹیٹ لائف پر کیا گیا تو اس حملے میں بھی رسوائی تبدیلی سرکار کا مقدر ٹھہری۔
موجودہ حکومت اور اس کے حواری آئی ایم ایف کی ایما پر مزدور دشمن پالیسیوں کے تمام تر سابقہ حکومتوں کے ریکارڈ توڑتے ہوئے عوام دشمنی میں خود کو اول نمبر پر فائز کر چکے ہیں۔ جبری برطرفیاں، مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی، یوٹیلیٹی بلوں کی قیمتوں میں اضافہ، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور ادویات کی قیمتوں میں دو سو فیصد سے زائد اضافے نے تبدیلی سرکار کے چہرے سے نقاب کو نوچ ڈالا ہے اور سہانے خواب جو عمران خان نے دکھائے تھے وہ سب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ درمیانے طبقے اور کسی حد تک محنت کش طبقے کی کچھ پرتوں، جو دو جماعتوں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی پالیسیوں سے تنگ اور پریشان حال تھے، نے تحریک انصاف کی صرف اس بات پر سپورٹ کی کہ شاید ان کے دکھوں کا مداوا ہو سکے اور زندگی کی تلخیاں ختم یا کچھ کم ہو جائیں۔ لیکن ان خوابوں کی اتنی بھیانک تعبیر بھی ہو سکتی ہے یہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اسی تناظر میں پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت آئی ایم ایف کے احکامات کی بجاآوری میں معاشی حملوں کو تیز سے تیز تر کرتی جا رہی ہے۔ اپوزیشن میں بیٹھی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں موجودہ حکومت کے خلاف کوئی سنجیدہ تحریک چلانے کا ارادہ نہیں رکھتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پارٹیوں کا ایجنڈا بھی یہی ہے جو تحریک انصاف کا ہے۔ تمام جماعتیں آزاد منڈی کی معیشت پر پہلے سے ہی ایمان لا چکی ہیں۔ اسی اثنا میں جہاں ہر طرف حسرت، یاس، ناامیدی، مایوسی اور بدگمانی کے بادل چھائے ہوئے تھے اس وقت 29 نومبر 2019ءکو طلبہ یکجہتی مارچ میں پاکستان کے پچاس سے زائد چھوٹے بڑے شہروں میں طلبہ یونین کی بحالی، فیسوں میں اضافے کی واپسی اور دیگر طلبہ مطالبات کے حوالے سے نوجوانوں کے فلک شگاف نعروں نے محنت کشوں میں ایک نئی روح بیدار کی اور حکمرانوں کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں۔ اس طلبہ یکجہتی مارچ کے حق اور مخالفت میں بیسیوں کالم لکھے گئے اور پھر کسی حد تک ملک کے طول و عرض میں نظریاتی بحثوں کا آغاز ہوا۔ حکومتی وزرا بھی طلبہ یونین بحالی کے حق میں بیانات دینے پر مجبورہوئے۔ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نوجوان طلبہ نے سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹیاں تشکیل دینا شروع کر دیں۔ اسی دوران پاکستان، جو پہلے ہی ایک نحیف اور لاغر معیشت ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے بیل آﺅٹ پیکیج پر چل رہی ہے، کے سرما یہ داروں اور حکمرانوں نے وبا کی آڑ میں پاکستان کے محنت کشوں پر جارحانہ حملوں کا آغاز کر دیا۔ وبا نے منافع پر مبنی صحت کے نظام کے تضادات کو بے نقاب کیا۔ پاکستان اپنی صحت کی دیکھ بھال کے معیار اور رسائی کے لحاظ سے 195 ممالک میں سے 154 واں نمبر پر ہے۔ پاکستان کو صحت کی افرادی قوت کی شدید کمی کے حوالے سے بدترین 57 ممالک میں شامل کیا گیا ہے۔ پھر بھی حکومت پاکستان بدنام زمانہ میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹ ایکٹ کے ذریعے سارے سرکاری اسپتالوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کی ترجیحات اس وقت سامنے آ گئیں جب وبائی امراض کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے شعبہ صحت کے ملازمین نے بنیادی ذاتی حفاظتی ساز و سامان (پی پی ای) کی فراہمی کے لئے اپنی آواز بلند کرنا شروع کر دی۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس (جی ایچ اے) میں منظم ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے اسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے احتجاج شروع کر دیا۔ گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں میں شعبہ صحت کے ملازمین اپنے مسائل حل نہ ہونے پر احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کے معاملات حل کرنے کے بجائے ان پر تشدد کیا گیا اور انھیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ تحریک کے دباو اور عوامی حمایت کے بعد حکومت نے ان کے کچھ مطالبات تسلیم کیے لیکن جدوجہد جاری ہے۔ کورونا بحران کے بعد پہلا معاشی جھٹکا نجی شعبے سے آیا۔ بہت سے مستقل محنت کشوں کو جبری بر طرف کر دیا گیا۔ وزارت خزانہ نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ افراد اپنی ملازمتوں سے محروم ہوسکتے ہیں۔ بہت سے افراد جو روزانہ اجرت یا عارضی طورپر کام کر رہے تھے انہیں بھوک یا وبائی مرض سے مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ پاکستان کی برآمدات بنیادی طور پر ٹیکسٹائل مصنوعات ہیں۔ اس صنعت کی مرکزی منڈیاں یورپ اور امریکہ ہیں اور لاک ڈاون کے سبب بین الاقوامی برانڈز نے نئے آرڈر بند کردیئے۔ یہاں تک کہ بہت سے آرڈرز کو کینسل کر دیا گیا۔ فیکٹری مالکان نے اپنا یہ معاشی بوجھ محنت کشوں پر ڈال دیا۔ پورے ملک میں مزدوروں کو بغیر اجرت کے جبری رخصت پر گھر بھیج دیا گیا اور فیکٹری مالکان نے انہیں پچھلے واجبات ادا کرنے سے بھی انکار کردیا۔ یہ تمام عوامل مزدوروں کے غم و غصے میں شامل ہوگئے اور کارکنوں نے اپنے مطالبات کے لئے احتجاج کا آغاز کر دیا۔ مرکزی جدوجہد ڈینم ٹیکسٹائل کراچی، سفائر ٹیکسٹائل شیخوپورہ، یو ایس اپیرل لاہور، چن ون لاہور اورقاسم گارمنٹس کراچی میں ہو رہی تھی۔ بہت ساری جگہوں پر مزدور اپنے مطالبات کے لئے اس قدر سرگرم تھے کہ فیکٹری انتظامیہ کی جانب سے پولیس کو بلوایا گیا اور انہوں نے احتجاجی محنت کشوں پر جبر کیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے گروپ میں سے ایک‘ ابراہیم فائبر لمیٹڈ کے کارکنان جبری برطرفی کے خلاف مارچ سے ابھی تک احتجاج کر رہے ہیں۔ وبا کے دوران طلبہ میں بھی تحریک دیکھی گئی جب ضروری وسائل کی عدم موجودگی کے باعث آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاجات کا آغاز ہوا۔
دوسری جانب امیروں کے تحفظ کے لئے حکومت کی جانب سے بیل آﺅٹ پیکیج کا اعلان کیا گیا جبکہ عوامی اداروں کے محنت کشوں پر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی تلوار چلائی گئی۔ جون 2020ءمیں پاکستان سٹیل ملز سے 9350 ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔ اسی طرح پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے تمام موٹلز کو بند کرکے 450 ملازمین کا روزگار چھین لیا گیا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی، جس نے 2019ءمیں 90 ارب روپے کمائے اور تمام تر اخراجات نکال کر 35 ارب روپے منافع حکومت کو دیا، اس ادارے کو بھی آﺅٹ سورس کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا۔ رائٹ سائزنگ، ریشنلائزیشن اور ڈاﺅن سائزنگ کے نام پر تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کی نام نہاد تنظیم نو کی جا رہی ہے۔ پاکستان ریلوے کی وحدت کو توڑ کر تین کمپنیاں بنانے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ یہی حالات واپڈا میں ہیں جہاں پر بجلی ترسیل کی کمپنیوں کے نظام کو تبدیل کر کے پیپکو کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے جس کا مقصد بجلی کی ترسیل کے نظام کی نجکاری ہے۔ تاہم وبا میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (پی ٹی یو ڈی سی) کی جانب سے پاکستان سٹیل ملز کے مزدوروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاتے ہوئے پاکستان بھر میں مظاہرے منظم کیے گئے۔ ان مظاہروں میں تمام ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز نے بھرپور ساتھ دیااور اپنے ویڈیو پیغامات اور عملی شرکت کے ذریعے نام نہاد اپوزیشن کو بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مزدور دشمن اقدامات کیخلاف آواز بلند کرنے پر مجبور کیا۔ ان اقدامات کے خلاف پیپلزیونٹی پی آئی اے، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن، ریل مزدور اتحاد، پیرامیڈیکل سٹاف ایسوسی ایشن، میونسپل لیبر یونین اور سٹیل ملز یونین سمیت دیگر تنظیموں نے صدائے حق بلند کی۔ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے مفلوک الحال محنت کشوں کے غصے اور نفرت میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب حالیہ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے مہنگائی میں مسلسل اضافہ کے باوجود تنخواہوں اور پنشنوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس صورتحال میں سب سے پہلے 13 جون کو ریل مزدور اتحاد کی قیادت نے پاکستان بھر میں آئی ایم ایف کی ایما پر موجودہ حکومت کے مزدور دشمن اقدامات کے خلاف نعرہ بلند کیا۔ ریلوے لوکوشیڈ میں مظاہروں کا آغاز کیا گیا۔ آل پاکستان کلرکس ایسو سی ایشن کی جانب سے بھی آئی ایم ایف کے خلاف مظاہروں اور احتجاجات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ریل مزدور اتحاد نے حکومتی اقدامات کیخلاف اور اپنے تین دیرینہ مطالبات (پچیس فیصد ٹیکنیکل الاﺅنس، سکیل اپ گریڈ یشن اور ٹی ایل اے ملازمین کو مستقل کرنے) کے حوالے سے اپنی تحریک کو مزید منظم کرنا شروع کر دیا اور ریل میں موجود ریلوے ورکرز یونین، ریلوے انقلابی یونین، ڈپلومہ ہولڈرز ایسوسی ایشن اور دیگر پرمشتمل آٹھ رکنی اتحاد بنانے میں کامیاب ہوئے اور پانچ اگست کو ریل کا پہیہ جام کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی دوران سول ایسوسی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کی ممکنہ تقسیم کے خلاف ایمپلائز یونٹی سی بی اے، نان سی بی اے تنظیموں اور آفیسرز ایسوسی ایشن کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے مزدور دشمن لازمی سروسز ایکٹ کے باوجود کراچی میں ایئر پورٹ پر بھرپور مظاہرہ کیا۔ ایمپلائز یونٹی سی بی اے کی مرکزی قیادت نے پی ٹی یو ڈی سی کے ساتھیوں سے راولپنڈی میں رابطہ کیا اور اسلام آباد ایئر پورٹ پر احتجاجی مظاہرہ کرنے کے حوالے سے تعاون کی اپیل کی۔ ایک مرتبہ پھر پی ٹی یو ڈی سی نے اپنی انقلابی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر مختلف ٹریڈ یونینوں سے رابطے کیے اور سی اے اے کے مظاہرے میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ تمام تحریکیں پورے ملک میں آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے خلاف منظم ہوئیں مگر یہ تمام تحریکیں ایک دوسرے سے کٹ کر اپنے اداروں تک محدود رہیں۔ ان تمام تحریکوں میں جو چیز مشترک تھی وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کی موجودگی تھی۔ اس دوران تمام یونینوں کی تحریکوں کو جوڑنے کی کوششیں تیز کی گئیں۔ پاکستان کے مزدور طبقے کے وسیع تر مفاد میں اتحاد بنانے کی کوششوں نے 21 جولائی بروز منگل 2020ءکو عملی شکل اختیار کی۔ جب لاہور میں مختلف ٹریڈ یونینوں اور ایسوسی ایشنوں کا مشاورتی اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں ریل مزدور اتحاد، ایپکاپاکستان، حقوق خلق موومنٹ، پنجاب ٹیچرز یونین، لیکچررز ایسوسی ایشن، سول ایوی ایشن، پی ٹی یو ڈی سی، پی ٹی سی ایل اور پنشنرز سمیت پچیس کے قریب ٹریڈ یونینوں اور ایسوسی ایشنوں کی قیادت نے شرکت کی۔ اس موقع پر مشترکہ جدوجہد کا اعلامیہ جاری ہوا اور اتحاد کی تشکیل کے لئے 23 جولائی بروز جمعرات 2020ءکو پی ٹی یو ڈی سی اور میونسپل لیبر یونین کی کاوشوں سے ایک مشاورتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ اس اجلاس میں ریل مزدور اتحاد میں شامل آٹھ یونینوں، یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن سی بی اے اور نان سی بی اے یونین، پروگریسیو لیبر یونین، سی بی اے سٹیٹ بینک، میونسپل لیبر یونین، یونائیٹڈ ورکرز یونین پی ایچ اے، واسا ورکرز یونین، پیپلز یونٹی پی آئی اے، ایپکا، ایمپلائز یونٹی سی اے اے، ریڈیو پاکستان سی بی اے یونین، سی ڈی اے سی بی اے یونین، اتحاد ورکرز یونین پی ڈبلیو ڈی، قائد اعظم یونیورسٹی سی بی اے یونین، پیرامیڈیکل سٹاف ایسوسی ایشن پمز، انقلابی طلبہ محاذ، پی ٹی وی یونین، پی ٹی ڈی سی ایمپلائز یونین (سی بی اے)، ٹیچرز یونین، لیکچررز ایسوسی ایشن، ایپکا آزاد کشمیر، گورنمنٹ ایمپلائز کوآرڈینیشن کونسل پختونخواہ، ایپکا پختونخواہ، پراونشل پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن کے پی کے، کلاس فور ایسوسی ایشن، ایمپلائز سوشل سکیورٹی کے پی کے، آل سیکرٹریز ایسوسی ایشن، آل میونسپل ورکرز یونین، ڈبلیو ایس ایس پی رجسٹرڈ سی بی اے پشاور، مزدور اتحاد میونسپل ورکرز یونین سٹی ڈسٹرکٹ اینڈ ٹاﺅنز، پیرامیڈیکل درجہ چہارم، انجمن پٹواریان و قانون گوئیاں کے پی کے، سی اینڈ ڈبلیو آپریشنل مینٹیننس ایسوسی ایشن، پی ڈبلیو ڈی لیبر یونین، ڈرافٹسمین ایسوسی ایشن، پیرا ویٹرنری ایسوسی ایشن (لائیو سٹاک)، پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشن، ٹریژری ایمپلائز ایسوسی ایشن اور آل پاکستان ویلفیئر بورڈ ایسوسی ایشن سمیت 47 کے قریب ایسوسی ایشنوں اور ٹریڈ یونینوں نے شرکت کی۔ اس مشاورتی اجلاس میں بیس نکاتی ایک قرارداد پیش کی گئی جس کو متفقہ منظوری دی گئی۔ اس اجلاس کے نتیجے میں ’آل پاکستان ایمپلائز لیبر تحریک‘ کا قیام عمل میں لایا گیااور یہ فیصلہ کیا گیا کہ 14 اکتوبر 2020ءکو اسلام آباد میں دھرنا دیا جائے گا۔ اسی دوران 5 اگست کو ریل مزدور اتحاد کی جانب سے ریل کی پہیہ جام ہڑتال کی مکمل حمایت کا اعلان بھی کیا گیا۔ یونینز کی جانب سے 5 اگست کو ملک بھر کے سرکاری دفاتر، ایئر پورٹس اور ریل کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا اور مشترکہ احتجاجات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جس کی وجہ سے ارباب اختیار اور حکومتی حلقوں میں تشویش پیدا ہوئی اور وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے ریل مزدور اتحاد کی قیادت سے مذاکرات کیے اور ریل مزدور اتحاد کے تین نکاتی مطالبات میں سے دو مطالبات فوری طورپر تسلیم کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کرنے کے احکامات جاری کیے۔ وزیر ریلوے کی یقین دہانی پر ریل مزدور اتحاد کی قیادت نے پہیہ جام کی کال وقتی طور پر موخر کر دی۔ اس دوران دھرنے اور احتجاجات کے ساتھ ساتھ دیگر یونینز کو شامل کرنے کے لئے مزدور رابطہ مہم جاری رہی جس کے نتیجے میں گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب نے بھی اس اتحاد کا حصہ بننے کا اعلان کیا۔ 12 اگست کو پاکستان ایمپلائز لیبر تحریک کا پہلا باقاعدہ اجلاس ہوا جس میں تمام یونینز کی مشاورت سے ایپکا پاکستان کے مرکزی چیئرمین حاجی اسلم خان کو تحریک کا سربراہ مقرر کیا گیا اور پورے پاکستان میں ریجنل بنیادوں پر کوآرڈینیٹر مقرر کیے گئے۔ اجلاس میں پارلیمنٹ دھرنے سے پہلے صوبائی بنیادوں پر بڑے جلسوں کا ہدف لیا گیا جس میں سب سے پہلے 14 ستمبر کو پشاور میں بڑے جلسے کا انعقاد کیا جا ئے گا۔ آل پاکستان پنشنرز‘ ایمپلائز اینڈ لیبر تحریک تھوڑے عرصے میں پاکستان میں محنت کشوں کے سب سے متحرک اتحاد کی عملی شکل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس میں اہم سنگ میل 24 اگست کو حاصل ہوا جب آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے 24 اگست کو ہونے والے جنرل باڈی اجلاس بختیار لیبر ہال میں آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن اور واپڈا ہائیڈرو یونین کے مرکزی سیکرٹری جنرل خورشید احمد خان نے 14 اکتوبر کے احتجاجی دھرنے میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا اور آئی ایم ایف کی ایما پر مزدور دشمن اقدامات کے خلاف مشترکہ جدوجہد کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے آل پاکستان پنشنرز‘ ایمپلائز اینڈ لیبر تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔ جہاں ملک گیر مختلف تنظیمو ں کے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں وہیں پر اداروں کے اندر بھی مشترکہ جدوجہد کے لئے اتحاد اور انضمام کی کوششیں تیز کی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں پاکستان سٹیل ملز میں متحرک یونینز پر مشتمل ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ ایپکا پاکستان کے تینوں دھڑوں کے اتحاد کی کوششیں بھی شروع کی جا چکی ہیں۔
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو بروئے کار لانے کےلئے تحریک انصاف کی حکومت محنت کشوں پر مزید جارحانہ حملے کرنے جائیگی۔ اس صورتحال میں جہاں محنت کش طبقہ رائج الوقت سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر چکا ہے وہی وہ اپنے اوپر ہونے والے حملوں سے سبق سیکھ رہا ہے اورنتائج بھی اخذ کر رہا ہے۔
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپئین ان معاشی حملوں کے خلاف مختلف ٹریڈ یونینوں اور ایسوسی ایشنوں سے رابطوں کا آغاز کر چکی ہے۔ پاکستان پنشنرز‘ایمپلائز اینڈ لیبر تحریک کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ گو ابھی یہ تحریک ان مراعات کے چھن جانے کے خلاف منظم ہو رہی ہے لیکن اس قحط الرجالی میں اس پلیٹ فارم کا بننا ایک خوش آئند اقدام ہے۔ کیونکہ پاکستانی سماج ایک ایسا بارود کا ڈھیر ہے جہاں کوئی ایک بڑا یا چھوٹا واقعہ سماج کو پھاڑ سکتا ہے اور محنت کش طبقہ حکمران طبقات کے خلاف میدان عمل میں اتر کر ان کی ساری بساط لپیٹ سکتا ہے۔