قمرالزماں خاں

چلتے پانیوں میں بھی خس و خاشاک ہوتے ہیں، مگروہ پانیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ چلتا پانی ہر فالتو چیز کو بھی اپنی ڈگر کے مطابق چلاتا ہے اور اگر وہ نہ چلے تو اس کو کنارے سے باہر دھکیل دیتا ہے۔ مگر کھڑے پانی میں گندگی ہی پانی کا چہرہ بن جاتی ہے۔ پانی کے اوپر چھائی کائی ہی کھڑے پانی کا تعارف ہوتی ہے۔ ایسا پانی بدبودار اور ناقابل استعمال بنتا جاتا ہے۔

زندہ سماجوں کے ارتقا کے فیصلہ کن اور قابل ذکر دھارے، سماج کی ناقص اور غیر فعال پرتوں کو بھی اپنے بہاﺅ میں بہا کر فعال کر دیتے ہیں۔ لیکن منجمد سماجوں میں انسان دشمن اور وحشیانہ رجحانات معاشرے کا چہرہ بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سماجوں کے ناکارہ، غلیظ اور طفیلی حصوں کی بالادستی سے سماجوں کی مہکتی سانسیں رک جاتی ہیں۔ تعفن اور آلودگی کی باس پورے سماج کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ہم ایک ٹھہرے ہوئے سماج میں جی رہے ہیں۔ جس کی شناخت ہی خونریزی، انیائے، ظلم، جبر، قتل و غارت گری اور غیر انسانی ہتھکنڈے بند چکے ہیں۔

اس وقت پورا پاکستان‘ جبر، تشدد اور جرائم کی لپیٹ میں ہے۔ یہ رجحانات سرکاری اور غیر سرکاری دونوں ہی سطحوں پر حاوی ہیں۔ ایک طرف سرکاری اداروں یا سرکاری اہلکاروں کی طرف سے قائم کردہ غیر قانونی عقوبت خانے، سر راہ یا گھروں سے عام لوگوں کا اغوا، غیر قانونی گرفتاریاں اور بلاجواز قتل کے واقعات ہیں۔ جن کاارتکاب وہی لوگ یا ادارے کر رہے ہیں جن کو ”قانون نافذ کرنے والے“ قرار دیا جاتا ہے۔

عمومی طور پر سرمایہ دارانہ ریاستوں کے حقیقی کردار کو چھپانے کیلئے قانون، ضابطوں، آئینی پابندیوں اور مخصوص طریقوں کے ماسک لگائے جاتے ہیں۔ مگر جیسے جیسے سرمایہ داری نحیف اور ناکارہ ہوتی جا رہی ہے، اس کی وحشت میں اضافہ ہوتے ہوتے اسکا اصل چہرہ چھپانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اب وہ تمام افعال‘ جن کو جرائم کہا جاتا ہے، ان کو قانونی ادارے کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ پورے ملک میں جس قسم کی وحشیانہ کاروائیاں سرکاری ادارے کر رہے ہیں ماضی میں ایسے کرتے ہوئے کم سے کم حلیے بدل لیے جاتے تھے اور وردیاں اتار لی جاتی تھیں۔ اس انارکی یا طوائف الملوکی کا دوسرا رخ یا اسی کیفیت کی بازگشت اتنی ہی شدت سے سماج کے غیر سرکاری حصوں میں اپنے اثرات مرتب کررہی ہے۔

عہد کے تشخص کی ایک کیفیت سرکاری اور غیر سرکاری طاقتوروں کے افعال سے سمجھی جا سکتی ہے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور بعد ازاں قتل، محلوں، کھیتوں، فیکٹریوں اور شاہراہوں پرخواتین کی بے حرمتی اور آبرو ریزی، سٹریٹ کرائم، چھینا جھپٹی، چوری، ڈکیتی اور اغوابرائے تاوان کی وارداتوں کاسلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ عبادت خانوں میں جہاں اعلیٰ اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے ‘تواتر سے طلبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ تضاد ات اپنے عروج پر ہیں۔ ایک طرف رضامندی سے دو انسانوں کے باہم جنسی عمل کو گناہ اور جرم قرار دے کر قابل تعزیر گردانا جاتا ہے تو دوسری طرف جنسی عمل میں زبردستی کا رجحان بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ان دردناک واقعات کے پیچھے ”زور زبردستی“ کا فلسفہ فتح یاب اور حاوی نظرآتا ہے۔ خاص طور پر عام لوگوں، خواتین یا بچوں، جو سماجی یا طبقاتی طور پر کمزور ہوتے ہیں، کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چھوٹی اور کمزور قوموں، مذہبی اقلیتوں، فرقوں اور گروہوں کے خلاف بھی اکثریت کی دھونس کے مختلف مظاہر نظر آتے ہیں۔

یہ طاقت جس کے پیچھے سرکاری (جائز یا ناجائز) اختیارات، دولت اور وسائل کا اجتماع، مذہبی، جنسی یا قومی برتری کا احساس ’پہناں‘ ہوتا ہے، وہ کمزوروں کو دبانے اور کچلنے میں بروئے کار لائی جاتی ہے۔ ایسی ”زبردستی“ اور چھینا جھپٹی کے پیچھے ہزار سالوں کی سامراجی یلغاروں، قبضوں اور فتوحات کی تاریخ اورثقافت بھی کارفرما ہے ‘جس سے یہ سبق اخذ کیا گیا ہے کہ طاقت ہے تو ہر کسی کو کچل کر من مرضی کر لی جائے۔

عمومی نفسیات پر برصغیر کے بٹوارے کے اثرات بھی موجود ہیں۔ جس میں خون ریزی، قبضہ گیری، اغوا، آبرو ریزی اور سامنے والے کو کچل دینے کی نفرت کو تاریخی ورثے کے طور پر شعوری یا لاشعوری طور پر اپنا لیا گیا ہے۔ یہ سبق اگلی نسلوں کو انسان سے وحشی بنانے میں بہر حال اثرات ضرورمرتب کرتا چلا آ رہا ہے۔ جب برصغیر کے دونوں طرف بٹوارے کے فسادات کی کہانیوں میں وحشیانہ مناظر کی تصویر کشی کر کے کسی خاص مذہب یا گروہ کو مظلوم اور دوسرے کو گناہ گار بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو ایک انتقامی سوچ کی بنیادیں ضرور رکھ دی جاتی ہیں۔ ذہن کے نہاں خانوں میں چھپا یہ انتقام کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں اپنا اظہار ضرور کرتا ہے۔

ذاتی ملکیت اور منافع کے نظام کو ہر صورت برقرار رکھنے کی کوششوں میں انسان کاپتھرکے عہد سے تمدن کی طرف مراجعت کاسفر منزل کھو چکا ہے۔ اس مسافت کی منزل کھوٹی کرنے والے عوامل کو دور کیے بغیر سفر‘ سرابوں کا شکار ہی رہے گا۔ دولت کے ارتکاز اور محرومی کی کھائیوں کے تضادات نے سماجی ناہمواریوں کے جس سماج کو تشکیل دیا ہے، وہاں انسان انسان بننے سے عاجز ہو چکا ہے۔ پورے پاکستان میں ’طوائف الملوکی‘ کا راج اس کا گواہ ہے۔

موٹر وے پر پیش آنے والا حالیہ دل دہلا دینے والا سانحہ، ایسے ہی دل سوز اور المناک واقعات کا ایک تسلسل ہے جو چیخ چیخ کر نظام، ریاست اس کے قائم کردہ ضابطوں کے زائد المعیاد ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ایسے میں تشدد اور جبر کے ایک ریاستی ادارے ’پولیس‘ کے سی سی پی او لاہورکے غیر ذمہ دارانہ بیان پر شور و غوغا کرنے کی بجائے ریاست اور سماج کی حقیقی اقدار اوراخلاقیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سی سی پی او نے تو صرف اسی موقف کا اظہار کیا ہے جو پاکستانی سماج کے بیشتر لوگوں کا بھی ہے۔ اس ذہنی پسماندگی کی وجوہات کی جڑیں تلاش کرنے اور ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سخت اور سر عام سزاﺅں کے مطالبات سطحی ردعمل اور جرائم کی بیخ کنی کے اصولوں سے ناواقفیت کا مظہر ہیں۔ سزاﺅں کی بجائے جرائم کے اسباب ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک طبقاتی سماج میں سزا، جزا اور انصاف کے نظام کا ایک منظر عبدالمجید اچکزئی کی بریت کے فیصلے میں دیکھا جا سکتاہے۔ ایک اور موقف جو یکسر انتہا پسندی پر مبنی ہے اس کا اظہار اَپر اور مڈل کلاس خواتین کے مظاہروں میں کیا جاتا ہے۔ اس موقف میں صرف مردانہ شاونزم کی جگہ پر زنانہ شاونزم کو رائج کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ شاونسٹ خواتین کے نعرے اور تقاریر کا لب لباب ہے کہ سماج سے مردوں کو ختم کر دیا جائے اور بس عورت راج قائم ہو جائے۔ یہ پیٹی بورژوا موقف‘ جو منڈی کی معیشت اور ذاتی ملکیت کے مضمرات پر بات کرنے کو تیار نہیں ‘اسی نظام میں رہتے ہوئے مڈل کلاس خواتین کا ایک ’صنفی یوٹوپیا‘ بنانے کے مخمصے میں پھنسا ہوا ہے۔ ہر قسم کے جرائم، استحصال، غیرمنصفانہ برتاﺅ، غیر متوازن رویوں اور غیر شائستہ سماجی چلن کے مظاہر پر حیران ہونے، ٹسوے بہانے اور مایوسی کا اظہار کرکے پرانے زمانوں کو یاد کر کے خود کودھوکہ دیا جاتا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ صنفی، قومی، فرقہ ورانہ، نسلی اور لسانی تضادات کے عوامل کیا ہیں اور یہ کیسے دور ہو سکتے ہیں۔ معاشی ناہمواریوں کے اثرات سماج اور سماجی عاملین پر باہم کیسے اثرانداز ہوتے ہیں اور ان کا حل کیا ہے۔

سماجی بگاڑ کی جڑیں سماج کی ’بُنت‘ میں ہی موجود ہوتی ہیں۔ تاریخی اصولوں سے عدم مطابقت رکھنے والے ”مخصوص نظریات“ کسی بھی حاکمیت کی اپنی ضروریات ہو سکتے ہیں۔ مگر ان خود ساختہ نظریات کی بنیادوں پر کسی سماج کو (ذہن سازی اور جبر کے ذریعے) چلایا تو جا سکتا ہے مگر پیدا ہونے والے تضادات کوہمیشہ دبا کر نہیں رکھا جا سکتا۔ حکمران طبقہ ہر عہد میں عام سوچ کو گمراہ کرنے کے لئے بہت سے ”نظریات “ کو گھڑتا ہے اور ان کو پوری منصوبہ بندی سے عام شعور کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ جب ریاستیں ہی مصنوعی بنیادوں پر استوار کی جائیں تو وہاں کی اقدار، اخلاقیات، نفسیات، روزمرہ کی زندگی اور اس کے اصول، ثقافت اور دیگر مظاہر بھی مصنوعی، جعلی اور بے بنیاد ہوتے ہیں۔ اسی نام نہاد نظریے کی بنیاد پر محنت کشوں، عوام، محکوم اقوام، جنسوں، متفرق نسلوں، متنوع زبانوں اور مقبوضہ یا متنازعہ علاقوں کے ”حقوق“ کا تعین حکمران طبقہ از خود ہی کر دیتا ہے۔ اور پھر اسی حد کو قانون کے سیاہ حاشیے میں مقید کردیا جاتا ہے۔ جس سے انحراف، بغاوت، سرکشی، جرم اور (حکمرانوں کے نزدیک) قابل تعزیر ردعمل معرض وجود میں آتے ہیں۔

دوسری طرف ذاتی ملکیت پر مبنی انفرادی سوچوں اور غرض و غایت نے انسان سے سماجی، اشتراکی اور اجتماعی خوشی سے حذ اٹھانے کی صلاحیت ہی چھین لی ہے۔ انسان دولت کے انباروں میں بھی رہ کر انفرادی طور پر خوش نہیں رہ سکتا۔ بلکہ جیسا کہ مارکس نے کہا تھا کہ ”اپنی ہی محنت سے حاصل کردہ پیداوار سے مزدورکاتعلق ٹوٹ جاتاہے اور وہ اس سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ “ وسائل زندگی سے محروم، غربت، بے بسی اور کسمپرسی کا شکار مزدور اپنی ہی محنت اور کوشش سے تخلیق کردہ مصنوعات، اشیا اور پیداوار سے لاتعلق اور بیگانہ ہوجاتا ہے اور پیداواری عمل میں اس کی محنت ایک غیر دلچسپ بیگار بن جاتی ہے۔ اسی طرح مسلسل جدوجہد کے بعد بھی وہ اپنی ابتلائیں دور کرنے، معاشی، معاشرتی اور خاندانی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو ایک وقت کے بعد وہ تبدیلی کی خواہش بھی کھو بیٹھتا ہے اور ہر چیز سے ہی بےگانہ ہوجاتا ہے۔ مزدور کی بیگانگی اس کی سوچ، نفسیات اور جذبات پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ دوسری طرف دولت کے انبار، طاقت کے ارتکاز، وسائل اوراختیارات لامتناہی ہو جانے سے جو غیر انسانی رویے استوار ہوتے ہیں ان کے پیش نظر استحصال کی’ آکسیجن ‘اور جبر و استبداد کے طریقہ کار پر زندہ سرمایہ دار طبقہ بھی انسانی حسیات و مظاہر سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ ”بیگانگی“ کے نتیجے میں ایک ایسی دنیا معرض وجود میں آئی ہے جس میں ضروریات یا مانگ کا خاتمہ کرنے کے قابل پیداواری صلاحیت بھی ہے اور آدھی دنیا غذائی قلت کاشکار بھی ہے۔ آج بھوک، افلاس، بیماریوں، پسماندگی اور جہالت کا خاتمہ کیا جا سکتاہے۔ وسائل ضرورت سے کہیں زیادہ موجود ہیں مگرسرمایہ دارانہ بے نیازی اور بےگانگی کی وجہ سے انسانی ضروریات کی تکمیل نہیں کی جا رہی۔ سرمایہ داری نظام اور اسکے منتظمین کی انسانیت سے بےگانگی کو محنت کشوں کے مسائل، ابتلاﺅں، غربت، فاقہ کشی، بیماریاں اور دیگر مسائل سے کوئی غرض نہیں۔

شرح منافع کی حرص میں مبتلا سرمایہ دار بظاہر انسانی جسامت میں ہوتے ہیں مگر انسانی’ مظاہر‘ سے محروم ہوچکے ہوتے ہیں۔ جب گہری طبقاتی تفریق سے سماج میں اونچ نیچ نہ صرف معاشی بنیادوں پر آبادیوں میں بہت زیادہ فرق پیدا کر دے، جہاں ایک طرف وسائل کی بہتات سے زندگی کی ہر ضرورت سے مزین رہائشی علاقے، کروڑوں اربوں روپے کے بیش قیمت محلات، مہنگی مہنگی لمبی چوڑی گاڑیاں اور زرق برق ملبوسات ہوں، حتیٰ کہ چہرے، جسمانی ساخت اور رنگ روپ تک سے وسائل کی سرخی ٹپکتی ہو، رہن سہن اورروزمرہ استعمال کی اشیا تک بھی قیمت اور معیار کے اعتبار سے غریبوں سے الگ ہوں، مہنگے علاقوں کے رہنے والے امرا کے بچوں کی تعلیم، تعلیمی ادارے اور زبان تک مختلف ہو۔ اور دوسری طرف کے انسانوں کے دن کا بیشتر حصہ روزگار کی تلاش میں گزرتا ہو، کام مل جائے تو غیر انسانی حالات کار، اتنی کم اجرت کہ حقیر قسم کی ضروریات اور معمولات بھی پورے ہونا ممکن نہ ہوں۔ ناقص، مضر صحت اور ناکافی خوراک، پینے کا پانی بھرنے میں گھنٹوں پر مبنی ذلت آمیز مشقت، غلاظت، بد بو، کچے پکے غیر مناسب راستوں والے رہائشی علاقے، غیر صحت مندانہ ماحول، گندی خوراک کی وجہ سے روزمرہ کی بیماریاں، مہنگا اور غیر معیاری علاج معالجہ، شرح اموات کی زیادتی۔ تعلیم یا تو یکسر موجود نہ ہو اگر ہو تو معمولی درجے کی‘جو مختلف جہتوں والے سماج میں مضحکہ بن کر رہ جائے۔ یہ مختلف سیاروں کی دنیا کاایک ہی جگہ پر ہونا جس ذہنی کیفیات کو پیدا کرتا ہے وہاں امیر اور غریب دونوں ہی انسانی اوصاف و خصائل کھو بیٹھتے ہیں۔ اتنی تفاوت والے سماج میں خوشی، غم، درد، جذبات، احساس، کرب، ایثار‘ غرضیکہ انسانی اوصاف ختم ہو جاتے ہیں۔ ”بیگانگی ذات“ کے شکار افراد سماج میں’ ’باولے “ ہو جاتے ہیں۔ بیگانگی سب سے ابتر کیفیت ہوتی ہے، جب انسان اپنی حسیات ہی کھو بیٹھے توپھر اس سے کچھ بھی سر زد ہو سکتا ہے۔

معاشی برتری جس سماجی برتری اور مرتبے کو جنم دیتی ہے‘ وہاں برتروں کے غریبوں، مزدوروں، کسانوں، مزارعوں، کم آمدنی والے یا پھر طبقاتی معاشروں میں چھوٹے اور کمتر سمجھے جانے والے پیشوں، ذاتوں، فرقوں، قوموں اور برادریوں سے منسلک انسانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے، ظلم و زیادتی، ہتک، تحقیر و تذلیل جیسے مظاہرے اور کھلے عام عزت نفس کو مجروح کیے جانے کی تکرار‘ ایک طرف ظالم اور جبر کرنے والے طبقے کے غیر معمولی اختیار، برتری اور وحشیانہ خصائل کو اس کا ”حق فائق“ بنا کر اس کے کردار کا لازم حصہ بنا دیتی ہے تو دوسری طرف تحقیر زدہ طبقے میں بہت سے متضاد کیفیت کے ردعمل پنپتے رہتے ہیں۔ ظلم کے خلاف جدوجہد‘ سب سے مناسب اور درست ردعمل ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ ردعمل کسی ایک اصول کے تحت پروان نہیں چڑھتا۔ اس کا تعین معروضی عوامل کرتے ہیں۔

توہین، تحقیر اور مظالم کے خلاف خود کچھ نہ کر سکنے کا بے وسیلہ پن متعلقہ شخص یا اشخاص کو بعض اوقات جرائم کی دنیا کی طرف لے جاتا ہے جو ’مجروح‘ شخص کو وہ طاقت اور وسائل فراہم کرتی ہے جس سے وہ اپنا ”بدلہ“ لینے کے قابل ہو جائے۔ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ جرائم کی دنیا میں آنے کا راستہ ہے مگر واپسی کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ ظلم کا بدلہ لینے والے بہت جلد خود بہت بڑے ظالم اور جابر بن جاتے ہیں۔ پھروہ انہی افعال کے سرزدگی کا باعث بنتے ہیں جنہوں نے ان کی عزت نفس کو پامال کرکے ایک معمول کی زندگی سے جرائم کی دنیا میں دھکیل دیا ہوتا ہے۔ اسی طرح سماج سے دھتکارے ہوئے افراد اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کے لئے کسی بھی ایسی سرگرمی کا حصہ بن سکتے ہیں جہاں ان کو وقتی طور پر اپنے ہونے اوراپنی طاقت کا احساس ملتا ہو‘ خواہ ان کے اس عمل کے کتنے ہی بھیانک نتائج کسی اورمعصوم اور بے گناہ کو بھگتنے پڑ رہے ہوں۔ سزائیں اور انصاف کے موجودہ ادارے ایسے عوامل کی بیخ کنی کرنے یا راستہ روکنے میں یکسر ناکام ہوچکے ہیں۔

دوسری طرف ایک منظم صنعتی ادارے کے مظلوم اور استحصال زدہ مزدور ‘جن کا طبقاتی استحصال بھی ہو رہا ہوتا ہے اور کام کے دوران بھی ان کی تحقیراور تذلیل ہوتی ہو، وہ ظلم و انیائے کے خلاف ردعمل ذاتی بنیادوں پرظاہر کرنے کی بجائے اپنے دشمن طبقے کی طرح ہی اپنے طبقے کو منظم کرکے نظریاتی، سیاسی اور طبقاتی جدوجہد کے ذریعے دیتے ہیں۔ یہ ردعمل جو کبھی ٹریڈ یونین کی جدوجہد سے شروع ہوتا ہے، کبھی دیہی زندگی میں پیداواری رشتوں کی اونچ نیچ کی وجہ سے ڈھائے جانے والے مظالم اور استحصال کے خلاف کسان تحریکوں سے اس کا جنم ہوتا ہے یا پھر سماج میں ایک بظاہر معمولی وجہ بھی اس ردعمل کو مشترکہ نجات کی جدوجہد کی طرف گامزن کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ مگر یہ ردعمل اشتراکی بنیادوں کے باعث اپنے ارتقا کی ضروری منازل کو طے کرتے ہوئے سماج اور نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے۔ یہ ردعمل کی ایک اعلیٰ شکل ہے اور جس کا نتیجہ ان تمام عوامل کے خاتمے پر منتج ہوتا ہے جو استحصال اور اونچ نیچ کی بنیادوں کو ہی ختم کردیتا ہے۔ یوں طبقات کے مٹتے ہی سماجی اونچ نیچ اپنے نشانات چھوڑے بغیر مٹ جاتی ہے۔ ایک غیر طبقاتی سماج جس کو سوشلزم کے سائنسی نظریات سے مرصع کیا جائے وہاں ظلم، زیادتی، برتری اور نیچا دکھانے کی نفسیات کی پیدائش کی وجوہات ہی ختم ہو جاتی ہیں۔

خواہ مخواہ اور خود ساختہ نظریات کی بجائے اکثریت کے مفاد پر مبنی اصولوں کی بنیاد پر نظریات استوار کرنا ازحد ضروری ہے۔ سب سے مقدم سماج کی ضروریات پوری کرنے والے ا کثریتی طبقے کے حقوق ہونے چاہئے نہ کہ ایک حقیر استحصالی ٹولے کے مفادات کے گرد سماجوں کو پابند سلاسل کر دیا جائے۔ اسی طرح ارتکاز دولت و اختیار کو توڑ کر ہی حقیقی انسانی سماج کی بنیادیں رکھی جا سکتی ہیں۔ جس کے لئے اس طبقاتی نظام کا خاتمہ ازحد ضروری ہے۔ موجودہ انارکی کو اگر سوشلزم کے ذریعے شکست نہ دی گئی تو یہ بتدریج بربریت کی نہج تک پہنچ کر پورے سماج کی تباہی کا باعث بن جائے گی۔