ریحانہ اختر

سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور محنت کش طبقے کے استحصال پر مبنی منافع پر ٹکی ہوئی ہے۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک حاکم ہو اور دوسرا محکوم، ایک ماسٹر ہو جبکہ دوسراغلام ہو، ایک ظالم اور دوسرامظلوم ہو‘ کیونکہ مظلوم یا کمزور کا استحصال کیے بغیر یہ نظام نہیں چل سکتا۔ اس نظام میں سب سے زیادہ ظلم اور استحصال عورتوں اور بچوں کا ہوتا ہے کیونکہ اس نظام میں وہ اپنی سماجی حیثیت کی وجہ سے سب سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں۔

ؑعظیم انقلاب روس کے قائد لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ اگر کسی بھی سماج کا تجزیہ کرنا ہو تو وہاں بسنے والی خواتین کی حالت زار کا تجزیہ کریں۔ اگر اس قول کے مطابق پاکستانی سماج کا جائزہ لیا جائے تو انسانی ذہن پر کوڑے برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان میں پچھلے کچھ ہی عرصے میں خواتین پر ہونے والے جنسی اور جسمانی تشدد میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف 2020ء کی پہلی سہ ماہی میں اکیلے لاہور شہر میں 73 جنسی زیادتی کے کیس رپورٹ ہوئے جن میں پانچ واقعات اجتماعی زیادتی کے تھے۔ ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق سال 2019ء میں صرف صوبہ پنجاب میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے 3881 جبکہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 1359 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے اغوا کے 12600 کیس بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ اندوہناک کیفیت صرف ایک صوبے کی ہے۔ باقی ماندہ پاکستان کی صورتحال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ جس کا اندازہ حالیہ دنوں کراچی میں ہونے والے ”مروہ“ کیس سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں ایک پانچ سالہ بچی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر زندہ جلا دیا گیا۔

جس مسئلے نے دوبارہ اس بربریت کے خلاف عوامی غم و غصے کو جنم دیا وہ سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر جگہ پانے والا ”سانحہ موٹر وے“ ہے۔ اس واقعے کے بعد ملک کے بڑے شہروں میں مبینہ ’سول سوسائٹی‘ کی طرف سے احتجاج بھی ہوئے جن میں مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے اپنی دانست کے مطابق مجرموں کو سزا دینے کے علاوہ پنجاب پولیس کے افسر کو ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ پولیس افسر موجودہ حکمرانوں کی طرح اس عہد کے زوال اور بحران کا مجسم اظہار ہے۔ کیونکہ ہر عہد اپنی ضروریات کے مطابق شخصیات اور کردار بھی نکال لاتاہے۔

اس دوران مظاہروں میں اور سوشل میڈیا پر سرعام پھانسی کامطالبہ بھی شدت سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جبکہ ملک کے وزیر اعظم نے تو ”کیمیکل کاسٹریشن“ کا مشورہ بھی دیا ہے۔ وزیراعظم صاحب جو ریاست مدینہ اور یورپین ماڈل کے درمیان کہیں پھنس کر رہ گئے ہیں‘ انہیں لگا کہ یہاں بھی یورپ کی طرح یہ طریقہ اپنایا جا سکتا ہے جہاں ’بچوں کے ساتھ جنسی کشش‘ رکھنے والا شخص اگر اپنی اس سرگرمی پر قابو نہ پا سکے تو اس کا علاج کرایا جاتا ہے یا سزا دی جاتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود یورپ میں بچوں کے ساتھ ہراسانی کے واقعات بدستور موجود ہیں۔ دوسری طرف پر تشدد سزاؤں کے مطالبے ہیں اور وہ بہت سے نام نہاد دانشوروں تک کو معقول لگتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے کے اندر جہاں جنسی زیادتی کے حوالے سے بظاہر قوانین بھی موجود ہیں وہاں پر جنسی زیادتی کے کیسوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور اس میں تشدد کا عنصر موجود ہے تو ایسا کیوں ہے؟

تھوڑا سا اگر اس خطے کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو بر صغیر میں برطانوی سامراج کے آنے سے قبل یہاں بسنے والے افراد کی زندگیاں نسبتاً سادہ اور زمین کے ساتھ جڑی ہوئیں تھیں۔ افراد کا تعلق کمیونٹی کے تصور پر مشتمل تھا۔ کمیونٹی کا تصور کافی مضبوط تھا اور باقی تعلقات (بشمول جنسی تعلقات) کافی سہل تھے یا یوں کہیں کہ کم پیچیدہ تھے۔ تشدد کا عنصر بہت ہی کم تھا۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے کے قدیم آرکیٹیکچر کو دیکھا جائے تو (آج کے اعتبار سے) پورنوگرافی کا عنصر بھی ملتا ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ جنسی عمل ’ٹیبو‘ نہیں تھا۔ تاہم بہت سارے مذاہب، بے شمار زبانوں اور کئی طرح کی ثقافتوں اور تمدنوں کے ساتھ موجود یہ معاشرہ جو کہ اپنی رفتار میں بہت سست تھا‘ ایک پدرسری معاشرہ تھا۔

انگریزوں نے برصغیر میں آنے کے بعد جہاں اس قدیم معاشرے کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور زبردستی جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ رشتوں کو متعارف کروایا وہیں ہزاروں سال سے قائم و دائم ثقافت کو بھی تہس نہس کیا۔ کمیونٹی کے تصور کو کمزور کرنے کیلئے مذہب اور اخلاقیات کو ہتھیار بنا کر استعمال کیا گیا۔ ایک نسبتاً پر امن معاشرہ جس میں نجی ملکیت کی شکلیں بھی ابھی مبہم تھیں وہاں جبر و استحصال کی خوفناک ترین شکلیں متعارف کروائیں گئیں۔ لوگوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کر کے ان کی ایکتا کو توڑنے کی واضح مثال 1872-73ء کی مردم شماری ہے جس میں پہلی بار مذہب کا خانہ شامل کیا گیا۔ بعدکے حالات اس سے زیادہ بھیانک ثابت ہوئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مذہب اور فرقہ واریت کو آخری حد تک استعمال کیا گیا۔ یہ انگریزوں کے پاس وہ پرانے اور کارآمد ہتھیار تھے جن کا وار بر صغیر پر کبھی خالی نہیں گیا اور ان کو آج بھی وقتاً فوقتاً مقامی حکمران استعمال میں لانے سے نہیں چوکتے۔ 1915ء میں بلوچستان میں جنرل ڈائر (جو کہ جلیانوالہ واقعے کا ذمہ دار بھی ہے) اپنی تعیناتی کے دوران شیعہ سنی فسادات کروا کر لوگوں کو تقسیم کرتا تھا جس سے ان پر کنٹرول آسان ہو جاتا تھا۔ اور لوگ جب ایک دوسرے کے سروں سے فٹبال کھیلتے تو وہ مزہ لیتا تھا۔ بر صغیر کے آزادی پسندوں پر مقدمے بنائے جاتے، غیر انسانی سزائیں دی جاتیں، کوڑے، سرعام پھانسیاں حتیٰ کہ زندہ کھا لیں تک کچھوانے جیسے عوامل کا اندراج کیا گیا۔ آہستہ آہستہ تشدد کو اس معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کیا گیا۔ بعد کے حالات میں ہندوستان کی تقسیم کے دوران 30 لاکھ ہلاکتیں اور ان گنت جنسی زیادتی کے واقعات ان حالات کا نا گزیر نتیجہ تھے۔ جب لوگوں نے اپنی بیٹیوں کو بچانے کیلئے انہیں زندہ کنوؤں میں پھینک دیا۔ پھر آزاد بھارت اور آزاد پاکستان معرض وجود میں آئے مگر یہاں پہلے دن سے آج تک کبھی امن اور استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ جلاؤ، گھیراؤ، قتل و غارت، دنگے اور جنسی زیادتی ان معاشروں کا خاصہ بن گئے۔ اس کی مثال میں بھارت میں 1969ء کے دنگے ہوں، 80ء کی دہائی میں سکھوں کا قتل عام ہو، عورتوں کی آبرو ریزی ہو یا 2002ء گجرات کے واقعات ہوں۔ قتل و غارت کے ساتھ سر عام آبرو ریزی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ایسی صورتحال ہم 1971ء میں بھگت چکے ہیں۔ اب صورتحال اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ جہاں تھوڑا سا بھی طاقتور اور کمزور کا سامنا ہوا نتیجہ تشدد اور جنسی زیادتی کا نکلتا ہے۔

دوسری طرف جب بھی کوئی ایسا واقعہ سامنے آتا ہے تو سخت سے سخت سزا ؤں کے مطالبات شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر کوئی بڑھ چڑھ کر بولنے لگتاہے۔ اب کون ان سے پوچھے کہ یہاں تو سب ہی جنسی درندگی کے خلاف ہیں تو ان اعداد و شمار کا کیا جو بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 82 فیصد ریپ کیسوں میں باپ، بھائی، تایا، چچا اور ماموں وغیرہ ملوث ہوتے ہیں۔ اس پر اگر بات کی جائے تو مشرقی اقدار کا پھٹا ہوا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تعفن نے اگرکسی کا دم گھونٹاہے تو وہ معصوم بچے ہیں جو 15 سے 20 ہزار کی تعداد میں روزانہ پیدا ہو رہے ہیں۔ جو کہا جاتا ہے کہ اس ملک کا مستقبل ہیں مگر کیا کیا جائے کہ یہاں 70 فیصد بچوں کو کسی نہ کسی قسم کی ہراسانی یا جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور بچپن کے یہ واقعات اگلی پوری زندگی کے رویوں اور شخصیت کی تعمیر میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان اور دیگر پسماندہ ممالک کا آئندہ آنے والے سالوں میں سرمایہ داری میں رہتے ہوئے کیامستقبل ہو سکتا ہے؟ اس ذہنی پراگندگی کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور یہ ایسے دور نہیں ہو سکتیں۔

یہاں چند دانشور حضرات کی طرف سے جنسی شعور کی تعلیم دینے کی بات بھی کی جاتی ہے۔ پہلی نظر میں تو یہ مطالبہ عین منطقی معلوم ہوتا ہے کہ بالکل یہ شعور اجاگر ہونا چاہیے۔ جنسی رویوں پر بات بھی ہونی چاہیے کیونکہ ہمارے ہاں اس بات کا تعلیمی مقصد سے تذکرہ تقریباً تقریباً ناممکن ہے۔ ایک ایسا ملک جو کہ فحش مواد کو انٹرنیٹ پر تلاش کر کے دیکھنے والوں میں سر فہرست ہو وہاں پر تعلیمی اور شعوری اعتبار سے اس موضوع کے لیے گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ منافقت پر مبنی جھوٹی اخلاقیات جس کا رونے روتے لوگ نہیں تھکتے۔ جنسی تعلیم کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ افراد کو جنسی عمل کی طرف راغب کیا جائے۔ اس کا مطلب افراد کی اپنی بیالوجی سے شعوری آگہی ہے۔ اس کا مقصد دوسروں کی اور اپنی جسمانی حدود کو سمجھنا اور اس کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ اجازت اور باہمی رضا مندی کے معنی کو سمجھنا ہوتا ہے۔ والدین اور معاشرے کی طرف سے بچوں کو یہ سکھانابہت ضروری ہے کہ انس اور ہراسانی میں فرق کیا ہے۔ کیسے دوسروں کی اور اپنی ذاتی سپیس کا خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ بچہ انس اور ہراسانی میں ٹھیک ٹھیک فرق کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تعلیم دے گا کون؟ والدین، معاشرہ یا ریاست؟

پاکستان جیسے پراگندہ معاشرے میں عمومی شعور جس قدر تنزلی کا شکار ہے وہاں والدین اور معاشرے سے یہ توقع کرنا ایک لغو سوچ ہے۔ جہاں تک ریاست کی بات ہے تو وہ لوگوں کو بنیادی تعلیم دینے سے بھی قاصر ہے۔ جس ملک میں ڈھائی کروڑبچے سکول سے باہر ہوں اور ان کی بنیادی تعلیم یعنی ا، ب، پ… تک بھی رسائی نہ ہو وہاں پر ایسی نفیس بحث بھونڈا مذاق لگتی ہے۔ جہاں زندہ رہنے کے لیے بنیادی سہولیات ناپید ہوں وہا ں نفسیاتی اور اخلاقی تربیت بے معنی چیز بن جاتی ہے۔

جہاں تک قوانین بنانے اور لاگو کرنے کی بات ہے تو بے شمار قوانین انصاف کی اعلیٰ عمارتوں میں مدفن ہیں۔ مگر پھر بھی جنسی ہراسانی کے سو میں سے چار مجرم ہی سزا کو پہنچتے ہیں۔ لیکن ان چار فیصد کے لئے بھی شرط یہ ہے کہ ان مجرموں کا تعلق کسی بااثر طبقے سے نہ ہو۔ سزا کے خوف کے برعکس چھوٹ جانے یا پکڑے نہ جانے کا یقین زیادہ محکم ہوتاہے۔ عدالت کے باہر سماجی اثر و رسوخ استعمال کرکے صلح صفائی کے نام پر انصاف کا بلاد کار معمول کی بات ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسا نظام جس میں نسل انسانی کو ترقی دینے کی صلاحیت ہی ختم ہو چکی ہے، تعلیم تک رسائی نہیں ہے، روزگار ناپید ہے، علاج کے لیے دھکے ہیں، تضحیک انسانی رویوں کا خاصہ بن چکی ہے، تفریح کا تصور یاتمیز سہولیات کے فقدان کی وجہ سے اجاگر ہی نہیں ہو سکی ہے، موسیقی اور تھیٹر حرام ہیں، مصوری کا رواج ہی نہیں ہے، انسانوں کے درمیان مسرت اور لطافت پر مبنی کوئی رشتہ ہی نہیں ہے، ہر طرف مایوسی، بیگانگی اور ناامیدی ہے، انسان کے مسائل کی کہیں پر کوئی شنوائی نہیں، انسان نے بطور انسان دوسروں کا تو دور خود کا احترام کرنا بھی چھوڑ دیا ہو، ایسے میں طاقت اور زور زبردستی ہی واحد راستہ بچتاہے جس سے انسان اپنی ضروریات حتیٰ کہ جسمانی راحت تک حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہاں ایسے معاشرے سے ہراسانی کیسے ختم ہو سکتی ہے۔ سرمایہ داری کو کمزور اور ماتحت چاہیے جس کا استحصال کر کے وہ خود کو تازہ دم رکھ سکے۔ لہٰذا ہراسانی اور زیادتی کے خاتمے کا سوال نظام کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک سادہ نکتہ ہے مگر صاحب اقتدار لوگوں کی سمجھ سے بالا تر ہے یا اس کو نہ سمجھنے میں ہی ان کی عافیت ہے۔