لال خان
اتوار 14 اکتوبر 2018ء کی ابتدائی گھڑیوں میں ہمارا ساتھی اور دوست جاوید اقبال ہم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا۔ وہ پچھلے ایک سال سے پیٹ کے کینسر سے نبرد آزما تھا۔ اُس کی عمر 57 برس تھی جس میں سے 42 سال انقلابی سوشلزم کے پرچم تلے انتھک جدوجہد پر محیط تھے۔
جاوید سکول میں زمانہ طالب علمی سے ہی انقلابی سیاست سے وابستہ ہو گیا تھا جب اُس کی عمر صرف 14 سال تھی۔ زندگی کے اس اہم موڑ میں اُس کی کامریڈ پیٹ وال کیساتھ مانچسٹر میں ہونے والی بحثوں کا اہم کردار تھا۔ پیٹ وال بعد ازاں ایک انقلابی مارکسسٹ کی حیثیت سے برطانوی پارلیمنٹ میں بھی منتخب ہوئے۔ 1981ء میں ایمسٹرڈیم میں منعقد ہونے والی ’طبقاتی جدوجہد‘ کی تاسیسی کانگریس میں جاوید بھی شریک تھا۔ اس تنظیم کی بنیاد ضیاالحق کی باطل آمریت کے دوران یورپ میں جلاوطن پاکستانی مارکسسٹوں نے رکھی تھی۔ وہ تمام عمر نہ صرف انقلابی سوشلزم کے نصب العین پر قائم اور انتہائی مشکل و بحرانی ادوار میں تنظیم کیساتھ وفادار رہا بلکہ اس جدوجہد میں انتہائی کٹھن مشکلات اور اذیتیں بھی برداشت کیں۔
1986ء میں دو دوسرے انقلابی ساتھیوں کیساتھ جاوید پاکستان آگیا تاکہ ضیا آمریت کے جبر کے سائے میں خفیہ کام کرتے ہوئے یہاں انقلابی تنظیم کی بنیادیں استوار کی جا سکیں۔ وہ لاہور کی جھونپڑ پٹیوں میں بہت تلخ حالات میں رہتا رہا اور یہاں کے انتہائی پسماندہ ذرائع آمدورفت کے ذریعے پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں پہنچ کر انقلابی مارکسزم کے نظریات کا پرچار کرتا رہا۔ لیکن ان مشکلات کے بارے میں شاید ہی کبھی اُس نے کوئی گِلہ کیا ہو۔ حالانکہ وہ 1960ء اور 70ء کی دہائیوں کے برطانیہ کے ترقی یافتہ انفراسٹرکچر میں زندگی گزارنے کے عادی تھا۔ 1987ء میں جب دوسرے جلاوطن کامریڈ بھی پاکستان واپس آگئے تو جاوید کا شروع کیا ہوا کام زور پکڑنے لگا۔ اُنہوں نے یہاں ایک بالشویک تنظیم کا معقول مرکزہ تشکیل دے دیا تھا۔
ذاتی وجوہات کی بنا پر جاوید 1991ء میں واپس برطانیہ چلا گیا لیکن مارکسزم کیساتھ اُس کی وابستگی اور جڑت میں کبھی تزلزل نہیں آیا۔ اُس نے یہاں تنظیم اور طلبہ و محنت کشوں کی تحریکوں کیساتھ یکجہتی مہمات کی مالی اور سیاسی حمایت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا۔ وہ برطانیہ میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کا منتظم تھا اور اکثر ٹریڈ یونینوں کے اجلاسوں میں ’ایشین مارکسسٹ ریویو‘اور ’طبقاتی جدوجہد‘ بیچتا نظر آتا تھا۔ برطانیہ کا دورہ کرنے والے ساتھیوں کے لئے ’PTUDC‘ کے تحت اجتماعات کا انعقاد کرتا اور پاکستان میں جاری طلبہ اور محنت کشوں کی جدوجہد کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لئے احتجاجی ریلیاں وغیرہ منعقد کرنے میں بھی پیش پیش ہوتا۔ ہر حساس انسان کی طرح 1947ء کے خونی بٹوارے نے جاوید کی روح اور احساس پر بھی زخم لگائے تھے۔ تقسیم کے 70 سال مکمل ہونے پر اُس نے جون 2017ء میں برمنگھم میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں پاکستان اور ہندوستان سے آنے والے انقلابی ساتھیوں نے اظہار خیال کیا۔ اُنہوں نے اِس خونی واقعے کی حقیقی وجوہات اور مضمرات تفصیل سے بیان کیے اور آج تک رِسنے والے ان زخموں پر روشنی ڈالی۔
جاوید برطانیہ کی مزدور تحریک سے بھی وابستہ تھا اور جیرمی کوربن کی فتح کے بعد دوبارہ لیبر پارٹی کا حصہ بن گیا تھا۔ تاہم وہ پاکستان میں ’طبقاتی جدوجہد‘ کی مالی معاونت کے لئے ذاتی چندہ دہی اور دوسرے حمایتیوں اور ساتھیوں سے فنڈ اکٹھا کرنے کو ہی اپنا بنیادی فرض گردانتا تھا اور اسے پوری تندہی سے انجام بھی دیتا تھا۔ ایشین مارکسسٹ ریویو کے لئے باقاعدگی سے مضامین بھی تحریر کرتا تھا۔ اس کا ایک معروف مضمون ’1946ء کی رائل انڈین نیوی کی عظیم بغاوت‘، جو خاصی تحقیق کے بعد تحریر کیا گیا تھا، 1946ء میں جہازیوں کی بغاوت اور برصغیر میں وسیع پیمانے کے انقلابی ابھار کا احاطہ کرتا ہے۔ 1988ء میں اُس نے دو دوسرے ساتھیوں کیساتھ مل کر ایک کتاب بھی تحریر کی جس کا عنوان ’پاکستان: سوشلسٹ انقلاب یا خونی انتشار‘ تھا۔
مزدور تحریک کے نسبتاً جمود کے ادوار میں بھی ہمارے درمیان مارکسی نظرئیے اور حکمت عملی پر گرما گرم بحث و مباحثے جاری رہتے تھے۔ لیکن پھر جنوب ایشیا کی خوبصورت کلاسیکی موسیقی سننے کی محافل بھی ہوتی تھیں۔ لٹریچر اور ثقافت پر بھی بات چیت ہوا کرتی تھی۔ جاوید کو انگریزی اور پہاڑی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ پہاڑی، جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میں بولی جاتی ہے، اُس کی ماں بولی تھی۔ وہ کشمیری عوام کی حالت زار اور آزادی کی تڑپ کو گہرائی سے محسوس کرتا تھا۔ وہ کشمیر میں ہی پیدا ہوا تھا اور اکثر منگلا جھیل کے کنارے واقع اپنے آبائی گاؤں ’بوہا‘ کو یاد کیا کرتا تھا۔ برصغیر جنوب ایشیا کے تناظر میں مارکسزم اور قومی سوال کے موضوع پر ہماری طویل بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ اُس نے جبر و استحصال کے خلاف کشمیر کی جدوجہد پر بے شمار مضامین بھی تحریر کیے۔
مارکسزم پر بھرپور عبور کے ساتھ ساتھ جاوید کو آرٹ، شاعری، موسیقی اور لٹریچر میں بھی گہری دلچسپی تھی۔ اردو زبان سے اُس کی شناسائی اگرچہ کچھ زیادہ نہ تھی لیکن پھر بھی وہ غالب، فیض، ساحر اور جوش ملیح آبادی، جو اُس کے پسندیدہ شعرا تھے، کی شاعری کو پڑھنے اور سمجھنے کی پوری کوشش کرتا تھا۔ سرائیکی شاعری اُسے بالخصوص لبھاتی تھی۔ وہ ’طبقاتی جدوجہد‘ کی کانگریسوں میں پڑھی جانے والی محسن کلیم کی شاعری سے بہت متاثر ہوتا تھا۔ اُسے وارث شاہ، میاں محمد اور بابا بلھے شاہ کی کلاسیکی پنجابی شاعری سے بھی رغبت تھی۔ جاوید نے اپنے گھر میں کتب اور میوزیکل ریکارڈوں کا ایک انمول ذخیرہ اکٹھا کر رکھا تھا۔
جاوید نے انقلاب کی جدوجہد میں اپنی قربانیوں اور لگن کی کبھی شیخی نہیں بگھاری۔ اُسے ایسے نمائشی رویے پسند ہی نہیں تھے۔ وہ بہت عاجز تھا۔ لیکن ساتھ ہی جنوب ایشیا اور دنیا بھر میں انقلابی سوشلزم کی جدوجہد کا انتہائی اہم رہنما بھی تھا۔ اپنے انقلابی ساتھیوں اور چند ایک قریبی دوستوں کے لئے اُس کے اند حیران کن برداشت موجود تھی۔ بعض اوقات اگرچہ وہ گرم مزاج معلوم ہوتا تھا لیکن اکثر انتہائی سخت اور ناگوار باتوں کو بھی درگزر کر دیتا تھا اور اس بارے میں کبھی شکایت تک نہیں کرتا تھا۔ اپنے ساتھیوں اور مقصد کی طرف اُس کا رویہ ہمیشہ خوشگوار، دوستانہ اور انتہائی مخلصانہ ہوتا تھا۔
جاوید اپنے خاندان سے بھی بہت خلوص اور محبت رکھتا تھا۔ جب کبھی کامریڈ اُس کے مہمان بنتے تو اُنہیں خوش آمدید کہتا اور اُن کی صحبت سے لطف اندوز ہوتا۔ اپنے ساتھیوں کیساتھ اُس کی محبت اور جانثاری آخری وقت تک قائم رہی۔ اپنی وفات سے صرف 48 گھنٹے قبل لاہور میں اپنے ایک کامریڈ اور ذاتی دوست، جو خود بھی غیرصحتمند تھا، کو فون کیا۔ اس بات چیت کے دوران اپنے دوست اور باقی ساتھیوں کی خیریت کے بارے میں اُس کی فکرمندی کی کیفیت ناقابل بیان حد تک دردناک تھی۔ اُس کی آواز سے بالکل واضح تھا کہ وہ ہر لمحہ موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لیکن اس حالت میں بھی وہ اپنے دوست سے مناسب علاج کروانے کی التجا کر رہا تھا۔ ایسی ہمدردی بھلا کہاں ملتی ہے۔
جاوید انقلاب کا ایک خاموش سپاہی تھا اور آخری سانس تک رہا۔ اُس کی المناک وفات نے اُس کے خاندان، دوستوں اور ساتھیوں کو رنج و غم میں مبتلا کیا ہے۔ وہ اُسے ہمیشہ یاد رکھیں گے اور اُس کی کمی کو ہمیشہ محسوس کریں گے۔ لیکن نہ صرف ہماری یادوں میں بلکہ منطقی انجام تک جاری سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں بھی جاوید ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔