اداریہ جدوجہد
حکمرانوں کے اس نام نہاد ’نئے پاکستان‘ میں بھی مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کا عفریت آبادی کی وسیع اکثریت کو نگل رہا ہے۔ افراطِ زر پالیسی سازوں کے قابو سے باہر ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ادویات بیماروں کی پہنچ سے دور ہوتی جاتی ہیں۔ بجلی و گیس کے نرخ ہر روز بڑھ رہے ہیں۔ یہی حال پٹرولیم مصنوعات کا ہے۔ ایک طرف بیروزگاری کا سمندر ہے تو دوسری طرف جو برسر روزگار ہیں ان کے سروں پر نجکاری، چھانٹیوں اور جبری بے دخلیوں کی تلوار لٹک رہی ہے۔ یہ حکمران عالمی سامراجی اداروں کی ایما پر بیش قیمت پبلک اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ سرمایہ داروں کو بیچنے کے درپے ہیں۔ جبری گمشدگیوں اور سیاسی مقدموں میں کہیں زیادہ شدت آگئی ہے۔ دوسری طرف ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قومی تعصبات اور مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دے کر عوامی غم و غصے کو زائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چاہے اس سے سماج رجعت، تشدد اور فسطائیت میں غرق ہی کیوں نہ ہو جائے۔
معیشت کی حالت میں بہتری کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ اس بات کو سرمایہ داری کے اپنے ماہرین تسلیم کر رہے ہیں۔ عالمی بینک کی نئی رپورٹ کے مطابق جاری مالی سال کے دوران پاکستان کی معیشت صرف 0.5 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ یعنی بلند افراطِ زر اور کم شرح نمو (جو درحقیقت صفر سے نیچے ہے) کی اذیت ناک کیفیت جاری رہے گی۔ اور یہ صرف پاکستان کا حال نہیں ہے۔ عالمی بینک کے مطابق”جنوب ایشیا کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ آگے کے امکانات خاصے خوفناک ہیں… ہندوستان میں غربت میں 33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اور پاکستان کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔“
اس معاشی کھنڈر کی بنیاد پر کھڑا یہ پورا نظام لڑکھڑا رہا ہے۔ ہر ادارہ بحران کا شکار ہے۔ جبر شدت پکڑنے کے باوجود اندر سے کھوکھلا ہے۔ یہ ایک ابھرتے ہوئے نظام کانہیں بلکہ ڈوبتے ہوئے نظام کا جبر ہے۔ یہ دو کیفیات معیاری حوالے سے خاصی مختلف ہوا کرتی ہے۔ لیکن پھر نظام کی گراوٹ نے جھوٹ اور منافقت کو سماجی معیارات کا درجہ بھی دے دیا ہے۔ بدترین سینسر شپ نے میڈیا کی رہی سہی ساکھ ختم کر دی ہے۔ اس میڈیا میں سچ بولنے اور دکھانے کی گنجائش اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے نام نہاد تجزیہ نگار اور اینکر پرسن اب سوشل میڈیا کا رُخ کر رہے ہیں۔ کیونکہ لوگوں نے ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ ریاستی کنٹرول اور جبر کی یہ کیفیت تو باضابطہ آمریتوں کے ادوار میں بھی نہیں تھی۔ عدالتوں کی حالیہ کاروائیاں بھی حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے باہمی تناؤ کا پتا دیتی ہے۔ غداری کے مقدمات اور الزامات یوں لگ رہے ہیں کہ یہ لفظ اپنی سنگینی کھو چکا ہے۔ لیکن محنت کشوں کی شنوائی سرمائے کی کسی عدالت میں نہیں ہے۔ اس نظام کے اداروں میں ان کے مقدمے سنے جانے کی کوئی صورت نہیں۔ حالات انہیں اپنا مقدمہ فیکٹریوں، کھلیانوں، چوکوں اور چوراہوں میں لڑنے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس جمہوریت کی پارلیمان آمریتوں سے بھی گئی گزری اور بے اختیار ہے۔ پارلیمان کیا ہے اشرافیہ کا ایک ڈسکشن کلب ہے جس میں ہونے والی زیادہ تر بحثوں کا عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کا یہ حال ہے کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود ہر ووٹنگ میں ہار جاتی ہے۔ ڈوریاں ہلانے والے اپنی منشا کے بِل بھی پاس کروا رہے ہیں اور قوانین بھی بنوا رہے ہیں۔یہ کیفیت واضح کرتی ہے کہ یہ سیاسی اشرافیہ اندر سے کس قدر کرپٹ اور مطیع ہے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی باہمی لڑائی و چپقلش آخری تجزیے میں پیسے اور طاقت کے حصول کی لڑائی ہے۔ جو اس وقت اپوزیشن میں ہیں ان کے اپنے حکومتی ادوار میں بھی عوام کی حالت آج سے مختلف نہیں رہی ہے۔ حکمرانوں کی ان لڑائیوں میں محکوم اور استحصال زدہ محنت کش عوام کے مسائل کا حل قطعاً موجود نہیں ہے۔ اس نظام کے قیام اور دوام کے معاملے میں حکمرانوں کے سب دھڑے متحد ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کا معاشی پروگرام ایک ہی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، بھوک اور غربت کا کوئی حل نہ حکومت کے پاس ہے نہ ہی اپوزیشن کے پاس۔ لیکن نظام کی حالت یہ ہے کہ اس میں معمولی سی اصلاحات کی کوشش بھی کی جاتی ہے تو سارا ڈھانچہ ٹوٹ کے بکھرنے لگتا ہے۔ اسی حقیقت میں موجودہ حکومتی سیٹ اپ کی ناکامی کی وجہ مضمر ہے۔ اس وقت اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ پس پردہ ملاقاتیں اور مذاکرات بھی جاری ہیں۔ یہ اپوزیشن جماعتیں ”تحریک“ کے دباؤ کو استعمال کر کے اپنے لئے چھوٹ، رعایات اور معقول حصہ داری چاہتی ہیں۔ دوسری طرف حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ مقدمے بازیوں، گرفتاریوں اور ”احتساب“ کی فلم نہ چلائے تو اس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔کسی ریاستی دھڑے کی پشت پناہی کے بغیر اس اپوزیشن کی تحریک کا چلنا بھی محال ہے۔ اس وقت کوئی اپوزیشن پارٹی بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ اس لئے قوی امکان یہی ہے کہ نوراکشتی کا یہ کھیل مختلف اتار چڑھاؤ کے ساتھ آگے بھی جاری رہے گا۔ لیکن جس چیز سے یہ برسرپیکار سارے حکمران دھڑے خوفزدہ ہیں وہ یہاں کے محنت کشوں کی حقیقی تحریک ہے۔ اسی لئے مختلف ہتھکنڈوں، جو بظاہر ایک دوسرے سے متصادم بھی ہو سکتے ہیں، کے ذریعے اس کو ٹالنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن آج پورے کرہ ارض پر انسانی سماج بحرانات کا شکار ہیں۔ کہیں یہ بحران انقلابی کیفیت اختیار کرتے ہیں تو کہیں رجعت، فسطائیت اور جبر کو ہوا دیتے ہیں۔ لیکن استحکام کہیں نہیں ہے۔ اس حقیقت سے انکار محال ہے کہ پچھلے دس سالوں میں کوئی خطہ ایسا نہیں رہا ہے جہاں محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکیں نہ اٹھی ہوں۔ پاکستان میں بھی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی بے چینی اس وقت عروج پر ہے۔ اس نظام کا ہر اقدام اس اضطراب میں اضافہ ہی کر رہا ہے۔ اصل لڑائی اس وقت شروع ہو گی جب یہ اضطراب پھٹ پڑے گا۔