قمرا لزماں خاں
تحریک انصاف کی حکومت کو جس طرح سے لایا گیا سب جانتے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے۔ انتخابات سے پہلے بھی دھاندلی کی گئی۔ انتخابی نتائج مرتب کرتے ہوئے بھی تمام کسریں نکال کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے گئے۔ چند ’الیکٹیبلز‘ خاص طور پر جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے کٹھ پتلی سیاستدانوں کو الیکشن سے قبل اور ”آزاد“ جیتنے والوں کو الیکشن کے بعد تحریک انصاف میں شامل کرا دیا گیا۔ جنرل مشرف حکومت میں بنائی گئی ق لیگ، جنرل ضیا الحق دور میں کھڑی کی گئی ایم کیو ایم اور اسی طرح انگریز راج کے دور میں بنائے گئے گدیوں اور مزاروں کے سجادہ نشینوں، سرداروں اور تمنوں کا اتحاد نئی پراڈکٹ یعنی تحریک انصاف کے ساتھ کرایا گیا۔ اس طرح اسلام آباد دھرنے کے ایمپائر سے لے کر نیب، عدالتوں، الیکشن کمیشن اور نگرانی کرنے والوں تک کی جانفشانی سے عمران خان کو وفاق میں چند ووٹو ں سے اقتدار نشین کرایا گیا۔ پنجاب میں ن لیگ کی اکثریت کو بلڈوز کر کے بزدار حکومت بنوائی گئی۔ بلوچستان میں کئی دھائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہی حکومتیں بنتی چلی آ رہی ہیں۔ اس دفعہ الیکشن سے پہلے ”بلوچستان عوامی پارٹی“ کے نام سے وفاداروں کو جمع کیا گیا اور اقتدار سونپ دیا گیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے اس دفعہ بھی ایک نیا تجربہ کیا تھا مگر ایک شکست خوردہ نظام اور ناکام ہوتی سرمایہ داری پر استوار حکومت کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ چنانچہ تحریک انصاف کو بالکل شروع میں ہی پتا چل گیا تھا کہ کام کی بجائے الزام تراشیوں، دھمکیوں اور سیاسی انتقام کے ذریعے سب کی توجہ کسی اور طرف مبذول کرانے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ چنانچہ الیکشن سے قبل سے جاری شدہ انتقامی اور یکطرفہ احتساب کے عمل کو زیادہ شور شرابے کے ساتھ الیکشن کے بعد بھی جاری رکھا گیا۔ گرفتاریوں اور طویل قید و بند کو کسی بھی نام نہاد قانونی تقاضے کے بغیر اپنا کر ایسا سیاسی ہیجان پیدا کیا گیا اور اس کو طول دیا گیا کہ ردعمل شروع ہو گیا۔ عمران خان مستقبل قریب میں اسی ”سیاسی ہیجان“ اور ردعمل کو اپنی ناکامی کے ایک جواز کے طور پربھی پیش کر سکتا ہے۔ اس سیاسی انتشار کو بنیادی ناکامی یعنی نظام کی ناکامی سے توجہ مبذول کرانے کیلئے استعمال کیا جانا پاکستانی راج نیتی کا بنیادی وصف ہے۔ اب بھی تاریخ سے پچھڑی ریاست، حاکمیت، حکمران طبقے اور زوال پذیر سرمایہ داری نظام کے قضیے کو ناکام حکومت کے خاتمے اورنام نہاد کامیاب حکومت کے قیام کے سراب سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ماضی کے حکمرانوں کے اتحاد پر مشتمل موجودہ اپوزیشن نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا پورا پروگرام مشتہر کر دیا ہے۔ قبل ازیںپاکستان مسلم لیگ نواز کے سرپرست اورتین دفعہ معزول کئے گئے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اس تحریک کوپی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے والوں کے خلاف قرار دیا تھا۔ نواز شریف نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے بننے والے نئے اتحاد کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فوج پر الزام عائد کیا کہ وہ سیاست میں مداخلت کر کے جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کرتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار فقط منتخب نمائندوں کو ہونا چاہیے۔ انہوں نے 2016ءکا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں جب فوجی قیادت کو بتایا گیا کہ متعدد سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی برادری کے ساتھ ساتھ دوست ممالک بھی پاکستان سے دور ہوتے جا رہے ہیں تو فوج نے اسے ڈان لیکس کا نام دے دیا۔ نواز شریف نے ماضی میں بلوچستان حکومت کے خاتمے میں فوج کی براہ راست مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت کا خاتمہ کر کے سینیٹ کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی راہ اپنائی گئی اور اس معاملے کا ایک کردار تب فوج کی سدرن کمان کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ تھے۔ واضح رہے کہ عاصم سلیم باجوہ اس وقت وزیراعظم عمران خان کے خصوصی معاون برائے اطلاعات و نشریات اور پاکستان چین اقتصادری راہداری اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ پچھلے چند برسوں میں عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کی دولت اور اثاثوں میں اربوں روپے کے اضافے پر نہ میڈیا پر بات کی جا سکی اور نہ نیب نے کوئی نوٹس لیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس کو روایت سے ہٹ کر ایک مربوط اور ٹھوس لائحہ عمل وضع کرنا ہو گا۔ مزید یہ کہ ملکی ترقی کےلئے انتہائی ضروری ہے کہ عوامی مینڈیٹ نہ چرایا جائے اور ہر حال میں عوامی رائے کا احترام کیا جائے۔
پاکستان کے عسکری حلقوں کے خلاف یہ بیانیہ نیا نہیں ہے۔ راکھ کے نیچے دبی ہوئی چنگاریاں سلگتی ہی آ رہی ہیں۔ جونہی گمان ہوتا ہے کہ مبادہ سلگتی چنگاریاں بڑھک نہ اٹھیں مقتدرحلقے شعلوں کو ہوا دینے والے عوامل پر شراکت اقتدار کی مٹی ڈال کرچنگاریوں کو دبا دیتے ہیں۔ ان دنوں اسی قسم کی تقاریر کی گھن گرج بھی جاری ہے۔ مگر ساتھ ہی درمیانی راہ بھی لی جاتی ہے اور بھونڈے انداز میں افواج پاکستان کی تعریف بھی کی جاتی ہے اور اس کو اپناتے ہوئے اپنے پہلے تاثر کی نفی بھی کی جاتی ہے۔
اس امکان کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں موجود سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کے مابین بظاہر سیاسی کشمکش کے پیچھے چینی اور امریکی سامراجی قوتوں اورعلاقائی حلیفوں کابھی کہیں نہ کہیں اثر و رسوخ ہو۔ اس گمان کے پیچھے پاکستان کی 73سالہ تاریخ، سامراجی اطاعت گزاری و خدمات کیساتھ واقعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی ہے۔ اسی طرح موجودہ عہد میں پاکستانی حاکمیت اور امریکی حکام کی باہمی بدگمانی اور ایک دوسرے کے ساتھ بداعتمادی پر مبنی کیفیات ہیں تو دوسری طرف سی پیک پر بھی کئی طرفہ مسائل موجود ہیں۔ مگر یہ معاملے کا محض ضمنی پہلو ہی ہو سکتا ہے۔ حقیقی وجہ یقینی طور پر ”عوام کامقدمہ“ لڑنا مقصود نہیں ہے۔ پاکستانی اپوزیشن ساری زندگی جس عفریت کے ساتھ مل کر عوامی یا اکثریتی محنت کش طبقے کے مفادات سلب کرتی رہی ہے، اب اس کو اپنے قابو میں لانے کی خواہش کا اظہار کر رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ (تاریخی عمل سے بہت پیچھے رہ جانے کے باوجود) قومی جمہوری حقوق کے اس حصے پر اپنے مطالبات کو استوار کر رہی ہے جس حصے میں اقتدار پر حق فائق کا معاملہ طے کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن اپنے مطالبات میں قومی جمہوری مملکت کے دیگر فرائض پر مکمل خاموش ہے۔ مثلاً سامراجی اثر و رسوخ اور مفادات کی بجائے قومی مفادات کو مقدم دینا، صنعتی انقلاب کے ذریعے قومی مملکت کے قیام کے تقاضے پورے کرنا، زمینوں کی تقسیم یا جیسے تیسے جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ، مذہب کو ریاست سے جدا کرنا، مذہبی اقلیتوں کو برابر کے شہری کا درجہ دیا جانا، چھوٹی یا شدید استحصال کا شکار قوموں کے حقوق کو تسلیم کرنا اور ان کی حق رسی کرنے کے اقدامات کرنا، خواتین کے جملہ حقوق کی برابری، تعلیم، صحت کی سہولیات اور انسانی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے تقاضوں کو پورا کرنا جیسے معاملات پر ”اپوزیشن“ کا بیانیہ قومی جمہوری حقوق کی اس جنگ کے کسی حصے میں بھی موجود نہیں ہے۔ جہاں تک ان کی جمہوری مانگوں کا تعلق ہے تو یہ بھی اتنی ہی” جمہوری“ ہیں جتنے ان سیاسی پارٹیوں کے ڈھانچے اور طریقہ کار جمہوری ہیں۔
تشکیل دی جانے والی ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ میں اگرچہ شریک تو گیارہ پارٹیاں ہیں مگر ان کے پاس مثالے پورے بارہ ہیں۔ مثلاً مذہبی قوتیں جن کی مبینہ سٹریٹ پاور کی وجہ سے ان کے غیر جمہوری عزائم سے یکسر صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ ایسی چیدہ چیدہ قوم پرست پارٹیاں بھی ہیں جن کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی قوموں کے استحصال کے خلاف پروگرام کی پرچی جیب میں ڈال کر استحصالی قوتوں کے ساتھ شامل اقتدار ہوجاتی ہیں۔ کچھ ایسی ”انقلابی قوتیں“ بھی ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنے کی دعوےدار ہیں مگرلینن اور مارکس کے سارے سبق بھول کر اسی نظام کے کارندوں کا کام دینے والی پارٹیوں کے ساتھ چمٹنے میں مشغول ہےں۔ اگر چہ بائیں بازو کے اس فرقے کے پاس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد کے ایک نکتے پر اتفاق کا استدلال موجود ہے، مگروہ محنت کش طبقے کے متحرک ہونے تک انتظار نہیں کر سکتے۔ دراصل یہ (اپنی سیاسی زندگی کے چند سالوں میں ہی) طویل اور صبر آزما انتظار سے اکتا چکے ہیں۔ وہ محنت کش طبقے پر انحصار اور اس کو انقلاب کیلئے تیار کرنے کی طویل اور استقامت سے بھرپور جدوجہد کی بجائے چور راستوں پر انحصار کی طرف گامزن ہو رہے ہیں۔ ایک دو درجن اراکین پر مشتمل قوم پرست پارٹیاں بھی ”پی ڈی ایم“ کے اراکین کی فہرست میں پارٹیوں کی تعداد کو بڑھانے کی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
اقتدار کی رسہ کشی کے اس مقابلے میں بہت سے ظاہر کردہ اور ظاہرشدہ سے بھی زیادہ بدنام ہو چکے پس پردہ مقاصد پنہاں ہیں۔ پس پردہ مقاصد کا زیادہ چرچا ہے۔ اس کو مخالف حکومتی زعما کا پراپگنڈہ قرار دے کر مسترد کیا جا سکتا ہے۔ مگر ماضی قریب کی کئی تحریکوں کا آغاز اورانجام گواہ ہے کہ ہر تحریک کا ظاہر کردہ ایجنڈا دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور پس پردہ ”مفاہمتی“ عمل سے مطلوبہ نتیجے کے بعد ”احتجاجی تحریک“ کسی سڑک پر تنہا ٹھٹھر ٹھٹھر کر دم توڑ دیتی ہے۔ نوازشریف کو ’علاج معالجے‘ کیلئے جیل سے نکال کرلندن کی پررونق فضاﺅں میں پہنچانے والی تحریک پچھلے سال کا مشہور واقعہ ہے۔ اس تحریک کے بیان کردہ مقاصد بھی تقریباً موجودہ اے پی سی کے مقاصد سے ملتے جلتے تھے۔ پچھلے سال کی تحریک جس کا نام ”آزادی مارچ“ رکھا گیا تھا کے روح رواں بھی مولانا فضل الرحمان تھے جو موجودہ ”پی ڈی ایم “ کے سربراہ بنا دیئے گئے ہیں۔
دوسری طرف اقتدار کی میوزیکل چیئر کے اس کھیل میں اقتدار دینے والوں نے اس دفعہ بندوبست مختلف قسم کا کیا ہے۔ گو اسمبلی کے ہال کو ”اراکین“ سے بھرنے کا اہتمام باقاعدہ الیکشن کرا کے کیا گیا تھا، جس پر پورے 21 ارب روپے خرچ ہوئے تھے۔ مگر الیکشن کے نتائج اس دفعہ ہار جانے والی وہ پارٹیاں کیسے مان سکتی ہیں جن کے علم میں ہے کہ ماضی میں ان کو اسی طرح کے الیکشن کھلواڑ میں دو تہائی اکثریت بھی دی جاتی رہی ہے۔ یہ سب گھر کے بھیدی ہیں۔ لہٰذا کسی ایسے انتخاب کو جس میں ان کو نمبر کم کردیئے ہوں ”جمہوریت“ پر شب خون قرار دینے میں حق بجانب ہوتے ہیں۔ پالیسی ساز بھی ایک جیسے کام کر کر کے تھک جاتے ہیں لہٰذا انہوں نے اس دفعہ ندرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئے طرز کا حکومتی ڈھانچہ تیار کیا ہے۔ نہ مکمل مارشل لا ہے اور نہ ہی جمہوریت کی کوئی رمق کہیں پر نظر آ رہی ہے۔ سارے اختیارات کا قانونی حق دار وزیر اعظم کا منصب ہے مگر ان اختیارات کے استعمال کی صعوبت سے بھی اس کو بچانے کا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کو ورزش اور نجی مصروفیات کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت مہیا کرنے کیلئے پانچ چھ درجن مشیر، وزیر رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح کئی درجن ترجمان بھی ہیں۔ موجودہ مفلوج ذہن اور احساسات سے یکسر محروم حکومت اور اس کے سرپرست اپنی بالادستی کااستقرار چاہتے ہیں۔
دوسری طرف حکمرانی کے مراکز کے کھونٹے سے رسی تڑوانے والے، لولے لنگڑے، شکست خوردہ اور مقتدرہ کیلئے فی الحال بے کار ہو جانے والے عناصر کا گیارہ رکنی اتحاد ہے۔ بھان متی کے اس وسیع کنبے میں ایک آدھ گروہ نیا یا نیم سیاسی بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر ایسے نو وارد سیاسی مشاہیر کسی سیاسی یکسوئی سے یکسر بے نیاز صرف خود کو مان لئے جانے کی شادمانی سے مخمور یہاں پر موجود ہیں۔ جملہ معترضہ کے طور پر سرائیکی وسیب کی محرومی دور کرنے کا عزم رکھنے والی اور پچھلی دو دہائیوں سے چپ سادھے ”سرائیکی نیشنل پارٹی“ بھی ملکی سطح کے اس بڑے اتحاد میں موجود ہے۔ ناقدین کے مطابق ایس این پی کی کل ممبر شپ تین یازیادہ سے زیادہ چارکے قریب ہے۔
یہ اتحاد اخلاقی اور سیاسی جواز سے محروم اور نظریاتی بے سمتی کا شکارہے۔ اقتدار کی محرومی نے اس کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا ہے جس پر چلنا اور نہ چلنا دونوںہی ان کےلئے محال ہیں۔ پیپلز پارٹی کچھ عرصہ پہلے ہی تو ”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ سے تائب ہو کر ”طاقت کا سرچشمہ عوام ہے“ سے منہ موڑ چکی تھی۔ اب عوام سے اس کا رابطہ زبانی کلامی ہی رہ گیا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی پی پی نے بلوچستان کی حکومت گرانے اور مجوزہ مشترکہ سینٹ کے چیئرمین کیلئے رضاربانی کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے سنجرانی کا انتخاب کیا تھا۔ پارلیمنٹ کی ہر قانون سازی، انتخاب یا عدم اعتماد کی تحریک میں متحدہ اپوزیشن کی گنتی ووٹنگ سے پہلے اکثریت سے ووٹنگ کے دوران اقلیت میں بدل جاتی ہے۔ جلسوں میں یہ فوجی قیادت سے عدم مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں مگر غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر رات کے اندھیروں اور دن کے اجالوں میں ملاقاتیں اور فرمائشیں کرتے پائے جاتے ہیں۔ دیہی اشرافیہ جن کو غلط العام اصطلاح کے مطابق جاگیر دار کہا جاتا ہے‘ ان سیاسی خانوادوں کی سیاسی تقسیم یعنی ایک بھائی ایک پارٹی میں دوسرا مخالف پارٹی میں، ایک آدھ بھانجا بھتیجا کسی ممکنہ تیسری پارٹی میں ہوتا ہے۔ اسی معصومانہ چالبازی کو مسلم لیگ نوازشریف گروپ نے اختیار کیا ہوا ہے۔ بڑا بھائی اسٹیبلشمنٹ کا مخالف ہے مگر چھوٹا بھائی ہفتے میں دو دفعہ فوجی میس کاکھانا نہ کھائے تو ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے۔ اب ان چالاکیوں کو چھپانا مشکل ہو چکا ہے۔ شیخ رشید جیسے ڈبل ایجنٹ بیچ چوراہے میں بھانڈا یونہی نہیں پھوڑتے۔ یہی انکی ڈیوٹی اور وفاداری کا تقاضا ہے۔ مگر دوسری طرف آرمی چیف کے عہدے اور مدت ملازمت میں توسیع کی کشمکش اور مولانا فضل الرحمان کے دعووں کے مطابق پچھلے سال کے ان کے’آزادی مارچ‘ میں ان سے کیے گئے مذاکرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اپوزیشن ایک اکائی نہیں ہے تو مدمقابل قوتیں بھی کافی منقسم ہیں۔ منقسم گروہوں میں طاقتور گروہ ابھی تک کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ مگر ناکام ’طاقتوروں‘ کی محرومی ان کے حلیفوں کی تعداد میں اضافہ بھی کر سکتی ہے۔ یوں توازن بدل بھی سکتا ہے۔ گو اب شدت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے مگر ماضی قریب میں نون لیگ اور پی پی کی حکومتوں میں بھی عوام مہنگائی، بے روزگاری اور لا قانونیت کا شکار تھی۔ ان ادوار میں بھی آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق شوق سے گلے میں ڈالا جاتا تھا۔ نجکاری، نیو لبرل پالیسیوں کا نفاذ اور عوام دشمن اقدامات تسلسل سے جاری تھے۔ اب ماضی کے حکمران اپوزیشن میں ہیں تو اپنے دور کے اقدامات کی شدت میں اضافے کے مخالف ہیں۔ ان کی چالاکی یہ ہے کہ وہ مہنگائی، بے روزگاری، لا قانونیت، غیر جمہوری اقدامات، جبری گمشدگیوں، متوازی حکومتوں یا ماورا ریاست‘ ریاست کے قیام کے بظاہر خلاف ہیں مگر ان غیرپسندیدہ اور ظالمانہ اقدامات کی وجوہات کے خاتمے کے خواہاں نہیں ہیں۔ ان کے پاس کوئی متبادل پروگرام نہیں ہے جو محنت کش طبقے کو ان کے ہم رکاب کرنے کی کشش پیدا کر سکے۔ ان کے پاس کوئی حل نہیں ہے جو اس سامراجی معاشی یلغار کا راستہ روک سکے جو مہنگائی سمیت ہر معاشی حملے کا بنیادی محرک ہے۔ غیر جمہوری قوتوں کے ریاست کے اوپر ریاست بننے کی سادہ سی وجہ تو قومی جمہوری مملکت کے قیام کی ناکامی ہے۔ خلا تو نہیں رہ سکتا۔ اگر حکمران طبقہ نا اہل ہو گا تو کوئی تو اس خلا میں کردار ادا کرے گا۔ فوج اگرچہ کوئی طبقہ نہیں ہے اور نہ ہی بن سکتی ہے مگر حکمران طبقے کی تاریخی کمزوری سے سب سے زیادہ فائدہ اسی کو پہنچ رہا ہے۔ طبقاتی جدوجہد سے نظام کی تبدیلی کی لڑائی کے بغیر موجودہ توازن کو بدلنا کم و بیش نا ممکن ہے۔
دوسری طرف جمہوری حقوق کو سامراجیت کے موجودہ عہد میں کسی قومی جمہوری جدوجہد سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اجارہ داریوں کا دور ہے۔ جن سے مقابلہ مقامی (طفیلی) سرمایہ دار طبقہ نہیں کر سکتا۔ قومی جمہوری انقلابات کا دور کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ اب قومی جمہوری حقوق کی ادائیگی کا فریضہ بھی صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔ اس کےلئے ایک انقلابی پروگرام کی ضرورت ہے۔ ایک انقلابی متبادل ہی سامراجی حملہ آوری اور غیر جمہوری قوتوں کو شکست دینے کی نظریاتی اور سیاسی سمت دریافت کر سکتا ہے۔ اکثریتی محنت کش طبقے کو ملائے بغیر یہ کئی طرفہ لڑائی جیتنا ممکن نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نعرے بازی سے صرف سودے بازی ہو سکتی ہے جو کہ بادہ النظر میں اپوزیشن کا مطمع نظر ہے۔ اگرچہ نعرے بازی کبھی کبھی زیادہ بڑھ جاتی ہے مگر پارٹیوں کے حقیقی مالکان جلد ہی اپنے کسی نہ کسی فقرے سے اس قسم کی گستاخی کا تدارک کر دیتے ہیں۔ ایک طرف وہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار کے مخالف ہیں تو دوسری طرف وہ مارچ 2021ءمیں سینٹ کے الیکشن اور اگلے عام انتخاب میں اپنی حصہ داری کے تناسب پر یقین دہانی چاہتے ہیں۔ اس اتحاد میں جمہوری قوتیں اگر ہیں تو ان کی سربراہی طالبان کو خلق کرنے والی بنیاد پرستی فرما رہی ہے۔ متذبذب، متضاد اور سامراجی عزائم سے ہم آہنگ… یہ موجودہ سیاسی عہد کا حقیقی چہرہ ہے۔
نام نہاد اپوزیشن جو گزرے’ عہدوں‘ کے مطالبات کو بغیر کسی انقلابی پروگرام کے منوانا چاہتی ہے کے پاس عوام کی نمائندگی کیلئے ایک بھی نکتہ نہیں ہے۔ فیصلہ کن لڑائی کا حقیقی فریق محنت کش طبقہ ہے۔ باقی سارے برسر پیکار گروہ ایک ہی فریق کے مختلف حصے ہیں۔ مگرتحریکیں خواہ جتنی بھی جعلی ہوں، لڑائی خواہ جتنی بھی مصنوعی ہو، اگر شروع ہو جائے تو اس کی چنگاریاں سماج میں دبے تضادات کے بارود میں آگ لگا سکتی ہیں۔