راہول
گزشتہ چند دنوں سے آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان متنازع علاقے ’ناگورنو قرہباخ‘ کو لے کر ایک بار پھر جھڑپوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ ان حالیہ جھڑپوں میں اب تک آرمینیا کے 100 سے زائد فوجیوں سمیت عام شہریوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جبکہ آذربائیجان کی جانب سے اب تک ہلاک ہونے والوں کے اعداد جاری نہیں کیے گئے۔ ناگورنو قرہباخ پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پچھلی دو دہائیوں سے ہی جاری تھی مگر حالیہ لڑائی کو 2016ء کے بعد انتہائی سنگین قرار دیا جا رہا ہے جبکہ آرمینیا اور آذربائیجان نے کچھ علاقوں میں مارشل لا نافذ کرتے ہوئے اپنی افواج کو بھی متحرک کر دیا ہے اور اُن علاقوں میں مزید فوج بھی تعینات کردی ہے۔
27 ستمبر سے شروع ہوئی یہ کشیدگی اب صرف ناگورنو قرہباخ تک محدود نہیں بلکہ مختلف علاقوں تک جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔ دونوں ممالک کی ایک دوسرے پر الزام تراشی جاری ہے اور وہ اس لڑائی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جس میں نارگونو قرہباخ کے علاقے پر آذربائیجان کی جانب سے بدترین بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشنیان نے آذربائیجان پر جارحیت کا الزام عائد کرتے ہوئے عوام سے اپیل کر دی ہے کہ و ہ اپنے عظیم وطن کے دفاع کے لئے تیار ہو جائیں۔ دوسری طرف آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اب تک کی جوابی کاروائی میں آذربائیجان کے متعدد رہائشی علاقوں کو، جنہیں قبضے میں لیا گیا تھا، آزاد کروا لیا گیا ہے اور وہ پرامید ہیں کہ ان کی مزید جوابی کاروائی اس ناانصافی اور 30 سال طویل قبضے کو مکمل ختم کر دے گی۔
بحیرہ کیسپین کے ایک کنارے پر مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے بیچ واقع آذربائیجان اور آرمینیا 1922ء سے ہی سوویت یونین کا حصہ تھے مگر سٹالنزم کی بدترین پالیسیوں اور مجرمانہ اقدامات کی بدولت جب سوویت یونین کا زوال ہوا تو ان دونوں ممالک کے درمیان ناگورنو قرہباخ نامی ایک علاقہ پر تنازعہ نے جنم لیا۔ آذربائیجان اپنی آبادی کے لحاظ سے ایک مسلمان اکثریت رکھنے والا ملک ہے جبکہ آرمینیا میں عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ ناگورنو قرہباخ میں تاریخی طور پر آرمینیائی نسل کے ہی لوگ آباد ہیں جبکہ سوویت یونین میں یہ علاقہ آذربائیجان کا حصہ تھا مگر 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس علاقے میں مقیم آرمینیائی نسل کے لوگوں کا مطالبہ تھا کہ یا تو انہیں آرمینیا کا حصہ بنایا جائے یا پھر مکمل آزادی دی جائے۔ ناگورنو قرہباخ کے لوگوں کے اس مطالبے نے دونوں ممالک کے درمیان بدترین جنگ کا آغاز کر دیا جس میں 30 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے جبکہ 10 لاکھ لوگوں کو اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کرنا پڑی۔
1994ء میں دونوں ممالک کے درمیان روس کی ثالثی کے نتیجے میں جنگ کااختتام ہوا اور اس علاقے کو بین الاقوامی طور پر آذربائیجان کا حصہ ہی تسلیم کیا گیا مگر اس علاقے کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس رہا۔ جس کے باعث گزشتہ تین دہائیوں سے یہ علاقہ مسلسل کشیدگی کی زد میں رہا ہے۔ درحقیقت سوویت یونین کے ٹوٹ کر بکھرنے کا خمیازہ ان علاقوں میں بسنے والے لاکھوں غریب لوگ بھگتے پر مجبور ہیں۔
اپنی جغرافیائی حیثیت اور معدنی وسائل کی بدولت یہ خطہ مختلف سامراجی قوتوں کی لپیٹ میں رہا ہے جسے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہاں مختلف طریقوں سے علاقائی قوتیں اپنے سامراجی مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ تیل کے ذخائر سے مالامال آذربائیجان کے شمال میں روس، جنوب میں ایران اور مغرب میں آرمینیا موجود ہیں۔ جبکہ آرمینیا کے مغرب میں ترکی اور مشر ق میں آذربائیجان وجود رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ناگورنو قرہباخ پر کھڑے ہوئے موجودہ تنازعے میں روس اور ترکی کے براہ راست مفادات دیکھے جا سکتے ہیں۔
ترکی کے آذربائیجان کے ساتھ تاریخی طور پر نزدیکی تعلقات رہے ہیں۔ جب 1991ء میں آذربائیجان کا قیام عمل میں آیا اُس وقت ا س کی آزادی کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک ترکی تھا۔ جس کے بعد سے لے کر آج تک دونوں ممالک ہمیشہ سیاسی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ آذری قوم کے نسلی طور پر ترکوں کے نزدیک ہونے کے سبب ترکی نے اس اہم ملک کا اپنے سامراجی مقاصد کے لئے بھرپوراستعمال کیا ہے۔
جہاں امریکہ اور فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک منافقانہ طور اس حالیہ جنگ کے ”خاتمے“ کی بات کر رہے ہیں وہیں ترکی کھلے عام اسے بڑھاوا دے رہا ہے۔ ترکی کے سرکاری موقف نے حالیہ تنازع میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ چند روز قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اس نئے بحران میں آذربائیجان کی مکمل حمایت کا وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”آرمینیا علاقائی امن و امان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔“ اس نے مزید کہا کہ ”خطے میں تب تک امن نہیں قائم کیا جا سکتا جب تک آرمینیا ناگورنو قرہباخ سے پوری طرح دستبردار نہیں ہوجاتا۔“ یہاں تک کہ ترکی نے پہلے ہی اپنے جنگی ڈرون آذربائیجان کو مدد کے لئے بھیج دیئے ہیں جبکہ اردگان حکومت نے شام میں موجود ’کرائے کے قاتلوں‘ (Mercenaries) کو بھی آذربائیجان کی مدد کے لئے وہاں بھیج دیا ہے۔
دوسری طرف روس کے دونوں ممالک سے اچھے تعلقات ہونے کی بدولت وہ اس وقت تک محض مذاکرات پر ہی دباؤ دے رہا ہے اور دونوں حکومتوں سے ”بات چیت“ کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کا خواہش مند ہے۔ آرمینیا کے ساتھ اپنے دفاعی معاہدے ہونے کے باوجود بھی روس نے اس وقت تک کھل کر آرمینیا کے لئے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ بلکہ جو ہتھیار آذربائیجان ناگورنو قرہباخ کی عوام کے خلاف استعمال کر رہا ہے وہ ’روس‘ ہی کے مہیا کردہ ہیں۔ حالیہ واقعات پر ’روسی انٹرنیشنل افیئرز کاؤنسل‘کے سربراہ اینڈری کارٹنوف نے بھی ایک بیان میں کہا تھاکہ ”نا گورنو قرہباخ چونکہ آرمینیا کا حصہ نہیں ہے لہٰذا آذربائیجان وہاں جو چاہے کر سکتا ہے۔“
درحقیقت روس اس وقت خطے میں انتہائی منافقانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ ایک طرف آذربائیجان کو ہتھیار مہیا کیے جا رہے ہیں اور دوسری طرف نام نہاد ”امن“ اور ”جنگ بندی“ کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جا رہا ہے۔ آرمینیا میں اس وقت نکول پاشنیان کی حکومت ہے جو دراصل وہی آدمی ہے جس نے مغرب کے کہنے پر اپریل 2018ء میں روس کے حمایتی ’سرکسیان‘ کی حکومت کے خلاف ہوئے احتجاجوں کی قیادت کرتے ہوئے اُس کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ پیوٹن سے کسی بھی قسم کی امید رکھنے پر پاشنیان کو یقینا منہ کی ہی کھانی پڑے گی۔ یہ سارا عمل وقتی طور پر اس بات کا اظہار کر رہا ہے کہ روس فی الحال کسی جنگ کی طرف نہیں بڑھنا چاہتا اور وہ محض پہلے پاشنیان پر خوب دباؤ بڑھائے گا پھر چپکے سے اُس کے پیچھے جا کر کھڑا بھی ہو جائے گا تاکہ خطے میں اپنے سامراجی تسلط کو بھی قائم رکھ سکے۔
بظاہر ترکی اس صورتحال کا خوب فائدہ اٹھا رہا ہے اور وہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لئے خطے میں خود کو ایک بڑی جنگی طاقت کے طور پر نمودار کرنا چاہتا ہے مگر اس کا مطلب با لکل یہ نہیں سمجھا جائے کہ روس اسے اپنے علاقوں میں مکمل قبضہ کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ اکانومسٹ نے موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ”اب تک روس نے ترکی سے صرف جنگ بندی کی حمایت کرنے کو کہا ہے۔ روسی اس جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہتے اور توازن قائم کرتے ہوئے ثالث بننے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ لیکن آرمینیائی علاقے پر اگر وہ حملہ آور ہوتا ہے تو ان کے پاس آرمینیا کے دفاع کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔“ اکانومسٹ کے مطابق ”ترکی اور روس پہلے ہی لیبیا اور شام میں دو پراکسی جنگوں میں الجھے ہیں اور قفقاز میں اب تیسری جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے“۔
اپنے علاقائی سامراجی تسلط کو قائم رکھنا ہی آج دونوں ممالک کا شیوا ہے۔ جہاں یہ دونوں ملک لیبیا اور شام میں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں وہیں اس خونی کھیل کو جاری رکھنے میں یہ ایک دوسرے کے سب سے بڑے اتحادی بھی ہیں۔ ناگورنو قرہباخ کے معاملے پر ان دونوں ممالک کے حکمران اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے آذربائیجان اور آرمینیا کے حکمران طبقے کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں پر جنگی جنون مسلط کئے ہوئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں اطراف کے حکمران اس خطے پر اپنی اجارہ داری تو قائم کرنا چاہتے ہیں مگر جنگی جنون میں برباد ہوئی عوام کے زخموں پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ آذربائیجان ہو یا آرمینیا، ان دونوں ممالک کے حکمران طبقے قومی شاونزم کا زہر اُگل کر عوام کو حقیقی مسائل سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کوئی بڑی جنگ ہوتی بھی ہے تو اُس کا فائدہ محض وہاں کا سرمایہ دار طبقہ ہی اٹھائے گا اور مرنا صرف دونوں اطرف کے محنت کش عوام کو ہی پڑے گا۔ جن قومی مسائل کو روس کے انقلاب کی فتح نے ستر سال تک نہیں بھڑکنے دیا سرمایہ داری ان مسائل کو ابھار کر ہی اپنے وجود کو قائم رکھ کر بیٹھی ہے۔ انقلاب روس نے یہ حقیقی معنوں میں ثابت کیا تھا کہ ’قومی سوال آخری تجزیئے میں روٹی کا سوال ہے۔‘ جب عوام اس سوال پر فتح حاصل کر لیتے ہیں تو حقیقی معنوں میں خوشحالی انسانی سماج کا مقدر بنتی ہے۔
درحقیقت موجودہ تنازعات سوویت یونین میں سرمایہ داری کی واپسی اور اس میں پروان چڑھی ’قومی ریاستوں‘ کے رجعتی کردار کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کی طرح کورونا وبا کے بعد آذربائیجان اور آرمینیا کے عوام بھی انہی معاشی اور سماجی مسائل سے دوچار ہیں جن سے پوری دنیا کے محنت کش برباد ہو رہے ہیں۔ آرمینیا کے 35 فیصد لوگ صرف کورونا وبا کے بعد بیروزگار ہوئے ہیں۔ 29 لاکھ آبادی رکھنے والے اس چھوٹے سے ملک کی 54 فیصد عوام کا ماننا ہے کہ حالیہ وبا کے بعد ان کی معاشی زندگی مزید اجیرن ہو چکی ہے۔ دوسری طرف تیل کی دولت سے مالامال آذربائیجان تیل کی قیمتوں میں ہوئی عالمی کمی کے باعث پہلے ہی مشکلات میں تھا اور کورونا وبا نے اسے مزید برباد کر دیا۔ اس کی معیشت بحران کی زد میں ہے۔ رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی میں 30 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ اگست کے مہینے میں شائع ہوئی خزر یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وبا کی وجہ سے 13 لاکھ لوگ یہاں بیروزگار ہو چکے ہیں جو کہ اس کی کُل لیبر فورس کا 25 فیصد بنتا ہے۔
یہی سبب ہے کہ دونوں ریاستوں کے حکمران طبقات حالیہ تنازعے کو اپنے سیاسی مقاصد اور اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بظاہر چاہے حکمران طبقات اس صورتحال سے فائدہ اٹھارہے ہوں مگر لمبے عرصے تک یہ خونی کھیل جاری نہیں رہ سکتا اور حالات کسی بھی وقت کروٹ لے سکتے ہیں۔ موجودہ حالات یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ تنازعات سرمایہ داری میں رہتے ہوئے حل نہیں کیے جا سکتے کیونکہ منافع خوری پر مبنی اس نظام کو خود کو قائم رکھنے کے لئے ایسے کئی تنازعات کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے جو لوگوں کو رنگوں، نسلوں اور قوموں کے نام پر تقسیم کر کے ان کے استحصال کو شدید کر دیں۔ اس خونی کھیل کو شکست صرف دونوں اطراف کی محنت کش عوام کی اس نظام کے خلاف مشترکہ جدوجہدہی دے سکتی ہے۔