حارث قدیر

دنیا کے بلند و بالا پہاڑی خطے اور ماضی کے تاریخی تجارتی راستے پر بھارت اور چین کی افواج کے مابین جھڑپوں کے بعد ہزاروں کی تعداد میں دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ 1974ءکے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں فوجوں کے مابین گولی چلی ہے۔ 1994ءکے ایک معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے مابین بین الاقوامی اور غیر متعین شدہ سرحدوں پر تعینات افواج غیر مسلح کر دی گئی تھیں۔ چین اور انڈیا کے مابین 2520 میل لمبی سرحد میں سے 2100 میل سرحد غیر متعین ہے۔ جسے لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) کہا جاتا ہے۔ یہ سرحدمغرب میں ریاست جموں کشمیر کے علاقہ لداخ، شمال میں اترا کھنڈ اور ہماچل پردیش جبکہ مشرق میں سکم اور اروناچل پردیش تک پھیلی ہوئی ہے۔ 1962ءکی چین بھارت جنگ میں چین نے لداخ کے علاقے اقصائے چن پر 1952ءمیں کیے گئے قبضے کو مستقل کر لیا تھا۔ لیکن یہ جنگ بھی بغیر کسی معاہدے اور سرحد کے تعین کے ختم ہو گئی تھی۔ بعد ازاں 2003ءتک دونوں ملکوں کے مابین سرحدی تنازعہ کے خاتمے کےلئے کوششیں کی جاتی رہیں لیکن کوئی حتمی نتیجہ نہ نکل سکا۔

گزشتہ تین سال سے دونوں ملکوں کے مابین سرحدی تناﺅ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں سال جون کے وسط میں چینی فوج کی پیش قدمی اور بیس سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا اور دونوں ملکوں کی افواج ایک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئیں۔ تاہم اب دونوں اطراف برف پگھلنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ تاہم فوجیں بھاری ہتھیار وں کے ہمراہ ابھی بھی سرحدوں پرموجود ہیں۔

تین سال پہلے اس تنازعے کی ابتدا چین کی فوج کی جانب سے متنازعہ علاقے میں تعمیراتی کام رکوانے کی بھارتی کوشش سے ہوئی تھی۔ دونوں افواج کے مابین معمولی جھڑپوں کے باوجود چین نے وسیع پیمانے پر سڑکوں اور دیگر نوعیت کی تعمیرات کا عمل جاری رکھا۔ جس کے بعد بھارت کی جانب سے بھی وادی گلوان میں دریائے گلوان کے قریب سڑک کا تعمیراتی کام شروع کر دیا گیا تھا۔ خبروں کے مطابق چینی فوج نے تعمیراتی کام رکوانے کےلئے پیش قدمی کی اور جھڑپ کے دوران بیس سے زائد بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ چین نے اپنی فوج کو ہونے والے نقصانات سے متعلق کوئی خبر ظاہر نہیں کی۔ تاہم خبروں کے مطابق چین نے تقریباً ایک ہزار مربع میل کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ بھارت کی جانب سے چین پر جارحیت کا الزام عائد کیاگیا۔ لیکن چین کی طاقت کو دیکھتے ہوئے ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بھارتی حکومت نے کوئی سخت ردعمل دینے کی بجائے موبائل فون ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کرنے اور چینی مصنوعات کے بائیکاٹ جیسی بیان بازی سے زیادہ کچھ نہ کیا۔

لداخ متنازعہ ریاست جموں کشمیر کا مشرقی حصہ ہے۔ 37000مربع میل پر مشتمل یہ علاقہ قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے۔ 14000 مربع میل پر مشتمل لداخ کے علاقے اقصائے چن پر چین کا قبضہ ہے جبکہ باقی ماندہ لداخ کو گزشتہ سال اگست میں بھارت نے ایک یکطرفہ فیصلے کے بعد بھارتی یونین کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کر دیا تھا۔ وسیع و عریض پہاڑی خطے میں تین لاکھ کے لگ بھگ آبادی ہے۔ قدرتی وسائل اور سٹریٹجک اہمیت کے حوالے سے یہ خطہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ماضی میں وسطی ایشیا سے انڈیا تک کے تجارتی راستوں کے حوالے سے اس خطے کی اہمیت رہی ہے۔ جبکہ تبت پر چینی قبضے کو مستقل رکھنے اور سابقہ سلک روٹ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحفظ کے حوالے سے بھی اس خطے کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سونے اور دیگر بیش قیمت قدرتی وسائل سے مالا مال سابق ریاست تبت پر قبضے کو مستحکم کرنے اورسی پیک کے داخلی چینی صوبے سنکیانگ کے ساتھ تبت کے قریب ترین رابطے کےلئے لداخ کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تین لاکھ کی آبادی پرمشتمل لداخ کے علاقے میں بسنے والے انسان سامراجی جنگی جنون کے خوف میں مبتلا کر دیئے گئے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اوربدلتے عالمی توازن نے حکمران طبقات کو اس کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے کہ نہ تو وہ کوئی بڑی جنگ کر سکتے ہیں اور نہ ہی مستقل امن کی صورتحال کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ چین اور انڈیا میں جنگی جنون کو بھی ابھارا جا رہا ہے اور دوسری طرف باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بھارت سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی مخالفت بھی کر رہا ہے۔ جبکہ بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) منصوبے میں چین کے ساتھ شراکت دار بھی ہے۔ واضح رہے کہ اس منصوبہ میںچین، بھارت، میانمار اور بنگلہ دیش شامل ہونگے۔ دوسری جانب لداخ میں ہونے والی شکست کی خفت مٹانے کےلئے مودی حکومت نے چین کی موبائل ایپلی کیشنز پر تو پابندی لگائی اور چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان تو کیا گیا لیکن دونوںملکوںکے مابین باہمی تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ جس کو روکنے سے متعلق مودی حکومت نے کوئی بات نہیں کی۔ چین نے صرف گزشتہ مالی سال کے دوران بھارت میں آٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور مجموعی طور پر 800 چینی کمپنیوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ سمارٹ فون مینوفیکچرنگ سے لے کر آٹو موبائل انڈسٹری تک اور دیگر شعبہ جات میں چینی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

سرمائے کی گلوبلائزیشن نے ریاستوں کو اس قدر نحیف اور لاغر کر دیا ہے کہ سامراجی ریاستیں ایک دوسرے کےساتھ دست و گریباں اور جنگ کے دہانے پر بھی نظر آتی ہیں اور دوسری جانب سرمائے ہی کے تحفظ کی وجہ سے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بھی ہیں۔ امریکہ کے بھارت کے ساتھ تعلقات چین امریکہ تجارتی جنگ اور افغانستان سے امریکی انخلا کی راہ ہموار کرنے کےلئے اہمیت کے حامل ہیں لیکن دوسری طرف نہ تو بھارت مکمل طو رپر امریکہ پر انحصار کر سکتا ہے اور نہ ہی امریکہ چین کے ساتھ ایک مکمل سرد جنگ کی کیفیت میں جا سکتا ہے۔ اس لئے بظاہر یہ تند و تیز سفارتی بیان بازی کسی منڈی میں بیٹھے بیوپاریوں کی تکرار سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ جنگی ماحول بھی جاری ہے، بھوک اور افلاس کا راج بھی ہے، بیروزگاری، لاعلاجی اور جہالت کا عفریت بھی مسلط ہے، اربوں مفلوک الحال انسانوں کی بربادیوں کے عوض جاری جعلی دشمنیوں اور جنگوں کے ناٹک میں سامراجی اداروں اور حکمران طبقات کی لوٹ مار میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔

بھارت کے نیم فسطائی حکمران نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے نفاذ اور سامراجی لوٹ مار کی راہ ہموار کرنے کےلئے مذہبی بنیاد پرستی، قومی شاﺅنزم اور ہر طرح کے غیر انسانی جبر و استبداد کو روا رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف چین کی ریاست انسانی جمہوری آزادیوں پرقدغن لگا کر انسانوں کو مشینیں بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور خصوصی جیل خانوں کا سلسلہ سنکیانگ سے تبت تک پھیلا چکی ہے، جہاںانسانوں کو جیلوں میں مقید کر کے انہیں سامراجی مقاصد کی تکمیل کی مشینیں بنانے کے جبری عمل سے گزارا جا رہا ہے۔ بھارت سے پاکستان، چین اور امریکہ تک کے حکمران طبقات سامراجی کھلواڑ اور سفارتکاری کی منافقت کےلئے شہری، جمہوری اور مذہبی آزادیوں پرپابندیوں پر بیان بازی کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن عملی بنیادوں پر ہر خطے میں ہر طرح کی آزادیوںپر قدغن لگانے کا سلسلہ بھی بام عروج پر ہے۔

دو سال قبل ٹرمپ انتظامیہ نے چین کی مصنوعات پر 550 ارب ڈالر کے ٹیرف عائد کرتے ہوئے جس تجارتی جنگ کا آغاز کیاتھا اس کا انت رواں سال اگست میں فیز ون ٹریڈ ڈیل کی صورت میں ہوتا دکھائی دیا۔ اس دوران ہانگ کانگ میں چینی عزائم اور بنیادی شہری اور جمہوری آزادیوں پر قدغن کے خلاف امریکہ کی بیان بازی عروج پر تھی لیکن ٹریڈ ڈیل کے بعد امریکی سامراج کی نہ صرف ہانگ کانگ سے متعلق بیان بازی تبدیل ہوئی بلکہ یہ فیصلہ بھی ہو گیا کہ ہانگ کانگ سے امریکہ برآمد کی جانیوالی اشیا پر اگر ”میڈ ان چائنہ“ کی مہر نہ لگی ہوئی تو ان پر اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ اسی طرح کئی دہائیوں تک صدیوں پرانے انگریز کے بنائے گئے کالے قانون کے تحت جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے گلگت بلتستان کے باسیوں کے حقوق اور جمہوری آزادیاں چین کے سامراجی منصوبے کا اہم جزو ہونے کی وجہ سے اہمیت اختیار کر گئیں اور پے درپے صدارتی حکم ناموں کے تحت آئینی اور جمہوری حقوق کے نام پرایک کھلواڑ شروع کردیا گیا۔ امریکہ کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کی گزر گاہ کی وجہ سے اس علاقے کے متنازع ہونے کی ستر سال بعد خبر ملی اور امریکی اعتراض کے بعد چین کی سرمایہ کاری محفوظ کرنے کےلئے عبوری صوبہ بنائے جانے کےلئے اقدامات کا آغاز بھی حقوق کے نام پر ہی کیا جا رہا ہے۔ سیاسی نقشہ بازی میں بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر کے علاقوں کو تو پاکستان کا حصہ ظاہر کیا گیا لیکن اقصائے چن پر چین کے قبضے کو نہ صرف جائز قرار دیا گیا بلکہ لداخ اور چین کے مابین سرحد کو ”فرنٹیئر اَن آئیڈنٹیفائیڈ“ لکھ کر کھلا چھوڑ دیا گیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران طبقات اور سامراجی اداروں کے لئے منافعوں اور سرمائے کی آزادانہ نقل و حرکت کےلئے ہر غیر انسانی فعل قانونی، آئینی اور اخلاقی معیار پر پورا اترتا ہے۔ عام انسانوں کی زندگیوںاور ان کے مسائل سے حکمران طبقات کا دور کا واسطہ بھی موجود نہیں ہوتا۔

اسی طرح تجارتی راستے بھی سرمائے کے بہاﺅ اور سامراجی مفادات اور منافعوں کے تحفظ کےلئے ہی نہ صرف ترتیب دیئے جاتے ہیں بلکہ ان پر سودے بازیاں اور سرحدی تبدیلیاں تک کر دی جاتی ہیں۔ وسطی اشیا سے تاریخی سلک روٹ کو جوڑنے والا خطہ لداخ آج میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ لیکن بلتستان، اقصائے چن، لیہ اور کارگل پر مشتمل خطہ لداخ نہ صرف تبت، سنکیانگ، ہماچل، جموں، کشمیراور موجودہ پاکستان کو آپس میں ملاتا تھا بلکہ سلک روٹ کے ساتھ جڑے ہونے کی وجہ سے وسطی اشیا سے ہونیوالی تجارت کا اہم مرکز بھی رہا ہے۔ سامراجی مقاصد کے ہی تحت ساٹھ کی دہائی میں یہ تجارتی راستہ بند کر دیا گیا تھا۔ قبل ازیں برصغیر کی تقسیم، چین بھارت جنگ اور بعد ازاں 1999ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران نہ صرف اس خطے کے ٹکڑے کیے گئے بلکہ متعدد خاندانوں کو تقسیم کر دیا گیا۔ چند منٹوں کی دوری پر بسنے والے انسانوں کو اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کےلئے ہزاروںمیل کی مسافت اور حکمرانوں کی مصنوعی دشمنی کی شکار ویزہ پالیسی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم اور روزگار کی ناپید صورتحال سے دوچاربلند و بالا پہاڑوں اور شدید ترین موسموں کے حامل اس خطے کے باسی جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے کے باسیوں کو تبدیل ہوتے ہوئے عالمی حالات اور سامراجی مفادات و مقاصد کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔

موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے نہ تولداخ کو یونین ٹریٹری بنانے، تبت و لداخ کو چین کا قانونی حصہ بنانے یاگلگت بلتستان کو نیم یا مکمل آئینی صوبہ بنائے جانے سے اور نہ ہی سامراجی ریاستوں کے جنگی جنون میں کسی ایک کی فتح یا شکست سے لداخ، تبت، جموں کشمیر اور بالعموم برصغیر جنوب ایشیا کے محنت کشوں کی زندگیوںمیں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔ ہر دو صورتوں میں وسائل کی سامراجی لوٹ مار اور منافعوں کی ہوس کی تکمیل کی جائے گی۔ عام انسانوں کی زندگیوں کو مزید اجیرن اور تاراج کیا جائے گا۔ ماضی قریب کی تاریخ گواہ ہے کہ بحران زدہ سرمایہ دارانہ عہد میں لکیروں کے مصنوعی اور سامراجی تعین و تبدیلی سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہی ہوئے ہیں۔ لداخ سمیت گلگت بلتستان، جموں کشمیر اور تبت کی قومی اور طبقاتی محرومیوں کا حل نہ صرف ان مصنوعی لکیروں اور سامراجی قبضے کے خاتمے میں مضمر ہے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اس نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ سرمائے کے جبر اور استحصال کی ہر شکل کو شکست دینا ہو گی۔ یہ فریضہ اس خطے کے محنت کش اور عام انسان بھارت، پاکستان اور چین کے محنت کشوں کیساتھ طبقاتی جڑت قائم کرتے ہوئے ادا کر سکتے ہیں۔ مصنوعی لکیروں میں مقید سامراجی منافع خوری اور لوٹ مار کے شکار محنت کش جلد یا بدیر تاریخ کے میدان میں قدم رکھیں گے اوراگر ایک درست سائنسی بنیادوںپر تعمیر شدہ قیادت دستیاب ہوئی تو نہ صرف سامراجی لکیروں کا خاتمہ کیاجائےگا بلکہ اس خطے سے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو اکھاڑتے ہوئے تمام قومیتوں اور ثقافتوں پر مشتمل ایک رضاکارانہ فیڈریشن کی بنیاد رکھی جائے گی جو عالمی انقلاب کا نقطہ آغاز اور حقیقی انسانی زندگی کی ضامن ثابت ہوگی۔