سعید خاصخیلی
2015ء میں فرانسیسی اخبار ’چارلی ہیبڈو‘ کے ذریعے شائع ہونے والے گستاخانہ مواد کے خلاف احتجاج اور پھر اس اخبار کے دفتر کے باہر حملے میں پندرہ افراد کی ہلاکت عالمی سطح پر ایک بہت اہم واقعہ بن کر ابھرا۔ اب کچھ دن پہلے فرانس میں ایک ہائی اسکول کا استاد کلاس میں اظہار رائے کی آزادی کی وضاحت کے لئے انہی گستاخانہ خاکوں کا استعمال کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایک اٹھارہ سالہ مسلمان نوجوان کے ہاتھوں خنجر سے مارا جاتا ہے۔ جس کے بعد سے عالمی میڈیا میں واویلا مچا ہوا ہے۔ جاں بحق استاد کو فرانس میں اعلیٰ شہری اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ نام نہاد لبرل فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس استاد کو اس لئے ہلاک کیا گیا تھا کہ وہ (یعنی مسلمان) ہمارے مستقبل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم کارٹون بنانے سے گریز نہیں کریں گے۔ صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ اسلام پوری دنیا کے لئے ایک بحران ہے اور بنیاد پرست اسلام کا سخت مقابلہ کیا جائے گا۔ فرانس میں کچھ مساجد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور گرفتاریوں کا عمل جاری ہے۔ دوسری جانب ترکی نے فرانس سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔
امت مسلمہ کے خود ساختہ رہنما رجب طیب اردگان نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے (یہ الگ بات ہے کہ طیب اردگان کے اپنے ہاتھ معصوم شامی شہریوں اور کردوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں)۔ دونوں ممالک کے مابین کشیدہ ریمارکس کا تبادلہ ہوا ہے۔ اس کی اصل وجہ مشرق وسطیٰ اور آذربائیجان کی آرمینیا سے جنگ میں دونوں ممالک کے سامراجی مفادات کے مابین کشمکش ہے۔اس دوران پاکستانی حکمران بھی خوب بیان بازی کر رہے ہیں جن کے اپنے ملک میں اقلیتوں کی بری حالت ہے۔ فرانس کے صدر کے غیر ذمہ دارانہ بیان کے بعد مشرق وسطیٰ کے کچھ عرب ممالک نے بھی فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس بائیکاٹ کا فرانس کے اسلحے کی خریداری کے معاہدوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یمن کے خلاف جنگ کے دوران فرانسیسی ٹینک اور میزائل معمول کے مطابق استعمال ہوتے رہے ہیں۔ شام، لیبیا، یمن اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں جاری پراکسی جنگوں میں عرب ریاستوں اور فرانس کے مابین رجعتی اتحاد برقرار رہے گا۔ ماضی میں فرانس نے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے سعودی عرب، مصر، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسلحہ کے اہم معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ 2018ء میں سعودی عرب نے اپنے فرانسیسی اسلحہ کی خریداری میں پچاس فیصد اضافہ کیا ہے۔ لیکن عالمی کارپوریٹ میڈیا یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ شاید یہ تہذیبوں کا تصادم ہے۔ مغربی ممالک میں مسلمانوں اور اسلام کے خوف کو عوامی شعور پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ترکی سمیت عرب ریاستوں کے رد عمل کو ایک سنگین خطرے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
عالمی معاشی بحران اور فسطائی رجحانات کا ابھار
2008ء کا معاشی بحران یورپ اور امریکہ میں مالیاتی اداروں کے دیوالیہ کا سبب بنا۔ پورا نظام ایک معاشی بحران کا شکار ہو گیا جس کے نتیجے میں لاکھوں مزدوروں کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا۔ معاشی تنگ دستی نے جہاں نیو لبرل سرمایہ داری کے خلاف محنت کشوں کی تحریک کو جنم دیا وہیں بائیں بازو کی نئی جماعتیں اور رجحانات نصف صدی کے بعد دوبارہ ابھرنا شروع ہوئے۔ دوسری طرف دائیں بازو کے فسطائی رجحانات کا ابھار بھی ہوا۔ ان پارٹیوں نے نسلی اور لسانی نفرت کی آگ لگا کر سماج کی پسماندہ پرتوں میں اپنے پیر جمانا شروع کر دیئے۔ فرانسیسی نیشنل ریلی پارٹی کی رہنما میر لی پین نے تو اپنی پچھلے الیکشن کی مہم ہی تارکین وطن کو بے دخل کرنے، فرانسیسی مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پابندی عائد کرنے اور یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کے پروگرام پر چلائی اور چوبیس فیصد ووٹ حاصل کیے۔ جرمنی کی نیو فاشسٹ پارٹی ’اے ایف ڈی‘ گذشتہ انتخابات میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اسی طرح ’ووکس‘ سپین میں پارلیمنٹ کی تیسری بڑی جماعت بن چکی ہے۔ اٹلی میں لیگ آف نیشن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ سویڈن کی تارکین وطن مخالف نیو نازی جماعت سویڈن ڈیموکریٹس نے گذشتہ الیکشن میں سترہ فیصد ووٹ حاصل کیے۔ یونان کی تارکین وطن مخالف جماعت یونانی سالیسیٹر نے گذشتہ انتخابات میں دس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ گذشتہ ماہ تارکین وطن محنت کشوں پر حملے ثابت ہونے کے بعد یونان میں ایک نیو نازی گروپ گولڈن ڈان پر پابندی بھی عائد کردی گئی ہے۔ اسی طرح فن لینڈ، اسٹونیا، پولینڈ، جارجیا میں بھی تارکین وطن مخالف جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ چاہے چارلی ہیبڈو کے دفتر کے باہر ہونے والا حملہ ہو یا ابھی فرانسیسی استاد کا قتل، بین الاقوامی میڈیا اور خاص طور پر یورپی میڈیا اس پر بہت واویلا کرتا نظر آیا ہے۔ لیکن یورپی ممالک میں مقیم غیر یورپی افراد‘ چاہے وہ مسلمان، یہودی، افریقی یا ایشیائی ہوں،انہیں ہر روز امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نیو نازی اور فاشسٹ گروہوں کے ذریعہ ہراساں کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ واقعات کسی شہ سرخی کا حصہ نہیں بنتے۔ پچھلے پانچ سالوں میں یورپ کی صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔ پچھلے سال صرف جرمنی میں گیارہ سو تارکین وطن مزدوروں نے فاشسٹوں کی جانب سے ہراساں کرنے اور تشدد کی شکایات درج کروائیں۔ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ باقاعدہ منظم انداز میں یورپی میڈیا یورپ میں غیر ملکیوں اور خاص کر مسلمانوں کو یورپ کی ثقافت اور معیشت کے لئے خطرے کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یورپی میڈیا کے اس کردار کے پیچھے یورپ کا حکمران طبقہ ہے جو بیرونی لوگوں اور مسلم آبادی کے خلاف نفرت کو در اصل مزدور طبقے کی مزاحمت کو تقسیم کرنے اور روکنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ فاشسٹ پارٹیاں نہ صرف تارکین وطن مخالف ہیں بلکہ وہ عالمی سرمائے کی آزاد منڈی کی بھی مخالف ہیں۔ جو آگے چل کر یقینا ان حکمرانوں کے لئے سر درد کا باعث ہو گا۔
کیا مسلمان آبادی یورپ کے لئے خطرہ ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ یورپ میں مسلمان آبادی کا صرف پانچ فیصد ہیں۔ یہ تعداد کسی بھی طرح سے یورپی ثقافت کے لئے خطرہ نہیں ہے۔ ان میں اکثریت وہ لوگ ہیں جو تین چار نسلوں سے وہاں مقیم ہیں۔ روسی فیڈریشن کے تیس ملین مسلمان اس کے علاوہ ہیں۔ فرانس کے ساٹھ لاکھ مسلمان جو کہ فرانس کی آبادی کا آٹھ فیصد ہیں کا تعلق زیادہ تر شمالی افریقی ممالک سے ہے جو فرانس کی نوآبادیات رہے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کی مذہبی اقدار اور روایات کو نظرانداز کرنا کسی بھی صورت میں آزادی اظہار نہیں کہلا سکتا۔ یہ محض معاشرے کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سازش ہے۔
فرانسیسی صدر کا بیان ہے کہ ”بنیاد پرست اسلام“ سے لڑائی کی ضرورت ہے۔ لیکن بنیاد پرستی کو ابھارنا اور اسے پوری دنیا میں کمیونسٹوں کے خلاف استعمال کرناکس کی حکمت عملی رہی ہے؟ کیا آج بھی یورپ کی سامراجی طاقتیں امریکہ کے اتحادی بن کر مشرق وسطیٰ میں جہادی گروہوں کو پراکسی کے طور پر استعمال نہیں کرتی ہیں؟ جس وقت داعش عراق اور شام میں عام لوگوں کے گلے کاٹ رہی تھی اس وقت یورپ کے جہادی گروہ کسی بھی ریاستی رکاوٹ کے بغیر داعش کا حصہ نہیں بن رہے تھے؟ کیا یورپ کی مخصوص مساجد بغیر کسی رکاوٹ کے عراق، شام اور لیبیا کے جہادی گروہوں کی خدمت نہیں کرتی رہی ہیں؟ کیا عراق اور شام سے واپس آنے والے جہادیوں کو جنگی جرائم کی سزا دی گئی ہے؟ اب اگر یورپ میں کوئی دہشت گردی کا حملہ ہوتا ہے تو اس کا پہلا ذمہ دار یورپ اور امریکہ کا حکمران طبقہ ہی ہو گا۔
دوسرا بڑا الزام جو یورپی مسلمانوں اور تارکین وطن پر عائد کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ہماری یورپی ثقافت کو قبول نہیں کرتے اور الگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر تارکین وطن مزدوروں کے لئے صرف کمتر سمجھے جانے والے، مشکل اور خطرناک شعبوں میں ہی روزگار کے مواقع میسر ہیں۔ مقامی محنت کشوں کے مقابلے میں ان کی اجرتیں بہت کم ہیں۔ اگر کسی مقامی مزدور کو ایک گھنٹے کی اجرت دس یورو مل جاتی ہے تو پھر ایک تارکین وطن مزدور کو صرف دو یورو ادا کیے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں تارکین وطن مزدوروں کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی بہتر علاقے میں گھر حاصل کرسکیں، اپنے بچوں کے لئے بہتر تعلیم مہیا کرسکیں، جدید طرز کی زندگی گزارسکیں اور مغربی ثقافت کا حصہ بن سکیں۔
دائیں بازو کی پارٹیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہاجر مزدوروں کی وجہ سے وہ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ آزاد منڈی کی معیشت نے بڑی تعداد میں صنعتوں کو یورپ اور امریکہ سے سستی اجرت کے لئے تیسری دنیا میں منتقل کیا ہے جس کی وجہ سے پہلی دنیا کی معیشتوں میں بے روزگاری بڑھی اور مستقل روزگار کے مواقع کم ہوتے چلے گئے ہیں۔2008ء کے مالی بحران کے بعد سے ان ممالک کی معاشی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔ یہ تارکین وطن مزدوروں (جو افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی جنگی صورتحال سے خود کو بچا کر یورپ لائے) کی سستی مزدوری ہے جس نے صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں نکالا اور وہاں کے ہنر مند محنت کشوں کے لئے بھی روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جرمنی کے حکمرانوں نے 10 لاکھ سے زیادہ تارکین وطن کو محض انسانی بنیادوں پر ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے پیچھے معاشی فوائد تھے۔ اس سستے مزدور نے جرمنی کی معیشت کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔مختصر یہ کہ بیروزگاری یا کم اجرتوں کی وجہ تارکین وطن نہیں بلکہ منافع خوری کی بنیاد پر پیداوار کا یہ نظام ہے جسے سرمایہ داری کہا جاتا ہے۔
حل کیا ہے؟
جب بھی حکمران طبقے کا نظام بحران کی کیفیت میں آتا ہے اور زوال پذیر ہوتا تو اس کے خلاف ایک سرکشی جنم لیتی ہے۔ اس سرکشی اور بغاوت کو زائل کرنے اور معاشرے کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے حکمران‘ اقلیتوں کے خلاف تعصبات کو ابھارتے ہیں۔ ہندوستان ہو یا برازیل، امریکہ ہو یا یورپ… ہر جگہ ہم مذہبی اقلیتوں اور اقلیتی نسلی گروہوں کے خلاف تعصب میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ ”لڑاؤ اور حکمرانی کرو“ کا پرانا فارمولا ہے۔ گستاخانہ خاکوں سمیت ہر وہ حرکت جو محنت کشوں کو تقسیم کرے اور دونوں طرف کے بنیاد پرستوں کو اپنی فسطائی سیاست چمکانے کا موقع فراہم کرے‘ رجعتی اور قابل مذمت ہے جس کے خلاف جدوجہد کی جانی چاہئے۔ پوری دنیا کی انقلابی قوتوں کا یہ تاریخی فریضہ ہے کہ وہ حکمرانوں کی ان مکروہ سازشوں کو بے نقاب کرنے اور مزدوروں کی یکجا تحریک کو تحرک دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ محنت کش طبقے کی جڑت ہی فسطائیت اور بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتی ہے۔ بصورت دیگر حکمران طبقے کی پیدا کردہ رجعتی تفریقیں اور نفرتیں سماج کو بربریت کی طرف ہی لے جا سکتی ہیں۔