عمران کامیانہ
کسی بھی نظام کے حکمران خود کو کتنا ہی طاقتور کیوں نہ گمان کرنے لگیں‘ حالات و واقعات کی اپنی ہی منطق ہوتی ہے۔ جس کی تشکیل میں پھر اس سماجی نظام کی اپنی کیفیت کا فیصلہ کن کردار ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ حکمرانی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک ابھرتے اور ترقی کرتے ہوئے نظام کے پالیسی ساز زیادہ پراعتماد اور مستقبل میں زیادہ دور تک جھانکنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن جس نظام کا وقت گزر جائے اسے چلانے والے اگر زیادہ پراعتماد دِکھنے کی کوشش کریں تو ’ڈان کیخوٹے ‘ کے کرداروں کی طرح مسخرے بن کے رہ جاتے ہیں۔ اِن کی باتوں اور حرکتوں کا معروضی حالات سے تعلق ٹوٹتا چلا جاتا ہے۔ حالات کا جبر تاریخی طور پر متروک نظاموں کے نمائندوں کو زیادہ ہٹ دھرم، ڈھیٹ، رجعتی اور بیہودہ بنا دیتا ہے۔ ان کا جبر بھی خصی ہو کر کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے کی بجائے مزید ٹوٹ پھوٹ کا باعث ہی بنتا ہے۔ ایسے افراد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یا شاید معروضی حقائق کی انتہائی تلخی کے پیش نظر وہ دانستہ طور پر سوچنا اور سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک متروک نظام کے رکھوالے طبقات تعفن کے ایسے ماخذ میں بدل جاتے ہیں جو پورے سماج کو بدبودار کر دیتا ہے۔ آج اگر سرمایہ دارانہ دنیا کے حکمرانوں پر نظر دوڑائی جائی تو بالعموم یہی کیفیت نظر آتی ہے۔ وطن عزیز کے حکمران تو گویا اس سارے عمل کا مجسم اظہار ہیں۔
کورونا کی وبا نے جہاں ایک سماجی نظام کے طور پر سرمایہ داری کی تاریخی نااہلیت کو واضح کیا ہے وہاں اسے تاریخ کے بدترین معاشی بحران میں بھی دھکیل دیا ہے۔ لیکن کورونا‘ بحران کی وجہ نہیں ہے بلکہ اس نے پہلے سے جاری بحران میں عمل انگیز کا کردار ہی ادا کیا ہے۔ ہر طرف معیشتیں سکڑاﺅ سے دوچار ہیں۔ جس سے عالمی سطح پر بیروزگاری کئی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی کاروبار بڑے پیمانے پر چھانٹیاں کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2020ءمیں عالمی معیشت 4.4 فیصد سکڑے گی۔ اس حوالے سے یہ 1930ءکے بعد سے بدترین بحرانی صورتحال ہے۔ جاری سال کے دوران امریکہ کے جی ڈی پی میں 4.3 فیصد کی کمی واقع ہو گی جبکہ چین کی معیشت صرف 1.9 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ بعد کے عرصے میں معیشتیں اگر بحال ہوتی بھی ہیں تو خدشات ہیں کہ ختم ہونے والی بیشتر نوکریاں بحال نہیں ہو پائیں گی۔ اسی طرح وبا کے بہانے حکومتیں عوام کو حاصل سماجی آزادیوں اور معاشی سہولیات پر جو کٹوتیاں نافذ کر رہی ہیں وہ بھی مستقل نوعیت کی حامل ہوں گی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی معیشت، جو پہلے ہی گہری گراوٹ کا شکار ہو چکی تھی، کے بحران کو کورونا نے زیادہ شدید کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق جاری مالی سال میں معیشت صرف 1 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ جبکہ مہنگائی مزید اضافے کیساتھ 10 فیصد سے اوپر جا سکتی ہے۔ اسی طرح بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ یاد رہے کہ پاکستان کی معیشت پچھلے مالی سال کے دوران 0.4 فیصد سکڑ چکی ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی واضح کرتے رہے ہیں کہ یہ کم شرح نمو (عملاً معاشی سکڑاﺅ)، بلند افراطِ زر اور وسیع بیروزگاری کا انتہائی تکلیف دہ امتزاج ہے جسے بورژوا معیشت کی زبان میں ’سٹیگفلیشن‘ کہا جاتا ہے اور جس نے اس بدنصیب ملک کی اکثریتی آبادی کی زندگیوں کو تلخ تر کر دیا ہے۔ اور یہ کوئی وقتی یا عارضی مظہر نہیں ہے بلکہ آنے والے کئی سالوں تک معیشت اسی کیفیت سے دوچار رہ سکتی ہے۔ مثلاً آئی ایم ایف کی اسی رپورٹ کے مطابق 2025ءتک مہنگائی 8 فیصد سے زیادہ رہے گی۔ جبکہ اگلے صرف ایک سال کے دوران بیروزگاری میں مزید 13 فیصد اضافہ ہو گا۔
ورلڈ بینک کے تخمینے اس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں جن کے مطابق جاری مالی سال کے دوران ملکی معیشت صرف 0.5 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ جبکہ ورلڈ بینک کے ہی مطابق پچھلے مالی سال کے دوران معیشت 0.4 فیصد نہیں بلکہ 1.5 فیصد سکڑی ہے۔ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ آنے والے عرصے میں مالی خسارہ بڑھے گا اور قرضوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ ملکی معیشت پر قرضوں کا حجم پہلے ہی خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ ’انسٹیٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز‘(آئی پی آر) کے نام سے کام کرنے والے ایک تھنک ٹینک، جس کے سربراہ تحریک انصاف ہی کے ایک رہنما ہمایوں اختر ہیں، کے مطابق ملک ایک بار پھر قرضے کے گھن چکر میں پھنس چکا ہے اور حکومت پچھلا قرضہ اتارنے کے لئے مزید قرضہ لے رہی ہے۔ انسٹیٹیوٹ کے مطابق ”ملکی قرضہ اور اس پر سود کی ادائیگی تشویش کا باعث ہے۔“ صرف پچھلے مالی سال کے دوران ملکی قرضوں اور واجبات میں 4.3 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ گزشتہ دو سالوں کے دوران قرضوں اور واجبات میں 14.7 ہزار ارب روپے کا ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ملکی قرضے اور واجبات 44.5 ہزار ارب روپے کے ہجم کے ساتھ جی ڈی پی کے 107 فیصد سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ان میں سے بیرونی قرضے اور واجبات، جو 2018ءکے آخر میں 95 ارب ڈالر تھے، گزشتہ مالی سال کے آخر تک 113ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ بیرونی قرضے اور واجبات 2013ءمیں جی ڈی پی کے 25 فیصد کے مساوی تھے۔ 2018ءمیں یہ 30 فیصد کی سطح پر کھڑے تھے۔ اس وقت یہ جی ڈی پی کا 45 فیصد ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2021ءکے آخر تک بیرونی قرضے پر سود کی ادائیگی زرِ مبادلہ کے ذخائر کے 102 فیصد تک ہو جائے گی۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب روپے کی قدر میں کمی معاشی بحالی کا نسخہ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ لیکن موجودہ حکومت کے تحت ملکی کرنسی کی قدر میں 39 فیصد کمی کے باوجود برآمدات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو پایا ہے۔ جولائی تا ستمبر تجارتی خسارہ، جو پچھلے مالی سال کے دوران 5.7 ارب ڈالر تھا، جاری مالی سال کے دوران بڑھ کے 5.8 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ ملکی برآمدات گزشتہ لمبے عرصے سے 2 ارب ڈالر ماہانہ کی اوسط پہ کھڑی ہیں اور کرنسی کی قدر میں بڑی گراوٹ کے باوجود میں ان میں اضافہ نہیں ہو پایا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ گندم اور چینی، جو کچھ عرصے پہلے تک برآمد کی جا رہی تھیں، اب درآمد کی جا رہی ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو روپے کی قدر میں کمی کا ملکی معیشت کو فائدے سے زیادہ نقصان ہی ہوا ہے۔ بلکہ نظام کو ٹھیک کرنے کا یہ سارا پراجیکٹ ہی نامراد ثابت ہوا ہے جس نے مسائل کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ کرنٹ اکاﺅنٹ کے جس سرپلس پر حکومتی حلقے خوب شادیانے بجا رہے ہیں اس کی وجہ ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہے جو ایک وقتی مظہر ہے اور عالمی معیشت کے بڑھتے ہوئے بحران کیساتھ اپنے الٹ میں بدل سکتا ہے۔ اسی طرح ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کی وجہ روپے کی قدر میں اضافہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر ڈالر کی قدر میں کمی ہے۔
ان حالات میں کروڑوں محنت کشوں کی معاشی مشکلات دوہری تہری ہو چکی ہیں۔ حتیٰ کہ ایک لمبے عرصے کے بعد مڈل کلاس تنگی کا شکار ہے اور اس کی کھپت گرتی جا رہی ہے۔ جس سے پورا معاشی سائیکل تعطل کا شکار ہو رہا ہے۔ مہنگائی عام لوگوں کے لئے ایک سنجیدہ اور سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ بالخصوص خوراک کی مہنگائی نے لاکھوں محنت کش خاندانوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ پچھلے سال اگست کے بعد سے غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی شرح شہری علاقوں میں 10 تا 19 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 12 تا 23 فیصد رہی ہے۔ خوراک کی یہ ڈبل ڈِجٹ مہنگائی پہلے سے غذائی قلت کی شکار وسیع آبادی‘ بالخصوص بچوں کے لئے مزید تنگی اور بیماری‘ بلکہ موت کا پیغام ہے۔ پھل کھانے کے بارے میں غریب آدمی تو پہلے بھی سوچ نہیں سکتا تھا لیکن اب تو درمیانے طبقے کے لئے بھی ان کی خریداری انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔ اور یہ مہنگائی کوئی انتظامی مسئلہ نہیں ہے جسے ’ٹائیگر فورس‘جیسے کسی لمپن گروہ کے ذریعے قابو کر لیا جائے بلکہ یہ معیشت میں بلند افراطِ زر کے رجحان کیساتھ منسلک ہے۔ ابھی آئی ایم ایف بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کے لئے دباﺅ ڈال رہا ہے۔ جس سے نہ صرف مہنگائی مزید بڑھے گی بلکہ اشیا کی پیداواری لاگت میں اضافے سے برآمدات میں بھی کمی واقع ہو گی۔ اسی طرح سرکاری شعبے میں چھانٹیوں کا عمل جاری ہے جس میں آنے والے دنوں میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ مثلاً پنجاب میں 50 ہزار کنٹریکٹ اساتذہ کو فارغ کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ اسی طرح کے اقدامات دیگر محکموں میں کرنے کے لئے پَر تولے جا رہے ہیں۔ جس سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ علاوہ ازیں عمران خان سمیت حکومتی وزرا واضح بیانات دے رہے ہیں کہ پنشن کے اخراجات حکومتی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے اور آئندہ سرکاری شعبے میں صرف کچی نوکریاں ہی دی جائیں گی۔ دوسرے الفاظ میں سرکاری شعبے کے محنت کشوں کو حاصل مستقل روزگار کی ضمانت اور پنشن جیسی سہولیات اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔
ان حالات میں حکمران طبقے کی سیاست دیکھیں تو عوام کے ان انتہائی تکلیف دہ، زندگیوں کو جہنم بنا دینے اور مسلسل بڑھتے جانے والے معاشی مسائل کیساتھ اس کا دور دور تک کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ نام نہاد ’پی ڈی ایم‘ اور حکومت کے درمیان جاری لڑائی میں اگر بیروزگاری، مہنگائی اور غربت جیسے لوگوں کے سلگتے ہوئے مسائل کا ذکر کبھی ہوتا بھی ہے تو وہ بھی انتہائی واجبی اور فروعی انداز میں اور ثانوی مسائل کے طور پر کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکمرانوں کی کھینچا تانی سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا ہے اور درست تناظر کی تشکیل کے لئے اس عمل کا مشاہدہ اور تجزیہ ضروری ہے۔ حکمران طبقات کے بیشتر آپسی لڑائیوں کی طرح بنیادی طور پر یہ حصہ داری کی لڑائی ہے جو اِس نظام کو چلانے کے دو مختلف طریقوں کے تضاد کے طور پر اپنا اظہار کر رہی ہے۔ اس حوالے سے کئی نکات قابلِ غور ہیں۔ اس سارے کھیل (یا کھلواڑ) میں زیادہ دلچسپی اور شمولیت مڈل کلاس کی مختلف پرتوں کی ہے۔ بحیثیت مجموعی محنت کش طبقہ عملی طور پر اس سے لاتعلق ہے۔ وسیع تر عوام کی بھی اس ساری لڑائی میں کوئی عملی شمولیت موجود نہیں ہے۔ لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے دیکھ ضرور رہی ہے اور بالخصوص موجودہ حکومت کے انتہائی تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد کسی واضح متبادل کی عدم موجودگی میں نواز شریف کے رجحان کیساتھ کسی حد تک ہمدردی رکھتی ہے (اس کا کسی حد تک اظہار پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ جلسے میں بھی ہوا ہے جو بنیادی طور پر نواز لیگ کا جلسہ تھا)۔ اس میں کاروباری پیٹی بورژوازی کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ تاہم مجہول ہمدردی اور متحرک حمایت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ویسے بھی پیٹی بورژوازی سے کسی بڑی اور موثر مزاحمتی تحریک کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ لیکن اب نوکری پیشہ مڈل کلاس میں بھی حکومت سے بیزاری خاصی بڑھ گئی ہے جو اپوزیشن کو کم از کم اس لحاظ سے فائدہ دے رہی ہے کہ تحریک انصاف اپنے ان روایتی حمایتی حلقوں کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکی ہے۔ سب سے بڑھ اِس حکومت کو جس طرح لایا گیا ہے اور جس انداز سے مسلط رکھا جا رہا ہے‘ عوام اس سے ہرگز بے خبر نہیں ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کی ناکامی اور بدنامی نے مقتدر حلقوں کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ ریاستی اداروں سے متعلق جو باتیں کبھی مخصوص لبرل یا ترقی پسند حلقوں میں ہوا کرتی تھیں‘ آج عام لوگ کر رہے ہیں۔ ایک نیم پوشیدہ شکل میں ریاستی جبر اگر آج مار شل لاﺅں سے بھی تجاوز کر گیا ہے تو ریاستی اداروں کی مقبولیت بھی شاید تاریخ کی کم ترین سطح تک پہنچ چکی ہے۔ جس سے یہ قوتیں زیادہ چڑچڑی اور جابر ہو گئی ہیں۔ لیکن اس جبر کی بھی حدود ہیں جس سے آگے پھر مزاحتمی رجحانات پنپنے لگتے ہیں۔ پالیسی ساز اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔ تاہم ان مقتدر حلقوں کی مداخلت بالخصوص معاشی حوالے سے سماج کے ہر شعبے میں جس حد تک بڑھ چکی ہے اس کے پیش نظر اپنے تسلط کو برقرار رکھنا ان کے لئے زندگی موت کا معاملہ ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس انداز سے نظام کو چلانا اب ممکن نہیں رہا ہے۔یہ حقیقت موجودہ حکومتی سیٹ اپ کی ناکامی میں اب عنصر کے طور پہ شامل ہے۔ دوسری طرف یہ اپوزیشن جماعتوں‘ بالخصوص نواز لیگ کے بھی سیاسی اور مالیاتی وجود کا سوال ہے۔ نواز شریف حکمران طبقے کے اس حصے کی نمائندگی کرتا ہے جن کا مالی مفاد ریاستی اداروں کے کردار کو ایک مخصوص حد میں مقید کرنے سے جڑا ہے۔ اسی لئے وہ سویلین بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے نعرے لگا رہا ہے۔ اگر پچھلے کچھ مہینوں کی پیش رفت پر غور کریں تو نواز شریف بڑے محتاط لیکن بتدریج انداز میں ایک کے بعد دوسری ’حد‘ کو عبور کرتا چلا گیا ہے۔ اس کی حالیہ تقاریر اشتعال انگیزی کی حدوں کو چھو رہی تھیں۔ اسی قسم کی ’سرکشی‘ مریم نواز نے کوئٹہ جلسے میں بھی کی ہے۔جہاں اس نے جبری گمشدگی جیسے ممنوعہ موضوع پر بات کی۔ اسی طرح وہ لاہور میں سراپا احتجاج بلوچ طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے بھی پہنچ گئی۔ یہ سب بے سبب نہیں ہے بلکہ دباﺅ بڑھانا مقصود ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں سرکاری سنسر شپ بھی بڑی حد تک غیر موثر ہو کر رہ گئی ہے۔ اس حوالے سے یہ تقاریر سوشل میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر موضوعِ بحث بنی ہیں جو ریاستی پالیسی سازوں کے لئے باعث تشویش ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ بھی ہے کہ نواز شریف کا دھڑا یہ سب کچھ اپنے طاقتور مخالفین کو پچھاڑنے کے لئے کر رہا ہے یا کسی مخصوص مقام پر مطلوبہ حصہ داری کیساتھ مفاہمت مقصود ہے۔ موخرالذکر صورت کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ ان قوتوں کو حتمی طور پر پچھاڑنے کی صلاحیت کا بھی فقدان ہے اور ان کے بغیر نواز شریف اور اس کے طبقے کا گزارہ بھی نہیں ہے۔ فی الوقت دونوں اطراف میں سے کوئی بھی نہ تو پیچھے ہٹنے کو تیار ہے‘ نہ فیصلہ کن طور پر دوسرے کو مات دینے کے قابل نظر آتا ہے۔ اس لئے لڑائی طوالت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس کا پرتشدد رُخ اختیار کر جانا خارج از امکان نہیں ہے۔ اس حکومت کو لانے اور چلانے والے اپنی فرسٹریشن میں بڑے کریک ڈاﺅن کی طرف جا سکتے ہیں جس سے حالات زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔ ن لیگ میں توڑ پھوڑ کی واردات بھی آگے بڑھائی جا سکتی ہے جس کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ لیکن نواز شریف کے پاس مزید پیچھے ہٹنے کی گنجائش بہت کم ہے۔ کم و بیش یہی کیفیت مولوی فضل الرحمان کی ہے جسے گزشتہ انتخابات میں بالکل ہی فارغ کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن کے کسی حصے کو ’راضی‘ کر کے پی ڈی ایم میں پھوٹ بھی ڈلوائی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کا کردار خاصا متزلزل ہے جس کی بڑی کمزوری سندھ حکومت ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی نواز شریف کا عنصر بدستور موجود رہے گا اور اِس سیٹ اپ کے لیے مشکلات کھڑی کرتا رہے گا۔ دوسری طرف ایسے حالات جو پورے نظام کو ہی خطرے ڈال دیں‘ ریاستی پالیسی سازوں میں بھی پھوٹ کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس صورت میں یہ خارج از امکان نہیں ہے کہ موجودہ حکومتی سیٹ اپ کا بوریا بستر گول کر کے یا اس میں موافق تبدیلیاں کر کے از سرِ نو مفاہمت کی راہ ہموار کی جائے۔ پی ڈی ایم‘ جلسوں کے بعد آنے والے دِنوں میں زیادہ جارحانہ اقدامات کی طرف بھی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد کی طرف مارچ اور بڑے دھرنے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ جس کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار پھر اس بات پہ ہو گا کہ یہ کتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو متحرک کر پاتے ہیں۔ عین ممکن ہے ایسے اقدامات میں اشتعال انگیزی کا عنصر دانستہ طور پر شامل کر کے حکومت کو کوئی جارحانہ ردِ عمل دینے پر مجبور کیا جائے۔ جس کے پھر اپنے مضمرات ہوں گے جن کا سرسری جائزہ پہلے لیا جا چکا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ کشمکش مختصر عرصے میں کسی فیصلہ کن انجام تک پہنچ جائے۔ بلکہ اگلے کئی مہینوں تک یہ لفظی اور سیاسی دھینگا مشتی جاری رہ سکتی ہے۔ پاکستان جیسے پیچیدہ سماجوں میں کئی طرح کے ممکنات موجود ہیں۔ بیشمار ملکی و عالمی عوامل کارفرما ہیں۔ سامراجی طاقتوں کی مداخلت اور چپقلش کا اپنا کردار ہے۔ ایسے حالات میں مشروط پیشین گوئی ہی کی جا سکتی ہے۔ لیکن محنت کش طبقے کے لئے اس سب کے کیا معانی ہیں؟ کیا پی ڈی ایم یا نواز شریف کے پاس اس نظام کے متبادل کوئی نظریہ، پروگرام اور لائحہ عمل ہے جو بھوک، بیروزگاری، بیماری اور مہنگائی سے محنت کشوں کی نجات کا پیغام بن سکے؟ جواب واضح طور پر نفی میں ہے۔ اس لڑائی میں دونوں اطراف کا معاشی پروگرام عملاً ایک ہے۔ سب آئی ایم ایف کے تابع ہیں اور اپنے اپنے وقتوں میں انہی استحصالی اداروں کی پالیسیوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اگر غور کریں تو یہ لڑائی اِس نظام کو بدلنے کے لئے نہیں بلکہ بچانے اور چلانے کے لئے ہے۔ محنت کشوں کے لئے اِس حکمران سیاست میں کوئی راہِ نجات نہیں ہے۔ انہیں اپنی سیاست کرنا ہو گی۔ جو ان کے طبقاتی مفادات کی نمائندگی کرے۔ اسلام آباد میں درجنوں سرکاری اداروں کے محنت کشوں کا مشترکہ احتجاج اس سلسلے میں ابتدائی لیکن اہم پیش رفت ہے۔ سوشلسٹ انقلاب اسی سیاست کو اس کی معراج تک لے کے جائے گا۔ محنت کش طبقہ نظام کو بچانے کی نہیں اکھاڑنے کی لڑائی لڑے گا۔