احسن جعفری

جب انسان کو اپنے اطراف میں موجود مظاہر کی طرف توجہ دینے کا وقت ملا تو اس نے ان مظاہر کی توجیہہ کے لئے مختلف طرح کے مفروضے بنانا شروع کیے۔ مذہب اور فلسفے کی ابتدا انہیں مظاہر فطرت کی توجیہہ کی جانب پہلا قدم تھا۔ کافی زمانوں کے بعد جب مادے کو مقدم جان کر مظاہر فطرت کی توجیہہ کی گئی تو جدید سائنس کی بنیاد پڑی۔ سائنسدانوں نے ہر ہر مظہر فطرت کی مادی تشریح کرنا شروع کی۔ یہاں تک کہ زندگی اور زندہ اجسام سے ہوتی ہوئی بات انسان تک آ پہنچی۔ چارلس ڈارون نے زندگی کی مادی بنیادیں تلاش کیں تو بہت سے فکری نظاموں کی بنیادوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا جس کی وجہ سے اُس بے چارے کو آج تک ملعون و مطعون گردانا جاتا ہے۔ جب ہر مظہر کی توجیہہ مادی بنیادوں پر کی جا رہی تھی تو ایسے میں کارل مارکس نے ایک اہم اور قدرے پیچیدہ مظہر کے ارتقا کی مادی بنیادیں ڈھونڈنے کا قصد کیا اور اس میں کامیاب ہوا اور وہ مظہر تھا انسانی سماج۔

فطرت کو سمجھنے میں جو سب سے اہم بات سائنسدانوں کو معلوم ہوئی وہ تھی مادے میں مسلسل تبدیلی اور حرکت کا عمل جو ہر گھڑی اور ہر آن جاری و ساری ہے۔ جہاں کچھ بڑا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہوتا وہاں بھی انتہائی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں مسلسل ہو رہی ہوتی ہیں اور یہ چھوٹی چھوٹی اور مسلسل تبدیلیاں ایک بڑی تبدیلی کو جنم دیتی ہیں۔ ایک ایسا لمحہ یا لمحے کا ہزارواں یا اربواں حصہ آتا ہے جہاں یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کسی بڑی اور فیصلہ کن تبدیلی کا پیش خیمہ بنتی ہیں اوریہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی ناگزیر بھی ہوتی ہے اور اس کی کوئی اخلاقیات بھی نہیں ہوتیں۔ اسی کو ہیگل نے اپنے فلسفے میں حادثوں کے ناگزیر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا۔

کارل مارکس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلے انسانی سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کی ٹھوس مادی بنیادیں تلاش کیں اور سماجی ارتقا کے مادی قوانین اخذ کیے۔ بقول اینگلز یہ مارکس ہی تھا جس نے بہت زیادہ مغز ماری کے نیچے دبی ہوئی سادہ حقیقت کا ادراک کیا کہ آرٹ، مذہب، سائنس اور کلچر پر سوچنے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان کا پیٹ بھرا ہو، وہ ملبوس ہو اور اس کے پاس سر چھپانے کے لئے جگہ ہو۔ مارکس نے سماج میں ہونے والی فیصلہ کن تبدیلی، کہ جس کے ذریعے پورا سماجی نظام تبدیل ہو جائے، کے لئے انقلاب کا لفظ استعمال کیا اور بتایا کہ کس طرح انقلابات سماج کو کھینچ کر یکدم آگے کی طرف لے جاتے ہیں۔ اسی لئے اُس نے انقلابات کو تاریخ کے انجن کہا۔ اس نے بتایا کہ قدیم اشتراکی سماجوں کو چھوڑ کے انسانی سماج کی تاریخ دراصل طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ انسانی سماج کا ہر معاشی نظام ایک نہج پر پہنچ کر سماج کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ نظام مرتا چلا جاتا ہے جس سے سماج میں بحران پیدا ہوتا ہے۔ بحران تحریکوں کو جنم دیتا ہے اور تحریکیں انقلابات کی جانب قدم بڑھاکر پرانے معاشی نظام کو اکھاڑ پھینکتی ہیں اور یہ ہی سرمایہ دارنہ نظام کے ساتھ بھی ہونا ہے۔ مارکس نے جہاں ماضی میں انسانی سماج کی تبدیلیوں کے ماخذ ڈھونڈ نکالے وہیں پہ اس نے اپنے عہد کے سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل اور جامع تجزیہ بھی پیش کیا اور بتایا کہ اس سماج میں ہونے والی تبدیلیاں اور نظام کی بنیاد میں موجود تضاد کس طرح بحرانوں کو جنم دیں گے اور بحران تحریکوں کو۔ لیکن اس نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ طبقات سے پاک سماج کو تشکیل دینے کے لئے جس جدوجہد کی ضرورت تھی وہ اس جدوجہد کا حصہ بھی بنا اور اس نے وہ سائنسی فریم ورک بنایا جس کی بنیاد پر آئندہ کا غیر طبقاتی سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

مادی بنیادوں پر فطرت کو سمجھنے کی کاوشوں کا آغاز ایک ایسے انسانی سماج میں ہوا جو ہزاروں سال سے طبقاتی تقسیم کا شکار ہو نے کی وجہ سے صنفی اور نوعی جکڑ بندیوں سے آلودہ تو تھا ہی‘ ساتھ ہی سرمایہ دارانہ صنعتی انقلاب نے اسے منافع کی ہوس کا شکار کر دیا تھا۔ ان جکڑ بندیوں اور منافع کی ہوس کی بنیاد پر ایک ایسا فکری نظام معرضِ وجود آتا چلا گیا کہ جس نے ایک طبقے کو دوسرے سے برتر بتایا، ایک صنف کو دوسری سے برتر جانا اور ایک خاص نوع (کہ جس کو انسان کہا جاتا ہے) کو تمام فطرت سے علیحدہ اور اعلیٰ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اسی طبقاتی سماج میں بیشتر علوم کی بنیادیں رکھی گئیں اور عقل و شعور کے دریچے وا کئے گئے۔ اسی لئے زبان و بیان سے لے کر اخلاقیات تک سب پر طبقاتی رنگ چڑھا ہوا نظر آتا ہے۔ مذہب سے لے کر ادب و فن تک سب طبقاتی سماج کی جکڑ بندیوں میں گھرے ہوئے نظر آئے۔ انسانی رویوں اور جذبات کے اظہار میں بھی بالا دست طبقے اور بالا دست صنف کو ہی جذبات کا محور مان کر انسانی رویوں اور نفسیات کی تشریح کی گئی۔ تو پھر طبقاتی سماج کی جکڑ بندیوں سے سائنس کو استثنا کیسے مل جاتا؟ جب سائنس نے فطرت کو سمجھنا شروع کیا اور فطرت سے فیض حاصل کرنے کا وقت آیا تو طبقاتی نظام صد سکندری کی طرح راہ میں حائل ہوگیا اور سائنس سے تمام انسانیت کے لئے فیوض برکات لینے کے بجائے چند افراد کے منافع سمیٹنے کا کام لیا جانے لگا۔ اس ”غیرفطری“ نظام نے فطری قوانین کو سمجھ کرفطرت سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے فطرت کو برباد کرنے اور فطرت سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ایک اندھی دوڑ شروع کر دی جس کے اختتام کی ہولناکی کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔

کسی فلسفی کا کہنا تھا کہ توازن ہی اصل حُسن ہے لیکن طبقاتی تفریق پر مبنی نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ توازن کو بگاڑ کر حسن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ حسن جز وقتی ہوتا ہے اور کچھ ہی عرصے بعد کسی بہت ہی غلیظ اور مکروہ صورت میں ڈھل جاتا ہے۔ ہزاروں سال کی طبقاتی تفریق اور سرمایہ دارانہ نظام کے منافع کی ہوس نے انسانی نفسیات اور شعور پر ایسے اثرات مرتب کیے ہیں جو سماجی انتشار کو مسلسل بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ بات اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ دو اور تین سال کے بچے اور بچیوں کا ریپ ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ اس سیارے پر شاید انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو اس قدر قبیح فعل سر انجام دے رہی ہے۔ ورنہ بچوں کے ساتھ جنسی عمل کسی جانور میں بھی نہیں پایا جاتا۔ معاشی انتشار کا یہ حال ہے کہ ایک طرف دولت کے انبار لگ رہے ہیں تو دوسری طرف غربت کے ڈھیر۔ جنوری 2020ء میں آکسفیم کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 2153 ارب پتی افراد کے پاس 4.6 ارب انسانوں (جو کل آبادی کا 60 فیصدبنتے ہیں) سے زیادہ دولت ہے۔ منافع کی ہوس میں زمین کی دولت کو بے دریغ لوٹا جا رہا ہے اور زمین کو پامال کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ماحولیاتی انتشار بھی اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ آئے دن طوفان، زلزلے، بے موسم اور بے تحاشہ بارشیں، خشک سالی، سیلاب اور جنگلوں کی آگ نے ایک قہر مچا رکھا ہے۔ منافع کی ہوس میں آدھی سے زیادہ دنیا سامراجی جنگوں کا ایندھن بننے کے بعد تاراج ہو چکی ہے۔ براعظم افریقہ جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے میں غربت ختم ہی نہیں ہو پا رہی جبکہ وہا ں پایا جانے والا کوبالٹ دنیا کے مہنگے ترین اسمارٹ فونوں کو توانائی فراہم کر رہا ہے۔ دوسری طرف اسی کوبالٹ کو حاصل کرنے کے لئے بچوں سے انتہائی غیر انسانی مشقت لی جا رہی ہے اور وہ بھی نام نہاد مہذب اقوام کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی کر رہی ہیں۔

طبقاتی تفریق پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام انسانی سماج کو ایک دوراہے پر لے آیا ہے جہاں بقول اینگلز انسانیت کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں: بربریت یا سوشلزم۔ اور یہ سوشلسٹ سماج ایک انقلابی جراحی کے بغیر کسی صورت معرضِ وجود میں نہیں آ سکتا۔