حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کی اسمبلی کے انتخابات رواں ماہ 15 نومبر کو منعقد ہو رہے ہیں۔ گلگت بلتستان اسمبلی کی کل 33 نشستیں ہیں جن میں سے 24 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں۔ جبکہ چھ نشستیں خواتین کےلئے اور تین ٹیکنوکریٹس کےلئے مخصوص ہوتی ہیں۔ 15 نومبر کو 23 نشستوں پر جبکہ 22 نومبر کو ایک نشست پر انتخابات کا عمل مکمل ہو گا۔ تاہم 23 نشستوں پر انتخابات کےلئے 330 امیدواران مد مقابل ہیں۔ سات جماعتوں کے امیدواران کے علاوہ ایک بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی صورت میں انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے علاوہ کوئی بھی جماعت تمام حلقوں سے اپنے امیدواران کو ٹکٹ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ حکمران جماعت تحریک انصاف کے بھی نصف کے قریب امیدواران ایسے ہیں جو حال ہی میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے تحریک انصاف میں آئے ہیں۔ خطے کی مقامی جماعتوں سمیت فرقہ وارانہ تنظیمیں بھی تمام حلقوں میں اپنی رسائی نہیں رکھتیں۔

مجموعی طور پر یہ علاقہ بلتستان، چلاس، گلگت، استور اور ہنزہ میں تقسیم نظر آتا ہے۔ لیکن یہ تقسیم و تفریق اس سے بھی کہیں زیادہ گہری ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جہاں اس خطے کا دشوار گزار پہاڑی سلسلے پر مبنی ہونا ہے وہیں مختلف نسلوں، زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی آبادیوں کا ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہونا بھی ہے۔ ایک پہلو ریاست اور مختلف سامراجی ایجنسیوں کی مداخلت کے ذریعے اس تقسیم و تفریق کو مزید بڑھاوا دینے کی سنجیدہ کوشش بھی ہے۔ ریاست اور حکمران طبقات دشوار گزار پہاڑی علاقے کی مختلف آبادیوں کو انفراسٹرکچر کی تعمیر اور معاشی و سماجی ترقی کے ذریعے ہم آہنگ کرنے میں بھی مکمل ناکام رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ آبادیاں ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہ ہو سکیں۔ پندرہ لاکھ آبادی والے اس خطے میں آج بھی آٹھ سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور اکثر ایک زبان بولنے والے افراد دوسری زبان نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کےلئے اردو کو مشترکہ زبان کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔

گلگت بلتستان سابق شخصی ریاست جموں کشمیر میں شامل تھے۔ 1947ءمیں اس ریاست کے دیگر حصوں کی طرح یہ حصہ بھی متنازعہ قرار دیا گیا اور اس خطے کے باسیوں کا مستقبل بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔ لیکن سابق ریاست کا یہ واحد علاقہ ہے جس کے شہریوں کو گزشتہ 73 سال سے شہری، جمہوری، سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ ہر چند سال بعد حقوق کے نام پر انہیں دھوکہ دیا گیا اور ہر بار مقامی اشرافیہ نے سامراجی حکمران طبقات سے مل کر حقوق کے نام پر ان کی جدوجہد کا سودا لگانے اور اپنے لئے مراعات اور اختیارات لینے پر ہی اکتفا کیا۔ پچاس کی دہائی میں ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن) جیسے کالے قانون کو اس علاقے پر نافذ کیا گیا اور پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے اس کا انتظام چلایا جاتا تھا۔ جو مختلف تبدیلیوں کے باوجود 2000ءکی دہائی تک جاری رہا۔ حکمرانوں کو جب بھی نوآبادیاتی علاقوں میں اقتدار و قبضے کو جاری رکھنے کےلئے کسی اقدام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اسے عوامی حقوق کے جھانسے میں لپیٹا جاتا ہے اور اس عمل کےلئے مقامی حکمران اشرافیہ ریاست کی سہولت کاری کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے جب پاکستان کے سمندروں اور زمینی راستوں کے ذریعے تجارتی راہداری کےلئے سرمایہ کاری کا منصوبہ ترتیب دیا تو پاکستان کو شمال مشرق میں چین سے ملانے والا خطہ گلگت بلتستان ایک مرتبہ پھر اہمیت اختیار کر گیا۔ اور مقامی آبادی کے حقوق پھر اہمیت اختیار کر گئے۔ لیکن درحقیقت حقوق کے نام پر پے درپے جاری ہونے والے صدارتی حکم ناموں میں وسائل پر قبضے، اختیارات کو ختم کرنے اور طبقاتی و قومی استحصال کو مزید سخت کرنے کے اقدامات ہی کیے گئے۔ محض شناخت، حکومت اور عدالتی نظام فراہم کیا گیا۔ شناخت شمالی علاقہ جات سے گلگت بلتستان ہونے کے بعد بھی فرقہ وارانہ تقسیم سمیت نسلی، ثقافتی، لسانی تقسیم و تفریق بدستور موجود رہی۔ حکومت اور اسمبلی ملنے کے باوجود اختیارات وزیراعظم پاکستان اور وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان کے پاس ہی رہے۔ مقامی حکمران اشرافیہ کو بھی اقتدار میں سہولت کار کی حیثیت سے حصہ دار بننے کا اختیار مل گیا۔ عدالتی نظام تو میسر آیا لیکن عوامی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے بابا جان، افتخار کربلائی اور دیگر ساتھیوں کو چالیس سے نوے سال تک کی سزائیں سنا کر عوامی حقوق کی آوازوں کو دبانے کے علاوہ اور کچھ نہ کیا گیا۔ سٹیٹ سبجیکٹ رول کے خاتمے کے ذریعے وسائل پر بیرونی سرمایہ کاروں کی لوٹ مار کی راہ ہموار ہوئی اور کالے قوانین کے ذریعے سیاسی آوازوں کو شیڈول فور اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمات کا سامنا کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ شیڈول فور میں شامل ترقی پسند اور قوم پرست رہنماﺅںکے الیکشن کےلئے کاغذا ت نامزدگی منظور نہیں کیے گئے۔

پاکستان اور بھارت سمیت دیگر پسماندہ ممالک کے زیر انتظام نو آبادیاتی علاقوں میں آج بھی برطانوی نو آبادیاتی برصغیر کی مقامی حکمران اشرافیہ (جن میں نمبردار، زیلدار، وڈیرے، جاگیردار اور راجے، مہاراجے شامل تھے) کی طرز پر ہی مقامی حکمران اشرافیہ کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ محض ان کے چہرے اور طریقہ کار تبدیل کیا گیا ہے۔ اب انہیں ایک نام نہاد الیکشن کے ذریعے منتخب کروایا جاتا ہے۔ مقامی آبادیوں، سیاسی قوتوں اور تحریکوں کو دبانے اور ان کے کردار کو مسخ کرنے سمیت نو آبادیاتی قبضے کو دوام بخشنے کےلئے سہولت کاری کے علاوہ اس حکمران اشرافیہ کی اور کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان ہو یا پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کا علاقہ یا سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے علاقہ جات ہوں‘ ہر جگہ پر ایک ہی چہرے ہیں جنہیں وفاق میں موجود ہر پارٹی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ اپنا لیتی ہے۔ ہر آمریت میں بھی اقتدار و اختیار انہی چہروں کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ سامراجی قبضے اور حکمرانوں کی دولت اور میڈیا کے غلبے میں غیر جانبدار اور شفاف انتخابات ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے۔

ماضی میں گلگت بلتستان میں سیاسی حقوق کے نام پر انتخابات لڑے جاتے رہے۔ اس مرتبہ اس خطے کو پاکستان کا آئینی اور عبوری آئینی صوبہ بنانے کے نام پر انتخابات لڑے جا رہے ہیں۔ جہاں تحریک انصاف کی حکومت اس خطے کو عبوری آئینی صوبہ بنانے، نئے اضلاع قائم کرنے اور روزگار فراہم کرنے کے دعووں کے ساتھ انتخابات کا حصہ بن رہی ہے وہیں جمعیت علمائے اسلام صوبے کی مخالفت کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ جبکہ پیپلزپارٹی بھی گلگت بلتستان کو مکمل آئینی صوبہ بنانے کے نام پر الیکشن لڑنے کی تیاریوں میں مصروف نظر آتی ہے۔ درحقیقت دیکھا جائے تو صوبہ بنانے کے دعوے اور اعلانات بھی محض دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہےں۔ جبکہ مخالفت کرنے والوں کے پاس بھی کوئی نظریہ اور متبادل موجود نہیں ہے۔ پندرہ لاکھ آبادی پرمشتمل علاقے کو پاکستان کا آئینی صوبہ بنایا جانا اس بحران زدہ ریاست کےلئے اول تو ممکن نظر نہیں آتا۔ لیکن اگر اس طرح کا کوئی فیصلہ کر بھی لیا جائے تو وہ صرف اور صرف سامراجی مفادات کے تحفظ کےلئے ہی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ گلگت بلتستان کے شہریوں کو حقوق دینے کی راہ میں صوبائی سیٹ اپ کا نہ ہونا کسی طور رکاوٹ نہیں رہا۔ گلگت بلتستان پورے پاکستان کے سب سے کم آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کی بدترین صورتحال والا خطہ ہے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں روزگار کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انٹرنیٹ کی سہولیات ناپید ہیں۔ جس کے خلاف گزشتہ لمبے عرصہ سے طلبا و طالبات سراپا احتجاج ہیں۔ گلگت سکردو روڈ ، جو اس خطے کو آپس میں ملانے والی سب سے اہم شاہراہ ہے، مکمل طور پر برباد ہو چکی ہے۔ آئے روز لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ گلگت بلتستان کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے ملانے والے راستے پر ٹنل کئی دہائیوں سے زیر تعمیر ہے۔ کارگل سکردو روڈ سمیت دیگر قدرتی راستے بحال کرنے کے مطالبات کئی دہائیوں سے کیے جا رہے ہیں لیکن ان پر کسی دور میں بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ملنے والی مالیاتی اور سیاسی خودمختاری کو بھی ختم کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔ ایسے میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنا کر حقوق کیسے دیئے جا سکتے ہیں۔

صوبہ بننے کے مخالفین سنی العقیدہ تنظیموں، مقامی قوم پرستوں اور کشمیری قوم پرست قیادتوں کے پاس مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے بین الاقوامی موقف اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بے معنی داستان کے علاوہ کوئی واضح پروگرام موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی سطح پر صوبے کے حق میں منعقد کروائی جانے والی احتجاجی ریلیوں، میڈیا وار اور مقامی اشرافیہ کی مصنوعی تحریکوں کے پیش نظر نام نہاد انقلابیوںکو بھی گلگت بلتستان کوپاکستان کا صوبہ بنائے جانے میں ہی مسائل کا حل نظر آ رہا ہے۔ درحقیقت مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا بین الااقوامی موقف ہو یا اقوام متحدہ کی قراردادیں‘ یہ سب صرف اور صرف اس خطے کو متنازعہ رکھنے اور قبضے اورجبر کو دوام دینے کے ہی مختلف راستے ہیں۔ مسئلہ کشمیر برطانوی سامراج اور اقوام متحدہ جیسے سامراجی اداروں کا ہی پیدا کردہ مسئلہ ہے اور اس وقت ایک نئے انداز سے سامراجی تجارتی جنگ کے ایندھن کے طور پر مسئلہ کشمیر اور اس کے فریقین کی متنازعہ حیثیت کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ نہ تو سامراجی ادارے مسئلہ کشمیر کو حل کروا کر گلگت بلتستان اور ملحقہ علاقوں، قومیتوں ، ثقافتوں اور زبانوں کو ترویج دینے کا کوئی اقدام کر سکتے ہیں‘ نہ ہی اس خطے کی سامراجی ریاستوں کے حکمران طبقات اس خطے کے عوام کو کوئی ایک بھی بنیادی سہولت دینے کے اہل ہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کی قیمت ترقی یافتہ ترین خطوں میںبھی محنت کش عوام سے بنیادی سہولیات اور مراعات چھین کر چکائی جا رہی ہے‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پسماندہ ترین خطوں کے حکمران عام انسانوں کی فلاح کا کوئی اقدام اٹھا سکیں۔ پاکستان کی نحیف اور لاغر سرمایہ داری گزشتہ 73 سال میں 80 فیصد سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں کر سکی۔ قرضوں میں ڈوبی معیشت میں حکومتی امور کو چلانے اور قرضوں کی اقساط کی فراہمی کےلئے مزید قرضے لینے پرمجبور ریاست دنیا کے دشوار گزار اورپسماندہ ترین علاقے کے عوام کو معاشی اور سیاسی حقوق فراہم کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

جس چینی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کےلئے گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں لانا مقصود ہے‘ اس سرمایہ کاری کے ابتدائی نتائج سندھ اور بلوچستان میں نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ پہلے سے قومی دھارے میں موجود خطوں کے قدرتی وسائل، زرعی اراضیوں، جزیروں، بندرگاہوں اورفشریز کے ٹھیکوں تک سے محنت کشوں، کسانوں، مزارعوں اور ماہی گیروں کو محروم کرنے کے اقدامات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں لانے کے پیچھے حکمرانوں کے کیا مقاصد شامل ہیں۔ چین کی ریاست بھی اس خطے کے محنت کشوں کو سہولیات دینے کےلئے سرمایہ کاری کرنے نہیں آ رہی۔ نہ ہی اس سرمایہ کاری کے ذریعے چین کے محنت کش طبقے کی ترقی مقصود ہے۔ کیونکہ دنیا کے دوسرے بڑے جی ڈی پی کا حامل ہونے کے باوجود چین فی کس آمدن کے حوالے سے دنیا میں 79 ویں نمبر پر موجود ہے۔ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے پاکستان جیسے پسماندہ خطوں میں اصلاحات اور ترقی کے تمام تر راستے بند ہو چکے ہیں۔ اس نظام کو اکھاڑے بغیر گلگت بلتستان کے محنت کش عوام سمیت پاکستان، بھارت اور چین کے محکوم و مظلوم عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔

ماضی میں مسائل کے حل کےلئے بارہا تحریک میں شامل ہونے والے مرد و خواتین محنت کشوں کو اس نظام کے خلاف جدوجہد کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ جس جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر نہ صرف پاکستان کے محکوم و مظلوم عوام کے ساتھ جوڑنا ہو گا بلکہ لداخ، تبت، سنکیانگ و جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑتے ہوئے اس نظام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی میں پرونا پڑے گا۔ ہمالیہ کے پہاڑوں سے اٹھنے والے بغاوت کے یہ قدم برصغیر جنوب ایشیا کے سوشلسٹ مستقبل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔