راہول
3 دسمبر 2020ء کی صبح چھ بجے ہمارے پیارے ساتھی اور استاد کامریڈ نتھو مل حیدرآباد میں اچانک دل کا دورہ پڑنے کے سبب 58 سال کی عمر میں ہم سے بچھڑ گئے۔ اُن کا یوں اچانک بچھڑنا مجھ سمیت جدوجہد کے سبھی ساتھیوں کے لئے یقینا ایک گہرا صدمہ ہے۔ ایک رات قبل تک ہمارے ساتھ طویل گفتگو کرنے کے بعد صبح اچانک اُن کی رخصتی نے ہمارے دلوں پرخنجر کی طرح اس قدر گہرا وار کیا کہ ہم شاید ہی اُس درد کو پہلے کبھی محسوس کر پائیں ہوں جو تکلیف اُس دن ہم نے محسوس کی۔ اس حادثے سے پہلے تک شاید یہ الفاظ کہ ”نظریات کے رشتے کسی بھی خون کے رشتے سے گہرے ہوتے ہیں“ محض ہمارے لئے الفاظ کی حیثیت رکھتے ہوں مگر اُن کی یوں اچانک رخصتی نے ان الفاظ کی سچائی اورگہرائی کو ہمارے نزدیک اور بھی پختہ اور ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ کامریڈ نتھو مل نے اپنی زندگی کا 30 سال سے زائد عرصہ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے لئے وقف کیا اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوشلزم کے پرچم کو سربلند رکھنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔
کامریڈ نتھو مل کا تعلق ضلع بدین کے ایک چھوٹے سے شہر ٹنڈو غلام علی کے ایک محنت کش گھرانے سے تھا۔ اُن کا جنم 1962ء میں ٹنڈو غلام علی میں ہوا جہاں انہوں نے اپنی پرائمری تعلیم بھی حاصل کی۔ وہ اپنی نو عمری میں ہی خاندان کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔ اپنی شروعاتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کامریڈ نتھو گورنمنٹ کالج سعید پور چلے گئے جہاں انہوں نے 1978ء میں پری انجینئرنگ میں انٹر کیا۔ اپنے تلخ معاشی حالات ہونے کے سبب یہ اُن کے لئے بے حد مشکل تھا کہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں کیونکہ خاندانی ذمہ داریاں اب بہت بڑھ چکی تھیں۔ مگر اُن کی انتھک لگن اور جستجو نے ان سب کے باوجود بھی انہیں حوصلہ دیا اور وہ 1981ء میں مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو آ گئے جہاں سے انہوں نے جولائی 1986ء میں مکینیکل ڈیپارٹمنٹ میں ’بی ای انجینئرنگ‘ کی ڈگری حاصل کی۔
اپنے یونیورسٹی کے دنوں میں ہی کامریڈ نتھو غریب طبقے کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے لگے اور اسی دوران وہ ایک قوم پرست تنظیم کے متحرک کارکن کے طور پر نمودار ہوئے اور اس کے طلبہ ونگ کے رُکن بن گئے جہاں وہ نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لئے طلبہ سیاست میں اپنا کلیدی کردار نبھانے لگے۔ جی ایم سید سے لے کر عبدالواحد آریسر تک کئی اہم رہنماؤں سے اُن کی نہ صرف ملاقاتیں رہیں بلکہ کئی علمی و ادبی نشستوں و بحث و مباحث میں بھی وہ شریک رہے۔ تاریخ اور سیاست پر اسی دوران کامریڈ نتھو نے کئی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ خاص طور پر سندھ کے مشہور شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری پر نہ صرف انہیں عبور حاصل ہو گیا بلکہ وہ اُن کے اشعار کی انقلابی تشریح کرنے میں خصوصی مہارت رکھنے لگے۔ اُس وقت ہونے والے جلسوں میں وہ نہ صرف ایک سرگرم سیاسی کارکن کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیتے بلکہ کئی مزاحمتی اشعار اور نظمیں اُن کی آواز میں اُن جلسوں کی زینت بنتیں اور ماحول کو گرما دیتیں۔ ٹنڈو جام زرعی یونیورسٹی سے لے کر لمس اور سندھ یونیورسٹی تک وہ یہاں موجود تقریباً سبھی یونیورسٹیوں میں نہ صرف مقبول تھے بلکہ اُس دور کی طلبہ سیاست میں اُن کا ایک کلیدی کردار رہا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1992ء میں وہ ٹیکنیکل ایجوکیشن سے منسلک ہو گئے اور پولی ٹیکنیکل کالج بدین میں بطور لیکچرار اپنے فرائض سرانجام دینے لگے۔ نوکری کے دوران انہیں ضلع بدین کے ایک شہر’تلہار‘ میں رہائش پذیر ہونا پڑا جہاں کامریڈ چیتن اور محمد خان احمدانی کے ذریعے ’طبقاتی جدوجہد‘ کے کامریڈ پہلے ہی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ کامریڈ نتھو اکثر بتایا کرتے تھے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر تلہار شہر میں کامریڈ چیتن سمیت اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ گھنٹوں گفتگو کرتے رہتے تھے مگر ایک دن اچانک کچھ ساتھی لاہور روانہ ہوئے تو اُن میں یہ تجسس پیدا ہوا کہ آخر اچانک یہ لوگ کونسی میٹنگ کرنے وہاں جارہے ہیں! کامریڈز کے واپس تلہار لوٹنے پر اُن کے گہرے سوالات تھے اور وہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر یہ لوگ کر کیا رہے ہیں… انہی دنوں کامریڈ ایسرداس، جے پرکاش، منیر سلاوٹ، اعجاز چانڈیو و دیگر کامریڈ مستقل بنیادوں پر برانچیں کروانے تلہار جایا کرتے جہاں کامریڈ نتھو سے اُن کے قومی سوال، تاریخ، سائنس، مذہب اور سیاست پر گھنٹوں بحث مباحثے ہوتے رہتے۔ وہ تمام تر بحث کو نہ صرف سنجیدگی سے سنتے تھے بلکہ بڑے ٹھوس دلائل سے اپنا موقف بھی پیش کرتے۔
اپنا قوم پرست سیاسی ماضی ہونے کی وجہ سے کامریڈ نتھو سندھ کے محنت کشوں کے مسائل اور یہاں ہونے والی ناانصافیوں پر گہری تشویش کا شکار تھے مگر وہ ایک ایسا راستہ بھی تلاش کر رہے تھے جو حقیقی بنیادوں پر تمام تر مسائل کے خاتمے کا ضامن ہو۔ یہ ایک ایسا دور تھا جب سندھ میں پیپلز پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے، قوم پرست سیاست کے رسوا ہونے اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے باعث یہاں ہر طرف مایوسی چھائی تھی۔ کمیونسٹوں کا تعارف سندھ میں ابھی محض ’سٹالنزم‘ کے تحت ہی ہو سکا تھا اور کمیونسٹ پارٹی سمیت وطن دوست انقلابی پارٹی وغیرہ بھی زوال پذیری کا شکار تھیں۔ اس قدر گھٹن زدہ ماحول میں ایک سنجیدہ انقلابی کے لیے یہ بے حد ضروری تھا کہ آنے والی پوری زندگی وہ جن نظریات پر ڈٹ کر کھڑا رہنے والا ہے اُسے محض رومانوی انداز میں نہیں بلکہ ٹھوس مادی اور جدلیاتی انداز میں سمجھ لے۔ 1992ء کے آخر میں اُن کی ملاقات کامریڈ لال خان سے ہوئی جو ایک تنظیمی ایگریگیٹ منعقد ہونے پر تلہار آئے تھے۔
کامریڈ لال خان سے ہونے والی ملاقات نے اُن کی سیاسی زندگی پر نئے اثرات مرتب کیے۔ وہ مجھے اکثر بیان کیا کرتے تھے کہ قومی سوال پر اس قدر پختہ موقف انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ انقلاب ِ مسلسل اور ٹراٹسکی ازم کا تعارف بھی اُن کے لئے بے حد نیا تھا اور اُن کی خون کی روانی میں تازگی پیدا کرنے کا سبب بن رہا تھا۔ قوم پرست سیاست میں بدترین دھڑے بندی اور نظریاتی زوال کی بدولت جو پھول کچھ عرصے کے لئے مرجھا گیا تھا وہ اب دوبارہ کھل اُٹھا تھا۔ اسی دوران انہوں نے کئی نظریاتی کتا بو ں کا مطالعہ بھی کیا جن میں اُن کی پسندیدہ اینگلز کی کتاب ’خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘ بھی شامل تھی۔ 1993ء کے شروعاتی مہینوں میں ہی وہ طبقاتی جدوجہد سے منسلک ہو گئے اور رحیم یار خان میں منعقد ہونے والی سالانہ کانگریس میں دیگر کامریڈوں کے ہمراہ شرکت کی۔
کانگریس سے لوٹنے کے بعد وہ اب ایک ایسے فولادی کامریڈ بن چکے تھے جسے سندھ کی تپتی گرمی میں تھرپارکر کے سحرا سے لے کر کیرتھر کے پہاڑوں تک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے لئے راہیں ہموار کرنا تھیں۔ اپنے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود بھی تب سے لے کر اپنی موت تک انہوں نے نہ صرف کئی لوگوں تک سوشلسٹ انقلاب کا پیغام پہنچایا بلکہ آج سندھ سمیت پاکستان بھر میں سیاسی طور پر متحرک انقلابیوں میں بیشمار لوگوں کی تربیت میں ان کا ایک کلیدی کردار رہا۔ جو پیغام عام طور پر بڑی بڑی تقاریر سے منتقل کرنے میں دشواری ہوتی وہ کامریڈ نتھو اپنے سادہ الفاظ یا پھر اکثر نظموں کے ذریعے ہی بڑی آسانی سے بیان کر دیتے۔ ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، احمد فراز، شیخ ایاز، شاہ عبدالطیف بھٹائی اور استاد بخاری سمیت کئی شعرا کی نظمیں انہیں زبانی یاد تھیں اور وہ اکثر پروگراموں میں انہیں گا کر سناتے۔
2006ء میں کامریڈ نتھو مل سندھ کے دوسرے بڑے شہر ’حیدرآباد‘ میں رہائش پذیر ہوئے جہاں اُن کی انقلابی صلاحیتوں سے کئی کامریڈوں کو مستفید ہونے کا موقعہ ملا۔ اپنی مسلسل جدوجہد اور کمٹمنٹ کی بنیاد پر وہ تھوڑے ہی عرصے بعد حیدرآباد میں تنظیم کے رہنماؤں میں شمار ہونے لگے اور تنظیمی کام کو پھیلانے میں اُن کا ایک کلیدی کردار رہا۔ وہ 2013ء سے تنظیم کے اعلیٰ اداروں کے رُکن تھے۔ اس دوران نہ صرف انہوں نے بیرونی کام میں بھرپور کردار ادا کیا بلکہ اپنی فیملی کو جس قدر انقلابی نظریات پر آمادہ کیا وہ ان سرمایہ دارانہ ملکیتی رشتوں میں ناقابل ِ یقین محسوس ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ انتہائی مشکل اور پیچیدہ کام ہے کہ جس کٹھن راستے پر آپ سوار ہوں اُس پر چلنے کے لئے آپ اپنی اہلیہ اور بچوں کو بھی آمادہ کر لیں۔ اُن کے گھر کا ماحول اپنے انقلابی ساتھیوں کے لئے اس قدر مانوس تھا کہ وہاں جانے والے کسی بھی فرد کو پل بھر کے لئے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اُس گھر کا مستقل حصہ نہیں ہے۔ کامریڈ لال خان سمیت کم و بیش پورے پاکستان سے کامریڈ وہاں آتے رہے اور محبتیں سمیٹ کر گئے۔ وہاں تنظیمی اجلاسوں کیساتھ ساتھ سارا سارا دن سیاسی و نظریاتی بحث و مباحثے جاری رہتے۔ ہر عمر کا کامریڈ اُن کے ساتھ خود کو مانوس محسوس کرتا کیونکہ نوجوانوں کے ساتھ اُن کی طرح بات کرنے کے فن سے کامریڈ نتھو اچھی طرح واقف تھے۔ یہی سبب تھا کہ پوری تنظیم میں خاص طور پر نوجوان اُن سے بے حد پیار اور اُن کی عزت کرتے تھے۔
اپنے کامریڈوں کے لئے اُن کے دل میں اس قدر عظیم مقام تھا کہ میں نے کئی بار انقلابی ساتھیوں کی خاطر انہیں اپنے نجی دوستوں سے بھی کنارہ کشی کرتے دیکھا۔ یہی سبب تھا کہ اپنی ذاتی آسائشوں یا مفادات کے لئے وہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکتے تھے کیونکہ وہ اسے اپنے نظریات کی توہین سمجھتے تھے۔
میرا تعلق کامریڈ نتھوسے گزشتہ 18 سالوں سے تھا۔ انہوں نے نہ صرف میری تربیت میں انتہائی کلیدی کردار ادا کیا بلکہ اُن کا پیار اور شفقت بھرا ہاتھ ہمیشہ میرے سر پر رہا۔ وہ مجھے کبھی اپنے بچوں سے کم نہیں سمجھتے تھے اور گزشتہ کئی سالوں سے ہم دونوں کا زیادہ تر وقت ایک دوسرے کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ ہم نے تھرپارکر کے ریگستان سے لے کر کشمیر اور دیر کی بلند چوٹیوں تک کاسفر اکھٹے کیا۔ وہ دل کی ہر بات مجھ سے بے دھڑک کہہ سکتے تھے اور میں اُن سے۔ وہ میرے کامریڈ، استاد اور جدوجہد میں ہمسفر ہونے کے ساتھ ساتھ میرے یار بھی تھے۔ مجھ سمیت پورے پاکستان میں بے شمار کامریڈ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ کامریڈ نتھو جیسے ایک ایسے انسان سے ہمارا تعلق جڑا رہا جو اپنی آخری گھڑی تک ایک انتھک انقلابی تھے۔ ایک رات قبل تک ہم سے کی گئی اُن کی آخری گفتگو میں کہیں بھی مایوسی نہیں تھی بلکہ وہ فخر سے یہ بے دھڑک کہتے تھے کہ اگر انہیں دوبارہ بھی زندگی ملے تو وہ ایک بار پھر اُنہی آدرشوں پر یہ زندگی گزاریں گے جن پر وہ پہلے ڈٹ کر کھڑے رہے۔
کامریڈ نتھو ایک ایسے انقلابی رہنما تھے جن کی اس استحصالی نظام کے خلاف لگائی گئی بغاوت کی چنگاری آج پورے خطے میں شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔ دنیا بھر میں ابھرنے والی تمام تر انقلابی تحریکیں آج یہ پیغام دے رہی ہیں کہ کامریڈ نتھونے جن نظریات پر اپنی زندگی گزاری وہ ہی نسل انسان کی بقا کا واحد راستہ ہے۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بڑے بڑے لوگ این جی اوز اور رجعت پسندی میں غرق ہو گئے، خودکشیاں کر لیں مگر کامریڈ نتھو جیسے انقلابیوں نے بہاؤ کے الٹ سمت میں تیرتے ہوئے سرخ پرچم کو سربلند رکھا اور طبقاتی جدوجہد کو تقویت بخشی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ایک پوری نسل جوان ہو گئی ہے جو اُن ماضی کی مایوسیوں سے واقف نہیں ہے لیکن کامریڈ نتھو جیسے انتھک انقلابیوں سے ضرور واقف ہے۔ اُن کے جنازے میں سندھ بھر سے شرکت کرنے والے کامریڈوں، جنہوں نے انہیں لال جھنڈوں کے سائے تلے سپرد خاک کیا، کے جذبات اور حوصلے یہ ظاہر کر رہے تھے کہ کامریڈ نتھو بھلے ہی جسمانی طور پر ہم سے بچھڑ گئے ہوں مگر اُن کی کی ہوئی جدوجہد کو نہ صرف جاری رکھا جائے گا بلکہ اُن کے ادھورے کام کو پورا کیا جائے گا۔