اداریہ جدوجہد

2020ء کا سال کئی بڑی پیش رفتوں کو اپنے دامن میں سمیٹے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سال کے حالات و واقعات پر کورونا وبا کی چھاپ موجود رہی۔ جس نے عالمی سرمایہ داری کے تاریخی بحران میں عمل انگیز کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے مزید گہرا کر دیا۔ لاک ڈاؤن کی بندشوں کے باعث بیشتر معیشتیں سکڑاؤ کا شکار ہوئیں جس سے بیروزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ اَن گنت انسانی جانیں، جنہیں ایک منڈی اور منافع سے پاک معاشی و سماجی نظام کے تحت بچایا جا سکتا تھا، اس وبا کی نذر ہو گئیں۔ یہ سلسلہ پچھلے کچھ مہینوں میں جزوی طور پر تھمنے کے بعد وبا کی دوسری لہر کیساتھ دوبارہ پوری شدت سے شروع ہو چکا ہے۔ لیکن حالیہ ہفتوں میں کئی ممالک نے کورونا وائرس سے بچاؤ کی اپنی اپنی ویکسین متعارف کروائی ہے جن میں روس، چین اور امریکہ سرِ فہرست ہیں۔ امریکی ویکسین کے مہنگے اور استعمال میں مشکل ہونے کے باوجود بیشتر مغربی ممالک محض امریکہ کے حلقہ اثر میں ہونے کی وجہ سے اسے ترجیح دے رہے ہیں۔ بہرحال ویکسین متعارف ہونے کے بعد ایک مبہم سی امید یہ پیدا ہوئی ہے کہ آنے والے عرصے میں انسانیت اس وبا سے چھٹکارہ حاصل کر لے گی۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں علاج کی موجودگی ایک چیز ہے اور اس تک رسائی ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔ سرمایہ داری کے سنجیدہ پالیسی ساز یقینا اس وبا سے جلد از جلد چھٹکارہ حاصل کرنا چاہیں گے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کو اس ویکسین تک رسائی حاصل کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ یہاں جزوی طور پر یہ ویکسین متعارف ہوتی بھی ہے تو اس کی قیمت آبادی کے بڑے حصے کی پہنچ سے باہر ہو گی۔ اور تیسری دنیا کی معاشی طور پر دیوالیہ حکومتوں میں اتنی مالیاتی سکت بھی نہیں ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر پبلک ویکسینیشن کے پروگرام جاری کر سکیں۔ اس دوران کورونا وائرس کئی طرح کے نئے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ مثلاً میوٹیشن کے نتیجے میں وائرس کی نئی اقسام میں تبدیلی ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ میں کورونا وائرس کی نئی قسم سامنے آئی ہے جو پہلے کے مقابلے میں 70 فیصد تیزی سے پھیلتی ہے۔ نتیجتاً پاکستان سمیت بیشتر ممالک نے اپنے شہریوں کے برطانیہ آنے جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ لیکن یہ نئی قسم کا کورونا وائرس پہلے ہی کئی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا کی آبادی کے بڑے حصے کی فوری ویکسینیشن کے ذریعے اگر اس وبا کا قلع قمع نہیں کیا جاتا تو آنے والے مہینوں یا سالوں میں وائرس کی زیادہ خطرناک اقسام سامنے آ سکتی ہیں جن کے سامنے پہلے سے موجود ویکسین بے اثر ثابت ہوگی۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک کی بوسیدہ سرمایہ داری دہائیوں سے پولیو کی مفت ویکسین دستیاب ہونے کے باجود اس موذی مرض کا خاتمہ نہیں کر سکی تو کورونا کے مقابلے کے لئے اتنے وسیع پیمانے کے ہنگامی اقدامات کیونکر اٹھا سکتی ہے؟ چنانچہ اس نظام کے تحت مستقبل قریب میں کورونا سے مکمل نجات کے امکانات مخدوش نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ ریاستیں دنیا بھر میں ”شاک تھراپی“ کے طریقہ واردات کے تحت اس وبا کی آڑ میں محنت کش طبقے پر بھرپور معاشی اور سیاسی حملے کر رہی ہیں جن میں جمہوری آزادیوں پر قدغنیں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح آنے والے دنوں میں معیشتوں کی بحالی کا تناظر بھی مبہم ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنی تازہ رپورٹ میں جہاں موجودہ عالمی معاشی گراوٹ کو ”بے نظیر بحران“ قرار دیا ہے وہاں اس سے معیشتوں کی ممکنہ بازیابی کو ”غیر یقینی بحالی“ کا نام دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق بہترین صورت میں بھی یہ بحالی ”بتدریج“ ہو گی۔ یعنی اس عمل میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ سرمائے کے پالیسی ساز اپنے نظام کے بارے میں خود کس قدر عدم اعتماد اور تذبذب کا شکار ہیں۔ ایسے امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ عالمی معیشت اگر بحالی کے راستے پر گامزن ہوتی بھی ہے تو کورونا وبا کے دوران ختم ہونے والی بیشتر نوکریاں دوبارہ بحال نہیں ہو پائیں گی۔ دوسری طرف وبا کے دوران ریاستوں نے معیشتوں کو سہارا دینے کے لئے بڑے پیمانے پر سرمایہ مالیاتی سیکٹر میں جھونکا ہے جس سے عالمی سطح پر قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے۔ عالمی قرضے 2019ء میں جی ڈی پی کے 320 فیصد سے بڑھ کر 2020ء میں 365 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھر میں کمپنیوں کا ایک قابل ذکر حصہ اس وقت سستے قرضوں کی شکل میں ریاستی امداد کے ونٹی لیٹر پر زندہ ہے اور قومی معیشتیں قرضوں کے پہاڑ تلے دبتی چلی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکتا۔ بحیثیت مجموعی یہ پورا نظام حالت نزع کی کیفیت میں معلوم ہوتا ہے جس نے پوری انسانیت کو ایک درد اور کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔

پاکستان جیسی معیشتیں دوہرے تہرے بحران کا شکار ہیں۔ جن میں مستقبل قریب میں کسی معجزاتی بحالی اور ترقی (جیسا کہ سرکاری حلقوں کی طرف سے تاثر دیا جا رہا ہے) کے امکانات موجود نہیں ہیں۔ ہر آنے والا دن یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں مہنگائی، بے روزگاری، جبر اور محرومی کی نئی ذلتوں کیساتھ طلوع ہوتا ہے۔ حکمرانوں کے متضاد اور متصادم دھڑوں کی لڑائی کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو جائے‘ محنت کشوں کی نجات کا ذریعہ اور وسیلہ نہیں بن سکتی۔ اس نظام کو بچانے کے سوال پر حکمران طبقے میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ محنت کش طبقے کو اپنی نجات کی جدوجہد خود کرنا ہو گی۔ گزشتہ تقریباً ایک دہائی کے دوران دنیا کے ہر خطے میں معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کے خلاف چھوٹی بڑی اَن گنت تحریکیں پھوٹی ہیں جن میں سے بیشتر نے اس نظام کو بنیادوں سے ہلا ڈالا تھا۔ سرکاری سوچ ان ہڑتالوں اور احتجاجوں کی تعمیم کرنے سے قاصر ہی رہے گی۔ مارکسی تجزیہ اور تناظر ہی مادی بنیادوں پر ان کی وضاحت کر سکتا ہے۔ جن مسائل نے ایک کے بعد دوسرے ملک میں عوام کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا ہے وہ سرمایہ داری کے تاریخی بحران کی ناگزیر پیداوار ہیں۔ یہ نظام ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے پیچیدہ اور تکلیف دہ ہی بنا سکتا ہے۔ اس نہ ختم ہونے والی تکلیف سے نجات سوشلسٹ انقلاب کی متقاضی ہے۔ جس کی تلاش میں آنے والا وقت نہ جانے کتنی بغاوتیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ انقلابیوں کا فریضہ سوشلسٹ فتح کی منزل تک کا راستہ محنت کش طبقے پر آشکار کر کے اس اذیت ناک سفر کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہی بحرانوں میں گھری انسانیت کی راہِ نجات ہو گی۔