ایسر داس

انقلابی و نظریاتی سیاست میں گزشتہ 27 سالوں سے میرے دوست، ساتھی اور کامریڈ نتھو مل اچانک دل کا دورا پڑنے کے سبب 3 دسمبر 2020ء کی صبح چھ بجے ہم سے بچھڑ گئے۔ اُن کی یوں اچانک رخصتی ہم سبھی کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں۔ اُن کا شمارمحنت کش طبقے کی نجات کی جدوجہد کرنے والی سرخ فوج کے ایسے گمنام سپاہیوں میں ہوتا تھا جنہیں تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

کامریڈ نتھو سے میری پہلی ملاقات نوے کی دہائی میں ایک دکان پر ہوئی جہاں وہ مزدوری کر رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ کامریڈ نتھو اُس وقت انجینئرنگ میں اپنی گریجویشن مکمل کر چکے تھے مگر اپنے خاندان کی مالی مشکلات کے خاطر وہ ہر قسم کی محنت مزدوری سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے کیونکہ اُن کے نزدیک کوئی بھی پیشہ کمتر نہیں تھا بلکہ وہ ہر فرد کی عزت و احترام کیا کرتے خواہ اُس کا تعلق کسی بھی پیشے سے ہی کیوں نہ ہو۔

کامریڈ نتھو مل کا تعلق ضلع بدین کے ایک چھوٹے سے شہر ٹنڈو غلام علی کے ایک محنت کش گھرانے سے تھا۔ اُن کا جنم 1962ء میں ٹنڈو غلام علی میں ہوا جہاں انہوں نے اپنی پرائمری تعلیم بھی حاصل کی۔ وہ اپنی نو عمری میں ہی خاندان کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔ اپنی شروعاتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کامریڈ نتھو گورنمنٹ کالج سعید پور چلے گئے جہاں انہوں نے 1978ء میں پری انجینئرنگ میں انٹر کیا۔

اپنے تلخ معاشی حالات ہونے کے سبب یہ اُن کے لئے بے حد مشکل تھا کہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں کیونکہ خاندانی ذمہ داریاں اب بہت بڑھ چکی تھیں۔ مگر اُن کی انتھک لگن اور جستجو نے ان سب کے باوجود بھی انہیں حوصلہ دیا اور وہ 1981ء میں مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو آ گئے جہاں سے انہوں نے جولائی 1986ء میں مکینیکل ڈیپارٹمنٹ میں ’بی ای انجینئرنگ‘ کی ڈگری حاصل کی۔

میں ضیا مارشل لا دور میں ہی بائیں بازو کی سیاست سے جڑا ہوا تھا اور اسی حوالے سے میرا اکثر کامریڈ نتھو مل کے آبائی گاؤں ’ٹنڈو غلام علی‘ جانا ہوا کرتا تھا۔ ٹنڈو غلام علی کے مقامی ساتھیوں نے میرا تعارف کامریڈ نتھو مل سے جن دنوں کروایا تھا تب وہ ایک قوم پرست جماعت کے متحرک کارکن تھے جبکہ اپنی علم دوستی اور ترقی پسند سوچ کی بدولت اُن کے اکثر قریبی دوستوں کا تعلق بائیں بازو کی سیاست سے تھا۔ یہی سبب تھا کہ وہ بہت پہلے ہی ترقی پسندی کی طرف راغب ہو چکے تھے مگر سیاسی طور پر وہ ابھی بہت کچھ سمجھنا اور سیکھنا چاہتے تھے۔

کامریڈ نتھو کی بائیں بازو کی سیاست میں باضابطہ شمولیت اُس وقت ہوئی جب کامریڈ لال خان کا 1992ء کے آخر میں تلہار میں ایک تنظیمی وزٹ پر جانا ہوا۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد کامریڈ نتھو کی کامریڈ لال خان سے بہت ہی تفصیلی بحث ہوئی جس میں قومی مسئلہ اور قوم پرستی اُس نشست کا مرکز رہے۔ کامریڈ نتھو اُس نشست سے بہت ہی متاثر ہوئے اور انہوں نے جلد ہی ’طبقاتی جدوجہد‘میں شمولیت اختیارکرنے کا فیصلہ کر لیا اور اُس کے بعد مسلسل وہ مارکسزم کے نظریات پر ڈٹ کر کھڑے رہے۔

ہمارے ساتھ اُن کے ستائیس برس کے ساتھ میں ہم نے انہیں نہ ہی کبھی مایوس ہوتے دیکھا اور نہ کوئی پریشانی اُن کا حوصلہ توڑ سکی بلکہ اُن کا رویہ ہر ایک ساتھی سے عوامی اورعاجز ہوا کرتا تھا۔ کامریڈ نتھو کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جن کامقصد کبھی اپنی ذاتی زندگی میں دولت کمانا نہیں رہا بلکہ وہ ہمیشہ سوشلسٹ انقلاب کے لیے کوشاں رہے اورسچے نظریاتی دوست بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ دولت اور شہرت کمانے کی معاشرے میں حاوی سوچ کا جس طرح کامریڈ نتھو نے مقابلہ کیا اُس سے آج کی نوجوان نسل کافی کچھ سیکھ اور سمجھ سکتی ہے۔

ہمارے اُستاد کامریڈ لال خان اکثر کہتے تھے کہ تنظیم کے لیے بڑی قربانیوں میں سے ایک پیسے کی قربانی بھی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہر مشکل وقت میں کسی بھی قربانی کے لیے چٹان بن کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور اُن کا اکثر کہنا ہوتا کہ ’کامریڈ کوئی مسئلہ نہیں۔“ چاہے وہ قربانی پیسوں کی ہو یا پھر وقت کی۔ انہوں نے آخری وقت تک پرجوش طریقے سے نہ صرف انقلابی کام میں اپنا حصہ ڈالا بلکہ وہ محنت کش طبقے کی اس لڑائی میں اگلی صفوں میں رہے۔ تنظیمی کام کوبڑھانے کے طریقہ کار پر اکثر اُن کے ہمارے ساتھ اختلافات بھی ہو جایا کرتے مگر کامریڈ نتھو اُن اختلافات کو کبھی تقویت نہیں بخشتے بلکہ دوسرے ہی روز اپنی عاجزی سے تمام تر اختلافات ختم کر دیتے اور اُس بات کا کبھی کسی کو دوبارہ احساس بھی نہیں ہونے دیتے۔

اُن کا گھر تنظیم کے کامریڈوں کے لیے ہمارے دفتر سے کم نہیں تھا۔ اُن سے ملنے والا ہر شخص اُن کی انقلابی شاعری اور تاریخ پر اُن کی گہری نظر کی بدولت دوسری بار اُن سے ملاقات کا خواہش مند رہتا۔ بڑی جرات اور حوصلے کے ساتھ تمام کامریڈوں کو آگے بڑھنے کی تاکید کیا کرتے‘ حالات چاہے جیسے بھی ہوں۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی اپنے ذمے لیے ہر کام کو انتھک جدوجہدکے ساتھ پورا کرنا ہوا کرتی۔

کامریڈ نتھو کا انتہائی اچانک ہم سے یوں بچھڑ جانا ہمیں گہرے صدمے میں ڈال گیا ہے۔ مگر انقلابی جسمانی طور پر چاہے اس جہاں سے رخصت لے لیں مگر اُن کا کیا ہوا کام اور اُن کے نظریات ہر دور میں یاد رکھے جاتے ہیں۔ آج بے شک وہ ہمارے درمیان نہیں مگر اُن کے وہ خواب آج بھی زندہ ہیں جو سماج کی تبدیلی کے لیے انہوں نے دیکھے تھے۔

کامریڈ کی وفات کے دو روز بعد میرا اُن کے آبائی گاؤں جانا ہوا اور اُن کی بیوہ جو کہ خود بھی انقلابی نظریات سے سرشار ہیں سے جب میری ملاقات ہوئی تو وہ مجھ سے کہنے لگیں کہ ”آج مجھ سمیت میرے گھر کے افراد جس کرب سے گزر رہے ہیں یقینا وہ ناقابل ِ بیان ہے مگر میں جانتی ہوں کہ اُس سے بھی کئی گنا زیادہ دُکھ ہمارے کامریڈوں کو ہوا ہے۔“ کامریڈ کی اہلیہ کے یہ الفاظ اُس احترام کو بیان کرتے ہیں جو کامریڈ نتھو اپنے نظریاتی ساتھیوں کا کیا کرتے تھے۔ یہ اس بات کی سچائی ہے کہ کامریڈ نتھو کے نزدیک کسی بھی رشتے سے زیادہ مرتبہ اپنے انقلابی ساتھیوں اور کامریڈوں ہی کا تھا جنہیں وہ اپنے خاندان سے بے دھڑک بیان کر سکتے تھے۔ کامریڈ نتھو کی تدفین کے وقت جو انقلابی نعرے لگائے گئے، جو جوش و جذبہ وہاں اُن کے انقلابی ساتھیوں میں موجود تھا اس نے سارے پاکستان کے انقلابیوں کو ایک نئی توانائی سے سرشار کیا ہے۔ محنت کشوں کے ترانے سے انہیں سپردخاک کرتے ہوئے اُن سے ہر ایک کامریڈ کا بس ایک ہی وچن تھا: کامریڈ نتھو تیرا مشن ادھورا، ہم سب مل کر کریں گے پورا!