قمرالزماں خاں

کامریڈ لال خان کو ہم سے جسمانی طورپر بچھڑے ایک سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ ان کے بچھڑنے کا صدمہ ایک حقیقت ہے۔یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شخص کا کوئی متبادل نہیں ہوا کرتا۔ بطور خاص ایسی شخصیات جو ہمہ صفت ہوں، ان کا متبادل کوئی ایک فرد نہیں بلکہ اشخاص اورادارے ہوتے ہیں۔ کامریڈ لال خان نے پاکستانی سماج کی انقلابی تبدیلی کیلئے چالیس سال د ن رات کام کیا۔ ان کی انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد ٹھوس بنیادوں پر استوار ہوئی۔ وہ ہر لحاظ سے منفرد انقلابی شخصیت کے طور پر ابھرے۔اگرچہ ماضی میں بہت سے انقلابی رہنماﺅں نے بے مثال جدوجہد کی، قربانیاں دیں، حتیٰ کہ کچھ نے اپنی جانوں کا نذرانہ تک دیا۔ مگر ایک سقم روز اول سے ہی چلتا آرہا تھا۔ یہاں پر تاریخ، سماج، ثقافت اور انقلاب کے کردار کے بنیادی سوالوں کے جواب از خود تلاش کرنے کی بجائے ماسکو اور پیکنگ کی طرف دیکھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ برصغیر کے بٹوارے سے قبل بھی اور بعد میں بھی مارکسی انقلابی تنظیموں اور پارٹیوں کی بنیادیں شروع سے ہی کمزور ہوتیں اور پھر کسی بھی ”قبلے“ (ماسکویا پیکنگ) کے فیصلے سے پوری کی پوری پارٹی ہی اپنی ہیئت بدلنے پر مجبور ہوجاتی ۔ اس قسم کے کسی بھی فیصلے سے پارٹیوں کے ماضی، جدوجہدوں اور طویل سزاﺅں اور ابتلاﺅں کے جواز بے معنی ہو جاتے۔ ماسکو اور پیکنگ سے نظریاتی مواد کے اردو ترجمے رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے جو بعض صورتوں میں مقامی کیفیات، تغیر و تبدل، حقائق اورزمینی قوتوں کے توازن سے حقیقی طور پر لاتعلق ہوتے۔ اس کیفیت میں بننے والی پارٹیاں صرف آہنی ڈسپلن کی بنیاد پر اپنا وجود یا نام برقراررکھ پاتیں۔ نہ کسی سوال کی گنجائش ہوتی اور نہ ہی کوئی جواب مل پاتا۔بے تکے فیصلے ”انتظامی اتھارٹی “ کی بنیاد پر کیے جاتے اور یوں بلا وجہ نوجوانوں سے امتحان لیے جاتے۔ مگر یہ سب کچھ اکثر و بیشتر ایڈونچر ہوتا، کسی بڑے مقصد اور بڑائی لڑائی کو مدنظر رکھے بغیر ۔

لال خان نے بالکل آغاز میں ہی لکیر کے فقیر بننے کی بجائے اپنی راہوں کو معروضی حقائق کے مطابق وضع کرنے کی راہ اختیارکی۔ اس طریقہ کار سے بہت سے گھڑے گھڑائے نظریات ، تجزیات، لائحہ عمل اور طریقہ کارجانچ پرکھ کے بعد‘ بلا جواز کے پائے گئے اور نئے راستوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔کامریڈ لال خان نے اپنے کام کا آغاز ہی منفرد انداز میں کیا۔ انہوں نے پاکستان میں موجود انقلابی روبوٹوں کے پیچھے کھڑے ہونے کی بجائے سب سے پہلے مارکسی نظریات کی روشنی میں انقلابات کے ارتقائی سفر کو جانچنا شروع کیا۔ یہ ایک منفرد کام تھا۔ ”بالشویک انقلاب اور روس میں انقلاب کی زوال پذیری“ کے موضوع پر انہوں نے اپنی پہلی کتاب لکھی۔ جس نے بحث کا رخ موڑدیا۔ یوں انقلابی نصاب میں بنیادی تبدیلی عمل میں آئی اور گھسی پٹی باتوں کی تکرار، فتویٰ بازی اور ”میں نہیں مانوں“کے انداز کی بجائے حقائق کا سامنا کرنے کی روش کا آغاز ہوا۔ انقلابی نظریات اور اصطلاحوں کو عام فہم بنایا گیا۔ حقائق کو مدنظر رکھا گیا۔ یہ بہت مشکل کام تھا۔ بے تکی انقلابی رومانیت اور ہر حال میں درست ہونے کی بیماری سے چھٹکارے کی طرف پاکستان میں پہلا اور کھٹن قدم کامریڈ لال خان نے اٹھایا ۔ فتویٰ گروں نے ”سی آئی اے“ کا ایجنٹ قراردیا کیونکہ لیون ٹراٹسکی کا نام لینا اور اس کے نظریات، تجزیات اور طریقہ کار کو متعارف کرانے کا یہی ”تمغہ“ عطا کیا جاتا تھا۔ وضاحت کے بعد ثابت ہو ا کہ روس میں سوشلزم نہیں سٹالنزم ہے۔ سٹالنزم کے انہدام کی نشاندہی اس کے وقوع پذیر ہونے سے قبل لال خان نے ہی کی تھی۔ غیر ترقی یافتہ، سابق نوآبادیاتی ممالک میں مراحل کی بجائے براہ راست سوشلسٹ انقلاب کے نظریات کو کامریڈ لال خان نے پوری وضاحت سے پیش کیا اور ہر اٹھنے والے سوال کا جواب بھی دیا۔ وہ ایک بین الاقوامیت پسند مارکس وادی تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان سے کہیں زیادہ اہم پورے خطے بشمول ہندوستان کا انقلاب تھا۔ اسی طرح وہ ایران، افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک میں انقلابی قوتوں کی تعمیر کو اپنا فریضہ سمجھتے تھے۔ تمام تر رکاوٹوں اور نامساعد حالات کے باوجود وہ لمحہ بھر بھی اپنے اس فریضے سے غافل نہیں ہوئے۔ اسی طرح محنت کش طبقے کی روایتی تنظیموں میں کام کے کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کے طریقہ کار کی جدید اختراع بھی پاکستان میں پہلی دفعہ کامریڈ لال خان نے متعارف کرائی۔

کامریڈ لال خا ن کے راستے میں اگلے مراحل اس سے بھی زیادہ مشکل اور دقیق تھے۔ پوری کی پوری تاریخ اپنے سرکے بل کھڑی تھی۔ تاریخ ساز عاملین کی وضاحت کا فریضہ بھی خود تاریخ نے کامریڈ لال خان کے سپرد کردیا تھا۔ حکمران طبقہ‘ تاریخ کو اپنی نگاہ سے دیکھتا اور پیش کرتا ہے۔ پرسکون اور لگے بندھے راستوں پر تاریخ کے بہاﺅ کے مناظر کو سرکاری تاریخ میں اہم، ناقابل فراموش اور ”تاریخی“ گردانا جاتا ہے۔ یا پھر ایسی جنگیں‘ جو انہی کے کسی حصے کی بالادستی، حکمت، دانش اور شجاعت کو ثابت کریں ، اہم واقعات کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ روزمرہ زندگی میں محو و مشغول ‘معاشرے بھی عمومی زندگی میں بڑاخلل ناگوارمحسوس کرتے ہیں۔ مگر زندگی کی بنیاد اور اس کی پیش رفت کا انحصار ہی موجود کی بجائے بہتر کو لاگو کرنا ہوتا ہے۔ حکمران طبقات کی شعوری کوشش ہوتی ہے کہ معاشروں کو اپنے”وضع کردہ“ راستوں پر چلاتے رہیں۔ اسی سے ان کے مفاد، اقدار اور اقتدار محفوظ رہتے ہیں۔حکمران طبقات سماجوں کی سوچ کو اپنے ”حصار“ میں رکھنے کیلئے ہر میدان میں اپنی نظریاتی کاوشیں جاری رکھتے ہیں۔ساختہ تاریخ، من گھڑت تماثیل، دیومالائی خرافات اور سرکاری ہیروز کی تخلیق کو ابدی اور مقدس حقیقت بنا دیا جاتا ہے۔اس قسم کی جعل سازیاں وقت کے ساتھ ساتھ عمومی سوچ کا لازم حصہ بن کرمستحکم ہوتی جاتی ہیں۔ تاریخ کے ساتھ اس قسم کے جرائم پرمبنی نظریات اور اقدامات‘ نسلوں کے مستقبل کومفلوج اور بے حس بنانے میں گہراکردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔ برصغیر کے سینکڑوں ہزاروں سالوں پر محیط سماج کی عمومی سست روی میں دیگر مادی عوامل کے ساتھ اسی قسم کی شعوری مداخلتوں کی ایک سیریل کارفرما نظر آتی ہے۔برصغیر کی تقسیم کے بعددونوں اطراف اس قسم کی جعل سازیوں کو اپنی طرز کی جدت سے جاری و ساری رکھا گیا۔تقسیم کی ناگزیریت کی تاریخی وجوہات گھڑی گئیں۔ بطور خاص سامراجی آقاﺅں کی ضروریات کے تحت اٹھائے گئے اقدامات اور بندوبست کو آزادی کا متبادل قراردینے کیلئے ایک مکمل نظریہ میدان میں لاکر اس کی ریاستی وسائل سے مسلسل تشہیر کی گئی۔ یہ نظریہ حقائق اورتاریخ کو ڈھانپ کر”بظاہر“ ایک مجسم و توانا شکل اختیار کرچکا ہے۔

لال خان کی سیاسی زندگی کاسب سے اہم پہلو سرکاری تاریخ کے ساختہ پہلووں کو بے نقاب کرکے نئی جہتوں کوپیش کرنا تھا۔ جن کو دانستہ تاریخ کے اوراق سے ہذف کیا جاتا رہا ہے۔ یقینی طور پر یہ معرکہ اپنے پیش رووں کی بات کو زیادہ وضاحت سے آگے بڑھانے اور تاریخی شواہد کو ابلاغ کے اعلیٰ پیمانوں پر پیش کرنے سے وقوع پذیر ہوسکا۔لال خان نے نہ صرف انگریز سامراج اور اس کی دیسی باقیات کی دانشورانہ بدیانتی کو رد کیا بلکہ تمام تر حقائق کو تسلسل کے ساتھ پیش کر کے برصغیر کے بٹوارے کے اصل حقائق کو پیش کیا ۔ جہاں لال خان نے اپنی انگریزی میں لکھی کتاب”Partition: Can it be undone?“ میں بٹوارے کی حقیقت، سامراجی لوٹ مار اور تاریخی استبداد کی وضاحت کی وہیں انہوں نے تاریخ سے اوجھل کردی گئیں عوامی تحریکوں، طبقاتی جدوجہد، انقلابی بغاوتوں اور حکمرانوں کو جھنجوڑ دینے والے واقعات کو پھر سے تاریخ کے صفحہ قرطاس پر انمٹ لفظوں میں نقش کر دیا۔ لڑکھڑاتے سامراج اور ان کے چھوڑے ہوئے سیاسی ترکے (جن کو بعدازاں ریاستی وسائل اور پروپیگنڈے سے لافانی کردار بنا دیا گیا) کے حقیقی کردار اور اصلیت کو واضح کرتے ہوئے ان کے مجرمانہ کردار کو من وعن پیش کیا۔ بٹوارے کے زخموں نے پورے سماج پر جو کاری ضربیں لگائی تھیں اس کے بعد حکمران طبقے نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ اب سماج بے حس وحرکت رہے گا اور وہ بلا کسی مزاحمت کے لوٹ کھسوٹ اور راج کرتے رہیں گے۔ مگر تمام تر تجزیوں کی طرح یہ بھی حکمران طبقے کا ایک گمراہ کن تجزیہ تھا۔ جس کی دھجیاں 1968-69ءکی تحریک نے اڑا کررکھ دیں۔ یہ تحریک ان لوگوں کے لئے ایک سبق کا درجہ رکھتی ہے جو پہلے یا آج کسی قسم کی تحریک کے ابھرنے سے انکاری تھے یا ہیں۔ کامریڈ لال خان نے یہاں پر ایک الگ سیاسی تاریخ کونئی نسل تک پہنچانے اور جعلی تاریخ کو طشت ازبام کرنے کیلئے ”پاکستان کی اصل کہانی “ لکھی۔ یہ حکمرانوں کی ”تاریخ“ کی دروغ گوئی کے مقابلے میں وہ اصل کہانی ہے جس کا ایک ایک لفظ عام لوگوں‘ بالخصوص محنت کش طبقے کی مخفی قوت کی وضاحت کرتا ہے۔ اس کہانی میں واقعات اور شواہد کی بنیاد پر ثابت کیا گیا ہے کہ حکمرانوں کے دانشوروں اور ابلاغ عامہ کے پروپیگنڈے کے برعکس حقیقی قوت اور ہر قسم کی تبدیلی کو معرض وجود میں لانے کی فیصلہ کن طاقت صرف اور صرف محنت کش طبقے میں موجود ہے۔ وہی عام محنت کش، وہی مزدور اور کسان جو ہر ستم کو قسمت کا وار سمجھ کر برداشت کرتے چلے آتے ہیں اور جن پر ظلم اور جبر کرنے والے حاکم،مالک اور صاحب اختیار ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے کبھی بھی کسی مزاحمت کا تصور تک ذہن میں نہیں لاتے، وہی جب ہجو م سے طبقے میں بدلتے ہیں تو پوراسماج ان کی مرضی سے حرکت کرتا ہے۔ ”پاکستان کی اصل کہانی“ ایک متبادل تاریخ ہے۔ یوں کامریڈ لال خان نے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو سرکاری تاریخ کی دروغ گوئی کی بجائے حقیقی تاریخ سے روشناس کرانے کا لازوال کام کیا ہے۔ جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح کامریڈ لال خان نے پاکستانی سماج پر ”افغان جہاد“ کے اثرات پر مفصل کتاب لکھی۔ 1980ءکی دہائی میں لکھی گئی اس کتاب میں افغان جہاد کی معیشت کے پاکستانی معیشت اور اس کے سماج اور سیاست پر دوررس اثرات کاتجزیہ کیا ۔ اسی تجزیے کی بنیاد پر پاکستان میں کالے دھن کے سرکاری معیشت کے متوازی معیشت بن جانے اور اس کے اثرات کی نشاندہی کی گئی۔ یہ تجزیہ تب اپنی نوعیت کا منفرد جائزہ تھا۔ جس میں سماج کی مختلف پرتوں پر کالے دھن کے اثرات، ثقافتی گراوٹ، سیاست میں کالے دھن کی سرایت سے اس کے مہنگے تر ہونے کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اسی طرح سماج میں کالے پیسے کی بنیاد پر حاصل طاقت اور اس کے استعمال، دھونس اور جبر کے بڑھنے کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ کالے دھن سے ریاستی اداروں کی ہیئت اور کردار میں تبدیلی کی پیش بینی بھی اس تجزیہ کا ایک اہم حصہ تھی۔ کالے دھن کے متوازی معیشت بننے کے عمل کو اگلی دہائیوں میں بورژوا ماہرین معاشیات نے بھی کھلے عام ماننا شروع کردیا۔

کامریڈ لال خان کا بنیاد پرستی اور پاکستانی سماج کے مابین تعلق پر تجزیہ بھی عمومی تجزیوں سے یکسر منفرد رہا۔ وہ کبھی بھی پاکستانی سماج کی یکسر پسپائی اور بنیاد پرستی کی طرف مراجعت کے تجزیوں سے متفق نہیں تھے۔ بیشتر لبرل اور بائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کے برعکس انہوں نے افغان جہاد کے دوران اور بعد کے ادوار میں پاکستان میں انتہا پسند مذہبی طاقتوں کے (ریاستی اعانت سے) مخصوص ابھار کو ان کی سماجی مقبولیت کا شاخسانہ قرار نہیں دیا۔ وہ برملا لکھتے اور کہتے تھے کہ پاکستا ن جیسے سماج کونہ صرف ماضی کے نظاموں سے چلانا ممکن نہیں بلکہ پاکستانی معاشرہ (سطحی مذہبیت کے باوجود) ماضی میںواپس جاکر رہنے میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں رکھتا۔ ان کے خیال کے مطابق ایسی کسی حرکت کوزبردستی کامیاب بنانے کیلئے بہت بڑی خونریزی درکار ہو گی۔

کامریڈ لال خان نے برصغیر کی مظلوم قوموں، محکوم گروہوں، مذہبی اقلیتوں اور جبر کا شکار خطوں اور باشندوں پر جرا ت مندانہ پوزیشن اختیار کی۔ ان کا موقف بالکل واضح تھا کہ قومی جبر پر ہم چشم پوشی نہیں کرسکتے اور نہ ہی ہم قومی جبر کے نازک اور اہم مسئلے کو قوم پرستوں کے انتہا پسندنظریات سے حل کرنے کی تائید کریں گے۔ لال خان کا تجزیہ تھا کہ ”بٹوارے کے بعد اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی حکمران طبقہ ایک یکجا اور جدید قومی ریاست اور ایک حقیقی پاکستانی قوم تشکیل دینے میں مکمل ناکام ہے۔ طبقاتی استحصال کے ساتھ ساتھ قومی استحصال وجود رکھتا ہے اور محکوم قومیتوں کی بڑھتی ہوئی قومی محرومی بھی موجود ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ قومی جمہوری انقلاب کا فریضہ پورا کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ ریاست نے محنت کش طبقے اور محکوم قومیتوں پر جبر کو مزید بڑھا دیا ہے… بے تحاشہ قتل و غارت، اغوا کاری اور بالخصوص سیاسی ورکروں پر وحشت جاری ہے۔ تاریخی طور پر متروک ، معاشی طور پر برباد اور رجعتی حکمران ٹولے نے اپنی ریاستی مشینری کے ذریعے پاکستان کو مظلوم قومیتوں کے جیل خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔“

وہ پاکستان میں قومی تحریکوں کے کردار پربھی واضح تھے ۔ ان کے مطابق ماضی میں بالخصوص بلوچستان کی قومی تحریکیں نسبتاً ترقی پسند نظریاتی بنیادوں پر استوار تھیں مگر بعد ازاں (سویت یونین کے انہدام کے بعد )یہ تحریکیں سرمایہ داری کے اندرقومی مسئلہ حل کرنے اورسامراج کی مدد سے قومی آزادی کی توقعات کے سراب میں کھو کر اپنی منزل سے کہیں دور چلی جاتی ہیں۔ ان کا واضح موقف تھا کہ حقیقی طبقاتی اور قومی آزادی کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے اور یہ صرف طبقاتی جد وجہد کے ذریعے نہ کہ قومی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔ بلوچستان سے محراب سنگت کے نام سے کامریڈ لال خان کو لکھے گئے قومی سوال کے بارے میں خط کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ” جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم سب بین الا قوامیت پسند ہیں۔ مارکسزم انٹرنیشنل ازم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ ریاستی ڈھانچے ، اس کی مصنوعی سرحدوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے محکوم قوم کی قومی آزادی اور طبقاتی آزادی ممکن نہیں ہے۔ ہم محکوم بلوچ عوام کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہی موقف بلوچستان میں رہنے والے پشتون، ہزارہ اور جنوبی ایشیا اور دوسرے خطوں میں رہنے والے محکوم محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے بھی ہے۔“ اسی خط کے اگلے پیرے میں وہ لکھتے ہیں، ”مہراب سنگت کے ساتھیو، ہم عالمی انقلاب کی پرولتاری فوج کے سپاہی ہیں۔ ہم آپ کی قومی جبر کے خلاف جدوجہد کو دوسری محکوم قومیتوں کی طبقاتی جد وجہد کے ساتھ جوڑنے کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس سیارے کے ہر کونے میں اس استحصالی نظام اور اس کی ریاستوں کو اکھاڑ پھینکنے کی عالمی جد وجہد میں آپ کو دعوت دیتے ہیں۔ سوشلزم نجی ملکیت کی نفسیات اور قومی جبر کا خاتمہ کرتا ہے جو آخری تجزیے میں وسائل، دولت اور جائیداد کی ملکیت کا سوال ہے۔ بلوچستان کے وسائل صرف اسی صورت میں یہاں کے لوگوں کے ہوسکتے ہیں جب ذرائع پیداوارکی نجی ملکیت، تقسیم اور تبادلے کے نظام کا خاتمہ کر کے اجتماعی ملکیت کو رائج کیا جائے۔ یہ صرف محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے تحت سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔“

پاکستان کے قومی مسئلے پر بھی لال خان نے جو پوزیشن لی اس کو تمام مظلوم قوموں کے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے پذیرائی ملی۔ 14 جنوری 2020ءکو رحیم یارخان میں کامریڈ لال خان کے تعزیتی ریفرنس میں خطاب کرتے ہوئے سرائیکی نیشنل پارٹی کے سربراہ عبدالمجید کانجو نے کہا کہ ”محکوم قوموں کی نجات کی لڑائی میں محکوم قوموں اورسوشلزم کے لئے جدوجہد کرنے والے انقلابیوں کو جوڑنے کا سب سے موثر اوزار لال خان کا قومی سوال پر نکتہ نظر ہے۔ لال خان کے بعد ان کے ساتھی ہی ان کے نظریات کی بنیاد پر پاکستان میں قومی سوال کو حل کرنے کی جدوجہد کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔“ قومی سوال پر لال خان کے نکتہ نظر، جو انہوں نے اپنے اساتذہ‘ مارکس، لینن اور ٹراٹسکی کے قومی سوال پر موقف سے اخذ کرکے مزید توانا کیا تھا، نے کشمیر پر تمام تر روایتی، سرکاری اور غیر سرکاری مواقف سے زیادہ پذیرائی حاصل کی۔ اسی بنا پر بطورخاص کشمیر کے نوجوانوں کی بھاری اکثریت کامریڈ لال خان کی کتاب ”کشمیر کی آزمائش“ میں دیئے گئے تجزیے اور حل سے اتفاق کرتی ہے۔

کامریڈ لال خان جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے۔ یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مندرجہ بالا نظریاتی مواقف کی گونج ہمارے کانوں، دماغوں اور دلوں میں ہر وقت لال خان کو زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہے۔ ہر روز سیاسی، سماجی، معاشی، نظریاتی، علاقائی اور بین الاقوامی سوالوں پر لال خان ہماری سوچوں کی رہنمائی کرتے پائے جاتے ہیں۔ ان کا تاریخ پر نکتہ نگاہ‘ سرکاری پروپیگنڈے پر استوار نصابوں و نظریات کی بیخ کنی کر کے تاریخی مادیت کے اصولوں سے سوچوں کے دھاروں کو درست سمت لگانے میں مصروف کار ہے۔ یوں تو ہر پیدا ہونے والا شخص ‘زندگی کی چند دہائیاں گزار کرموت سے لازم ہمکنار ہوکر ہی رہتا ہے۔ لیکن محض رہنما سوچیں، دیدہ ور شخصیات اور عالم گیر نظریات کے حامل اذہان ہی تابندہ رہ کر مرے ہوئے اجسام کو امر کرتے ہیں۔ لال خان کا نیا جنم تاریخ میں ہو گا۔لال خان کی ابدی زندگی کی راہ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچانا ہے۔ برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن لال خان کی منزل تھی۔ اس منزل کا حصول ہر انقلابی اور بطور خاص لال خان کے ساتھیوں کی زندگی کا مشن ہونا چاہئے۔ یہ مشکل فریضہ ممکن ہے۔ بس لال خان جیسی جرات، قربانی، ایثار، محنت اور مسلسل جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔