راہول
یکم فروری کو میانمار (برما) میں ایک بار پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ برسرِاقتدار جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی (NLD) کی رہنما آنگ سان سوچی سمیت متعدد رہنماوں کو گرفتار کرتے ہوئے فوج نے ملک میں ایک سال کے لئے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے اور تمام اختیارات کمانڈر ان چیف ’من آنگ ہلینگ ‘ کو سونپ دیئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر فوج کے مسلح جتھوں کو دارلحکومت ’نیپیڈاو‘ اور سب سے بڑے شہر رنگون میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ کسی فوری ردعمل کے پیش نظر ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہی ملک میں انٹرنیٹ سمیت موبائل فون سروس کو بھی معطل کر دیا گیا تھا۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے علاوہ بی بی سی ورلڈ سروس اور کئی غیر ملکی چینلوں کی نشریات بھی روک دی گئیں۔ بڑے شہروں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اے ٹی ایم مشینوں سے پیسے نکالنے کے لیے قطاروں میں کھڑی انتظار کرتی نظر آئی کیونکہ مالیاتی سہولیات عارضی طور پر بند کر دی گئیں تھیں۔ بی بی سی کے مطابق سڑکوں پر فوجی دستے گشت کر رہے ہیں اور رات کے وقت کرفیو نافذ رہتا ہے۔
این ایل ڈی کے ترجمان میونیونٹ نے خبر رساں ادارے رائیٹرز کو بیان دیتے ہوئے اپنے کارکنوں سے اپیل کی ہے کہ وہ قانون کے مطابق عمل کریں اور’ عجلت‘ میں رد عمل کا اظہار نہ کریں۔ مگر عوام میں فوج کے اس عمل کے خلاف شدید ردعمل دیکھا جا رہا ہے۔ عوام نے از خود سول نافرمانی کی مہم جاری کر دی ہے کیونکہ وہ اب دوبارہ اپنے تلخ ماضی میں نہیں لوٹنا چاہتے ۔ رنگون سمیت ملک کے بیشتر شہروں میں لوگ اپنی گاڑیوں کے ہارن اور گھر کے برتن بجا کر فوج کے اس جبر کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ دوسری جانب کئی ہسپتالوں میں طبی عملے نے شہریوں کے ساتھ مل کر اس سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لیا ہے۔ رائیٹرز کے مطابق میانمار کے تقریباً تیس شہروں میں 70 کے لگ بھگ ہسپتالوں کے طبی عملے نے اس فوجی کُو کے خلاف احتجاجاً کام بند کر دیا ہے۔ جبکہ وہاں موجود ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ اس مہم کو کب تک جاری رکھیں گے۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہے‘ ملک کے مختلف حصوں سے بڑے مظاہروں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
امریکہ نے اس کُو کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن حالیہ انتخابات کے نتائج کو بدلنے یا میانمار میں جمہوریت کے تحت طاقت کی منتقلی کے خلاف ہر کوشش کی مخالفت کرتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے تمام حکومتی اور سول سوسائٹی رہنماوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے فوج کو فوراً یہ اقدامات واپس لینے کی تاکید کی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گٹیرس نے بھی میانمار کی فوج کے اس اقدام کو جمہوری اصلاحات کے لیے شدید دھچکاقرار دیتے ہوئے گرفتار کیے گئے 45 افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اس بغاوت اور آنگ سان سوچی کی ’غیر قانونی قید‘ کی مذمت کی ہے جبکہ یورپی رہنماوں نے بھی اسی طرح کے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔ چین نے کُو کی مخالفت تو نہیں کی لیکن ”تمام اختلافات کو حل“ کرنے کا پرفریب بیان جاری کیا ہے۔ جبکہ کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور فلپائن سمیت کچھ علاقائی طاقتوں نے کہا ہے کہ یہ میانمار کا ایک ’داخلی معاملہ‘ ہے۔
میانمار میں موجودہ تنازعہ کا آغاز نومبر 2020ءمیں ہوئے عام انتخابات کے بعد سے ہوا جس میں سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی 83 فیصد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ الیکشن کے فوری بعد فوج کی حمایت یافتہ اپوزیشن جماعت یو ایس ڈی پی نے سوچی کی پارٹی پر دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔ فوج نے بھی کھل کر اپوزیشن کے اس مطالبے کی حمایت کر دی۔
تین ماہ کی مسلسل کشیدگی کے بعد 28 جنوری کو فوج اور حکومت کے مابین مذاکرات کی کوشش ہوئی مگر کوئی خاص نتیجہ نہ نکل سکا اور فوج نے کھل کر نو منتخب پارلیمنٹ کے اجلاس کو ملتوی کرنے کی ہدایت دی جو کہ یکم فروری کوہونا تھا۔ اسی اجلاس میں انتخابات کے نتائج کی توثیق کی جانی تھی۔ مگر حکومت نے فوج کے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعدجرنل من آنگ ہلینگ نے اسی روز حکومت کو دھمکی دی کہ ”اگر ملکی آئین کی پاسداری نہیں کی گئی تو اسے معطل کر دیا جائے گا جیسا کہ اس سے قبل 1962ءاور 1988ءکی فوجی بغاوتوں میں کیا گیا تھا۔“ حکومت کی طرف سے فوج کے بیانات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا اور بالآخر یکم فروری کو واقعی مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
کئی مبصرین کے مطابق موجودہ کُو کی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی اور یہ فوج کی طرف سے ایک حیران کن اقدام ہے۔ عالمی جریدے اکانومسٹ نے فوج کے اس اقدام کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ درحقیقت ایک ایسے ملک جہاں کا آئین فوج کے مفادات کے تحفظ کی مکمل ضمانت دیتا ہو، میں حالیہ کاروائی واقعی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ایسی وجوہات یقینا موجود ہیں جن کے تحت فوجی اشرافیہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہے۔ 2008ءمیں فوجی قیادت کے تشکیل کردہ ملکی آئین کے تحت پارلیمان اور ملک کی طاقتور ترین وزارتوں کا ایک چوتھائی حصہ ویسے بھی فوج کو ہی جاتا ہے۔ اس آئین کی بدولت فوج کو خود سے پارلیمان میں ایک چوتھائی سیٹیں مل جاتی ہیں جسے بھرپور طریقے سے نوازتے ہوئے انہیں داخلہ، دفاع اور سرحدی امور کی وزارتیں بھی دی جاتی ہیں۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں ایشیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر جرارڈ مکارتھی کے مطابق حالیہ صورتحال ناقابل فہم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”موجودہ نظام فوج کے لیے کافی فائدہ مند تھا۔ اسے مکمل خود مختاری حاصل تھی۔ اس میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کے بھی اچھے مواقع تھے… لیکن اب فوج کے اپنے اعلان کے مطابق ایک سال تک اقتدار پر قابض رہنے پر چین کے علاوہ دیگر بین الاقوامی ساتھی اسے تنہا چھوڑ دیں گے۔ فوج کے تجارتی منصوبوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔“
2011ءمیں سوچی کو ایک ڈھیلا ڈھالا اقتدار سونپا گیا تھا۔ مگر اصل طاقت پھر بھی فوج ہی کے پاس رہی۔ فوج نے اسی دوران روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائیوں میں تیزی کر دی۔ جس کا خمیازہ سوچی کو بھی بھگتنا پڑا جو اُن مظالم کے خلاف مجرمانہ طور پر خاموش رہی۔ جب فوج نے روہنگیا آبادی کے خلاف 2017ءمیں کریک ڈاون شروع کیا تو سوچی کی بین الاقوامی ساکھ شدید متاثر ہوئی۔ اس کے سابقہ حامیوں نے اُس پر تنقیدکے تیر برسانے شروع کر دیئے اور اُس پر زور دیا کہ اُسے فوجی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے فوج کی اس بربریت کے خلاف کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔ مگر اس سب کے باوجود بھی سوچی کی حکومت نے مصلحت کی پالیسی کو قائم رکھا۔ یہاں تک کہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے سامنے بھی وہ فوج کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جبر کا دفاع کرتی نظر آئی اور ہر جگہ اپنے اور فوج کے تعلقات کے متعلق یہی کہتی رہی کہ فوج اور اُن کے مابین ”سب کچھ ٹھیک ہے!“ عوامی تقریبات میں بھی فوجی قیادت اور آنگ سان سوچی گزشتہ کئی سالوں سے ایک ساتھ دکھائی دیتے اور بظاہر فوج کے سربراہ اس کے ساتھ مل کر کام کرنے میں خوش نظر آ رہے تھے۔ اس قدر مفاہمت اور مصالحت کے باوجود بھی حالیہ کاروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوچی فوجی افسر شاہی کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ حالیہ انتخابات میں اس کی جماعت کو حاصل ہونے والی سادہ اکثریت سے فوجی افسر شاہی کو اپنی پچاس سالہ رٹ چیلنج ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سوچی کی مقبولیت کو اپنے اختیارات کے لیے خطرہ گردان رہے تھے۔ ایسے میں دہائیوں سے قائم اپنے جبر کو قائم رکھنے کے لئے کوئی ”ایکشن“ درکار تھا جس کا فوج کو خاص تجربہ بھی حاصل رہا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق سوچی آئین میں ترمیم کر کے فوج کے اختیارات کو کم کرنا چاہتی تھی۔ جس کی وجہ سے فوج کو اقتدار پر براہِ راست قبضہ کرنا پڑا۔ یہ بات کسی حد تک درست سمجھی جا سکتی ہے مگر موجودہ سیٹ اپ میں ایسا کوئی اقدام سوچی کے لیے ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں سوچی کی جماعت نے ایک آئینی ترمیم کی کوشش کی بھی تھی مگر اُسے مکمل ناکامی کا ہی سامناکرنا پڑا تھا۔ آئندہ بھی اگر کوئی اس قسم کی کوشش کی جاتی تو فوج کے پاس ویٹو تک کے اختیارات موجود تھے۔ ترمیم کے لیے درکار سیٹیں فوج کی رضامندی کے بغیر کبھی حاصل نہیں ہو سکتی ہیں اور موجودہ آئین کے ذریعے فوج کے اختیارات کو کم نہیں کیا جا سکتا۔
فوجی قیادت بڑے فخر سے اپنے اس عمل کو آئینی قرار دے رہی ہے اور بظاہر آئندہ سال الیکشن کا وعدہ بھی کیا گیا ہے مگر یہ الیکشن ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ جس طرح 1990ءکے الیکشن کروائے تو گئے تھے مگر نتیجہ فوج کے حق میں نہ آنے کی صورت میں آج تک اُن انتخابات کے نتائج ہی عوام کے سامنے نہیں لائے گئے۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی الیکشن ہوتے بھی ہیں تو وہ محض دکھاوے کے لیے ہی ہوں گے۔ جبکہ زیادہ توقع یہی کی جا سکتی ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کو ہی طول دیا جائے گا۔
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہ میانمار میں فوجی کُو ہوا ہو بلکہ 1948ءمیں اپنی نام نہاد آزادی سے لے کر آج تک یہ ملک مختلف فوجی جرنیلوں اور سامراجی قوتوں کے شکنجے میں ہی رہا ہے۔ موجودہ سیٹ اپ کی جڑیں ہمیں 1962ءمیں اُس وقت قائم ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں جب جرنل نے وِن نے ماوسٹ چین کی طرز پر تمام جاگیروں اور فیکٹریوں کو قومی ملکیت میں لے لیا اور ایک آمرانہ حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہاں تک کہ وِن اُس وقت خود کو ”چیئرمین“ بھی کہلوانے لگا تھا۔ میانمار میں بظاہر سرمایہ داری کاخاتمہ کر کے یہاں چینی اور شمالی کوریائی طرز کی افسر شاہانہ منصوبہ بند معیشت قائم کرنے کی کوشش کی گئی جس میں اقتدار محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دینے کی بجائے اُسے فوجی اشرافیہ نے اپنے قبضے میں ہی رکھا۔ جس سے ریاست، سیاست اور معیشت میں اس فوجی اشرافیہ کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔
برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہی میانمار کا حکمران طبقہ اسے ایک جدید قومی ریاست بنانے میں ناکام رہا اور قومی جمہوری انقلاب کا کوئی ایک بھی فریضہ سرا نجام نہیں دے سکا۔ اسی دوران چین میں ہوئے انقلاب نے یہاں گہرے اثرات مرتب کیے اور قومی بورژوازی کی نااہلی و ناکامی نے یہاں بوناپارٹ ازم کی راہیں ہموار کیں۔ ایسے میں فوجی قیادت نے خود کو ایک ایسی آزادانہ قوت کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا جو معاشرے کو مکمل تباہی سے بچا سکتی تھی۔ جس کے بعد جرنل نے ون کی قیادت میں فوج نے فیصلہ کیا کہ ”سوشلسٹ چین“ کے ماڈل کواپناتے ہوئے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا جائے۔ برما میں ہونے والے اس تجربے کو ”سوشلزم کا برمی ماڈل“ بھی کہا جاتا ہے۔ اگست 1964ءمیں کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کے لکھے گئے ایک مضمون کے مطابق ”وہ (فوجی حکمران) خود کو محنت کشوں اور کسانوں سے منسلک کرتے ہیں مگر اُن کے پاس سائنسی سوشلزم کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس اُن کا پروگرام ’برمی- بدھ اسٹ سوشلزم ‘کا ہے۔“
اس وقت دنیا کے کئی دوسرے خطوں کی طرح یہ سوشلزم کی انتہائی مسخ شدہ شکل تھی۔ یہاں پیداوار کے ذرائع تو ضبط کرلیے گئے مگر طاقت مزدوروں اور کسانوں کے بجائے بیوروکریٹک فوجی اشرافیہ کے ہاتھ میں رہی اور لمبے عرصے تک یہاں جابرانہ فوجی حکومت قائم رہی۔ 1989ءمیں نے ون فوج سے ریٹائر ہو گیا اور نئی حاکمیت نے جہاں فوری طور پر برما کا نام ”سوشلسٹ ریپبلک آف دی یونین آف برما“ سے تبدیل کرکے میانمار رکھا وہیں چین میں لبرلائزیشن کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے انہیں بھی مجبور کیا کہ وہ برما کی منڈی کو سرمایہ داری کے لئے کھول دیں۔ اسی کے پیش نظر 1990ءمیں الیکشن بھی کروائے گئے مگر آن سانگ سوچی کی کامیابی کے بعد فوج نے اُن انتخابات کے نتائج کو دبا دیا اور 2011ءتک اقتدار اپنے ہی ہاتھوں میں رکھا۔
2011ءمیں یہاں ایک لولی لنگڑی جمہوریت کا ناٹک رچایا گیا اور آن سانگ سوچی کو ڈھیلا ڈھالا اقتدار تو سونپ دیا گیا مگر طاقت پھر بھی فوجی اشرافیہ کے پاس ہی رہی۔ اب دس سال کی ”جمہوریت“ کے بعد میانمار ایک مرتبہ پھر براہ راست آمریت کی طرف لوٹ آیا ہے۔
میانمار میں عوام کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ برصغیر کے دیگر ممالک کی طرح برمی عوام بھی بدترین سماجی و معاشی حالات میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ یقینا بطور مارکس وادی ہم پر یہ لازم ہے کہ میانمار میں فوجی کُو کی مخالفت کی جائے اور عوام کے جمہوری حقوق کا دفاع کیا جائے مگر ساتھ ہی ہم سمجھتے ہیں کہ سوچی، جو جمہوریت کی علمبردار بنی ہوئی ہے، کوئی انقلابی نہیں ہے بلکہ اسی نیو لبرل آرڈر کی نمائندہ ہے جس نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو تاراج کر رکھا ہے۔ اسی طرح اپنے مفادات کے لیے دنیا بھر میں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے والے امریکہ جیسے سامراجی ممالک سے بھی کسی قسم کی خوش فہمی وابستہ کرنا حماقت کے مترادف ہے۔ جمہوریت یا آمریت سرمایہ داری کو قائم رکھنے اور چلانے کے ہی دو مختلف طریقے ہیں۔ برمی محنت کشوں اور نوجوانوں کو حقیقی معنوں میں جمہوری، جدید اور خوشحال سماج کے قیام کے لیے سرمایہ داری کے خاتمے کی لڑائی لڑنا ہو گی۔