عمر شاہد
26 جنوری کو ہندوستان کے کسانوں کی تحریک اس وقت ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی جب تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے کسان لال قلعے میں داخل ہو ئے اور کسان یونین کے پرچم لہرانے میں کامیاب ہو گئے۔ لال قلعہ مغل عہد کی باقیات میں سے ہے۔ جو ہندوستان میں آج بھی طاقت کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ ہر سال یوم آزادی (15 اگست) کو ہندوستانی وزیر اعظم یہاں بھارتی قومی پرچم لہراتا ہے اور قوم پرستی پر مبنی تقاریر کی جاتی ہیں۔ اس سال یوم جمہوریہ کے موقع پر دنیا نے ایک مختلف منظر دیکھا۔ دارلحکومت دہلی کسانوں اور سکیورٹی فورسز کے مابین میدان جنگ بن گیا۔ کچھ پُرتشدد جھڑپیں بھی دیکھنے میں آئیں اور اطلاعات کے مطابق ان جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ گارڈین جریدے سے بات کرتے ہوئے ایک کسان نے بتایا، ”ہم پچھلے چھ ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں لیکن حکومت ہماری بات سننے کی زحمت گوارا نہیں کر رہی۔ یہ حکومت کو ایک پیغام تھا کہ اگر ہمارے مطالبات پورے نہ ہوئے تو ہم اس سے بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔“
کاشتکار تین متنازعہ زراعت کے قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ بنیادی طور پر یہ قوانین زرعی شعبے کو کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کرنے سے متعلق ہیں۔ ان قوانین کا مقصد زرعی پیداواری مارکیٹ کمیٹیوں (اے پی ایم سی) کو ختم کرنا اور پیداوار کی قیمتوں کے تعین کو منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے۔ بل میں کسانوں کی عدالت میں معاہدے کے تنازعات کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کو بھی کم کیا گیا ہے اور بنیادی طور پر یہ قوانین ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور بڑے سرمایہ داروں کو غیر منصفانہ فوائد مہیا کر رہے ہیں۔
اے پی ایم سی آزادی ہند سے لے کر اب تک ’زراعت پیداوار مارکیٹ ریگولیٹری پروگرام‘ کا تسلسل ہے۔ ان قوانین سے کسانوں کو فصل کی امدادی قیمت ملنے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اے پی ایم سی منڈی ماڈل کے ذریعے ہندوستانی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (FCI) ریاستوں میں چلنے والا سب سے بڑا خریدار اور اناج کا تقسیم کار ہے۔ یہ سالانہ ہندوستان کی کل گندم کی پیداوار کا 15 سے 20 فیصد اور چاول کی پیداوار کا 12 سے 15 فیصدبراہ راست کسانوں سے خریدتا ہے۔ جو رعایتی نرخوں پر حکومت کے تحت چلنے والے مختلف فلاحی منصوبوں کے ذریعے غریب طبقات کے لئے سستے نرخوں پر مہیا کیا جاتا ہے۔ کسانوں سے امدادی قیمت پر فصل کی خریداری اور غریب صارفین کو سستی زرعی اجناس کی فروخت کے درمیان فرق حکومت کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ ’FCI‘ کا بنیادی خریداری مرکز پنجاب ریاست ہے اور موجودہ کسانوں کی تحریک کا مرکز بھی پنجاب اور ہریانہ کی ریاستیں ہیں۔ یہ دونوں ریاستیں ہندوستان کے زمینی رقبے کا 3 فیصد بنتی ہیں لیکن ان ریاستوں سے چاول اور گندم کی کل ملکی اضافی پیداوار کا 50 فیصد کے قریب حصہ حاصل کیا جاتا ہے۔
اب نئے متنازعہ قوانین کے ذریعے حکومتی منڈیوں کے کردار کو محدود کر کے زراعت کو ’ریاستی مداخلت‘ سے آزاد کیا جائے گا اور یہ ماڈل بڑے خوردہ فروشوں اور امبیانیوں جیسے سرمایہ داروں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گا۔ جبکہ سب سے زیادہ متاثرہ افراد میں چھوٹے اور پسماندہ کسان شامل ہوں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بڑے کارپوریٹ خریداروں کے ذریعے شروع کردہ’ کنٹریکٹ فارمنگ‘ کسانوں کی سودے بازی کی قوت کو محدود کر دے گی۔ اس سلسلے میں ہندوستانی ریاست بہار ایک بہترین کیس اسٹڈی ہے جہاں اس قسم کے قوانین کو 15 سال قبل نافذ کیا گیا تھا۔ ان قوانین نے سرکاری خریداری کے انفراسٹرکچر کو ختم کر دیا اورآزاد منڈیوں کی جانب سے کسانوں کی اجناس کے لئے پرکشش اور بہتر معاوضے کا وعدہ کبھی وفا نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال پنجاب میں کسانوں نے ایم ایس پی ماڈل کے مطابق 100 کلو گرام چاول تقریباً 25 ڈالر میں فروخت کیا جبکہ بہار کے کسان آزاد منڈی میں صرف 16 ڈالر میں یہی مقدار فروخت کرنے پر مجبور ہوئے۔
ستمبر میں ان قوانین کے متعارف ہونے کے فوراً بعد ہی کسانوں نے ’ریل روکو ‘ مہم کا آغاز کیا۔ 24 ستمبر سے 23 اکتوبر 2020ءتک کسانوں نے ریل کی پٹریوں پر احتجاج کر کے ٹرین کی سروس کو کامیابی سے روک دیا۔ ان کی ریاستی حکومتوں کی طرف سے کوئی ردعمل نہ ملنے کے بعد کسانوں نے اپنے مقصد کے لئے مرکزی حکومت پر دباو ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ ہندوستان بھر کے لاکھوں کسانوں نے ’دہلی چلو‘ (ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کی طرف کسانوں کا مارچ) کا اعلان کیا۔ نومبر کے آخر سے ہندوستانی کسانوں نے دہلی کے باہر دھرنا دیا ہوا ہے اور کامیابی کے ساتھ اپنی بستی قائم کی ہوئی ہے۔ 26 نومبر 2020ءکو’بھارت بند‘ کی کال پر ملک بھر میں 250 ملین کسانوں اور مزدوروں نے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف 24 گھنٹے کی کامیاب ہڑتال کی۔ تب سے کسانوں نے دہلی کے بارڈر پر ناکہ بندی جاری رکھی ہوئی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں اور شو بز کی کئی مشہور شخصیات نے کسانوں کی جدوجہد کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ مودی حکومت کی کاسہ لیسی کرنے والے ستاروں کی بھی کمی نہیں ہے۔یہ تحریک حالیہ عہد کی جدوجہد کا مرکزی نقطہ بن چکی ہے۔ تمام رکاوٹوں کے باوجود کسان جدوجہدکر رہے ہیں اوران کابنیادی مطالبہ تمام مجوزہ قوانین کی منسوخی ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے کسانوں کی جدوجہد کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے کسانوں کو خالصتان موومنٹ کے علیحدگی پسند قرار دیا گیا ہے۔ بزور طاقت ان کی تحریک کو کچلنے کے لئے انہیں دہلی جانے سے روکا گیا۔ ان کے اتحاد کو توڑنے کی بھی کوشش کی گئی۔ لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود کسانوں نے عظیم جدوجہد کا عملی ثبوت دیا۔ حکومت کی جانب سے کسان تحریک کو حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاسی استحکام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش تک قرار دیا گیا۔ اس کے جواب میں ایک کسان رہنما نے میڈیا انٹرویو میں کہا، ”اگر کانگریس کے پاس لاکھوں کسانوں کو متحرک کرنے کا کوئی ذریعہ ہوتا تو وہ باآسانی عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیتے۔“
دوسری جانب اس جدوجہد کو چند کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔ مرکز ی حکومت کی جانب سے آئندہ 18 ماہ کے لئے ان قوانین کو معطل کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ حتیٰ کہ کچھ دوسری مراعات کی پیش کش بھی کی گئی۔ تاہم کسان ان قوانین کو مکمل طور پر منسوخ کرانا چاہتے ہیں اور انہوں نے دو ٹوک انداز میں پارلیمنٹ کا خصوصی اجلا س بلوا کر ان قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جنوری کے دوسرے ہفتے میں بھارتی سپریم کورٹ نے بھی حکمران طبقے کا چہرہ بچانے کے لئے تیزی دکھائی اور اپنے ایک حکم نامہ میں تینوں قوانین پر عمل درآمد معطل کیا اور صورتحال کو سمجھنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ تاہم آل انڈیا کسان جدوجہد کوآرڈی نیشن کمیٹی نے اس عدالتی کمیٹی کی تشکیل کو مسترد کر دیا کیو نکہ اس میں وہی لوگ شامل ہیں جو ان تینوں قوانین کی حمایت میں صف اول میں رہے ہیں۔ کسانوں کے مطالبات درج ذیل ہیں:
۱۔ متنازعہ زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جائے۔
۲۔ کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) اور فصلوں کی خریداری کو ریاستی ذمہ داری قرار دیا جائے۔
۳۔ یقین دہانی کرائی جائے کہ روایتی ریاستی خریداری کا نظام قائم رہے گا۔
۴۔ سوامیاتھن پینل رپورٹ پر عمل درآمد کیا جائے اور ایم ایس پی کو پیداوار کی اوسط لاگت کے 50 فیصد زیادہ رکھا جائے۔
۵۔ زرعی استعمال کے لئے ڈیزل کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کی جائے۔
۶۔ این سی آر اور اس سے ملحقہ آرڈیننس 2020ءمیں کمیشن آن ائیر کوالٹی مینجمنٹ کی منسوخی اور بھوسے کو جلانے پر سزا اور جرمانے کو ختم کیا جائے۔
۷۔ پنجاب میں دھان کا بھوسہ جلانے کے الزام میں گرفتار کسانوں کی رہائی۔
۸۔ بجلی کے آرڈیننس 2020ءکو ختم کیا جائے۔
۹۔ کسان قائدین کیخلاف تمام مقدمات کی واپسی اوران کی رہائی۔
ہندوستان میں زراعت اب بھی ایک اہم پیشہ ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ہندوستان کی 40 فیصد سے زیادہ افرادی قوت زراعت میں مصروف عمل ہے۔ یہ ملک کی 1.3 ارب آبادی کے تقریباً 70 فیصد حصے کو معاش فراہم کرتی ہے۔ پانی کی قلت، قدرتی آفات، قرض، بڑھتی ہوئی فصلوں کی لاگت، افراط زر اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بد ترین استحصال سے کسانوں کی زندگی تباہ ہو گئی ہے۔ اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کی 2018ءمیں ایک رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ حقیقت میں ہندوستان کے کسانوں کی آمدنی میں ایک سال میں صرف 2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ کسانوں کی حقیقی معنوں میں آمدنی متعدد دہائیوں سے جمود کا شکار ہے یااس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 1992ءمیں ہندوستان میں نیو لبرل اصلاحات کا آغاز کیا گیا تھا اور تب سے معاشی تفاوت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ آکسفیم کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہندوستان کی سب سے زیادہ دولت مند ایک فیصد آبادی‘ ملک کی آبادی کے 70 فیصد سے چار گنا سے زیادہ دولت رکھتی ہے۔ اس دوران ملک کے تمام ارب پتیوں کی کل دولت ملک کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہے۔ موجودہ مودی حکومت مزدور قوانین میں ترامیم، کارپوریٹ سیکٹر کو مزید ریلیف، نجکاری اور تمام شعبوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دے کر ملک میں نیو لبرل ایجنڈے کو جارحانہ طور پرنافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزارت خزانہ نے اگلے پانچ سالوں میں بڑے سرکاری اثاثوں کو فروخت کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ حکومت خود سے معیشت میں سرمایہ کاری نہیں کر رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق حکومت کو زرعی شعبے کو بچانے کے لئے 86 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے لیکن اس کے برعکس اس نے اپنی مالی اعانت میں کمی کی ہے۔ یہاں تک کہ بہت ساری ہندوستانی ریاستوں میں’نقد رقم کی منتقلی ‘کے براہ راست پروگرام روک دیئے گئے ہیں۔ سرکاری اور نجی سرمایہ کاری دونوں کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں بدتریج کمی آ رہی ہے۔ نجی سرمایہ کار اسٹاک مارکیٹوں، پراپرٹی یا ڈیجیٹل صنعتوں میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی طرف مائل ہیں۔
کسانوں کی یہ جدوجہد ایک قابل ذکر تحریک ہے کیونکہ ’طاقتور‘ مودی اپنی تمام تر طاقت کے باوجود بھی اس کو کچل نہیں سکا۔ تحریک بین الاقوامی یکجہتی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ طلبہ کی تنظیمیں، ٹریڈ یونینیں اور سول سوسائٹی بھی یکجہتی میں حصہ لے رہی ہیں۔ لیکن تمام تر جرات اور بہادری کے باوجود کسانوں کی اس تحریک کی کچھ واضح حدود بھی ہیں۔
کسانوں میں مختلف پرتیں اور طبقات ہوسکتے ہیں۔ ان میں بڑے زمیندار، درمیانے زمیندار اور بے زمین زرعی مزدور بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں صرف چھ فیصد کسان اپنی پیداوار سرکاری ایجنسیوں کو فروخت کر سکتے ہیں۔ کسانوں کا ایک بہت بڑا حصہ ابھی بھی بے زمین کسانوں پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر 2015-16ءکے وزارت زراعت کے سروے کے مطابق 85 فیصد سے زیادہ کسانوں کے پاس دو ہیکٹر (پانچ ایکڑ) سے بھی کم زمین ہے۔ اسی طرح کسانوں کے قرضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ’نیشنل بینک برائے زراعت اور دیہی ترقی‘ کی 2018ءکی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تمام زرعی گھرانوں میں سے 52.5 فیصد اوسطاً 1470 ڈالر کے مقروض ہیں۔ کسانوں میں خود کشیوں کی شرح بھی بہت بلند ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے مطابق بھارت میں ہر روز 28 کسان خود کشی کرتے ہیں۔ بڑی غیر رسمی ہندوستانی معیشت کی وجہ سے زیادہ تر محنت مزدوری کرنے والے کسان نجی سود خوروں سے بلند شرح سود پر قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ آخر میں کسان قرض ادا کرنے کے لئے اپنی زمین بیچ دیتا ہے اور شہروں میں آ کر محنت مزدوری کر کے زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔
کسانوں کی قیادت تحریک کے مطالبات کو کسانوں کی مخصوص پرت تک محدود رکھنا چاہتی ہے۔ یہاں تک کہ مطالبات میں غریب کسانوں، زراعت کے مزدوروں اور کاریگروں کے مفادات کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔ کم از کم اجرت، قرضوں، قدرتی آفات یا پانی کی قلت وغیرہ جیسے مسائل پر بہت کم بات کی جا رہی ہے۔ تقسیم کے بعد اگرچہ بھارتی ریاست کی جانب سے زرعی اصلاحات کی کوشش کی گئی لیکن آج بھی ملک کے بہت سارے علاقوں میں انتہائی جابرانہ جاگیرداری نظام قائم ہے۔ ہندوستان کے بڑے حصوں میں بدترین غلامی کی باقیات اب بھی دکھائی دیتی ہیں۔ جنہیں سرمایہ داری نے مزید اذیت ناک بنا دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تحریک مودی سرکار کی وحشت اور دھونس کو للکار کر مزدور جدوجہد کو ایک بہت بڑا محرک فراہم کیا ہے۔ ہندوستانی مزدور طبقہ پہلے ہی نجکاری، مزدوری قوانین میں متنازعہ ترامیم، اجرتوں میں کمی وغیرہ کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے۔ بڑی فیصلہ کن تحریک میں مختلف بکھری ہوئی لڑائیوں کویکجا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہندوستانی کمیونسٹ پارٹیاں ہڑتالوں اور مظاہروں میں حصہ لے رہی ہیں لیکن ان تحریکوں کو انقلابی پروگرام سے مسلح کرنے کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ان پارٹیوں نے خود کو صرف انتخابی سیاست میں غرق کر دیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ان کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔
ہندوستان میں محنت کش طبقے اور کسانوں کی بغاوتوں کی بھرپور تاریخ ہے۔ نوآبادیاتی عہد کے دور میں کسانوں کی بغاوتوں نے برطانوی سامراج کی بنیادیں تک ہلا کر رکھ دی تھیں۔ یہاں تک کہ تقسیم کے بعد بھی کسانوں کی زبردست تحریکیں رہی ہیں۔ تاہم بائیں بازو کے نظریاتی انحطاط نے نکسل تحریک جیسی گوریلا تنظیموں کو جگہ دی ہے جو کسان جدوجہد سے ابھر کر سامنے آئے اور بعد میں سیاسی جدوجہد کی جگہ گوریلا جنگ کا راستہ اپنایا۔ تاہم آج ان کسانوں کی جرات اور بہادری نے سیاسی جدوجہد کی نئی مثال قائم کی ہے اور جنگلوں کی بجائے شہروں میں کی جانے اس جدوجہد نے مودی سرکار کے ناک میں دم کر دیا ہے۔ اب یہ انقلابیوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس طرح کی مزدوروں اور کسانوں کی تحریکوں یکجا کر کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کھلی سرکشی میں تبدیل کریں۔