اداریہ جدوجہد

نسل انسان آج تاریخ کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے ارتقا کے اس مرحلے پر تہذیب کو کئی طرح کے سنجیدہ خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ دنیا معاشی، سماجی، سیاسی اور ماحولیاتی بحرانات میں گھری ہوئی ہے۔ کورونا کی وبا ایک تنبیہ ہے جو واضح کرتی ہے کہ فطرت کی بربادی کیسے انسان کو برباد کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ فوسل فیول کے بے جا استعمال اور جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ کے نتیجہ میں جنم لینے والی ماحولیاتی تبدیلیاں ایک گھمبیر شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ سیارہ گرم ہو رہا ہے۔ گلیشیر پگھل رہے ہیں اور سطح سمندر بلند ہو رہی ہے۔ موسم شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ جنگلات کی آگ ایک معمول بن چکی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کیساتھ ساتھ منافع خوری کے لئے سمندری حیات کے بے لگام شکار نے بیشتر انواع کو معدومی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جس سے پورے کے پورے ایکو سسٹم انہدام کا شکار ہو رہے ہیں۔ پچھلے چند سو سال میں انسان نے ترقی کی کئی منازل طے کی ہیں۔ اس عرصے میں دولت کی پیداوار میں ہونے والا اضافہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے تحت اس ترقی کی قیمت انسان کیساتھ ساتھ فطرت کے بدترین استحصال کی صورت میں چکانی پڑی ہے۔ لیکن اب یہ تباہی جس نہج تک پہنچ چکی ہے وہاں انسانیت زیادہ عرصے سے تک اس کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ ماحولیات کے بیشتر سنجیدہ ماہرین کا خیال ہے انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج آج روک بھی دیا جائے تو پہلے سے پیدا ہو چکے مضر اثرات کے خاتمے میں کئی سو سال لگ سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف مکمل طور پر قابل تجدید توانائی کی طرف مراجعت کی امید اس نظام کے تحت اگلی کئی دہائیوں تک بھی نظر نہیں آتی ہے۔ اس کا سیدھا مطلب مزید تباہی ہے جو مقدار کی معیار میں تبدیلی کے قانون کے تحت آنے والے عرصے میں ’اچانک‘ ایسی شدت اختیار کر سکتی ہے کہ کرہ ارض پر سے تمدن کا نام و نشان مٹ سکتا ہے۔ لیکن یہ ماحولیاتی تباہی منڈی اور منافع خوری پر مبنی اس معاشی نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے جو خود تاریخی گراوٹ سے دو چار ہے۔ 2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد سے عالمی معیشت ایسی بحرانی کیفیت میں داخل ہوئی ہے جس کا تدارک تو دور کی بات‘ وضاحت بھی بورژوا سیاسی معاشیات کرنے سے قاصر ہے۔ بڑی سرمایہ دارانہ معیشتیں خود اپنے قوانین کے الٹ کھڑی نظر آتی ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ اس مالیاتی کریش کے بعد نوبل انعام یافتہ معیشت دان پال کروگمین کو کہنا پڑا تھا کہ پچھلے تیس سالوں میں میکرو اکانومی میں جتنا کام ہوا ہے وہ ”اپنی بہترین صورت میں حیران کن حد تک بے کار اور بدترین صورت میں قطعی طور پر نقصان دہ تھا۔“ یوں یہ بنیادی طور پر بورژوا فکر اور فلسفے کا بحران بن جاتا ہے جو ادراک کی صلاحیت سے بے بہرہ ہو چکا ہے۔ سرمایہ داری کے ماہرین اور پالیسی سازوں کی سوچ وقت کیساتھ مادی حقائق سے کٹتی چلی گئی ہے۔ ویسے بھی متروک نظاموں کے علمبردار طبقات کبھی حقیقت پسند نہیں ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ حقیقت انہیں مستفید کرنے والے نظام کی موت کا اعلان کر رہی ہوتی ہے اور یوں حالات انہیں رجعت میں پناہ تلاش کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایسے میں گزشتہ تقریباً تیرہ سالوں سے مسلسل ہزاروں ارب ڈالر کے مالیاتی ٹیکوں کے ذریعے عالمی سرمایہ داری کو بحال کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ جن کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اب امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد جو بائیڈن تقریباً دو ہزار ارب ڈالر کے نیا مالیاتی انجکشن عالمی معیشت کو لگانے کی تیاری کر رہا ہے۔ لیکن بحران نظام کی بنیادوں میں موجود ہے۔ جس سے اوپر کھڑی ساری عمارت لڑکھڑا رہی ہے۔ انسانی سماج ایک مسلسل عدم استحکام کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہر طرف مروجہ سیاست سے ایک عمومی نفرت اور بیزاری موجود ہے۔ کیونکہ یہ سیاست لوگوں کی زندگیوں میں کوئی آسودگی اور بہتری لانے سے قاصر ہے۔ بیشتر ممالک میں وسیع بیروزگاری ایک مستقل صورت اختیار کر گئی ہے۔ جنہیں کام ملتا ہے ان کی اجرتیں سکڑتی جاتی ہیں اور حالات کار سخت ہوتے جاتے ہیں۔ معیارِ زندگی بالعموم ایک گراوٹ کا شکار ہے۔ عوام کرب میں مبتلا ہیں۔ ایسے حالات میں جب سماج آگے نہیں بڑھ پا رہے ہوتے تو ماضی کے ہر طرح کے نسلی، قومی اور مذہبی تعصبات کا عود کر آنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ لیکن ان رجعتی رجحانات کیساتھ بغاوت بھی لازماً جنم لیتی ہے۔ اور پچھلی ایک ڈیڑھ دہائی میں وہ کون سا ایک خطہ ہے جہاں محنت کشوں اور نوجوانوں کی بغاوتیں نہیں ابھری ہیں؟ مختلف شکلوں میں ہونے والی یہ چھوٹی بڑی سرکشیاں علامت ہیں اس عدم اطمینان، بے چینی اور اضطراب کی جو عام انسانوں کی اکثریت میں پنپ رہا ہے۔ لیکن نظام کی تبدیلی کے لئے اس بغاوت کو درست سمت، راستہ اور لائحہ عمل درکار ہے۔ جس کا فقدان آج کے عہد کا سب سے بڑا بحران ہے۔ انسانیت کے وجود کے لئے خطرہ بن چکا یہ نظام خودبخود کبھی ختم نہیں ہو گا۔ لیون ٹراٹسکی نے بہت پہلے واضح کیا تھا کہ ”جدلیاتی مادیت اور تقدیر پرستی میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے… تاریخ کے قوانین کسی طور بھی بنے بنائے کتابی خاکے نہیں ہوتے ہیں۔“ تاریخ کا تعین آخری تجزئیے میں انسان ہی کرتے ہیں اور آج انسانیت کے مستقبل کا فیصلہ طبقاتی قوتوں کے توازن پر منحصر ہے۔ مارکسی نظریات سے لیس انقلابی قیادت کے تحت ہی پرولتاریہ اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر نسل انسان کو بربریت کی کھائی میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔