ظفر اللہ
لینن نے کہا تھا کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ایک ڈھونگ اور فریب ہے کیونکہ یہ ایک اقلیت کی اکثریت پر حاکمیت پر مبنی ہے جو بغیر دھوکے اور مکر و فریب کے قائم نہیں رہ سکتی۔ ماضی اور آج کی سرمایہ دارانہ جمہوری قوتوں، رویوں اور ہتھکنڈوں میں زمیں آسمان کا فرق ہے۔ جوں جوں نظام اپنی متروکیت کی طرف بڑھ رہا ہے توں توں اس کی اقدار اور حکمران طبقات کے ہتھکنڈے اپنی ننگی شکل میں آشکار ہو رہے ہیں۔
ماضی میں کچھ سیاسی و سفارتی آداب ہوتے تھے۔ الفاظ کے بہتر چناؤ کے ذریعے جبر و استحصال کو پردے میں رکھا جاتا تھا۔ استحصالی نظام پر پُرفریب ملمع کاری کی جاتی تھی۔ لیکن آج جہاں نظام زوال کا شکار ہے وہیں حاکمیت بھی اتنی ہی غیر سنجیدہ، بد تہذیب اور بد تمیز شکل اختیار کر چکی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان ویسے تو اپنے مضحکہ خیز انداز گفتگو اور دلائل کے لئے کافی مشہور ہیں لیکن حالیہ دنوں میں مختلف واقعات پر جو ان کا ردعمل آیا ہے اس سے بیشتر لوگوں نے سنجیدگی سے اس کی ذہنی کیفیت پہ شک کرنا شروع کر دیا ہے۔ پچھلے سال دسمبر میں مچھ میں ہزارہ برادری کے کان کن مزدوروں کے بہیمانہ قتل عام پر سوگواران کے دھرنے کو جس طرح اس نے بلیک میلنگ کا حربہ کہا تھا اس نے ملک کے اجتماعی شعور کو گنگ کر دیا ہے۔ یہ غمزدہ خاندانوں کا جگر چھلنی کرنے کے مترادف تھا۔ بالفرض اگر انہوں نے کسی کے کہنے پہ دھرنے کو طوالت دی اور عمران خان کے دورے سے دھرنے کے خاتمے کو مشروط کیا (حکمرانوں کا بلیک میلنگ کا اشارہ ایران اور اس کی حمایت یافتہ مقامی قوتوں کی طرف تھا) پھر بھی ریاست کے وزیر اعظم کی طرف سے یہ الفاظ اس کو سنکی اور ذہنی مریض ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔
اسی طرح گزشتہ ڈھائی سالوں میں موجودہ حکومت کے انتہائی وحشیانہ معاشی حملوں، سامراج اور سامراجی اداروں کے احکامات کی بجا آوری اور تاریخی مہنگائی کے نتیجے میں محنت کش طبقہ برباد ہوا ہے۔ معاشی شرح نمو منفی میں ہے اور اس کے نتیجے میں بیروزگاری کا ایک طوفان ہے۔ گیارہ فیصد سے زائد افراط زر کی شرح ہے اور معیشت سکڑ رہی ہے۔ تمام عالمی اور ملکی اعداد و شمار کے ادارے اور تجزیہ نگار ایک معاشی بربادی کی داستان سنا رہے ہیں۔ مگر خان صاحب نے گزشتہ دنوں ارشاد فرمایا ہے کہ ہمارے دور حکومت میں مہنگائی کنٹرول ہوئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے بلکہ یہ خوشامدیوں میں گھرے ایک خود پسند، مغرور، انا پرست اور ہٹ دھرم انسان کی ذہنی کیفیت کی غمازی کرتا ہے کہ حکمران زمینی حقائق اور عوام کی حالت زار سے کتنے لاتعلق ہیں۔ محض اعداد و شمار کا ایک گورکھ دھندا ہے جسے نوکر شاہی بڑی عیاری سے استعمال کرتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معیشت سکڑ رہی ہے۔ جن برآمدات میں اضافے کے لئے روپے کی قدر گھٹا کر مہنگائی کا طوفان برپا کیا گیا ان میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ قرضوں میں 35 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گیارہ ہزار ارب کے نئے قرضے لیے گئے ہیں اور ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ یہ تمام اقدامات سابقہ حکومتوں کا کیا دھرا کہہ کر سرانجام دیے جا رہے ہیں۔ یہ ہر وہ طریقہ اختیار کر رہے ہیں جو ماضی کے حکمران طبقات کرتے رہے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام میں اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔لیکن ان کی روش کہیں زیادہ جابرانہ ہے۔ جس نظام پر بیٹھ کر یہ حاکمیت کرتے ہیں وہ وہی پہلے والا ہے اور اس میں یہ سب ناگزیر ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کارل مارکس کو بھی بیٹھا دیں وہ بھی یہی کچھ کر سکتا ہے۔ دراصل یہ نظام کی جکڑ اور کنٹرول کا تقاضا ہے کہ اس کے دائرے میں تمام حکمران ایک ہی پالیسیاں بنانے کے پابند ہیں۔ صرف ہر کچھ عرصے بعد عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
حکمرانوں کا دوسرا گروہ (اپوزیشن / پی ڈی ایم) ایک مختلف طریقے سے محنت کش عوام کو جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو وغیرہ جیسے بے ہودہ اور جعلی پروگرام کے ذریعے جھانسہ دے رہا ہے۔ مگر اس بار طریقہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔ کچھ عوام اپنے تجربات کے بعد باشعور ہو گئے ہیں اور کچھ اقتدار کے حصول کی ہوس نے پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل مختلف گدھوں کو بے نقاب بھی کر دیا ہے۔ بھلا جن کو لوٹ مار، عیاشی،دلالی اور دولت کے حصول کی لت پڑ چکی ہو وہ کیا حقیقی جمہوری تحریک چلا کر ریاست اور اس کے طاقتور اداروں سے ٹکرا سکتے ہیں۔ ویسے بھی اس ملک میں آج تک کوئی حکومت کسی عوامی تحریک کے نتیجے میں تبدیل یا ختم نہیں ہوئی۔ ماسوائے ایوب خان کی حکومت کے‘ جس کا خاتمہ ایک طاقتور خودرو عوامی تحریک کے نتیجے میں ممکن ہوا تھا۔
پی ڈی ایم کی حالیہ نام نہاد جمہوری تحریک کی بری طرح ناکامی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پاکستان کے عوام کا مسئلہ قومی جمہوری انقلاب نہیں ہے اور تحریک میں حقیقی عوامی مسائل کے حل کے پروگرام کی عدم موجودگی کے نتیجے میں عوامی لاتعلقی اس بات کی دلالت ہے کہ محنت کش عوام کی وسیع پرتیں جمہوری ڈھکوسلوں سے کوسوں دور ہیں۔ یہ نظریہ مسلسل انقلاب کی نظریاتی صداقت کی ہلکی سی جھلک ہے۔ ویسے بھی نظری اعتبار سے پی ڈی ایم کی یہ تحریک کسی ”حقیقی جمہوریت“ کی تحریک سے زیادہ ملک کی حقیقی مقتدرہ سے اپنے لئے کچھ گنجائش لینے کی کوشش ہے۔ دیکھا جائے تو معاشی میدان میں عملی طور پر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی اجارہ داری ہے۔ پہلی مرتبہ اتنی شدت سے اور کھلے عام سامراجی پالیسیوں پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ہی تعینات کردہ گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ معاشی شعبے پر حاوی ہیں۔ جو اپنے آقاؤں کے فیصلے اس ملک کے کروڑوں محکوم انسانوں پر مسلط کر رہے ہیں۔
ریاستی اداروں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں دھڑے بندی اور دراڑیں زیادہ واضح ہو رہی ہیں۔ سیاسی فرنٹ پر رو نما ہونے والے تضادات دراصل پس پردہ حکمران طبقے کے مختلف گروہوں اور ریاستی دھڑے بندی کا شاخسانہ ہیں۔ موجودہ حکومت کی غیر مستحکم کیفیت دراصل ریاستی انتشار اور عدم استحکام کی نشاندہی کرتی ہے۔ ریاستی ڈھانچہ اور ادارے انتہائی خستہ حال، نااہل، پسماندہ اور متروک ہیں۔ ریاست کی سماج پر گرفت کمزور ہے جو اسے جبری گمشدگی اور ماورائے قانون اقدامات پر مجبور کرتی ہے۔ جس کے خلاف پھر کبھی نہ دیکھی گئی مزاحمت بھی نظر آ رہی ہے۔ ریاست اپنی بقا کے مسئلے سے دوچار ہے۔
ریاستی نوکر شاہی حکومتی نااہلی سے بہتر طور پر باخبر ہے۔ وہ اس سے مکمل فائدہ اٹھاتی ہے اور اپنی مراعات کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے اسی کے ذریعے اس کے خلاف اقدامات کیے جائیں اور انتظامی اصلاحات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ انتظامی اصلاحات کا ادارہ بنیادی طور پر چند بوڑھے سول سرونٹس اور ٹیکنوکریٹس کا اپنے مفادات کے لئے ایک مشغلہ ہی ہے۔
معاشی اصلاحات کی خواہش دم توڑ چکی ہے۔ ماضی میں عالمی سطح پر معاشی اصلاحات کی استثنائیت کے پیچھے ٹھوس مادی وجوہات تھیں۔ جیسے جاپان، کوریا اور تائیوان وغیرہ۔ وہ سرمایہ داری کے ایک مختلف عہد کی داستان اور عروج کے دنوں کی کہانی ہے۔ آج عالمی معیشت جس گہرے بحران اور عدم استحکام کا شکار ہے اس میں ایک تاریخی طور پرپسماندہ اور تاخیر زدہ پاکستان کیسے معجزہ برپا کر سکتا ہے۔ یہ گڈ گورننس، کرپشن سے پاک اور ایماندار قیادت کا مسئلہ نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک نامیاتی بحران ہے جس میں کوئی بھی ریاست اور سماج آگے کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔
کرپشن اور لوٹ مار کم یا ختم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے۔ سیاست ایک دولت کا کھیل اور کاروبار بن چکی ہے۔ کروڑوں لگا کر اربوں کمانے کا دھندہ ہے۔ سینیٹ الیکشن میں ممبران کی خرید و فروخت اس کی واضح مثال ہے۔ اسی لئے موجودہ حکمران اپنا اعتماد کھو چکے ہیں اور سخت فرسٹریشن میں مبتلاہیں۔ دس ہزار ارب روپے کے ٹیکس اکھٹا کرنے کے دعوے اپنی موت آپ مر چکے ہیں اور یہ حقیقت ان کی ذہنی اذیت کا باعث ہے۔ ریاستی خزانہ خالی ہے اور حکمران اپنے جاری اخراجات اور پرانے قرضوں کی ادائیگیاں نئے قرضوں اور محنت کش عوام پر مزید حملوں کے ذریعے انجام دے رہے ہیں جس سے پورا سماج ایک کرب میں مبتلا ہے۔ درمیانے طبقے کے کاروباری خوفزدہ ہیں۔ بالعموم درمیانے طبقے کے لئے اپنی پرانی معاشی اور سماجی حالت کو برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار گروہوں کو بے تحاشہ نوازا گیا ہے۔ کورونا وبا کی آڑ میں گیارہ سو ارب روپے کا ریلیف پیکیج سرمایہ داروں کو دیا گیا۔ مگر معیشت، روزگار اور سماجی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
پچھلے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا جس کے خلاف وہ حکومت کے خلاف صف بندی کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کی حالیہ کامیاب احتجاجی تحریک کے نتیجے میں حکومت پسپا اور تنخواہوں میں اضافے پر مجبور ہوئی ہے۔ یہ نہایت خوش آئند ہے جس سے محنت کشوں کی ہراول پرتوں کے اعتماد میں اضافہ ہو گا کہ اپنے مطالبات کے حصول کے لئے جدوجہد کا راستہ ناگزیر ہے اور بغیر لڑائی کے حکمران کوئی مراعات اور رعایت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں نجکاری کے خلاف ہونے والے احتجاج پر اس کے معیاری اثرات پڑیں گے۔ نجی شعبے کے محنت کشوں کی تحریک کو بھی مہمیز مل سکتی ہے اور آنے والے دنوں میں نئی صف بندیاں ہوتی نظر آ سکتی ہیں۔ جس میں پرولتاریہ کی تازہ دم پرتیں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ ایک طویل عرصے کا جمود ٹوٹنے کی طرف جائے۔ لیکن حکومت پر سامراجی اداروں کا شدید دباؤ ہے۔ وہ ایک ہاتھ سے دے کر نئے ٹیکسوں کی صورت میں دوسرے ہاتھ سے چھیننے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں تقریباً دو روپے فی یونٹ کا حالیہ اضافہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ لیکن محنت کش طبقہ بھی دیکھ اور سیکھ رہا ہے اور پر اعتماد ہو رہا ہے۔ طبقاتی جنگ کے طبل اسی حکومت کے دوران بھی بج سکتے ہیں۔ اور ایک مرتبہ طبقہ اس جنگ کے لئے باہر نکل آیا اور درست نظریات پر قائم قیادت کے ساتھ اس کا ملاپ ہو گیا تو ایک نئے انقلابی عہد کے طلوع ہونے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔