اداریہ جدوجہد
برصغیر کی دو ایٹمی طاقتوں کے تعلقات پچھلی سات دہائیوں سے ایک دائرے میں گھومتے نظر آتے ہیں جس میں کبھی جنگ، جنگی جنون یا جنگی حالات کے دورانیے آتے ہیں۔ جب دو طرفہ تعلقات بگڑ کر انتہائی کشیدگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات نوبت افواج کی موبلائزیشن تک پہنچ جاتی ہے۔ دونوں اطراف سے بڑھکوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں مذہبی دایاں بازو پیش پیش نظر آتا ہے۔ انتہا پسندی کو ابھارا جاتا ہے۔ سیاسی اشرافیہ حب الوطنی، منافرت اور قومی شاونزم کو خوب ہوا دیتی ہے۔ تجارتی تعلقات منقطع یا انتہائی محدود ہو جاتے ہیں۔ دونوں طرف میڈیا کے بڑے بڑے اینکر منہ سے جھاگ نکالتے نظر آتے ہیں۔ مہنگے اور جدید ترین ہتھیاروں کے تجربات ہوتے ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر سفارتی الزام تراشیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کھلی جنگ کی عدم موجودگی میں بھی لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں معمول بن جاتی ہیں جن میں زیادہ تر غریب شہریوں کی زندگیاں اور املاک ہی نشانہ بنتی ہیں۔ لیکن پھر اس سارے جنگی پاگل پن کو انتہاؤں پر لے جا کر امن کی قسط شروع کر دی جاتی ہے۔ جس میں دونوں اطراف سے بہتر تعلقات، علاقائی استحکام اور اسلحے کی دوڑ کی بجائے عوام کی فلاح پر توجہ دینے کی خواہش ظاہر کی جاتی ہے۔ امن مذاکرات کی بات ہوتی ہے اور ان مذاکرات کے لئے مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک بالکل ناممکن نظر آنے والی خیر سگالی کے اشارے دئیے جاتے ہیں۔ تجارتی تعلقات بحال ہو جاتے ہے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے جیسے اب سب کچھ ہمیشہ کے لئے ٹھیک ہونے جا رہا ہے اور دہائیوں پرانا امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا چاہتا ہے۔ لیکن پھر کوئی ایک واقعہ اس سارے سلسلے کو منقطع کر کے حالات و واقعات کو واپس کشیدگی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ کامریڈ لال خان کے بقول ایک ”بے قاعدہ باقاعدگی“ سے جاری جنگ و امن کا یہ سلسلہ خونی بٹوارے کے نتیجے میں بننے والی ان ریاستوں کے جنم سے جاری ہے اور جب تک یہ نظام قائم ہے جاری رہے گا۔ درحقیقت تقسیم کے دونوں طرف موجود بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام نہ ان حکمرانوں کو کسی بڑی جنگ کی اجازت دیتا ہے، نہ یہ کوئی دیرپا اور مستحکم امن قائم کر سکتے ہیں۔ ان کی جنگیں یا جنگی حالات جب پورے نظام کے لئے خطرہ بننے لگتے ہیں تو یہ امن کی طرف مراجعت کر جاتے ہیں۔ لیکن پھر چونکہ ان کا نظام یہاں کے سماجوں کو کوئی دوررس ترقی، خوشحالی اور استحکام دینے سے قاصر ہے لہٰذا انہیں اپنے اقتدار اور تسلط کو قائم رکھنے کے لئے ناگزیر طور پر جنگی جنون کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جب تک ان سماجوں میں غربت، بیروزگاری اور محرومی کا راج ہے یہاں طبقاتی تضادات بھڑکتے رہیں گے۔ جنہیں دبانے کے لئے یہ حکمران وقتاً فوقتاً جنگی کیفیات کو جنم دیں گے۔
بالعموم سرمایہ داری کی ترقی کے لئے امن اور استحکام کو بنیادی شرط سمجھا جاتا ہے۔ بصورت دیگر پائیدار بنیادوں پر تجارت، سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جس سے پھر سرمایہ داری کی قوت محرکہ سمجھی جانے والی منافع خوری متاثر ہوتی ہے اور سارا نظام بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ تصویر کا صرف ایک پہلو ہے۔ جہاں اس نظام کے پنپنے کے لئے امن اور استحکام ضروری ہے وہاں پھر جنگوں کے تقاضے بھی اسی نظام کے تضادات سے جنم لیتے ہیں۔ اور اس کرہ ارض پر جتنی بڑی جنگیں سرمایہ داری نے برپا کی ہیں اس کی مثال ساری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جنگ یا امن کوئی مجرد تصورات نہیں ہیں جو چند فیصلہ کن افراد کی موضوعی خواہشات کے تابع ہوں۔ جیسا کہ اس نظام کے دانشور اکثر تاثر دیتے ہیں۔ بلکہ ٹھوس مادی حالات اور مفادات ان متضاد کیفیات کو جنم دیتے ہیں۔ جنگ آخری تجزئیے میں دوسرے طریقوں سے سیاست کا ہی تسلسل ہوتی ہے۔ اور جیسا کہ لینن نے واضح کیا تھا کہ سیاست مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے۔ جہاں حکمران طبقات کے معاشی مفادات کا ٹکراؤ قومی جنگوں کو جنم دیتا ہے وہاں داخلی تضادات کو دبانے کے لئے بھی بیرونی محاذ کھولے جاتے ہیں اور جنگی صنعت، جسے آج کی سرمایہ داری میں ’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ کہنا زیادہ مناسب ہو گا، کی منافع خوری کے لئے بھی جنگ یا جنگی حالات پیدا کیے جاتے ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاک بھارت کشیدگی میں سامراجی طاقتوں کی آشیرباد سے جو ’امن‘ کا حالیہ وقفہ آیا ہے یہ کئی ہفتوں، مہینوں یا سالوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ جس دوران نام نہاد جذبہ خیرسگالی کو نئی انتہاؤں تک لے جایا جائے گا۔ خطے کے لبرل حلقے پہلے سے شادیانے بجا رہے ہیں۔ لیکن ان حکمرانوں کے ماضی کے جائزے سے مستقبل کا پیش منظر تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ یہ سماج جس قدر انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہیں اور دونوں طرف عسکریت سے جس قدر معاشی مفادات جڑے ہوئے ہیں اس کے پیش نظر جلد یا بدیر یہ سلسلہ منقطع ہو گا۔ یہ جنگ اور امن کا گھن چکر ہے جس میں دنیا کی 22 فیصد آبادی اور آدھی غربت پالنے والے اس خطے کی خلق پس رہی ہے۔ اس بحران زدہ سرمایہ داری میں جہاں کھلی جنگ کے امکانات انتہائی محدود ہیں وہاں دیرپا امن بھی دیوانے کا خواب ہے۔ جب تک اس نظام کی بساط نہیں لپیٹی جاتی یہاں کے عوام سکھ اور چین کا سانس نہیں لے سکتے۔