راہول

اس سال بنگلہ دیش کی نام نہاد آزادی کو پچاس سال مکمل ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر بڑی بڑی تقریبات کا اہتمام کیا گیا جن میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی سمیت خطے کے کئی اہم حکمرانوں نے شرکت کی۔ ڈھاکہ سے لے کر چٹاگانگ تک ہر طرف آزادی کے ایک بھونڈے جشن کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن غربت، محرومی اور لا علاجی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنسی غریب عوام ”آزادی“ کی ان تقریبات سے زیادہ تر لا تعلق ہی رہی۔ بلکہ حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں کو بطور مہمانِ خاص ان تقریبات میں مدعو کیا گیا تھا ان کی موجودگی ہی یہ واضح کرنے کے لئے کافی تھی کہ پچاس سال قبل حاصل کی گئی اس آزادی سے حکمرانوں کی محض زبان اور شکل ہی بدل سکی تھی‘ان کا کردار نہیں۔

اپنے پچاسویں یوم ِآزادی کے موقع پر نریندرا مودی جیسے فسطائی حکمران کو مدعو کر کے درحقیقت بنگلہ دیش کے حکمرانوں نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ یہاں ہونے والے فیصلہ جات میں وہ آج پچاس سال گزرنے کے باوجود بھی خودمختیار نہیں ہو سکا ہے اور ہندوستان بطور علاقائی قوت کے ان فیصلہ جات میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ مودی کی ڈھاکہ آمد پر بنگلہ دیش میں ملاؤں کی جانب سے مودی سرکار کے بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ملک گیر احتجاجوں کا سلسلہ کئی روز گزرنے کے باوجود اب تک جاری ہے۔ پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں کئی لوگوں کی ہلاکتوں سمیت متعدد لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ ان مظاہروں کی قیادت ”حفاظت اسلامی“ نامی تنظیم کر رہی ہے۔ یہ مظاہرے اتوار کے روز ہونے والی ہلاکتوں کے بعد مزید شدت اختیار کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے مودی کو مدعو کرنے کے فیصلے نے بنیاد پرست قوتوں کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنی تشدد اور مذہبی منافرت کی سیاست کو چمکا سکیں۔ یہ صورتحال بنگلہ دیشی سیکولرازم کی سطحیت اور نحافت کو بھی واضح کرتی ہے۔

1971ء میں اس ملک نے بظاہر آزادی تو حاصل کر لی مگر اپنے قیام سے لے کر آج تک خطے کے دوسرے ممالک کی طرح یہاں کا حکمران طبقہ بھی قومی جمہوری انقلاب اور جدید قومی ریاست کی تشکیل کا کو ئی ایک بھی بنیادی فریضہ مکمل نہیں کر پایا۔ آمریت و جمہوریت کا کھلواڑ یہاں بھی جاری رہا۔ دیگر ممالک کی طرح لولی لنگڑی سرمایہ دارانہ جمہوریت‘ فوجی آمریتوں کے ہاتھوں برباد ہوتی رہی۔ پھر جبر کے خلاف اٹھنے والی عوامی بغاوتوں کا گلا گھونٹنے کے لئے دونوں بڑی پارٹیوں (عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی) کو جمہوری اقتدار دے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی سماجی تبدیلی کی تحریکوں کو زائل کیا جاتا رہا۔ مگر اس نام نہاد جمہوریت میں اس قدر ریاستی و معاشی جبرمسلط کیا جاتا رہا ہے کہ بعض اوقات حالات براہِ راست فوجی آمریتوں سے بھی زیادہ ہولناک محسوس ہوتے ہیں۔

اپنے پچاسویں یوم آزادی کے موقع پر بنگلہ دیش نے کچھ اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن پاکستان جیسی نحیف اور بحران زدہ معیشت سے موازنہ کر کے خود کو ایک طاقتور معیشت ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ محض بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ پچھلے کئی برسوں سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے سامراجی مالیاتی ادارے اور ان کے پروردہ مقامی دانشور بنگلہ دیش کی معاشی اور سماجی ترقی کے گن گاتے نہیں تھک رہے ہیں اور اسے ایک رول ماڈل کے طو ر پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو یا پھر فی کس آمدنی کا موازنہ، غربت کے خاتمے کی بات ہو یا پھر بیروزگاری میں کمی‘ ان تمام چیزوں کو بحث میں لا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بنگلہ دیش ایک ایسی خودمختیار اور ترقی یافتہ ریاست بن چکا ہے جہاں دودھ و شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔

درحقیقت یہاں ہونے والی جس ”ترقی“ کا چرچہ ہے وہ محنت کش عوام کے بدترین استحصال کا ہی نتیجہ ہے۔ حکمرانوں کی یہ نام نہاد ترقی بنیادی طور پر غریب عوام کا لہو نچوڑ کر ہی حاصل کی گئی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری یا برآمدات میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے بلکہ اصل وجہ یہاں کم ترین اجرتوں پر محنت کشوں کی دستیابی ہے جنہیں غربت کے ہاتھوں لاچار ہو کر انتہائی غیر انسانی حالات میں کڑی شرائط پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہی بنگلہ دیش کا وہ ”معاشی ماڈل“ ہے جو اسے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے پر کشش بناتا ہے اورجس کے مداح ہمارے کئی لبرل حکمران اور دانشور بھی نظر آتے ہیں۔

بنگلہ دیش کے بلند گروتھ ریٹ اور یہاں ہونے والی تیز معاشی ترقی درحقیقت سابقہ نو آبادیاتی ممالک میں اس طرز کی کلاسیکی مثال ہے جس میں معاشی اشاریے تو اوپر جاتے ہیں، حکمران طبقات خوب دولت کے انبار بھی لگاتے ہیں، لیکن معاشرے کی وسیع تر اکثریت کے حالات زندگی تنزلی کا شکار ہی رہتے ہیں۔ جنہیں ایک نسبتاً بڑے درمیانے طبقے کی بیہودہ زرق برق کے نیچے بڑی عیاری سے چھپا دیا جاتا ہے۔ یہی سب کسی نہ کسی شکل میں برازیل سے لے کے جنوبی افریقہ اور ہندوستان تک ہوتے دیکھا گیا ہے۔

نیو لبرل معیشت کا یہ بدترین چہرہ ہمیں دیگر ممالک کی طرح بنگلہ دیش میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جہاں ریاست نے تمام تر بنیادی سہولیات سے خود کو ایک طرف کر کے لوگوں کی زندگیوں کو خونخوار سرمایہ دار بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا ہے۔ ڈاکٹر لال خان اپنی ایک تحریر میں اس حوالے سے لکھتے ہیں، ”1980ء کی دہائی میں ریاستی سرمایہ داری کی ناکامی واضح ہو جانے کے بعد عالمی سطح پر ’ریگنامکس‘ اور ’تھیچر ازم‘ کے نیو لبرل اکنامک ڈاکٹرائن کے تحت ”ترقی“ کی یہ شکل تیزی سے ابھری تھی۔ سرمایہ داری کے اس قدیم انداز (جسے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی گئی) میں تعلیم اور علاج سے لے کے مالیات اور صنعت تک میں ریاستی مداخلت کو ختم کر کے‘ ساری معیشت کو نجی ملکیت میں دے کے گرتی ہوئی شرح منافع میں اضافہ کروایا جاتا ہے۔ اس میں اہم عنصر ’ٹریکل ڈاؤن اکنامکس‘ کا بھی ہے جس کا مطلب بڑے سرمایہ داروں اور کارپوریشنوں کے دیوہیکل منافعوں کے کچھ قطروں کو سماج کی نچلی پرتوں میں سرایت کروانا اور انہیں دولت کے اجتماع اور مقابلہ بازی میں محو کر کے انفرادیت اور خود غرضی کی نفسیات کو پورے معاشرے پہ حاوی کروانا ہے۔ ان عیارانہ پالیسیوں سے وسیع تر محنت کش طبقات تو مزید غربت اور محرومی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ہیں جبکہ ایک نسبتاً بڑا درمیانہ طبقہ ابھر ا ہے جس کی اپنی رجعتی سیاست، ثقافت اور اقدار ہیں۔ دوسری طرف چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز اور طبقاتی تضاد آج دنیا بھر میں اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔“

بنگلہ دیش میں بھی اسی طرز کی ترقی ہوئی ہے۔ مائیکر فنانس بینکوں اور این جی اوز کے ذریعے اس تجربے پر عملدرآمد کروا کر یہاں خوب مال بٹورا گیا۔ غربت کے خاتمے کے نام پر گرامین بینک جیسی مائیکرو فنانس این جی اوز کو بڑے پیمانے پر کھلی چھوٹ دی گئی۔ ان ہتھکنڈوں نے غربت کو تو کیا ہی ختم کرنا تھا‘ آج یہ خود بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے طور پر اپنا وجود قائم کر چکے ہیں۔ غربت کے خاتمے کے نام پر دیئے جانے والے ان چھوٹے قرضوں کے متعلق مختلف تجزئے آج منظرعام پر آ چکے ہیں۔ حال ہی میں جاری ہوئے ایک سروے کے مطابق محض پانچ فیصد افراد ہی اپنی معاشی بہتری کے لئے ان قرضوں کو استعمال میں لا سکے ہیں۔ اسی طرح ایک اور رپورٹ کے مطابق ہر 2501 افراد میں سے 1189 افراد اپنا قرضہ واپس کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ ان میں سے 72.3 فیصد افراد کو اپنے قرضوں کی ادائیگیوں کے لئے زیادہ شرح سود پر دیگر افراد سے قرضہ لینا پڑتا ہے جبکہ تقریباً دس فیصد ایسے ہیں جنہیں بینکوں کے یہ قرض چکانے کے لئے اپنے مال مویشی تک فروخت کرنے پڑتے ہیں۔

پچھلے چند ایک سالوں میں ”اصلاحات“ کے نام پر محنت کشوں سے وہ سب کچھ چھین لیا گیا ہے جو انہوں نے ایک طویل جدوجہد سے حاصل کیا تھا۔ مستقل نوکریوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ عارضی ملازمتوں نے لے لی ہے۔ فیکٹریوں میں اس قدر تلخ حالات موجود ہیں جو وہاں کام کرنے والے محنت کشوں کے لئے کسی دوزخ سے کم نہیں۔ مختلف مافیا ؤں سمیت امیر ترین افراد کا ایک ایسا گروہ یہاں پروان چڑھ چکا ہے جو تمام تر ریاستی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے عالمی مالیاتی ادروں کے استحصالی ایجنڈا پر بڑی بے شرمی اور دھونس سے عملدرآمد کرواتا ہے۔ یہاں تک کہ ہتھیاروں کی تجارت، قبضہ گیری اور کرپشن سمیت ہر قسم کے جرائم میں ان مافیاؤں کی سرکاری معاونت کی جاتی ہے۔ 2015ء میں منسٹری آف فنانس کی ایک غیر مطبوعہ سٹڈی کے مطابق بنگلہ دیش میں کالے دھن کی معیشت کا حجم جی ڈی پی کے چالیس تا پچاس فیصد سے لے کر 83 فیصد تک ہے۔ اکثریتی محنت کشوں کو سوشل سکیورٹی، سیفٹی الاؤنس اور علاج معالجے جیسی بنیادی سہولیات سرے سے میسر نہیں ہیں۔ بیشتر فیکٹریوں میں یونین سازی پر پابندی عائد ہے۔ ٹھیکیداری نظام رائج ہے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے محنت کشوں کو بدترین ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس مقصد کے لئے بعض صورتوں میں خصوصی پولیس بھی تعینات کی جاتی ہے۔ اس پولیس کے ذمے کسی بھی ہڑتال یا احتجاج کو اس بے رحمی سے کچلنا ہوتا ہے کہ دوسرے مزدور ا س بارے سوچنے سے قبل ہی عبرت حاصل کر لیں۔ گارمنٹس کے جس شعبے میں بے پناہ ترقی کا راگ الاپا جاتا ہے وہاں محنت کشوں کے حالات بھیانک ترین ہیں۔ یہاں موجود غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیاں محنت کشوں کے کام کا حساب گھنٹوں یا منٹوں میں نہیں بلکہ ملی سیکنڈوں میں رکھتی ہیں۔ دوسری جانب خواتین کو معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ جسمانی ہوس کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فیکٹریوں میں آگ لگنے جیسے واقعات معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جھلس کر اپنی زندگیاں گنوا بیٹھتے ہیں۔

تمام تر سطحی اور پرفریب حکومتی دعووں کے باوجود بنگلہ دیش کے عوام بھی اُسی کرب اور اذیت سے دوچار ہیں جس سے پاکستان و ہندوستان کے محنت کش گزر رہے ہیں۔ 60 لاکھ بچے آ ج بھی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ چند سال پہلے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 3 کروڑ تیس لاکھ بچے (کل بچوں کی نصف تعداد) انتہائی غربت اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ بنگلہ دیش کے اخبار ڈیلی سٹار میں چھپنے والے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے 4 کروڑ افراد خط غربت جبکہ ڈھائی کروڑ افراد انتہائی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ریاست کے تمام تر جبر کے باوجود بنگلہ دیش کا سماج شدید انتشار اور تضادات کا شکار ہے۔ نوجوانوں کی ایک ایسی نسل آج جوان ہو چکی ہے جو سرمائے کے اس بد ترین استحصال کو نہ صرف پہچان رہی ہے بلکہ اس کے خلاف لڑنے کی تیاری کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں یہاں طلبہ اور محنت کشوں کی پھٹنے والی تحریکوں نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کی ہیں۔ ماضی کی تحریکوں کو قومی شاونزم کے ذریعے دبا دیا جاتا تھا مگر اب جو تحریکیں جنم لیں گی انہیں دبانا اتنا آسان نہیں ہے۔ قومی آزادی حاصل کر کے بھی یہاں استحصال، غربت اور محرومی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سرمایہ دارانہ سماج کا بنیادی تضاد طبقاتی ہے۔ اس لئے بنگلہ دیش کے محنت کشوں کو بھی برصغیر کے دوسرے ممالک کے محنت کشوں سے جوڑتے ہوئے طبقاتی جدوجہد کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اس خطے کے مسائل کا حل کسی قومی آزادی میں نہیں بلکہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے طبقاتی آزادی میں ہی مضمر ہے۔