حارث قدیر
سرمایہ دارانہ نظام کو تبدیل کیے بغیر محنت کش طبقے کے پاس نجات کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے اور محنت کش طبقے کے انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے اور ذرائع پیداوار کو جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے پیداواری ڈھانچے کو مکمل طور پر سوشلسٹ بنیادوں پر ڈھالنے کے علاوہ سرمایہ داری کے خاتمے کا کوئی راستہ اور طریقہ موجود نہیں ہے۔ کمیونسٹوں کا سرمایہ دارانہ پارلیمانی نظام میں انتخابات میں حصہ لینا اور پارلیمان میں جانے کا مقصد ہرگز اقتدار کی موقع پرستی کا شکار ہونا نہیں ہوتا بلکہ پارلیمان کے ذریعے محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں کے سامنے اس نظام کی تباہ کاریوں کو بے نقاب کرنا کمیونسٹوں کا حتمی مقصد ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کمیونسٹ اقتدار کی موقع پرستی کا شکار ہوئے محنت کش طبقے کی نجات کا اولین مقصد اور نظریات پچھلی نشستوں پر پھینکنا مجبوری بنتا گیا۔ سٹالنزم کا مرحلہ واریت پر مبنی نظریاتی ابہام اور محنت کش طبقے سے غداری کی حکمت عملی نے جہاں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کی راہیں ہموار کیں وہیں بھارت میں بائیں بازو کو ملنے والی وسیع پیمانے کی عوامی حمایت بھی بھارتی محنت کشوں کو دکھوں سے نجات دلوانے کیلئے اس نظام پر کاری ضرب لگانے کی بجائے کمیونسٹ پارٹیوں کے مصالحانہ اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے علاوہ کوئی واضح نتائج حاصل نہ کر سکی۔ مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹیوں سے 35 سالہ اقتدار چھننے کا سلسلہ آہستہ آہستہ کمیونسٹ پارٹیوں کی طاقت کے مراکز میں دائیں بازو کی انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کی راہیں ہموار کرتا جا رہا ہے۔
کمیونسٹ پارٹیوں کا گڑھ سمجھی جانیوالی ریاستوں سمیت چار بھارتی ریاستوں تامل ناڈو، کیرالہ، مغربی بنگال، آسام اور یونین ٹیریٹری (مرکز کے زیر انتظام علاقہ) پدوچیری میں 27 مارچ سے انتخابات کا سلسلہ شروع ہو گا اور نتائج کا اعلان 2 مئی کو کیا جائیگا۔ مغربی بنگال میں 294، تمل ناڈو میں 234، کیرالہ میں 140، آسام میں 126 اور مرکز کے زیر انتظام علاقے پدوچیری میں 30 نشستوں کیلئے انتخابات ہونے ہیں۔
بنگال میں آٹھ مراحل میں ستائیس مارچ، یکم اپریل، چھ اپریل، دس اپریل، سترہ اپریل، بائیس اپریل، چھبیس اور انتیس اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ تامل ناڈو، کیرالہ اور پدوچیری میں چھ اپریل کو ایک ہی مرحلے میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ آسام میں ستائیس مارچ، یکم اپریل اور چھ اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ان انتخابات میں مجموعی طور پر 18 کروڑ سے زیادہ ووٹرز حق رائے دہی کا استعمال کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
جہاں مغربی بنگال ان انتخابات میں سب سے اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے وہاں کیرالہ بھی اپنی ماضی کی ترقی پسند روایات کو داؤ پر لگائے ہوئے ہے۔ مغربی بنگال میں دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہنے والی ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بینرجی کو شکست دینے کیلئے بھارتی حکمران جماعت بی جے پی ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔ بی جے پی پر ترنمول کانگریس کے امیدواروں کو ہراساں کرنے، ایجنسیوں کے ذریعے دھمکانے اور پارٹی وابستگی تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ بی جے پی دس سال قبل پینتیس سالہ اقتدار سے محروم ہوئی کمیونسٹ پارٹیوں کے سابقہ ممبران اسمبلی اور بڑے ناموں کو اپنے ساتھ شامل کرنے اور کمیونسٹ پارٹیوں کی جگہ لینے کی کوشش میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ گزشتہ دنوں میں فلمسٹار متھن چکرورتی، سابق کپتان کرکٹ ٹیم سارو گنگولی سمیت متعدد افراد کے بی جے پی میں شامل ہونے سے بائیں بازو کو شدید دھچکا لگا ہے۔
مغربی بنگال ماضی میں بائیں بازو کی پارٹیوں کے اتحاد اور کانگریس کے درمیان مقابلے کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ کلکتہ سمیت مختلف شہروں کے چوکو ں اور چوراہوں پر نظریاتی مباحثوں کا انعقاد اس خطے کی وجہ شہرت تھی۔ پرولتاری اور بورژوا نظریات کے درمیان بحث و مباحثہ عروج پر تھا۔ مغربی بنگال کے محنت کشوں نے بورژوازی کے نظریات کو دھتکارتے ہوئے 35 سال تک پرولتاری نظریات کے حق میں فیصلہ دیا لیکن قیادت کی موقع پرستی اور سرمایہ دارانہ نظام سے مصالحت نے نیو لبرل پالیسیوں کو اپنانے، سرمایہ داروں کے حق میں قانون سازی کرنے اور بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالنے جیسے اقدامات کرتے ہوئے بورژوا نظریات والی مخالف کانگریس کے حقیقی اتحادی ہونے کا ثبوت دے کر ترنمول کانگریس اور پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے پنپنے کی راہیں ہموار کر دیں۔
مذہبی اور سیاسی ہم آہنگی کی وجہ سے جانی جانے والی ریاست مغربی بنگال اب ہندو انتہا پسندی کا شکار ہے۔ آر ایس ایس ہندو مسلم نفرت کو ابھارنے اور ہندو کمیونسٹوں کو اپنے اندر سمونے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور سٹالنزم کی نظریاتی غداریوں پر مبنی تقسیم برصغیر کے وقت کی پالیسی کی یاد ایک مرتبہ پھر تازہ ہو رہی ہے۔ ترنمول کانگریس کو شاید اس بار یہاں شکست نہ ہو سکے لیکن چھ نشستوں والی بی جے پی سروے پول کے مطابق ایک سو سے زائد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔
تامل ناڈو میں جے للیتا کی موت کے بعد قوم پرست ’اے آئی اے ڈی ایم کے‘ پہلے ریاستی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ حکمران اتحاد این ڈی اے کو یہاں کامیابی کی توقع ہے۔ پدوچیری میں کانگریس کی حکومت کے خاتمے کے بعد صدارتی راج نافذ ہے اور بھارتی جنتا پارٹی کی فتح یقینی سمجھی جا رہی ہے۔ آسام میں بھی بی جے پی اتحاد کی ایک مرتبہ پھر کامیابی یقینی بتائی جا رہی ہے۔
کیرالہ ایک ایسی بھارتی ریاست ہے جہاں ابھی تک بائیں بازو کے اتحاد کا اقتدار باقی ہے اور ایک مرتبہ پھر کامیابی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کیرالہ ہی ایسی ریاست بھی ہے جہاں پر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کیلئے ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے نام نہاد ’لو جہاد‘ کی سازشی تھیوری پر کام کا آغاز کیا تھا۔ بائیں بازو کا حکمران اتحاد مذہبی انتہا پسندی کو ابھرنے سے روکنے کیلئے انتہا پسندی کی مادی بنیادوں پر کام کرنے کی بجائے ریاستی طاقت اور جبر کا استعمال کرنے میں مصروف ہے جس کی وجہ سے آر ایس ایس اپنی بنیادیں رکھنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ یوں تو کیرالہ میں کانگریس کی قیادت میں دائیں بازو اور بائیں بازو کے اتحاد کے درمیان ہمیشہ مقابلہ رہا ہے اور دونوں اتحاد وقتاً فوقتاً اقتدار میں رہے ہیں۔ کیرالہ کی ریاست اپنی بلند سیاسی روایات کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے لیکن اب وہ روایات ماند پڑنا شروع ہو چکی ہیں۔
معاشرہ کبھی بھی ایک سٹیج پر لمبے عرصے تک ٹھہرا نہیں رہ سکتا۔ اگر اسے آگے نہ بڑھایا جائے توپیچھے کی جانب سفر شروع کر دیتا ہے اور تعفن زدہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بائیں بازو کی روایات کا امین کیرل کا علاقہ پورے بھارت میں واحد علاقہ تھا جہاں کانگریس جیسی پارٹیوں کو بھی مرکز سے من پسند امیدوار نامزد کرنے کی جرأت کبھی نہ ہو سکی تھی۔ مغربی جمہوری کلچر کی طرح داخلی انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی قیادت ہی انتخابات میں حصہ لینے کی اہل قرار پاتی رہی ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں کی زوال پذیری، نظریات کی جگہ اقتدار کی ہوس اور بالخصوص 2008ء کے معاشی بحران کے بعد ملکی سطح پر سرمایہ داری کو بحران سے نکالنے کیلئے نیو لبرل پالیسیوں پر عملدرآمد نے سرمایہ دارانہ ریاست کے حقیقی کردار کو نہ صرف معاشرے پر آشکار کیا بلکہ اقتدار کے سلسلے کو برقرار رکھنے کیلئے حکمران بائیں بازو کے اتحاد کو ہر وہ اقدام کرنے پر مجبور کیا جس سے نہ صرف اس خطے کی سیاسی روایات کی موت ہوئی بلکہ بورژوا اقتدار میں دھنسی کمیونسٹ پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ واضح ہوتی ہوئی نظر آئی۔ کانگریس کی مرکزی قیادت کی جانب سے کیرالہ میں اپنے من پسند امیدواران کو ٹکٹ الاٹ کرنے کی وجہ سے کانگریس میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ محض کانگریس کی زوال پذیری کا ہی نہیں بلکہ اصلاح پسندی کی ہر امید کی موت کا پیغام ہے۔ یہ عمل محض کانگریس تک محدود نہیں ہے۔ گو کمیونسٹ اتحاد انتخابات میں کامیاب ہو جائے گا لیکن معاشرے کو آگے لے جانے اور اقتدار کی بجائے انقلاب کے راستے پر چلنے کے علاوہ چنا گیا ہر راستہ بائیں بازو کی پارٹیوں کی محنت کشوں میں مقبولیت کو کم ہی کرتا جائے گا۔
حقیقی متبادل کی عدم موجودگی میں خلا کوئی نہ کوئی تو پر کرے گا۔ وقتی طور پر دائیں بازو کی انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی یہ خلا پر کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ لیکن اس نظام کے اندر رہ کر مسائل کا حل تلاش کرنے کی یہ آخری کوشش ہو سکتی ہے۔ کمیونسٹ روایات سے روشناس کیرالہ اور مغربی بنگال کے محنت کش جہاں کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادتوں کی غداریوں سے نالاں ہیں وہاں وہ تجربات سے سیکھ بھی رہے ہیں۔ کلکتہ کے ایک چوراہے میں دی وائر سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بزرگ محنت کش نے بی جے پی کی مقبولیت میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”آدمی وہی ہیں بس کپڑے تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب زیادہ دیر چلے گا نہیں۔ اقتدار پر صرف چند گھرانوں اور ’الیکٹیبلز‘ کا حق ہی نہیں ہے۔ عوام سیکھ رہے ہیں۔“ قیادتوں کی پے در پے غداریاں محنت کش طبقے پر یہ حقیقت آشکار کر رہی ہیں کہ انتخابات کے ذریعے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ انقلاب کے ذریعے اقتدار پر محنت کش طبقے کا قبضہ اور معاشرے کی سوشلسٹ تبدیلی ہی اس خطے کی محرومیوں کا ازالہ کرے گی۔