احسن جعفری

22 دسمبر 2020ء کے اخبارات میں شہہ سرخی لگی کہ کورونا وائرس سے پیدا شدہ بحران کی وجہ سے حکومت پاکستان کے 272 ارب روپے کے قرضے موخر کر دیئے گئے ہیں۔ انہی دنوں اخبارات میں چھوٹے قرضے دینے والے ایک بینک (جس کی ملکیت کی بڑی شراکت دار ایک نامور وکیل کی بیٹی ہیں جو ماضی میں گلوکاری بھی کر چکی ہیں) کی جانب سے 103 افراد کے ناموں کی ایک لسٹ ان کے شناختی کارڈ نمبروں کے ساتھ شائع کی گئی جس میں انہیں نادہندہ قرار دیا گیا اور قرض واپس نہ کرنے کی صورت میں گروی رکھا ہوا سامان فروخت کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس قسم کا اشتہار اپنی جگہ پر نام نہاد آزادی صحافت کے منہ پر ایک زوردار تمانچہ ہے جہاں بدنامِ زمانہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے قاتلوں کی تصاویر ان کے چہرے ڈھانپ کر لگائی جاتی ہیں وہیں پہ چھوٹے قرضے لینے والوں کے نام بمعہ شناختی کارڈ نمبر شائع کیے جاتے ہیں۔ لیکن فی الحال ہماری گفتگو کا مرکز آزادی صحافت کے بجائے مائیکرو فنانس کے نام پر چھوٹے قرضوں کے ذریعے حد سے زیادہ استحصال ہے۔ کورونا بحران میں ملکوں کی معیشتیں تنزلی کا شکار ہوئیں۔ بڑی بڑی کمپنیوں اور دیو ہیکل اجارہ داریوں کے لئے بیل آؤٹ پیکیج متعارف کروائے گئے۔ اس کے ساتھ ہی بیروزگاری اور غربت میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا کیونکہ یہ بیل آؤٹ پیکیج عام محنت کشوں اور غریبوں کی پہنچ سے اتنے ہی دور رہے جتنی دور اس نظامِ زر میں ہونے والی ترقی کے ثمرات رہتے ہیں۔ جیسا کہ اس اشتہار سے ثابت ہو رہا تھا۔

70ء کی دہائی میں چھوٹے قرضے دے کر لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے خیال کی ترویج شروع کی گئی تھی۔ عام لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ یہ قرضے کم آمدنی اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں خصوصاً خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور انہیں خودمختار بنانے کے لئے لائے گئے ہیں۔ قرضوں سے آج تک پسماندہ ملکوں کے مسائل حل نہیں ہوئے تو کم آمدنی والوں کے انفرادی مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ان قرضوں پر سود کی شرح بھی حد سے زیادہ ہے۔ عالمی طور پر دیکھا جائے تو دنیا کے مختلف خطوں میں چھوٹے قرضوں پر سود کی شرح 40 فیصد سے 70 فیصد سالانہ تک ہے۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ قرضے کم آمدنی والوں کے مسائل کے حل کے لئے دیے جاتے ہیں تو پھر اتنی زیادہ شرح سود کس وجہ سے ہے؟ وجہ بہت سیدھی اور سادہ ہے۔ سرمایہ داری میں کسی بھی معاشی سرگرمی کا مقصد منافع خوری ہے۔ اس لئے قرضے چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے ان کا مقصد بھی منافع ہی ہے نہ کہ لوگوں کے مسائل کا حل۔
چھوٹے قرضوں کی ”افادیت“ کو لبرل فیمنسٹوں کی طرف سے بھی بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کم آمدنی والی خواتین کو معاشی طور پر آزاد کرنے میں اور مرد کی ”غلامی“ سے نجات دلانے میں یہ قرضے نسخہ کیمیا کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ نیو لبرل معاشی پالیسیوں کو فیمنسٹ غلاف میں پیش کرنے کی سعی ناکام ہے۔

اگر بغور دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ چھوٹے قرضے دراصل محنت کش طبقے کے پاس رہی سہی پونجی کو بھی نچوڑ کر واپس سرمایہ دار کی جیب میں ڈالنے کی ایک انتہائی مکروہ چال ہیں۔ پیداواری معیشت کی محدودیت اور اس کی مسلسل گرتی ہوئی شرح منافع نے مالیاتی منافع خوری کو بڑھاوا دیا ہے۔ مالیاتی منڈیوں میں سرمایہ کاری کے بڑھتے ہوئے رجحان نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ صارفین کو ٹارگٹ کیا جائے۔ لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں تھی کہ آبادی کی ایک بہت بڑی پرت بڑے قرضے لینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ نہ انہیں ’محفوظ‘ قرضے دئیے جا سکتے ہیں۔ اسی لئے ایسے قرضوں کا جال ترتیب دیا گیا جو دیکھنے میں بہت آسان ہوں، قرض واپس کرنے کا دورانیہ بہت کم ہو اور قسط کی رقم انتہائی چھوٹی نظر آئے۔ 10,000 سے لے کر 50,000 روپے تک کے قرضوں کے پیکیج ڈیزائن کیے گئے اور ان پر شرحِ سود 40 سے 70 فیصد تک رکھی گئی۔ اسکے علاوہ سروس چارجز کی مد میں بھی رقم بٹورنے کا بندوبست کیا گیا۔ قرض کی رقم کیونکہ کم ہے تو ان پر ادا کیا جانے والا سود بھی دِکھنے میں کم ہوتا ہے لیکن شرحِ سود حد سے زیادہ ہوتی ہے۔

سرمایہ داری میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹیکس کی شرح یا سود کی شرح تمام لوگوں کے لئے یکساں ہے لیکن یہ بھی سرمایہ داری کے دھوکوں میں سے ایک دھوکہ ہے۔ ایک محنت کش جس کی ماہانہ آمدنی 20,000 روپے ہے جب وہ ایک 100 روپے والا صابن خریدتا ہے تو اس پر سیلز ٹیکس کی مد میں 14.5 روپے ادا کرتا ہے جو کہ اس کی ماہانہ آمدنی کا 0.07 فیصد ہے۔ لیکن وہی صابن کوئی ایسا شخص خریدے جس کی ماہانہ آمدنی دس لاکھ روپے ہو تو وہ اس صابن خریدنے میں اپنی ماہانہ آمدنی کا 0.001 فیصد ٹیکس ادا کرے گا۔ دیکھنے میں یہ لگا کہ دونوں افراد نے ایک جتنا ٹیکس دیا یعنی 17 فیصد یا 14.5 روپے لیکن دونوں کی ماہانہ آمدنی کے فرق کی وجہ سے یہ ٹیکس کم آمدنی والوں کے لئے عذاب سے کم نہیں ہے۔

یہی حال قرضوں کا ہے۔ اگر قرض ایک کروڑ ہو تو اس پر آدھا فیصد ماہانہ شرحِ سود 50,000 ہو گا جو دیکھنے میں بڑی رقم ہے لیکن شرح کم ہے۔ وہیں اگر قرض 50,000 ہو اور اس پر سود کی شرح 3 فیصد ماہانہ ہو تو یہ 1500 روپے بنیں گے جو دیکھنے میں کم ہیں لیکن شرحِ سود آدھا فیصد ماہانہ سے 600 فیصد زیادہ بنتی ہے۔ اسی طرح اجرتوں میں نظر آنے والا سالانہ اضافہ درحقیقت حقیقی اجرتوں میں کمی ہوتی ہے۔

اس وقت پاکستان میں بینکوں کے قرضوں پر شرحِ سود 7 فیصد سالانہ کے آس پاس ہے۔ وہیں پر چھوٹے قرضوں پر سود کی شرح کم از کم 40 فیصد ہے جو بینکوں کی شرح سے 574 فیصد زیادہ ہے۔

محنت کش طبقہ اپنی مسلسل کم ہوتی ہوئی آمدنی میں روز مرہ زندگی کی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتا ایسے میں چھوٹے قرضوں کے ذریعے ان کی زندگیاں بدلنے کے سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ جھوٹی اور غیر حقیقی کہانیاں بنا کر مثالیں دی جاتی ہیں کہ فلاں نے قرضہ لیا، کاروبار کیا اور آج وہ اپنے گھر اور دکان کا مالک ہے یا فلاں نے قرضہ لیا اور آج اس کی اپنی فیکٹری ہے۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

امریکہ کے ادارہ شماریات کے مطابق نئے شروع ہونے والے 20 فیصد کاروبار پہلے دو سال میں، 45 فیصد پہلے پانچ سال میں اور 65 فیصد پہلے 10 سال میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ صرف 25 فیصد کاروبار 15 سال یا اس سے زیادہ عرصہ چل پاتے ہیں۔

اب آتے ہیں ایسی محنت کش یا گھریلو خاتون کی جانب جس کے پاس کاروباری معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں اور سرمایہ بھی صرف وہی ہوتا ہے جو قرض کی صورت میں ملا ہوتا ہے۔ بہتر مستقبل کے لئے قرض لیا جاتا ہے اور چھوٹا کاروبار شروع کیا جاتا ہے یا کاروبار میں اضافے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو بنیادی کاروباری معلومات اور مسلسل سرمائے کی فراہمی نہ ہونے کے باعث جلد ہی گراوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور جلد ہی بند کرنا پڑتا ہے۔ لیکن قرض اپنی جگہ موجود رہتا ہے اور وقت پر قرض کی اقساط جمع نہ کرانے کی وجہ سے جرمانہ اور سود در سود قرض کی رقم کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ آخر کار قرض کی رقم کو ادا کرنے کے لئے گھر کی کوئی قیمتی چیز بیچنا پڑ جاتی ہے یا گروی رکھی ہوئی چیز سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

چھوٹے قرضے دینے والے اداروں کی جانب سے قرضوں کی وصولی کے لئے غنڈہ عناصر کا استعمال معمول کی بات ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر یہ غنڈہ عناصر لوگوں کو ان کے گھروں پر ڈرانے دھمکانے پہنچ جاتے ہیں۔ گالم گلوچ، ہاتھا پائی اور خواتین کے ساتھ بد تمیزی ان کے کام میں اہم طریقہ کار کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ اگر قرض دار کوئی چھوٹا موٹا دوکان دار ہے تو اس کی دوکان پر توڑ پھوڑ بھی کی جاتی ہے۔ اس تمام معاملے میں علاقے کی پولیس کے اہلکار قرض دینے والے ادارے کی ہی طرف داری کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ پولیس اور اس جیسے دوسرے ادارے محنت کش طبقے کے مفادات کے رکھوالے ویسے بھی نہیں ہوتے۔

02 مارچ 2021ء کی بزنس ریکارڈر کی ویب سائٹ پر لگنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھوٹے قرضے لینے والوں کی تعداد 70 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ جو پچھلے سال کے مقابلے میں تو 3 فیصد کم ہے لیکن اکتوبر تا دسمبر کی سہ ماہی میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سال 2021ء کے لئے یہ تعداد 80 لاکھ تک پہنچنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جون 2020ء تک چھوٹے قرضوں کا حجم 300 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا جس میں پنجاب کا حصہ 44 فیصد، سندھ 35 فیصد، خیبر پختونخواہ 6 فیصد اور بلوچستان 1 فیصد ہے۔ اگر قرضوں کو شعبہ جات کے حساب سے تقسیم کیا جائے تو سب سے زیادہ قرضے زراعت اور مویشیوں کے کاروبار کے لئے لیے گئے ہیں جو تمام قرضوں کا 65 فیصد ہیں۔

بیج، زرعی ادویات اور کھاد کی انتہائی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے کسان فصل اترنے پر اپنے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے۔ ایک قرض کو اتارنے کے لئے دوسرا قرض لینا پڑتا ہے اور پھر یہ منحوس چکر رکنے میں ہی نہیں آتا۔ فصلوں کی کٹائی کے وقت اجناس کی قیمتیں کم ترین سطح پر چلی جاتی ہیں۔ آڑھتی ان کو کم قیمت پر خرید کر ذخیرہ کر لیتے ہیں اور بعد میں انتہائی زیادہ قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں۔ اجناس کی پیداوار سے لے کر استعمال کرنے والے تک پہنچنے کے تمام مراحل میں ریاستی مداخلت نہ ہونے کی وجہ سے منڈی کے بڑے مگرمچھ قیمتوں کا تعین کرتے ہیں اور اربوں روپے سالانہ منافعے کمائے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسان قرضوں سے تنگ آ کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق 1995ء سے اب تک تین لاکھ سے زیادہ کسان خودکشیاں کر چکے ہیں۔

طبقاتی نظام اور خاص کر سرمایہ داری میں غربت ختم کرنے کے لئے جتنے بھی طریقے بتائے جاتے ہیں یا جو بھی اقدامات کیے جاتے ہیں وہ درحقیقت طبقاتی نظام کو جوں کا توں رکھنے اور حکمران طبقات کی بالادستی کو مزید مستحکم کرنے کے ہی مختلف حربے ہیں۔ جب تک ذرائع پیداوار کی ملکیت چند لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اس وقت تک غربت اور امارت کی خلیج میں اضافہ ہوتا ہی رہے گا۔ کرۂ ارض پر ایک ایسا سماج جس میں غریب اور امیر کی تفریق ختم ہو جائے صرف ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کو ختم کر کے ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے اور یہ کام انقلابی سوشلزم کے ذریعے ہی مکمل کیا جا سکتا ہے۔