قمرالزماں خاں
گزشتہ دو دنوں سے پورے ملک میں افراتفری کا سماں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ لوگوں کے مذہبی جذبات ابھار کر سماج کو مفلوج کیا جائے۔ ماضی میں پیٹرو ڈالر تحریک کو نظام مصطفی کا نام دے کر پاکستان کی پہلی عوامی حکومت کو گرایا گیا تھا۔ وہ تحریک جن نعروں اور مقاصد پر استوار کی گئی تھی، وہ بھٹو حکومت گرتے ہی غائب ہوگئے اور بعد میں ان ”نو ستاروں“ میں سے کسی نے اس معاملے پر بات نہیں کی کہ 1977ء کی تحریک آخر مارشل لا لگتے ہی ختم کیوں ہو گئی۔ مارشل لا کو گیارہ سالوں پر محیط کرنے کیلئے بار بار مذہب اور اسلامائیزیشن کی نعرہ بازی کی گئی مگر چند سزاؤں اور سطحی اقدامات کے پیچھے گیارہ سال تک الیکشن التوا میں ڈالے جاتے رہے اور لوگوں کو ان کے ہر قسم کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا رہا۔ زوال پذیر نظام معیشت اور سامراجی جکڑبندی کی بنا پر سابق نو آبادیاتی مملکت میں عوام کے لئے کوئی بڑی تبدیلی کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے آمریت کے بعد کی جمہوریتوں میں بھی عوام کے شعور کو مفلوج رکھنے کا عمل جاری رہا۔ مملکت کے اقتدار پرفائز ”جمہوری“ خواتین و حضرات، عمومی شعور مسخ کرنے اور توہم پرستی کی طرف راغب کرنے کیلئے ”بابوں“ سے چھڑیاں اور جوتے کھاتے رہے۔ آبادی کے پسماندہ حصوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے قدامت پسندانہ ملبوسات، دقیانوسی نشست و برخواست اور توہم پسندانہ اقدامات کے ذریعے مایوسی اور صوفیانہ فراریت کی راہ دکھائی گئی۔ آمریت میں جمہوریت کو مسئلوں کا حل بتایا جاتا ہے اور جب جمہوریت آ جاتی ہے اور کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر سے فوجی حملہ آوری کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں مگر طرز حکمرانی کے بدلنے کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام معیشت اور اس کے حملوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ سامراجی غلامی میں پھنسی ہوئی مملکت کے حکمرانوں کے پاس کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ وردی اور بغیر وردی والے ایک ہی طبیب سے علاج کراتے ہیں اور یہی طبیب ہی ہر مرض کو خلق کرتا چلا آ رہا ہے۔
حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ مسائل میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔ ہر نکالا جانے والا حل مسائل کو زیادہ گھمبیر بنا دیتا ہے۔ نت نئے فارمولوں سے بحران زیادہ پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ شاعر کے مطابق درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق جب حکمرانوں کا نظام شکستہ ہو کر اپنی بنیادیں کھو رہا ہے تو ان کو کسی ایسے جذباتی مدعے کی ضرورت درپیش رہتی ہے جس سے بہت بڑا سماجی خلفشار پیدا کر کے عوامی مفادات اور ضروریات کے مطالبات کو پس پیش کر دیا جائے۔ اس قسم کے خلفشار کا ایک فوری نتیجہ تو یہ ہے کہ درپیش مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں مگر دوسرا اور طاقتور پیغام یہی ہے کہ موجودہ نظام اپنے عہد کے لوگوں کے مسائل حل کرنے سے عاری ہو چکا ہے۔ پاکستان میں مذہبی نعروں کے ذریعے وقتی اشتعال پیدا کرنے کی مشق ”طاقتور حلقے“ بار بار کر چکے ہیں۔ 1953ء اور 1974ء میں بلوے اور بدامنی پیدا کرنے کیلئے مذہبی مدعوں کو ابھارا گیا اور خوب استعمال میں لایا گیا۔ 1976ء میں بظاہر کوئی مذہبی مسئلہ موجود نہیں تھا مگر عام انتخابات (1977ء) سے قبل ہی ”پاکستان قومی اتحاد“ تشکیل دیا گیا۔ یہ پی ڈی ایم سے بھی زیادہ متضاد اور منتشر قوتوں کا ملغوبہ تھا۔ اس شرمناک اتحاد میں بعض نام نہاد بائیں بازو اور لبرل کہلوانے والی سیاسی پارٹیاں بھی موجود تھیں۔ بھٹو مخالفت میں ولی خان اینڈ کمپنی اور معراج محمد خان جیسی شخصیات بھی ملک میں ”اسلامی نظام کے نفاذ“ کے نعروں والے بینر کے پیچھے ریلیوں میں موجود ہوتیں۔ یہ سب امریکی اور سعودی پیسوں سے ہو رہا تھا۔ بعد ازاں بار بار مذہبی اتحاد بنا کر فراموش ہوتی اصطلاحات و تراکیب کی یاد دہانیاں کرائی گئیں۔ جہاد کے لفظ کو استعمال کرتے ہوئے پراکسی جنگیں اور فسادات سے لاکھوں لوگوں کو مار دیا گیا اور اتنے ہی لوگوں کی زندگیاں تاراج کر دی گئیں۔ ان کھوکھلے طریقوں سے ناکام حاکمیت اور مایوس کن نظریات کو مصنوعی آکسیجن فراہم کی گئی۔
موجودہ عہد میں طاقتور حلقوں نے شدت پسند اقلیتی فرقے کے بعد اکثریتی فرقے کے لشکر تیار کیے ہیں۔ یہاں بھی نعرے اور مقاصد یکسر مختلف ہیں۔ پاکستان میں 95 فیصد سے زائد لوگوں کا مذہب یکساں ہے اور وہ سب ہی ایک جیسے عقائد اور جذبات رکھتے ہیں۔ فرانس یا دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے گستاخانہ اور اشتعال انگیز افعال سب کیلئے ہی قابل مذمت ہیں۔ بلکہ دنیا میں کوئی بھی متوازن انسان کسی بھی مذہب، فرقے یا عقیدے کے متعلق گستاخانہ رویہ نہ تو اپناتا ہے نہ ہی اس کو پسند کرتا ہے۔ ایسی گھناؤنی حرکت مخصوص سیاسی، سفارتی یا مکارانہ حکمت عملی کے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ جب فرانس یا ڈنمارک جیسے ممالک کسی گستاخی یا مذموم حرکت کی پشت پناہی کر رہے ہوں تو ان کا بھی شعوری ایجنڈا ایک مخصوص رد عمل کا حصول اور جوابی اشتعال انگیزی ہوتا ہے جس سے ان کے سامراجی نظام کے مختلف قسم کے مقاصد کو تقویت ملتی ہے۔ ہم کسی طور بھی کسی مذہبی، نسلی، قومی اشتعال انگیزی، تعصب اور نفرت پھیلانے والے عمل کو ”آزادی اظہار“ کی پیکنگ میں چھپانے کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ یقینی طور پر ناقابل برداشت ہے جس کے سبب عوام کو ان کے مدعوں اور حقوق کی جدوجہد سے ہٹا کر فروعی معاملات میں الجھادیا جاتا ہے۔ ان کی طبقاتی وحدت کو کمزور کرنے کیلئے ایک دوسرے سے متنفر کر دیا جاتا ہے۔ جہاں مذہب ہر کسی کا ذاتی مسئلہ ہونا چاہئے وہاں کسی کو بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ کسی اور کے مذہبی اعتقادات کا تمسخر اڑائے۔ مگر پاکستان میں جہاں عوام کی غالب اکثریت کے یکساں مذہبی عقائد ہیں وہاں پر کسی مخصوص اور منظم مذہبی شدت پسند تنظیم کو ابھارنے کیلئے کسی معاملے کے پراپرٹی رائٹس دیے جانا اور پشت پناہی کرنا غور طلب اور سنگین معاملہ ہے۔ بنظر غائر یہی محسوس ہوتا ہے کہ طاقتور حلقوں کی پشت پناہی سے اس قسم کے جتھوں کو تیار کیا جانا مستقبل میں کسی ممکنہ عوامی تحریک سے نپٹنے کیلئے ہے۔ پہلے فیض آباد دھرنے میں جس قسم کا مشفقانہ ر ویہ اختیار کیا گیا اور گزشتہ کل سے پورے ملک کو مفلوج کرنے کی راہ میں کوئی سنجیدہ رکاوٹ نہ ڈالے جانا ایک مخصوص پالیسی کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔ مگر پاکستان جیسی جدید ریاست کے 22 کروڑ لوگوں کو مستقل طور پر ان کے حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا اور نہ ہی محنت کش طبقے کی کسی بڑی تحریک کو ان تنکوں سے ٹالا جا سکے گا۔ یہ ایک دو دفعہ کا واقعہ نہیں ہے بلکہ بار بار پاکستان میں پسماندہ اور دقیانوسی حصوں کے بالکل بالمقابل پاکستانی سماج کے بہت بڑا حصے نے اپنی رائے دہی کے اظہار میں مذہبی، فرقہ پرور اور شدت پسندوں کو مسترد کیا ہے۔ حتیٰ کہ 1970ء کے الیکشن سے قبل جب کفر کے فتوے جاری کیے گئے اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والوں کے نکاح تک فسخ کرنے کی بات کی گئی تو پاکستان کی اکثریتی آبادی نے ساڑھے تیرہ سو علما کے دستخطوں والے اس فتوے کو یکسر مسترد کر دیا تھا اور کافر قرار دی گئی پارٹی کو مغربی پاکستان میں اکثریتی پارٹی بنا دیا تھا۔
فوجی آمر جنرل مشرف کے ایک مخصوص مقصد کے تحت متحدہ مجلس عمل کو قائم کرنے اور ساٹھ کے قریب ملاوں کو اسمبلیوں میں لانے والے واقعہ کی استثنیٰ کے ساتھ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی مذہبی بنیادوں پر ایک ساتھ 20 اسمبلی رکن بھی منتخب نہیں ہو سکے ہیں۔ یہی پاکستانی سماج کا حقیقی تجزیہ ہے۔ سنجیدہ رائے دہی کے وقت عام لوگ ماضی کے نظریات و خیالات کو نظر انداز کر کے آج کے مسائل اور بیانئے پر دھیان دیتے ہیں۔ اسی کمزوری اور مخمصے پر قابو پانے کیلئے سماج کے کچھ حصوں کو جذباتی مذہبی نعروں کے ذریعے ابھارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعض لبرل حتیٰ کہ غیر پختہ بائیں بازو کے کچھ رجحانات جب پاکستانی سماج کو ’بنیاد پرست‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا سارا دھیان وقتی اور جذباتی مدعوں پر سماج کے پسماندہ ترین حصوں کی نعرہ بازی، توڑ پھوڑ، جنازے اور ریلیاں ہوتی ہیں۔ یہ مظاہر کسی بھی سماج کے مخصوص حصے کے وقتی اور بہت ہی قلیل عرصے پر محیط ذہنی ہیجان کا اظہار ہوتے ہیں۔ نہ کہ طرز زندگی کا مستقل اظہار۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے انسانوں کی اکثریت جدید طرز زندگی اور اس کے مختلف رجحانات کے مطابق ہی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ماضی میں رہنے کے نعرے لگانے والے بھی حال میں ہی رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ ”زمانہ حال“ کسی طور بھی گزرے وقتوں کے رجحانات، نظریات، سوچوں، طریقوں، افعال، تعلقات، اخلاقیات، لین دین، تجارت، معیشت، اقتصادیات، سیاست، طرزحکومت، ثقافت، سیاحت، سفارت، فن، علم، تکنیک، تحقیق حتیٰ کہ جنگ اور جنگی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لہٰذا اگر ماضی میں رہنا ممکن نہیں ہے تو ایسے جذبات جو وقتی مظاہر کے تابع خلق ہوتے ہوں ان کا دیرپا رہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح خیرات کو ریاستی سطح سے بیروزگاری، غربت، بھوک اور افلاس کا حل بتانے کا مقصد بھوک کا خاتمہ کرنے اور روزگار کے حصول کی جدوجہد کی بجائے بھیک کی نفسیات کو فروغ دینا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے احساس پروگرام اور پناہ گاہوں سے خوراک کے ٹرکوں کی سروس کے بقراطی فارمولے تک دھری تلوار کا کام دے رہے ہیں۔ ایک طرف ناکام نظام کو بھیک اور خیرات کا ماسک پہنا کر قابل قبول ماننے پر اسرار ہے تو دوسری طرف عمومی نفسیات کو مجرمانہ طور پر مسخ کیا جا رہا ہے۔ مگر نہ تو لاکھوں بے گھروں کو پناہ گاہوں میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ کروڑوں بھوکوں اور بے روزگاروں کو بھیک اور خیرات سے فعال شہری بنایا جا سکتا ہے۔ بھیک اور خیرات کو سماج کیلئے قابل قبول بنانے کیلئے پھر سے مذہبی تاویلات کا استعمال کیا جاتا ہے۔
عمومی طور پر مذہبی شدت پسندی کو حکمران طبقہ ایک ’اوزار ‘یا ’سراب‘ کے طور پر استعمال میں لاتا ہے جس کے نتائج ہمیشہ ہی بہت خوفناک نکلتے ہیں۔ موجودہ بنیاد پرستی کے جذباتی مظاہر کسی بھی ادنیٰ مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ زندگی بہرحال اپنی تمام تر حقیقتوں کے باوجود موجود ہے۔ مسائل کا حل ان کاحقیقی حل تلاش کرنے سے ہی ممکن ہے۔ فراریت کے ذریعے مسائل بڑھتے اور شدت اختیار کرتے جاتے ہیں۔ جاننے کی بات یہ ہے کہ موجودہ سرمایہ داری نظام کے اندر موجود آبادی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔ اگر یہ صلاحیت ہوتی تو کوئی ایک بنیادی مسئلہ تو ملکی معیشت اور نظام کے بلبوتے پر حل ہو چکا ہوتا۔ پھر ماضی کے نظاموں میں گردن چھپانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ موجودہ نظام موجودہ عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ نسل انسان کو اپنی بقا اور اپنے آنے والے کل اور موجودہ آج کے تحفظ کیلئے حکمران طبقات کے تمام حربوں، حملوں اور ہتھکنڈوں کا مقابلہ کر کے ان کو شکست دینا ہو گی۔