قمرالزماں خاں
جب سے انسان نے زمین پر زندگی کا سفر شروع کیا ہے تب سے اب تک ہر گزرنے والے لمحے میں نت نئے واقعات، مشاہدات، تجربات، حوادث اور حاصلات کا سامنا کرنا معمول ہے۔ نسل انسان اپنی اجتماعی زندگی کے آغاز سے ہی زندگی کو بہتر، سہل اور ترقی یافتہ بنانے کی سعی میں مصروف ہے۔ کام اور محنت انسان کی جبلت کاخاصہ ہیں۔ کوئی انسان کام بنا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسی محنت نے نسل انسان کی راہ میں آنے والی ہر مشکل اور مصیبت کو آسان تر بنا دیا ہے۔ بظاہر ناممکن نظر آنے والے کام بھی انسان کی اجتماعی ہمت، طاقت اور محنت نے ممکن بنا دیئے ہیں۔ انسان کی ترقی کی تاریخ اس کی محنت اور کاوشوں سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں ہے۔
محنت کی اجتماعیت نے انفرادی محنت سے کئی گنا زیادہ نتائج دے کر متمدن زندگی کی منزل قریب تر کر دی۔ مگر جب محنت کا استحصال شروع ہوا تو نہ صرف اس سے طبقات پیدا ہوئے بلکہ زندگیوں اور وسائل کی تقسیم میں گہری تفاوت بھی پیدا ہوئی۔ جب انسانوں کی بہت بڑی تعداد کی محنت کا زیادہ تر صلہ چند لوگوں نے غصب کرنا شروع کر دیا تو اس چھوٹے سے استحصالی طبقے کے پاس طاقت، اقتدار اور سماجی اور معاشی رتبوں کا ارتکاز ہوتا گیا اور محنت کرنے والی اکثریت اپنی محنت کے صلے سے محروم ہو کر غریب، مفلوک الحال اور مطیع ہوتی گئی۔ دولت اور طاقت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز اور مخصوص لوگوں یا گروہوں کے رتبوں کی بلندی‘ ظلم، ہیرا پھیری، لوٹ مار اور استحصال کو بڑھاوا دینے والے عاملین ہیں۔ یہی وہ بنیادی تضادات ہیں جنہوں نے طبقاتی کشمکش کی بنیاد رکھی۔ صدیوں پہلے ہی محنت کش طبقے نے اپنی محنت کی لوٹ کھسوٹ اور اس کے نتیجے میں آبادی کے ایک چھوٹے سے حصے کی مراعات یافتہ زندگی کی ”حقیقت“ کو سمجھ لیا تھا۔ اپنی محنت کے لٹ جانے اور اس کے سبب غربت اور محرومی کے پنپنے کی حقیقت کو آشکار کرنے والی سمجھ بوجھ ہی ہر دور کے طاقت ور حلقوں کیلئے ناقابل برداشت رہی ہے۔ اس ’طبقاتی سمجھ بوجھ‘ کو زائل کرنے کیلئے مراعات یافتہ طبقہ تب سے اب تک مسلسل نت نئے حربے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ حکمران طبقات اور ان کے حلیف حصوں نے محنت کش طبقے کی سوچ کو مفلوج کرنے کیلئے زیادہ تر کام فکری محاذ پر کیا ہے۔ ایسی سوچوں کو پروان چڑھانے والے مخصوص’ نظریات‘ خلق کیے گئے جن کا بنیادی مقصد اونچ نیچ کے نظام کو مقدس، آسمانی اور فطری قرار دینا تھا۔ حکمران طبقات کے زیر نگرانی ایسے نظریات نے مزاحمت اور سرکشی کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ ہر دور میں استحصال کے خلاف جدوجہد کو تقدسات کی مخالفت، بدتمیزی اور اخلاقیات سے عاری حرکت قرار دیا گیا۔ ظلم، زیادتی، محنت کے استحصال اور اونچ نیچ کے نظام کے خلاف ہر آواز کو جرم اور قابل تعزیر سمجھ کر دبانے کی ہر سعی کی گئی۔ یہ انسانی تاریخ ہے۔ اس کے ہر ورق پر خون کے بڑے بڑے دھبے انہی انسانوں کے ملیں گے جنہوں نے اپنے اپنے دور میں اپنی محنت پر اپنا حق جتلانے اور طاقت وروں کی مکارانہ لوٹ مار کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔ انسانوں کو مطیع رکھنے کیلئے ان کو ذہنی اور جسمانی غلام بنایا گیا اور اس غلام داری کو فطری اور آسمانی قرار دیا گیا۔ مگر انسان آزاد پیدا ہوا ہے۔ اس نے دریاﺅں کے پانیوں جتنے خون کو بہا کر بھی غلامی کو اپنا مقدر نہیں مانا اور حکمرانوں کے فرمودات کو تاریخ کے کوڑے دان کی زینت بنا دیا۔
’آفاقی احکامات ‘ کی پذیرائی مدہم ہوتے دیکھ کر مکار استحصالی طبقات نے ’تقدسات‘ کا رخ بدلا۔ جائیداد، املاک اور دولت سے محروم محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتوں کو تقسیم کرنے اور ان سے اپنے اثاثوں کی حفاظت کیلئے وطن پرستی کا کھیل کھیلا گیا۔ علاقائیت، قومیت، نسل پرستی اور (تاریخی اعتبار سے) چند سال پہلے کی اپنی ’نقل مکانی‘ کو ازلی اور اصلی اور بعد سے افضل بنا کر ایک اور زہریلا اور نشہ آور پراپیگنڈہ بھی مذموم مقاصد کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ماضی کی مملکتوں اور جغرافیائی تقسیم کو مزید گہرا اور بامقصد بنانے کیلئے سرمایہ داری میں حکمران طبقے نے جدید ریاست کی تشکیل اس اندازمیں کی کہ انسانوں کو انسانوں سے الگ الگ رکھنے کیلئے مختلف قسم کے تعصبات اور نفرتوں کو بڑھاوا دیا گیا۔ بندوبست کے حوالے سے یہ طبقاتی جڑت کی تقسیم تھی۔ محنت کے استحصال کو مستحکم اور برقرار رکھنے کیلئے ریاستی جبر کو مزید بڑھایا گیا۔ ایسا ہی ایک خونریز جبر 1886ءمیں شکاگو میں ان مزدوروں کے خلاف ڈھایا گیا جو کام کے اوقات کار میں کمی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مزدوروں کا مطالبہ تھا کہ ان سے بارہ اور سولہ گھنٹے کی بجائے آٹھ گھنٹے کام لیا جائے۔ تاکہ وہ آٹھ گھنٹے آرام کر سکیں اور آٹھ گھنٹے اپنے ذاتی کام کاج کیلئے تصرف میں لا سکیں۔ کارل مارکس نے اپنی تصانیف میں حقائق پر مبنی جامع تجزیات سے ثابت کیا تھا کہ کسی مل یا فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور اپنے آٹھ گھنٹے کے کام کے دن کے بھی ابتدائی حصے میں پیداوار کے ذریعے تمام تر اخراجات (بمعہ اپنی یومیہ اجرت) پورے کر لیتا ہے۔ اس متذکرہ کام کے دن کے ابتدائی حصے کے بعد مزدور سے ’بلا اجرت‘ کام کرایا جاتاہے۔ جس سے قدر زائد پیدا ہوتی ہے جو ساری کی ساری استحصالی طبقات کی جیب میں جاتی ہے۔ یوں کارل مارکس کے مطابق کام کے دن کا بیشتر حصہ مزدور سے بیگار لی جاتی ہے۔ 1886ءمیں مزدور طویل بیگار کے انہی گھنٹوں میں کچھ کمی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
مزدوروں کی اس پر امن جدوجہد کو، جس میں ان کے پاس سفید جھنڈے تھے، انہی کے خون سے سرخ کر دیا گیا۔ پر امن مزدوروں کے جلسے میں بم پھینکا گیا، گولیاں برسائی گئیں اور اس بھیانک قتل عام کے بعد مزدور رہنماﺅں پر ہی ان کے ساتھیوں کے قتل عام کا مقدمہ چلایا گیا۔ مقتول مزدوروں کے رہنماﺅں میں سے سات کو پھانسی اور ایک کو پندرہ سال سزا سنائی گئی جب کہ چار کو پھانسی پر لٹکا بھی دیا گیا۔ اس موقع پر پھانسی پانے والے ایک مزدورنے کہا تھا، ”تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو مگر ہماری آواز نہیں دبا سکتے۔“ یہ بات وقت نے سچ ثابت کی۔
یہ واقعہ مزدوروں کی تاریخ کا ایک سنگ میل بن گیا۔ تین سال بعد مزدوروں کی دوسری عالمی انجمن (دوسری انٹرنیشنل) نے یکم مئی کو مزدوروں کا دن قرار دے دیا۔ امریکہ کی کچھ صنعتوں میں اگلے سالوں میں اوقات کار میں کمی کر کے ’آٹھ گھنٹے کا م کا دن‘ کے مطالبے کو تسلیم کر لیا گیا۔ مزدور تحریک پر اس واقعے کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اگلے سالوں میں مزدور تحریک اس چھوٹے مطالبے سے آگے بڑھ چکی تھی۔ بیسویں صدی انقلابات کی صدی ثابت ہوئی اور مزدوروں نے کارل مارکس کے نظریات کے گرد انقلابی تنظیمیں اور پارٹیاں بنا کر تما م ذرائع پیدوار پر مزدوروں کے حق کی جدوجہد کو آگے بڑھانا شروع کر دیا۔ صبر آزما مگر مستقل مزاج جدوجہد بہت سی آزمائشوں سے نکل کر انسانی تاریخ کی سب سے بڑی پیش رفت تک پہنچ گئی۔ اکتوبر 1917ءمیں مزدوروں نے روس میں زار شاہی، سرمایہ داری، جاگیرداری اور سامراجی یلغار کو شکست دے کر پہلی مزدور ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اس بہت بڑی فتح، جس میں لگائی گئی کاری ضرب نجی ملکیت کے پورے نظام پر شدت سے محسوس کی گئی تھی، کے بعد حکمران طبقے نے دنیا بھر میں قدرے پسپائی اختیار کرتے ہوئے مزدوروں کے کچھ مطالبات تسلیم کرنے میں ہی عافیت محسوس کی۔ انہی مطالبات میں آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کا مطالبہ تقریباً پوری دنیا میں تسلیم کیا گیا تھا۔ دنیا بھر میں مزدوروں کی حکمران طبقے کے خلاف مزاحمت تیزی سے بڑھنے لگی اور سامراجی ممالک کو اپنے منافعوں کو لگام دیتے ہوئے ویلفیئر اسٹیٹ کے تصور کو وقتی طور پر قبول کرنا پڑا۔ سوویت انقلاب کے قائدین ولادیمیر لینن اور لیو ن ٹراٹسکی نے بالکل آغاز میں ہی اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ اگر روس کے انقلاب کو دنیا بھر کا انقلاب نہ بنایا گیا تو اس کو قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ستر سال بعد انقلاب مسلسل سے انحراف کے نتیجے میں سوویت انقلاب کی زوال پذیری نے بڑے پیمانے پر محنت کش طبقے کو نقصان پہنچایا۔ سرمایہ داری کے شدید بحران اور زوال پذیری کا سارا بوجھ پھر سے محنت کش طبقے پر ڈالتے ہوئے ان کی تمام تر مراعات اور حقوق غصب کیے جانے لگے۔ آج بالخصوص پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں کام کا دن حقیقت میں آٹھ گھنٹے سے تجاوز کر کے وقت کے لحاظ سے نو سے بارہ گھنٹے یا اس سے بھی طویل ہو چکا ہے۔ مشینوں کے ذریعے کام میں تیزی اس کے علاوہ ہے۔ بہت سے مغربی ممالک میں بھی کام کے قانونی اوقات کار اگرچہ آٹھ گھنٹے ہیں لیکن لوگ دو دو نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔جبکہ دوسری طرف اشیائے صرف کے مہنگا ہونے اور کرنسیوں کی بے توقیری سے اجرت مسلسل سکڑ رہی ہے۔ جدید مشینری، مصنوعی ذہانت اور روبوٹس وغیرہ، جن کو انسانی سہولت کا ذریعہ بنا کر محنت کے اوقات کار کو کم کرنا چاہئے تھا، ذاتی ملکیت کے نظام اور شرح منافع کی حرص میں بے روزگاری بڑھانے کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس قسم کی کیفیت کی ہمیشہ نشاندہی مارکسی اساتذہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سرمایہ داروں کی ہوس اور حرص کی کوئی آخری حد نہیں ہے۔ ایک طرف موجودہ ذرائع پیداوار دنیا بھر سے افلاس، بھوک، غربت، بیماری اور جہالت کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو دوسری طرف 7.9 ارب آبادی کا بہت بڑا حصہ بنیادی ضروریات سے محروم، افلاس کا شکار اور پچھلی صدیوں کے معیار کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک طرف تیزی سے ہر سال ارب پتیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف اقوام متحدہ نے آنے والے سالوں میں غذائی قلت کی نشاندہی کی ہے۔ پچھلے ایک سال سے عالمی وبا کورونا نے بھی سب سے زیادہ محنت کشوں کے خاندانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ آکسفیم کے اعداد و شمار کے مطابق آنے والے دنوں میں بھوک کی وجہ سے روزانہ 12000 افراد کی ہلاکت کا خطرہ ہے۔ اس صورتحال میں محنت کش طبقے کو اپنی تاریخ کی سب سے سنجیدہ کیفیت کا سامنا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور سرمایہ داری کی زوال پذیری کے بعد کے عہد میں جس قسم کی صورتحال بطور خاص محنت کشوں کیلئے پیدا ہوئی ہے اس کی مثال موجود نہیں ہے۔ روایتی ٹریڈ یونینیں جن حالات میں جدوجہد کیا کرتی تھیں وہ اب معروضی طور پر یکسر بدل چکے ہیں۔ ایسے میں ٹریڈ یونینوں کی پرانی تنظیموں، ڈھانچوں اور طریقہ ہائے کار میں ریڈیکل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ 2015ءکی پی آئی اے کی تحریک کے بعد سے بڑی ٹریڈ یونینیں نسبتاً غنودگی کے عالم میں ہیں۔ اس دوران سرکاری خدمات کے شعبوں کے محنت کشوں کی جدوجہد ہی وہ سنجیدہ پیش رفت ہے جس میں انہوں نے سماج میں محنت کشوں کی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں بلوچستان کے ملازمین کی جدوجہدنے خود کو ناقابل شکست اور مسلسل استقامت پر استوار کیا تھا۔ تمام تر دھمکیوں اور سازشوں کے بعد حکمرانوں کو عدالت کے ذریعے عارضی سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ مگر محنت کشوں نے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ موجودہ عہد اور کیفیات میں ازسر نو مزدور تحریک کو استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ کہنہ اور بوسیدہ قیادتیں‘ پرعزم نوجوان محنت کشوں کے ارمانوں اور جدوجہد کے راستے میں حائل ہیں۔ اب پرانے طریقوں سے محنت کش طبقے کی نجات کی لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔ اسلام آباد اور کوئٹہ کے دھرنے اور تحریکیں نئے رجحانات کو ابتدائی طور پر متعارف کرا چکی ہیں۔ مگر ابھی محنت کش طبقے کی جدوجہد کا نیا فیز شروع ہو گا۔ یہ لڑائی مزدور عدالتوں، این آئی آر سی، چارٹر آف ڈیمانڈ، سی بی اے کے گرد ریفرنڈموں و الیکشنوں اور پھر ان کے نتائج کو سالہاسال عدالتوں میں چیلنج کرنے کے سارے عمل کو عبور کر تے ہوئے لڑنا ہو گی۔ فیکٹری گیٹ پر جدوجہد اور عملی سرگرمیوں سے ہٹ کر تمام متبادل راستے انتظامیہ اور مالکان کی سازشوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ تمام وہ راستے جن کی گنجائش ماضی کے انڈسٹریل قوانین میں موجود تھی اب یاتو بند ہو چکے ہیں یا ناقابل عمل ہو چکے ہیں۔ اس سال یوم مئی پر محنت کشوں کو اپنی صفوں کو ازسر نو منظم کرنے کیلئے اپنی تاریخ کا بھی جائزہ لینا ہو گا اور موجودہ کیفیات میں اپنی بقا کی جنگ کو کیسے لڑنا ہے پر بھی غور کرنا ہو گا۔ سرمایہ داری کی موجودہ کیفیت میں مزدوروں کیلئے ریلیف کے راستے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ کورونا وبا نے نہ صرف سرمایہ داری میں علاج معالجے کے شعبے کو بے نقاب کیا ہے بلکہ کسی عالمی وبا سے نپٹنے کی صلاحیت اس نظام میں نہ ہونے کی نشاندہی بھی کی ہے۔ کورونا اور اسی طرح کی ہر آفت براہ راست محنت کش طبقے کو نشانہ بناتی ہے۔ ریاستوں نے کھربوں ڈالر کے ریلیف پیکیج کا بڑا حصہ سرمایہ داروں کو دے کر واضح کر دیا ہے کہ یہ نظام اور اس کی حاصلات صرف سرمایہ داروں کیلئے ہیں۔ محنت کشوں کو اپنا نظام قائم کر کے دنیا بھر کے وسائل دنیا بھر کے محنت کشوں کیلئے حاصل کرنا ہوں گے۔ اس کےلئے سرمایہ داری اور سامراجیت کو شکست دینا ضروری ہے۔ کوئی درمیانی راہ اب بچی ہی نہیں ہے۔ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاﺅ۔ تمہارے پاس کھونے کیلئے صرف زنجیریں ہیں اور پانے کو پورا جہاں پڑا ہے!