ڈاکٹر لال خان کا 2014ء میں لکھا گیا یہ آرٹیکل قارئین کیلئے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

لال خان

اس سال یوم مئی ایک ایسی نیم مذہبی سرمایہ دارانہ حاکمیت میں منایا جا رہا ہے جو محنت کشوں پر معاشی حملوں کی انتہا کر رہی ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پورا کرۂ ارض شدید انتشار اور تلملاہٹ سے لرز رہا ہے۔ ایک عہد کی کوکھ سے دوسرا عہد جنم لے رہا ہے۔ 2014ء کا یوم مئی محنت کش طبقے اور نسل انسانی کے مقدر کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ رجعت کے ایک ایسے گھناؤنے دور کا اختتام ہو رہا ہے جس میں تمام بنیادی انسانی قدریں پامال ہوکر رہ گئی تھیں۔

یہ مایوسی اور بدگمانی کئی دہائیوں تک چھائی رہی۔ عظیم تاریخی مقاصد کے لئے جستجو اور سائنسی نظریات سکڑ کر رہ گئے تھے۔ جھوٹ کو سچ بنایا جا رہا تھا اور سچائی کا خون بہایا جا رہا تھا۔ ماضی کے نظریات کا تسلط ایک جامد معاشرے کے تعفن کو زیادہ اذیت ناک بنا رہا تھا۔ روح، احساس او ر سوچ کی گھٹن اتنی بڑھ گئی تھی کہ انسان سسک رہے تھے اور معاشرے پراگندگی اور بد ظنی کی حدت سے سلگتے رہے۔ محنت کش عوام سے انکی ہر امید چھین لی گئی تھی، ان کی آرزوؤں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ دولت کے لالچ، ہوس کی شدت اور پیسے کی دوڑنے انسانیت کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔ استحصال کی شدت اور غربت کی ذلت میں زندگی کی وحشت اتنی تیزی سے بڑھ رہی تھی کہ انسانی رشتوں، سماجی بندھنوں اور تہذیبی اقدار کی تنزلی سے بربریت کا آسیب سارے عالم پر چھانا شروع ہو گیا۔ یہ باور کروا دیا گیا تھا کہ اب یہی سرمایہ دارانہ نظام، معاشرہ اور قدریں ہی انسان کا مقدر ہیں لہٰذا اپنی غیرت کو راہ میں رکھ دو۔ اشتراکیت اور اجتماعیت کو ماضی کے فرسودہ نظریات بنا کر دھتکار دیا گیا تھا۔ ٹریڈیونین لیڈروں کی اکثریت نے سرمایہ داری کو گلے سے لگا لیا تھا، نجکاری کی ”عظمتوں“ کو مزدوروں کی رگوں میں ایک زہر کی طرح اتار دیا گیا۔ دھوکہ دہی، فریب اور مکاری کو مزدور تحریک کا حصہ بنا دیا گیا۔ مزدور سیاست بدعنوان بن گئی۔ مراعات، دولت، سماجی رتبوں اور طاقت کے حصول کے دوڑ میں حسد اور مقابلہ بازی کو ٹریڈیونین سیاست کا معیار بنا دیا گیا۔ محنت کشوں کا اعتماد قربانی، جدوجہد اور نظریاتی سچائی سے اٹھوا دیا گیا۔ سچ اور نظریات پر قائم رہنے والوں کو بھی شکوک اور شبہات کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ مارکسزم کے نظریات کی جانب سابقہ ”سوشلسٹ“ اور ”کمیونسٹ“ مزدور لیڈروں کی حقارت محنت کشوں اور انقلابیوں کو دل برداشتہ کرتی رہی۔ چین اور روس میں سرمایہ داری کی بہالی کے بعد بہت سے ”کمیونسٹوں“ نے پیکنگ اور ماسکو کو چھوڑ کر واشنگٹن کو اپنا کعبہ بنا لیا۔ اس نظام میں اصلاحات کے ذریعے بہتری پر ”سیمینار“ کرنے کا فیشن چل نکلا۔ این جی اوز کھمبیوں کی طرح اگنے لگیں۔ ”جمہوریت کی بحالی“، ”آئین کی پاسداری“، ”سگریٹ نوشی کے نقصانات“، ”انسانی حقوق“، ”ماحولیات کے تحفظ“ اور ”عدلیہ کے تقدس“ وغیرہ جیسے بے معنی اور سطحی موضوعات پر ”مظاہروں“ اور مارچوں کی بھرمار کر دی گئی۔ سوشلسٹ انقلاب کے لفظ کو ایک تضحیک اور سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد کو جرم بنا دیا گیا۔ یہ کیفیت آج بھی کسی طور پر موجود ہے لیکن سماج کی کوکھ میں پکنے والے لاوے کی حدت بہت بڑھ چکی ہے۔ سماجی ہلچل اور تحریکوں میں شدت آنا شروع ہو گئی ہے۔

یکم مئی 1886ء کوامریکہ کے شہر شکاگو میں سفید جھنڈے اٹھائے ہوئے مزدوروں کے جلوس پر امریکی سرمایہ دارانہ ریاست کے اہل کاروں نے جب گولی چلائی تھی تو ان محنت کشوں کے لہو سے سفید جھنڈوں کا رنگ سرخ ہو گیا تھا۔ یہ سرخ پرچم آج بھی محنت کش طبقے کی جدوجہد کا نشان ہے۔ ان محنت کشوں کا جرم یہ تھا کہ وہ کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 4 مئی 1886ء کے اس جلوس پر ریاستی دہشتگردی مزدوروں پر سرمایہ داری کا پہلا یا آخری ستم نہیں تھا لیکن یہ واقعہ مزدور تحریک کی تاریخ میں ایک حوالے کے طور پر درج ہو گیا۔ اس واقعے کی مناسبت سے ہر سال یکم مئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ دنیا بھر کے مزدوروں کو یکجاکرنے والی تنظیم (دوسری انٹرنیشنل) نے کیا تھا۔ 1889ء میں پیرس میں ہونے والے دوسری انٹرنیشنل کے تاسیسی اجلاس میں یہ تجویز کارل مارکس کے عمر بھر کے ساتھی اور مارکسزم کے بانی فریڈرک اینگلز نے پیش کی تھی۔ 1889ء کے بعد سے ہر سال یہ دن عالمی سطح پر مزدوروں کی یکجہتی اور جدوجہد کی علامت کے طورمنایا جاتا ہے۔ 125 سال بعد بھی یوم مئی دنیا کا واحد تہوار ہے جسے دنیا بھر کے مزدور سرخ پرچم تھامے اور تمام سرحدوں‘ مذہبوں‘ قوموں‘ نسلوں‘ براعظموں اور ہر دوسری جغرافیائی، سماجی، لسانی اور ثقافتی تقسیم سے بالا تر ہو کر دنیا کے گوشے گوشے میں ایک نعرے ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ“ کے تحت یکجا ہو کر مناتے ہیں۔

1886ء کے شکاگو کے شہیدوں کی جدوجہد 8 گھنٹے یومیہ اوقات کار کے حصول کے لئے تھی۔ اسکے بعد آنے والی محنت کش طبقے کی نسلوں نے اپنی جدوجہد کے ذریعے اس سے کہیں زیادہ بڑے مطالبات منوائے اور بہت سی مراعات حاصل کر لیں۔ لیکن جبر، اذیت اور استحصال ختم نہیں ہوا۔ جب بھی نیچے سے انقلاب اٹھتا ہے حکمران اوپر سے اصلاحات کر کے اس انقلابی تحریک کو اصلاح پسندی کے راستوں پر زائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں ریاستی جبر کے انتہائی مشکل حالات میں بھی محنت کشوں نے بہت سی تحریکیں چلائیں لیکن قیادت کے ہاتھوں بار بار دھوکے کھائے۔ یہاں کے محنت کشوں نے 1968-69ء میں ایک عظیم انقلابی تحریک برپا کر کے اپنی جرات، طاقت اور صلاحیت کا اظہار کیا تھا۔ ان میں یہ اہلیت آج بھی موجود ہے۔

آج ہر ملک میں نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، ڈی ریگولیشن، ری سٹرکچرنگ اور ٹھیکیداری نظام کو نافذ کرنے کی پالیسیاں انتہائی بے دردی سے لاگو کی جا رہی ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ غربت، بے روزگاری، بیماری، ناخواندگی، سماجی و بنیادی صنعتی ڈھانچوں کی بربادی اور زندگی کی بدحالی کی شکل میں نکل رہا ہے۔ سرمایہ داری میں کسی اصلاح یا بہتری کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے معیشت، سماج اور ریاست کے ڈھانچوں میں بنیادی تبدیلی ہی واحد متبادل ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں نہ صرف ”ترقی پذیر“ بلکہ ”ترقی یافتہ“ ممالک میں بھی بربریت کے عناصر سر اٹھا رہے ہیں۔ ریاستیں بکھر رہی ہیں۔ خاص کر ایشیا اور افریقہ میں انسانی تہذیب کے انہدام کے ابتدائی آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ پچھلی ایک دہائی کے دوران کئی ممالک میں بلند معاشی شرح نمو کے باوجود سماجی تنزلی میں اضافہ ہوا ہے لیکن آج شرح نمو کی وہ سطح بھی قصہ ماضی بن چکی ہے۔ انسانی تاریخ میں غربت اور امارت کی وسیع ترین خلیج آج موجود ہے۔ غریب ترین ممالک میں دنیا کے امیر ترین لوگ موجود ہیں۔ کم سے کم ہاتھوں میں دولت کا زیادہ سے زیادہ اجتماع ہو رہا ہے۔ صرف 85 امیر ترین افراد کے پاس ساڑھے تین ارب انسانوں کی کل جمع پونجی سے زائد دولت موجود ہے۔ دنیا کی نصف سے زائد آبادی غربت کے کسی نہ کسی درجے پر زندگی گزار رہی ہے۔ ان حالات میں آج کے یوم مئی کا پیغام 8 گھنٹے یومیہ اوقات کار سے بڑھ سوشلسٹ انقلاب کی ناقابل مصالحت جدوجہد بن گیا ہے۔ اس سے کم کوئی پالیسی، کوئی لائحہ عمل محنت کشوں کے ساتھ غداری اور عوام سے دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔

عالمی سطح پر انسانی معاشرہ انقلاب کیلئے پک کر تیار ہو چکا ہے۔ سرمایہ داری وہ بوسیدہ عمارت ہے جسے محنت کش طبقے کی ایک ضرب منہدم کر سکتی ہے۔ اس فیصلہ کن اور کاری ضرب میں نسل انسانی کی نجات پنہاں ہے۔ مارکسسٹوں کا فرض ہے کہ وہ محنت کش طبقے کو اس تاریخی فریضے کی ادائیگی کے لئے منظم اور متحرک کریں۔ اس فیصلہ کن عہد میں سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد قربانی، مستقل مزاجی اور مارکسزم کے نظریات پر غیر متزلزل انداز میں قائم رہنے کا تقاضا کرتی ہے۔ ضرورت صرف محنت کش طبقے کی طاقت، ہمت اور جرات پر یقین رکھتے ہوئے انقلابی لائحہ عمل کی روشنی میں آگے بڑھنے کی ہے۔ وقت بہت قریب آن پہنچا ہے!

ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے
اِک دیس نہیں اِک کھیت نہیں ہم ساری دنیا مانگیں گے