ڈاکٹر طاہر شبیر

کیسے ہوظلم کی رات بسر، اس بات کا ڈر اب کس کو ہے
سر تن پہ رہے یا نیزے پر، اس بات کا ڈر اب کس کو ہے
جب رات کا سایہ ختم ہوا، پھر سرخ سویرا نکلے گا
ہر محنت کش کے ہاتھوں سے اک سرخ پھریرا نکلے گا
دستار گرے گی پیروں میں، محلوں سے وڈیرا نکلے گا
افلاس سے مارے ہر دل سے پھر ایک ہی نعرہ نکلے گا
اب کٹتا ہے، کٹ جائے یہ سر، اس بات کا ڈر اب کس کو ہے
سر تن پہ رہے یا نیزے پر، اس بات کا ڈر اب کس کو ہے
کچھ رہبر بیٹھ کے محلوں میں، مزدور کی باتیں کرتے ہیں
سرمایہ دار وڈیرے سب مزدور کے خون پہ پلتے ہیں
ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر سرمایہ دار سے لڑتے ہیں
اس را زسے وہ بھی واقف ہیں جو جھکتے نہیں، وہ کٹتے ہیں
آ جائے ہمیں اب موت اگر، اس بات کا ڈر اب کس کو ہے
سر تن پہ رہے یا نیزے پر، اس بات کا ڈر اب کس کو ہے
کیوں اپنے دیس کے ہر گھر میں غربت کا راج ابھی تک ہے
مزدور، کسان، وڈیروں کا دن بھر محتاج ابھی تک ہے
جو ہم کو لوٹنے والا ہے، اس سر پر تاج ابھی تک ہے
جس راج نے استحصال کیا، وہ راج تو آج ابھی تک ہے
ہے کتنا لمبا اور سفر، اس بات کا ڈر اب کس کو ہے
سر تن پہ رہے یا نیزے پر، اس بات کا ڈر اب کس کو ہے