اویس قرنی

2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد سے دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہوئی ہے۔ یہ ایک دہائی سے زائد کا عرصہ بیشتر خطوں میں مسلسل انقلاب اور ردانقلاب کے مابین ایک کشمکش کا دور رہا ہے۔ آج ’عرب بہار‘ کو ایک دہائی کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن نام نہاد جمہوریتوں کی بحالی نے محنت کشوں کی زندگیوں کو مزید تاراج ہی کیا ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی نیولبرل اصلاحات کو انتہائی بے رحمی سے لاگو کیا جا رہا ہے۔ سرمائے کے بحران کو محنت کے مزید استحصال سے کم کرنے کی تگ و دو کی جا رہی ہے۔ لیکن تمام حربے بے سود ثابت ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں حکمران طبقات کو ایک کے بعد دوسرے بحران کا سامنا ہے۔

اس کیفیت میں محنت کشوں ا ور نوجوانوں کی نئی اور پہلے سے زیادہ جفا کش تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ یہ اسباق بھی سیکھ رہے ہیں اور جدوجہد کے نئے طریقے بھی تراش رہے ہیں۔ آج سوشل ڈیموکریسی شدید بحران سے دوچار ہے اور سٹالنزم ایک سیاسی قوت کے طور پر تاریخی طور پر منہدم ہو چکا ہے۔ لیکن نئی ابھرنے والی اکثر قیادتیں (جنہیں ”نئے بائیں بازو“ کا نام بھی دیا جاتا ہے) کئی طرح کے ابہاموں کا شکار نظر آتی ہیں (جس کا ناگزیر نتیجہ یونان میں سائریزا کی محنت کش طبقے سے تاریخی غداری، سپین میں پوڈیموس کی ناکامی اور وینزویلا میں سوشلسٹ پارٹی کی حکومت کی مسلسل بحرا ن زدہ کیفیت کی شکل میں برآمد ہوا ہے)۔ جمہوریت، سوشل ڈیموکریسی اور انقلابی سوشلزم کے درمیان فرق کو مٹا کر ایک ملغوبہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان سمیت یہ کیفیت دنیا کے کئی خطوں میں نظر آتی ہے۔ سائنسی سوشلزم پر یقین اور پرولتاریہ کی انقلابی صلاحیت پر اعتماد کا فقدان بالآخر اصلاح پسندی، مفاہمت اور درمیانی راستے کی تلاش پر منتج ہوتا ہے۔ لیکن یہ کوئی حقیقت پسندی نہیں بلکہ بدترین موقع پرستی ہے۔ تجربیت (Empiricism) کی مخصوص سوچ کے تحت طبقاتی جدوجہد کی پسپائی کی کیفیات میں طبقاتی سوال کو پس پشت ڈال کر سطحی اور نمائشی سیاست کو ہی مارکسزم کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ایسا ”مارکسزم“ عموماً انقلاب سے عاری ہوتا ہے۔ یعنی نظرئیے میں سے اس کی روح نکال دی جاتی ہے۔ حالانکہ طبقاتی تضاد سرمایہ دارانہ سماج کا سب سے بنیادی تضاد ہے۔ جب تک طبقات کا وجود باقی ہے‘ طبقاتی کشمکش کبھی ماند تو پڑ سکتی ہے لیکن تھم نہیں سکتی۔ یہ ناگزیر طور پر کبھی نہ کبھی دوبارہ ضرور بھڑکتی ہے۔ لیکن غیر انقلابی ادوار میں معاشرے میں موجود دوسرے تضادات، جو زیادہ تر رجعتی نوعیت کے ہوتے ہیں، کو طبقاتی تضاد پر حاوی کر دینا اصلاح پسندی کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔ جسے پھر ہر عہد کی مناسبت سے نئے نئے نام دئیے جاتے ہیں۔ حکمران طبقات کی اس سے بڑھ کر معاونت کوئی نہیں ہو سکتی۔

تنظیم سازی کے بالشویک طریقوں پر بے تکی تنقید بھی آج کل فیشن بن چکا ہے۔ محنت کش طبقے کا وجود ختم ہو گیا، سوشلزم پرانا ہو گیا، بالشویزم سو سال پرانی کہانی ہے، سرمایہ داری کے خلاف ”نئے طریقوں“ سے لڑائی کی ضرورت ہے وغیرہ جیسے جملے بالخصوص بائیں بازو کے پیٹی بورژوا حلقوں میں اکثر سننے کو ملتے ہیں۔ ایسے رجحانات وقتی ایشوز کے گرد تحریکیں ”بنانے“ اور پھر اس کے بعد کوئی اور ایشو ڈھونڈنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ ”ایشوز“ کی یہ سیاست سماج کی انقلابی تبدیلی کے کسی دوررس لائحہ عمل اور نصب العین سے یکسر عاری ہوتی ہے۔یوں یہ ایکٹوزم برائے ایکٹوزم بن کے رہ جاتا ہے جسے پیٹی بورژوا بے صبرا پن اپنے کیتھارسس کے لیے استعمال کرتا ہے۔ انقلابیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ جبر و استحصال کی مختلف اشکال کے خلاف تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر شامل ہوں۔ جہاں موقع ملے ایسی تحریکوں کو منظم کریں۔ لیکن یہ انقلابیوں کا حتمی مقصد کبھی نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں ہر تحریک انقلابی نہیں ہوتی۔ یہاں بائیڈن، جو امریکی سامراج کا زیادہ وحشی اور گھاگ نمائندہ ہے، کی انتخابی مہم میں حصہ لینے والے نام نہاد سوشلسٹوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اسی طرح بائیں بازو کے کئی حلقوں کی جانب سے پاکستان کی نام نہاد وکلا تحریک، جو ریاست کے ایک انتہائی رجعتی اور زہریلے دھڑے کی پشت پناہی سے چلائی جا رہی تھی، کو انقلابی بنانے کی بڑی تگ و دو کی گئی۔ اسی طرح ”جمہوریت“ کی بحالی کی تحریکوں میں اصلاح پسندوں اور بورژوازی کے لبرل دھڑوں کا اتحاد ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔ یہ سب سماج کی انقلابی تبدیلی کے امکان پر سے یقین اٹھ جانے کا ناگزیر نتیجہ ہوتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو آج کے نام نہاد ”نئے بائیں بازو“ میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ اکثر صورتوں میں اس کی نظریاتی بنیادیں ”پرانے“ سے بھی کہیں پیچھے ماضی میں پیوست ہیں۔ یہ مصالحت کے وہی رجحانات ہیں جن کا سامنا اپنی زندگیوں میں مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کو ہمیشہ رہا۔ ”بایاں بازو“ بذات خود ایک انتہائی مبہم اصطلاح ہے جس میں کئی قسم کے رجحانات موجود ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں ”بائیں بازو کی تعمیر“ کی بھی بڑی باتیں ہوتی ہیں جو بنیادی طور پر تاریخ اور سماج کی حرکیات سے مکمل بے بہرے پن کی غمازی کرتی ہیں۔اس سلسلے میں آئے روز خودساختہ بائیں بازو کی پارٹیوں کی بنیادیں بھی رکھی جاتی ہے۔ ”بائیں بازو کی تعمیر“ کوئی موضوعی عمل نہیں ہے بلکہ مخصوص ادوار میں محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان عمل میں اتر کر اپنی دیوہیکل پارٹیوں کی شکل میں بائیں بازو کی تعمیر کرتا ہے۔

آج کل کی اصلاح پسندی میں محنت کشوں کی بجائے ”عوام“ اور ”شہریوں“ پر تکیہ کرنے کا بھی بہت چلن ہے۔ حتیٰ کہ طبقاتی یکجہتی کی اصطلاح کو بھی ”سماجی یکجہتی“ سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ طبقاتی نظام کے خلاف انقلاب کی بجائے بحران زدہ سرمایہ داری کے پیداکردہ قومی، لسانی، مذہبی، علاقائی اور صنفی جبر کی مختلف جہتوں کو شعور پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ان تمام نوعیتوں کے جبر سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن جب تک ان کے خلاف لڑائی کو طبقاتی سوال سے نہ جوڑا جائے کوئی انقلابی لائحہ عمل مرتب نہیں ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان جیسے پسماندہ معاشروں یہ مسائل نہ صرف سلگ رہے ہیں بلکہ کہیں زیادہ شدید ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کی بحران زدہ سرمایہ داری کی حدود میں یہ مسائل ناقابل حل ہیں۔ بالعموم نظام کے اندر رہتے ہوئے ان کے حل کی کوششیں کئی دوسرے مسائل کھڑے کر دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں قانون سازیوں کی مشروط حمایت ضرور کی جانی چاہئے لیکن بنیادی مارکسی تھیسس بھی مدنظر رہنا چاہئے کہ قانون کبھی بھی سماج کے معاشی ڈھانچے اور اس پر تعمیر شدہ ثقافت سے بلند نہیں ہو سکتا۔ بیماری کو جڑ سے اکھاڑنے کی بجائے اس کی محض علامتوں کے تدارک سے جسم صحت مند نہیں ہوسکتا۔

یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ بالشویک تنظیم سازی پر تنقید کرنیوالے یہ عناصر ”عوام تک رسائی“ جیسے انیسویں صدی کے نرادنک رحجانات کو زیادہ ”جدید“ گردانتے ہیں۔ لیکن اس کی بنیادی وجہ محنت کش طبقے کی انقلابی صلاحیتوں پر عدم اعتماد ہے۔ اس کا دوسرا پہلو مروجہ سیاست کی بورژوا تشریح ہے۔ عوام کے یہ دوست بغیر کسی نظریاتی یکجائی کے مختلف گروہوں اور رحجانات کے اجتماع سے موضوعی عنصر کے خلا کو پُر کرنے کے خواہاں ہیں۔ یہ بنیادی طور پر ریت کی دیواریں تعمیر کرنے کی مترادف ہے۔ ایک انقلابی پارٹی سب سے پہلے ایک انقلابی نظریہ ہوتی ہے۔ پارٹی کے اندر بحث اور اختلاف کی بنیاد پر اس نظریے پر عبور حاصل کرتے ہوئے انقلابی کیڈروں کی شکل میں انقلابی تنظیم تعمیر ہوتی ہے۔ یوں انقلابی تنظیم سب سے پہلے ایک نظریے پر ہم آہنگی کا نام ہے۔ لیکن اس ہم آہنگی کو جبر قرار دے کر پیٹی بورژوا ”انفرادیت“ اور ”شخصی آزادی“ کے نام پر ہر طرح کے متضاد رجحانات کے کثیر النظریاتی ملغوبے کی تیاری کو ”نیا“ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یونان میں بننے والی سائریزا کو اس طریقہ کار کی سب سے بڑی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کی بدترین کاسہ لیسی، غداری اور ناکامی کو بڑی چالاکی سے بحث سے ہی نکال دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کی نقالی ماضی میں بھی کی گئی ہے اور آگے بھی کی جائے گی۔ اس طریقہ کار سے وقت گزاری اور بحث و مباحث کا کلب تو بن سکتا ہے‘ کوئی سنجیدہ سیاسی قوت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔انتہائی مخصوص حالات میں ایسی پارٹیاں نسبتاً وسیع عوامی بنیادیں بھی حاصل کر لیں تو حکمران طبقات سے مصالحت اور معاونت ہی ان کا مقدر ہوتا ہے۔موضوعی قیادت کے بحران پر کسی مصنوئی انداز میں قابو نہیں پایا جا سکتا۔ کوئی شارٹ کٹ یا درمیانی راستہ موجود نہیں ہے۔

انقلابی پارٹی کی تعمیر ایک کٹھن اور صبر آزما کام ہے جس کے لیے حالات کبھی بھی موافق نہیں ہوا کرتے۔ بلکہ انقلابات کا سوال ہی انہی حالات سے پیدا ہوتا ہے جن میں بہتری کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ لیکن پھر یہ سفر بھی سیدھی لکیر میں نہیں ہوا کرتا۔ انقلابی پارٹی کی تعمیر کی اپنی میکانیات ہوتی ہیں۔لیکن ایک انقلابی پارٹی کبھی بھی بورژوا پارٹیوں کی طرز پر تعمیر نہیں ہوا کرتی۔ درست نظریات اور تناظر پر ہم آہنگی اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے رضاکارانہ لیکن آہنی ڈسپلن کے بغیر بڑی بڑی دیوہیکل پارٹیاں حالات کے تھپیڑوں سے ریزہ ریزہ ہو جایا کرتی ہیں۔ سارا نام نہاد سماجی اثر و رسوخ ہوا میں زائل ہو جاتا ہے۔ سوشل ڈیموکریسی کی تاریخ اس عمل کی سب سے بڑی مثال ہے۔

انقلاب کی تیاری محنت کش طبقے پر محکم یقین کے بغیر ناممکن ہے۔ اس طویل جدوجہد میں تھکاوٹ، بدگمانی اور مایوسی کے جذبات اور خیالات غالب آنے کے امکانات ہمیشہ رہتے ہیں۔ لیکن پھر تنظیم کی شکل میں اجتماعی جدوجہد ہی فرد کو ایسی ذہنی کیفیات سے باہر نکالتی ہے۔ افراد چاہے جتنے بھی ذہین، انتھک، دیانتدار اور جرات مند کیوں نہ ہوں‘ تنظیم کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ تنظیمی دھارے سے باہر لوگ تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، ہار مان لیتے ہیں یا کہیں نہ کہیں سمجھوتہ کر بیٹھتے ہیں۔

لیکن تاریخ میں افراد کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بالشویک پارٹی کے بغیر روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لینن اور ٹراٹسکی کے بغیر بالشویک پارٹی یہ تاریخی فریضہ سر انجام نہیں دے سکتی تھی۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی کو وہ حالات میسر آئے جس کی تیاری وہ لمبے عرصے سے کر رہی تھی۔ اس سے قبل بھی کئی انقلابات برپا ہوئے جنہوں نے تاریخ کا دھارا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موڑ دیا لیکن ان میں اور اکتوبر 1917ء کے انقلاب ِ روس میں ایک کلیدی فرق موجود تھا۔ اکتوبر انقلاب پارٹی کے بغیر فتح سے ہمکنار نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن یہی پارٹی 1905ء میں انقلاب برپا نہیں کر سکی تھی۔ حتیٰ کہ فروری 1917ء میں بھی بالشویک پارٹی پرولتاریہ کی آمریت قائم نہیں کر سکی تھی۔ اکتوبر 1917ء میں ہی موافق معروضی حالات اور موضوعی عنصر کی موجودگی کے امتزاج نے یہ موقع فراہم کیا۔

آج کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے سرمایہ داری متروک ہو کر انسانی تہذیب کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے بغیر اس کا خاتمہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ لیکن ایک انقلابی پارٹی کے بغیر انقلابات کا وہی حشر ہوتا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے مصر، شام، لیبیا، تیونس اور یونان میں ہوا ہے۔ ایسے میں ردِ انقلابات کا بوجھ نسلیں اٹھاتی ہیں۔ پاکستان آج تک 1968-69ء کے انقلاب کی ناکامی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ یہاں ہر آنے والا دن ایک نئی اذیت کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ لیکن آج نوجوانوں میں مسلسل بے چینی بڑھ رہی ہے۔محنت کش طبقے کے سیاسی شعور کاارتقا ہو رہا ہے۔ یہی نوجوان اور محنت کش اٹھیں گے۔ تاریخ کے میدان عمل میں قدم رکھیں گے۔ لیکن انقلابی پارٹی کے بغیر تمام تر بغاوت یوں زائل ہو جاتی ہے جیسے پسٹن باکس کے بغیر بھاپ۔ مارکسزم اور بالشویزم گزرا ہوا کل نہیں‘ آنے والے وقت کی آواز ہے۔ یہی مستقبل ہر قسم کے جبر و استحصال سے انسانیت کی آزادی کی نوید بن سکتا ہے۔