گرسن جیک
ترجمہ: علی تراب
کووڈ 19 کے خلاف مؤثر ویکسینوں کی آمد سے یہ امید جنم لے رہی ہے کہ جس وبا نے سو ملین لوگوں کو اپنا شکار بنایا اور ڈھائی ملین لوگوں کی جان لی ہے‘ وہ اب قابو میں آ جائے گی۔ لیکن جب تک دنیا کی بیشتر آبادی کو ویکسین نہیں لگتی تب تک وائرس قابو میں نہیں آئے گا۔ ایسے بڑے علاقے جہاں ویکسینیشن نہیں کی گئی وہاں وائرس پھیلتا رہے گا اور میوٹیشن کے ذریعے زیادہ جان لیوا شکلوں میں مکمل طور پر ویکسینیٹڈ ممالک میں بھی بیماری اور موت پھیلاتا رہے گا۔ ہم یہ عمل ابھی برطانیہ، برازیل اور جنوبی افریقہ میں دیکھ رہے ہیں جہاں زیادہ طاقتور اور تیزی سے پھیلنے والی شکلیں سامنے آ گئی ہیں۔
جب تک سب محفوظ نہیں ہوتے تب تک کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ لیکن امیر ممالک اور دوا ساز کارپوریشنیں، جن کا ویکسین کی مینوفیکچرنگ اور تقسیم پر غلبہ ہے، اس بات پر کوئی دھیان نہیں دے رہے ہیں۔
دوا سازی کی صنعت عوامی فلاح کی قیمت پر منافع بنانے کے حوالے سے مشہور ہے اور اب بھی وہ اسی کام پر لگی ہوئی ہے۔ فائزر ویکسین کی فروخت سے پندرہ بلین ڈالر کے منافع کی توقع کر رہی ہے جبکہ موڈرنا کے سٹاک کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ آکسفیم کے اندازے کے مطابق عالمی سطح پر ویکسین تک رسائی کیلئے ایک خوراک کی قیمت 3.40 ڈالر سے کم ہونی چاہیے۔ لیکن فائزر اور موڈرنا اس سے پانچ گنا زیادہ قیمت وصول کر رہی ہیں جس سے ان کی ویکسین کم اور درمیانی آمدن والے ممالک کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہے۔
زیادہ آمدن والے ممالک نے ویکسینوں کی غیر متناسب تعداد حاصل کر کے ذخیرہ کر لی ہے۔ برطانیہ، امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک نے اپنی مکمل آبادی کو ویکسینیٹ کرنے کیلئے درکار خوراکوں سے ایک ارب سے بھی زیادہ خوراکیں خرید لی ہیں یا ان پر حقوق محفوظ کر لیے ہیں۔ ان اضافی خوراکوں کو عطیہ کرنے کی بجائے وہ اور زیادہ ویکسین کے حقوق خرید رہے ہیں۔
اس حوالے سے امریکی موقف کا اظہار بائیڈن انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے 18 فروری کے نیویارک ٹائمز اخبار میں اپنے بیان سے اس طرح کیا، ”جب تک اندورنی ویکسینیشن کا سلسلہ چل رہا ہے‘ امریکہ ویکسین تقسیم نہیں کرے گا۔“
اس کے برعکس سو سے زیادہ ممالک میں ابھی ایک بھی ویکسین نہیں لگائی گئی ہے۔ سب صحارا افریقہ اور ایشیا میں ہیلتھ ورکروں کی ویکسینیشن کا سلسلہ بھی ابھی شروع ہی ہوا ہے۔ دنیا کی زیادہ تر آبادی کو اس سال میں بڑی دوا ساز کمپنیوں سے ویکسین ملنے کی کم ہی امید ہے۔
اس متوقع صورتحال کے پیشِ نظر کوویکس، جو کہ عالمی ادارہ صحت کے تحت ویکسین تقسیم کرنے ولا ادارہ ہے، نے پچھلے خزاں کے موسم میں 2 ارب خوراکیں حاصل کرنے اور 142 ترقی پذیر ممالک میں تقسیم کرنے کا ہدف لیا تھا۔ کوویکس کے اندازے کے مطابق اس ہدف کو پورا کرنے کیلئے اسے 33 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ ابھی تک اس رقم کا ایک تہائی ہی جمع ہوسکا ہے۔ جی 7 ممالک نے صرف 7.5 ارب ڈالر ہی دیے ہیں۔ دوا ساز کمپنیوں نے 2 ارب خوراکیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن یہ وعدہ رواں سال میں پورا ہونے کے امکانات کم ہیں۔ کیونکہ امریکہ اور اس کے دوست موجودہ ویکسین کی کوویکس سے اونچی بولی لگا رہے ہیں۔ کوویکس کے حالیہ اندازے کے مطابق وہ مئی کے آخر تک 142 ترقی پذیر ممالک کی صرف 3.3 فیصد آبادی کو ویکسین فراہم کر سکے گا۔ کوویکس کے اہداف قابل قدر ہیں لیکن ان کو پورا کرنے میں اس کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر کوویکس اپنی 2 ارب ویکسین کا ہدف پورا کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے (جس کے امکانات کم ہیں) تب بھی اس سے 142 ممالک کی صرف 20 فیصد آبادی ہی ویکسینیٹ ہو پائے گی۔ کوویکس صرف ہیلتھ ورکروں اور انتہائی حساس لوگوں کی ضرورت لائق ویکسین مہیا کر پائے گا۔ لیکن ضرورت اس سے کہیں زیادہ کی ہے۔
کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک اپنی ویکسین حاصل کرنے کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ کوویکس سے اپنی ضرورت لائق بہت کم مقدار ملنے اور فائزر اور موڈرنا ویکسینوں کی قیمت زیادہ ہونے کے باعث انہیں دوسرے راستے کھوجنا پڑ رہے ہیں۔
چین، روس اور بھارت ویکسین برآمد کر رہے ہیں اور کیوبا (ایران کے ساتھ تعاون میں) متعدد ویکسینوں کے کلینیکل ٹرائل کر رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق روس نے اپنی سپٹنک فائیو ویکسین کی 1.2 ارب خوراکیں بیرونِ ملک سپلائی کرنے کے معاہدے کیے ہیں۔ سپٹنک فائیو کو انتہائی موثر بتایا جا رہا ہے۔ لیکن مینوفیکچرنگ کی محدویت کے باعث بہت کم امکان ہے کہ رواں سال 1.2 ارب ویکسین کے ہدف کے کہیں قریب بھی پہنچا جا سکے۔
چین کے چار بڑے مینوفیکچرز نے اس سال 500 ملین خوراکیں کم اور درمیانی آمدن والے ممالک کو فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ 30 سے زائد ممالک میں چین ساختہ ویکسین سے ویکسینیشن کا سلسلہ پہلے ہی جاری ہے۔ چین کی جانب سے کچھ ویکسین عطیہ کی گئی ہیں، کچھ بیچی گئی ہیں اور کچھ قرض پر دی گئی ہیں۔ اس ویکسین ڈپلومیسی کے ذریعے چین یقیناً خارجہ محاذ پر حاصلات کی توقع کرتا ہے۔
چینی دوا سازوں نے تیسرے مرحلے میں ہونے والے کلینیکل ٹرائلوں کے تفصیلی نتائج پبلک نہیں کیے اور جو مختصر اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں وہ بھی متاثر کن نہیں ہیں۔ بیشتر دنیا کے پاس انتخاب کی گنجائش ہے بھی کم۔ ایک مصری سرکاری اہلکار کے الفاظ میں ”ویکسین، خصوصاً جو مغرب میں بنی ہیں، امیر ممالک کیلئے مختص ہیں۔ ہمیں ویکسین کی فراہمی یقینی بنانی ہے۔ چاہے کوئی بھی ویکسین ہو۔“ سربیا کے دائیں بازو کے قوم پرست الیگزینڈر ویوچک نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ”کیا ہم نے روس اور چین کا رخ کیا؟ آپ نے اپنے لیے تو بہت مہنگی مہنگی حفاظتی کشتیاں بنا لی ہیں اور جو کوئی امیر نہیں ہے اور چھوٹا ہے اس کے حصے میں ٹائیٹینک کے ساتھ ڈوب مرنے کی سزا آئی ہے۔“
اگر کسی معجزے کی صورت میں کوویکس، روس اور چین اپنے خواہش مندانہ پیداواری اہداف حاصل کر بھی لیتے ہیں تو بھی رواں سال 142 ترقی پذیر ممالک کی صرف 40 فیصد آبادی کی ہی ویکسینیشن ہو سکے گی۔ اس کے برعکس امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، عرب امارات اور دیگر کچھ امیر ممالک اپنی مکمل بالغ آبادیوں کی ویکسینیشن کی توقع کر رہے ہیں (مینوفیکچرنگ میں کاہلی اور بیوروکریٹک مسائل کی وجہ سے پورپی یونین کے ممالک ویکسین کے حصول میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ کچھ یورپی یونین کے ممالک اپنے طور پر بھی معاہدوں کی کوششیں کر رہے ہیں)۔
مندرجہ ذیل منظرنامے کے سامنے آنے کی توقع کی جا سکتی ہے: امریکہ اور اس کے امیر حواریوں کی ویکسینیشن مکمل ہونے کے بعد پہلی جنریشن کی باقی ویکسینیں ترقی پذیر ممالک کو دی جائیں گی۔ کچھ اضافی خوراکیں امریکہ وغیرہ عطیہ کریں گے اور شاید کچھ کم قیمت پر دوا ساز کمپنیاں بھی فراہم کریں گی۔ لیکن ممکن ہے کہ تب تک اس ویکسین سے مدافعت رکھنے والی وائرس کی نئی شکلیں سامنے آ جائیں اور مغربی دوا ساز کمپنیوں کو بوسٹر شاٹس اور ویکسین کی دوسری جنریشن بنانی پڑے جو کہ نئی شکلوں کے خلاف مؤثر ہو۔ امریکہ اور اس کے حواری اس مارکیٹ پر بھی قبضہ جما لیں گے۔ یہ عمل بار بار خود کو دہرا سکتا ہے کہ امیر جلدی محفوظ ہو جائیں اور غریب غیر محفوظ ہی رہیں۔
ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ کووڈ 19 کی ویکسین کا اس تیزی سے تیار ہونا واضح کرتا کہ معلومات کے مشترکہ تبادلے اور مل کر کام کرنے سے کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سے ہمیں ایک جھلک ملتی ہے کہ پچھلی دہائیوں میں کیا کچھ ممکن ہو سکتا تھا جب بڑی دوا ساز کمپنیاں‘ پیٹنٹ ہولڈرز کا کردار نبھاتے ہوئے ترقی کی راہ میں حائل رہیں۔ وبا کے پھیلنے سے پہلے ہی ویکسینیں تیار کی جا سکتی تھیں‘ بشمول ایسی ویکسین کے جو کورونا وائرس کی بیشتر اقسام کے خلاف مدافعت پیدا کر دے۔ مثال کے طور پانچ سال قبل بیلر یونیورسٹی کالج آف میڈیسن کے وائرولوجسٹس نے ایک ایسی ویکسین کی فنڈنگ کیلئے درخواست دی جو کورونا وائرس کی تمام اقسام کے خلاف مؤثر تھی۔ جسے آپ ایک پین کورونا وائرس ویکسین بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ اب ایسی تحقیق شروع کر دی گئی ہے۔ ’سارس کوو 2 ویرینٹ‘ کے خلاف مؤثر ویکسین پر بھی تحقیق جاری ہے۔ جسم میں وائرس کے داخلے کو روک کر انفیکشن سے بچانے والے اینٹی وائرل نیزل انہیلنٹ (ناک کے سپرے) کا کلینیکل ٹرائل بھی جلد شروع کیا جائے گا۔
معلومات کے آزادانہ تبادلے اور اشتراک کے ساتھ اس قسم کی تحقیقات صحت کے ہر شعبے میں ہونی چاہئے۔ اس کے لئے پہلے کسی وبا کے پھوٹنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں بننے والی ادویات سب کو مہیا کی جانی چاہئے۔ خصوصاً ضرورت مندوں کو۔ کووڈ کی ویکسین بڑی دوا ساز کمپنیوں کی انٹیلیکچول پراپرٹی نہیں ہونی چاہیے۔ جو ایسی ادویات کو پیٹنٹ کروا کے چھپا لیتی ہیں۔ بائیو ٹیکنالوجی کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے کہ دوسرے ممالک کو بھی مینوفیکچرنگ اور تقسیم کے قابل بننے میں مدد کریں۔ امیر ممالک کے ویکسین ذخیرہ کرنے اور غریب ممالک کو محروم کرنے کی بجائے ویکسین عالمی پیمانے پر سب کو فراہم کی جانی چاہیے۔
عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں ہی کووڈ 19 صحت کو لاحق سنگین خطرے کے طور پر نظر نہ آئے۔ پچھلے بیس سالوں میں ہمیں سارس، مرس اور سارس کوو 2 (جس سے کووڈ 19 ہوتا ہے) دیکھنے کو ملے۔ دوا سازی کی صنعت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ پہلے سے تیار رہنے کی بجائے صرف تب ہی عمل میں آئے گی جب دیوہیکل منافعوں کی ضمانت موجود ہو اور صرف اسی سمت میں کام کرے گی جس سے امیروں کو فائدہ ہو اور غریبوں کو موت کے منہ میں دھکیلا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام صحت کی تنظیم نو کی جائے۔ صحت کو منافعوں کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ انسانی جانوں کی قیمت نہ لگائی جائے۔ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب نہ صرف سماجی ترجیحات تبدیل کی جائیں بلکہ سماج کے اندر بھی گہری تبدیلی برپا کی جائے۔ ابھی دیر نہیں ہوئی کہ منظم ہوا جائے اور اس مقصد کیلئے لڑا جائے۔