ڈاکٹر چنگیز ملک
انقلاب مٹھی بھر لوگ نہیں لاتے۔ مگر انقلاب کی کامیابی میں مٹھی بھر لوگوں کا کلیدی کردار ہوا کرتا ہے۔ پرویز ملک کا شمار بھی ان مٹھی بھر لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے زمانہ طالب علمی سے لے کر اپنی آخری سانس تک ساری زندگی ایک غیر متزلزل انقلابی یقین کے ساتھ جدوجہد میں گزاری۔ کامریڈ نے انتہائی نامساعد حالات، قید و بند کی صعوبتوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کینسر جیسے موذی مرض تک تمام تر مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود انقلابی سوشلزم کے نظریات کو طلبہ، مزدوروں اور کسانوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ صرف اپنی زندگی کے تقریباً آخری دو سال میں خرابی صحت کے باعث عملی میدان میں متحرک کردار ادا نہ کر پائے۔ لیکن بستر مرگ پر ہونے کے باوجود جب کبھی بھی ملاقات یا ٹیلی فونک رابطہ ہوا کامریڈ نے تنظیمی امور کے متعلق نہ صرف دریافت کیا بلکہ ہمیشہ سیاسی میدان میں کام کے طریقہ کار پر رہنمائی بھی جاری رکھی۔
پرویز ملک 26 دسمبر 1950ء کو اٹک کے گاؤں حاجی شاہ میں ایک سکول ٹیچر عبدالمالک کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پائلٹ ہائی سکول سے حاصل کی۔ بعد ازاں گریجو یشن کی ڈگری گورنمنٹ کالج اٹک سے مکمل کی۔ زمانہ طالب علمی میں سیاسی طور پر متحرک ہونے کے علاوہ پرویز ملک ہاکی اور کرکٹ سمیت دیگر کھیلوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے اپنی باضابطہ طلبہ سیاست کا آغاز نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) سے کیا۔ بعد میں وہ این ایس ایف کے صوبہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے بھی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ این ایس ایف اس وقت کی اہم ترقی پسند طلبہ تنظیم تھی جس کے بنیادی نظریات انقلابی سوشلزم پر مبنی تھے۔ اسی دوران انہوں نے اٹک میں سب سے پہلے سیاسی دفتر (پاکستان بننے کے بعد) کی بھی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں این ایس ایف کا یہی دفتر اٹک کے نوجوانوں میں انقلابی سوشلزم کے نظریات کی ترویج اور سیاسی تربیت کا مرکز بنا رہا جس میں کامریڈ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اٹک میں سینکڑوں جلسوں کے انعقاد میں نے کلیدی کردار ادا کیا جس میں ہزاروں نوجوانوں نے شرکت کی۔ اس دوران انہوں نے مذہبی بنیاد پرستوں کے منفی پروپیگنڈا کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ مختلف مواقع پر منہ توڑ سیاسی جواب بھی دئیے۔ مثلاً اٹک میں پرویز ملک کی ہی قیادت میں منعقد ہونے والے این ایس ایف کے ایک جلسے میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا غوث بخش ہزاروی کی طرف سے سوشلزم کے حق میں تقریر بھی اس پروپیگنڈا کا منہ توڑ جواب تھا۔ اٹک میں پرویز ملک کی قیادت میں ویتنام پر امریکی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی منعقد کیے گئے جن سے پرویز ملک کے زمانہ طالب علمی سے ہی عالمگیر سوشلزم کے نظریات پر یقین کی عکاسی ہوتی ہے۔ زمانہ طالب علمی کے بعد بھی پرویز ملک اٹک میں یوم مئی کی تقریبات اور بے روزگار نوجوان تحریک کے کنونشنوں سمیت مختلف سیاسی سرگرمیوں کا انعقاد کرواتے رہے۔ ایک پسماندہ ضلع ہونے کے باعث اٹک کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں یا پتھر پیدا ہو سکتاہے یا فوجی۔ لیکن پرویز ملک سمیت میر داد خان، فقیر حسین، پروفیسر منظور احمد، ڈاکٹر اشفاق، اشرف ملک، اسلم ملک اور بشارت ملک جیسے کرانتی کاری بھی اس پسماندہ ضلع سے سرمایہ داری اور عالمی سامراج کے خلاف برسر پیکار رہے۔
پرویز ملک ان مٹھی بھر لوگوں میں سے بھی تھے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر ہونے والے اجلاس میں پرویز ملک طالب علم رہنما کی حیثیت سے شریک ہوئے اور پیپلز پارٹی کی بنیادیں رکھنے والوں میں اہم کردار ادا کیا۔ 1980ء میں ضیا الحق کے دور میں مشہور عقوبت خانہ اٹک قلعہ میں نذیر عباسی شہید کے ہمراہ قید و بند اور تشدد کا سامنا بھی کیا۔ پرویز ملک نے 51 دن تک قید کاٹنے کے علاوہ سخت ترین تشدد کا حوصلے اور ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر لال خان کی پاکستان میں 1968-69ء کے انقلاب پر مشہور تصنیف ”پاکستان کی اصل کہانی“ میں پرویز ملک نے بھی بطور گواہ اپنی یادداشتیں ضبط تحریر کروائیں۔
گریجو یشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پرویز ملک نے کراچی یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان میں پرولتاریہ کے سب سے بڑے مرکز کراچی میں بھی انہوں نے محنت کشوں کے حقوق کی سیاسی لڑائی جاری رکھی۔ کراچی میں انہوں نے محنت کشوں اور طلبہ کے سٹڈی سرکلوں کے ذریعے انقلابی سوشلزم کے نظریات کے پرچار اور سیاسی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران ان کے بڑے بھائی سعید ملک نے پرویز ملک کی سیاسی سرگرمیوں کے لئے اخلاقی اور مالی معاون کا کردار ادا کیا۔ سیاسی جدوجہد کے دوران ان کی بیشتر مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، شاہنواز بھٹو اورپھر کراچی میں مرتضیٰ بھٹو سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پیپلز پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سمیت مختلف سٹالنسٹ اور ماؤاسٹ پارٹیوں کے ممبر رہنے کے باوجود پرویز ملک کبھی بھی مرحلہ وار انقلاب کے حامی نہیں رہے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ ایک ٹراٹسکائیٹ کی حیثیت سے ہمیشہ نظریہ مسلسل انقلاب کے بھرپور حامی اور زبردست پرچارک رہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور دیوار برلن کے گرنے کے بعد جب اکثریتی انقلابیوں نے مایوس ہو کر اصلاح پسندی اور این جی اوز کا راستہ اختیار کر لیا تو پرویز ملک اس وقت بھی ان مٹھی بھر لوگوں میں سے ہی تھے جنہوں نے انقلابی سوشلزم کے نظریات پر غیر متزلزل یقین کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ میرا بھی کامریڈ سے ہونے والی پہلی ملاقات (جو اٹک میں میرے کلینک پر ہوئی تھی) سے قبل مارکس، اینگلز، لینن، سٹالن جیسے رہنماؤں سے والدہ کی طرف سے تعارف کے باوجود ٹراٹسکی سے تعارف نہ ہونے کے برابر تھا۔ نومبر 2005ء میں پہلی اور طویل ملاقات میں ہی پرویز ملک نے ’جان ریڈ‘ کی کتاب ”دنیا کو جھنجھوڑ دینے والے دس دن“ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جان ریڈ نے اس میں 63 مرتبہ لینن، 59 مرتبہ ٹراٹسکی اور صرف 3 مرتبہ سٹالن کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد پرویز ملک سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ پیپلز پارٹی کے عروج و زوال کی وجوہات کے علاوہ مختلف سیاسی امور پر بحثیں چلنے لگیں۔ پرویز ملک نے ہی ٹراٹسکی اور اس کے نظریہ مسلسل انقلاب سے مجھے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ ٹراٹسکی کے خلاف ہونے والے عالمی پروپیگنڈے کے برعکس اس کی تحریروں کی طرف راغب کیا۔
این ایس ایف کے صوبائی جنرل سیکرٹری رہنے کے علاوہ پیپلز پارٹی میں اہم کردار ادا کیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے فل ٹائمر اور ”جرأت“ اخبار میں تین سال سے زائد ایڈیٹر کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔ پرویز ملک مارچ 2005ء لاہور میں منعقد ہونے والی طبقاتی جدوجہد کی کانگریس میں مرکزی کمیٹی کے ممبر منتخب ہوئے۔ نومبر میں ملاقات کے بعد مارچ 2006ء میں ہمراہ پرویز ملک ہی میں نے بھی طبقاتی جدوجہد کی کانگریس میں بطور مبصّر شرکت کی۔ کانگریس میں سیاسی بحثوں سے زیادہ کانگریس کے ثقافتی ماحول نے بہت زیادہ متاثر کیا۔ تمام تعصبات سے بالا تر خود کو پہلی دفعہ انسان محسوس کیا۔ کانگریس سے واپس آ کر میں نے باضابطہ طبقاتی جدوجہد کا حصہ بن کر انقلابی سفر کا آغاز کیا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ انقلابی نظریات کی ترویج اور انقلابی پارٹی کی تعمیر میں اپنے حصے کا کردار بھی پرویز ملک کے زیر سایہ ادا کرتا رہا۔
پرویز ملک اپنی زندگی کی آخری سانس تک طبقاتی جدوجہد کے پلیٹ فارم سے انقلابی پارٹی کی تعمیر میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ وہ ان انقلابیوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی زندگی، مشکلات اور پریشانیوں کا کبھی بھی رونا دھونا نہیں کیا۔ بلکہ ہمیشہ ہر سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی حملے کے خلاف جدوجہد کرنے اور ثابت قدم رہنے کا درس دیا۔
وہ اپنے حافظہ کے باکمال ہونے کی وجہ سے فلسفہ اور تاریخ جیسے موضوعات پہ گفتگو کر کے میرے جیسے بنجر ذہنوں کو مارکسزم کے نظریات سے زرخیز کرتے رہے۔ اپنی زندگی کے نشیب و فراز، ٹارچر سیل کی صعوبتوں اور انڈر گراؤنڈ زندگی کی اپنی سالہاسال کی جدوجہد کو ایک باکمال مصور کی طرح ہمارے ذہن کے کینوس پر پینٹ کرتے رہے۔ ہم میں سے کوئی نیا کامریڈ لیڈ آف دے، آرٹیکل لکھے یا عملی سرگرمیوں میں حصہ لے تو کامریڈ کی حوصلہ افزائی شامل حال رہی اور کمی کوتاہی کی نشاندہی کامریڈ کا شیوہ رہی۔ تنظیم پر اندرونی اور بیرونی حملوں کی صورت میں جذباتیت سے مبرا ہو کر سیاسی بحث کے ذریعے کامریڈوں کی رہنمائی کرنا بھی کامریڈ پرویز ملک کا وطیرہ رہا ہے۔ میں ذاتی طور پر تنظیم کے لئے جو کچھ بھی کر پایا ہوں اس میں کامریڈ پرویز ملک کی رہنمائی کا فیصلہ کن کردار رہا ہے۔
پرویز ملک جو ایک طویل جدوجہد، ریاستی جبر، کینسر، معاشی مشکلات، پریشانیوں اور تکالیف کے بعد آج سے کچھ روز قبل جسمانی طور پر ہم سے جُدا ہو گئے۔ مگر ان کے نظریات، ان کے افکار، ان کی جدوجہد، ان کی تربیت اور طبقاتی جدوجہد سے ان کی وابستگی ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہے گی۔ لال خان اور جام ساقی سمیت دیگر کئی انقلابیوں کے بعد پرویز ملک بھی طبقاتی جدوجہد میں امر ہو گئے۔ شاید خود جیسے انقلابیوں کے لئے ہی وہ ایک شعر اکثر سنایا کرتے تھے:
ہم چراغِ آخر شب ہیں…
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے!