زبیر محمد

فلسفہ کیا ہے؟ کہاں سے شروع ہوا؟ کیسے سفر کرتا ہوا آج اس شکل میں ہم تک پہنچا؟ جن تضادات اور حرکیات کی جدلیاتی مادیت بات کرتی ہے کیا فلسفہ خود ان سے محفوظ رہ پایا؟ آئیے آج ان نکات کو کھوجتے ہیں۔

فلسفہ ہمارے وجود، ہمارے علم، ہماری روایات، ہمارے دلائل، ہماری سوچ اور زبان سے متعلق اٹھنے والے عمومی اور بنیادی سوالات کا مطالعہ ہے۔ کلاسیکی فلسفے پر نظر ڈالیں تو ہمارے سامنے کچھ ایسے سوالات آئیں گے کہ حقیقت کیا ہے؟سچ کیا ہے؟ کچھ جاننا کسی طرح ممکن ہے؟ اگر آپ فلسفہ کے طالبعلم نہیں ہیں تو ہو سکتا ہے ان سوالوں میں آپ کی دلچسپی نہ ہو۔ لیکن فلسفہ بہت سے ایسے ٹھوس سوالات سے بھی بحث کرتا ہے جن کا ہماری زندگی سے براہ راست تعلق ہے۔ جیسے کیا انسان آزاد ہے؟ کیا اس سے بہتر زندگی گزاری جا سکتی ہے؟ انصاف کیا ہے؟ ان سوالات پر اولین گفتگو مذہبی اور دیومالائی فریم ورک کے اندر ہوئی۔ ہم میں سے کچھ نے آسمان میں ستاروں کی حرکت سے موسموں کی تبدیلی کی پیشگوئی کرنا سیکھی۔ ظاہر ہے یہ اس وقت ہی ممکن ہوا جب انسان ابتدائی اوزار بنانا اور آگ جلانا سیکھ چکا تھا۔ اس سے نہ صرف شکار کرنا آسان ہوا بلکہ آگ پر گوشت پکانے سے اسے چبانے کے لئے کم طاقت، کم وقت اور کم دانتوں کی ضرورت تھی (ہمارے جبڑوں میں موجود عقل داڑھیں آگ جلانے سے پہلے کے زمانے کی یادگار ہیں)۔ مزید برآں خوراک کے معیار میں بہتری سے انسانی دماغ کا سائز بھی بڑھا جس کے ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ زراعت کے آغاز کے بعد انسانوں میں سے کچھ کے پاس کچھ فرصت تھی تو ایک مراعت یافتہ طبقہ پیدا ہوا جو قدرتی مظاہر سے موسموں اور سیلابوں وغیرہ کی پیشین گوئیاں کرتا۔ ان کے لئے دوسرے انسان ضروریات کا بندوبست کرتے۔ خیال کیا جانے لگا کہ ان خاص لوگوں کا دیومالائی طاقتوں سے رابطہ ہے۔ ہزارہا سال تک ان دیومالائی طاقتوں اور رابطوں پر سوال نہیں اٹھائے گئے۔

تاہم چھٹی عیسوی قبل مسیح سے قدیم یونان میں ہمیں ایسے مفکروں کی ایک لڑی ملتی ہے جن کی تحقیقات غیر مذہبی بنیاد پر تھیں۔ یونان ایک سامراجی طاقت بن چکا تھا جس کی سرحدیں افریقہ سے لے کر ایشیا تک پھیل چکی تھیں۔ ایک دنیا کے وسائل اس کے تصرف میں تھے۔ کام کاج کے لئے غلاموں کی ایک فوج میسر تھی۔ یوں قدیم یونان میں بھی ایک ایسے طبقے کا ظہور ہوا جو روز مرہ کے کاموں سے آزاد ہو کے سوچ اور فکر کے میدان سر کر سکے۔ ان مفکرین نے اپنی تحقیقات کی بنیاد روایات اور وحی کی بجائے مشاہدے اور دلیل پر رکھی۔ یوں ابتدائی فلسفہ سیکولر تحقیقات پر مشتمل تھا۔ وقت کے ساتھ یہ پیچیدہ ہوتی چلی گئیں اور کئی شاخوں میں بٹ گئیں۔ کچھ شاخیں تو اس قدر توانا ہو گئیں کہ وہ الگ ہو کر علیحدہ ڈسپلن کے طور پر جانی جانے لگیں۔ ان میں سے ایک ریاضی تھی اور دوسری سائنس۔ ریاضی اور سائنس سے جو بچا وہ فلسفے کے حصے میں آیا۔

فلسفہ تصوراتی اور نظریاتی سوالات سے بحث کرتا ہے جو ریاضی اور سائنس کے سکوپ سے باہر تھے۔ جیسے زندگی کیا مطلب کیا ہے؟ کیا خدا کا وجود ہے؟ سچ کو کیسے جانا جائے؟ زندگی کو کیسے جیا جائے؟ فلسفیانہ تشریح میں طریقہ کار (Method) اتنا ہی اہم ہے جتناخود سبجیکٹ۔ چونکہ ان سوالات پر کسی لیبارٹری میں ریسرچ نہیں ہو سکتی اس لئے فلسفہ زیادہ تر ایک تصوراتی مضمون سمجھا جاتا ہے۔ فلسفہ بھی سائنس کی طرح کچھ مفروضے پیش کرتا ہے جو منطق اور ثبوت کے آگے جواب دہ ہوتے ہیں۔ فلسفے نے بھی سائنس کی طرح مستقبل کی پیشگوئی کرنا ہوتی ہے۔ اس لئے فلسفہ سائنس نہ ہوتے ہوئے بھی شاعری اور تصوف یا روحانیت سے الگ کھڑا ہے۔

آگے چل کے فلسفہ خود کئی شاخوں میں بٹ گیا جیسے منطق جو دلائل کو سٹرکچر دینے کا علم ہے۔ میٹافزکس جو چیزوں کی ماہیت جاننے کی کوشش کرتی ہے۔ اور پھر علم الاقدار جو سماجی فلسفے، سیاسی فلسفے اور اخلاقیات جیسے موضوعات کا احاطہ کرنے والی اصطلاح ہے۔ لیکن قدیم یونانی دور سے آج تک مادے اور خیال کے تصور نے فلسفیوں کو دو گروہوں میں بانٹ رکھا ہے: ایک مادیت پرست اور دوسراخیال پرست۔

مادیت پرست مادے کو خیال پر فوقیت دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اشیا کو معروضی طور پر دیکھا جائے۔ ایک زمانہ تھا جب زمین پگھلے ہوئے لاوے کا ایک گولہ تھی۔ انسانی وجود تو دور کی بات کسی بھی قسم کی زندگی ناپید تھی۔ مادہ تب بھی وجود رکھتا تھا جبکہ خیال کہیں نہیں تھا۔ خیال اس وقت تک جنم نہیں لے سکتا جب تک مادے کو ایک بہت ہی خاص ترتیب میں نہ رکھا جائے۔ یعنی انسانی جسم میں دماغ کی صورت۔ خیال ایک خاص ترتیب میں رکھے مادے ہی کی ایک خاصیت ہے۔

دوسری طرف خیال پرست کہتے ہیں کہ حقیقت کا بنیادی عنصر خیال یا روح ہے۔ ان کے بقول خیال اور روح مادے سے جدا اور اس سے پہلے سے اپنا وجود رکھتے ہیں۔ خیال پرستی کے ان تصورات سے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ اصل میں مذہبی تصور ہی کی ایک شکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خیال ایک سپر نیچرل آفاقی طاقت کا ہی حصہ ہے۔

یہاں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ جن توہماتی افکار سے جان چھڑا کے فلسفے کی بنیاد پڑی تھی خیال پرستی فلسفے کو اسی اندھے کنویں میں دھکیل دیتی ہے۔ مادی طریقہ کار کی کامیابی کا اندازہ اسی تاریخی حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 600 قبل مسیح میں جب فلسطین میں یہودیت، ایران میں زرتشتیت، انڈیا میں بدھ ازم، چین میں تاؤازم اور کنفیوشس ازم نمودار ہو رہے تھے عین اسی زمانے میں یونان کے مادیت پسند فلسفی توہمات کو ترک کر کے آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے مطابق کائنات چار عناصر آگ، پانی، مٹی اور ہوا سے مل کے بنی تھی۔ مگر ان کے ہاں اس بات کا کوئی جواب نہیں ملتا کہ چیزیں ہمیشہ تبدیل کیوں ہو جاتی ہیں۔ جیسی ہیں ویسی کیوں نہیں رہ پاتیں۔

یہ ہیرکلیٹس تھا جس نے 500 قبل مسیح میں تغیر اور تبدیلی کے عمل کا مشاہدہ کیا۔ ہیگل کے بقول وہ جدلیاتی قوانین کا بانی تھا۔ اس نے کہا تھا کہ نہ صرف یہ کہ طلوع ہونے والا سورج ہر روز نیا ہوتا ہے بلکہ یہ مسلسل تغیر کے عمل سے گزر رہا ہے۔ عہد حاضر کے نامور شاعر عرفان ستار کا شعر ہے:

گردش میں ہے زمین بھی، ہفت آسمان بھی
تو مجھ پر غور کر کہ مکرر نہیں ہوں میں

مزید ہیرکلیٹس نے کہا کہ آپ ایک دریا کے میں دو بار قدم نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس کا پانی مسلسل بہہ رہا ہے اور دریا مسلسل تبدیل ہو رہا ہے۔ اس نے کہا کہ ہر شے مخالف قوتوں سے بنی ہے جن میں مسلسل تناؤ رہتا ہے۔ مادہ کسی بھی شکل میں اپنے اندر ان مخالف قوتوں میں توازن کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ توازن ایک دوسرے سے برسرِپیکار قوتوں کی حرکت، تصادم اور ٹکراؤ کی وجہ سے مسلسل بگڑتا رہتا ہے۔ اشیا کو دو طرح کی حرکات کا مسلسل سامنا رہتا ہے۔ ایک خود اندر سے مخالف قطبین کے باہمی تصادم سے جنم لیتی ہے۔ دوسری خود اس شے کے اپنے منبع سے دوری اور یا پھر اس کے جانب حرکت ہے۔ اس نے کہا تھا کہ ضدین کے جوڑوں کو داخلی طور پر الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی سمجھا جائے جیسے بیماری کی وجہ سے صحت اور بھوک کی وجہ سے شکم سیری کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب 500 قبل مسیح میں کہا جا چکا تھا۔ لیکن اس کے بعد رومن سلطنت کے زوال کے ساتھ یورپ میں مادیت کی زوال پذیری اور خیال پرستی کے ابھار کے ساتھ خود فلسفہ بھی زوال کا شکار ہوتا ہے۔ اور یورپ ایک طویل تاریکی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب غلام داری اپنے عروج کو پہنچی اور اور غلامی کی توجیح کے لئے مذہب کے لبادے میں خیال پرستی کے فلسفے کی ضرورت تھی۔ فلسفے کی تاریکی کے ایک طویل دور کے بعد مسلمان مفکرین نے فلسفے کے احیا میں اپنا کردار ادا کیا۔ آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں عباسی دور حکومت میں یہ رجحان اپنے عروج کو پہنچا۔ یہاں ہمیں دو مفکرین غزالی اور ابن الرشد نظر آتے ہیں۔ غزالی مشرق میں ایران کے رہنے والے تھے جنہوں نے لوگوں کو سائنس اور فلسفے سے دور کر کے مذہب کی جانب کھینچا۔ دوسری طرف عباسی خلافت کے مغربی کنارے سپین کے شہر کارڈوبا میں پیدا ہوئے ابن الرشد نظر آتے ہیں جنہوں نے یورپی فلسفے کا سائنس اور منطق کی بنیاد پر احیا کیا۔ یہاں سے ان کی تحقیق مغرب تک جاتی ہے اور یورپ میں فلسفے کے احیا میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مارکس خود جدلیاتی مادیت تک کیسے پہنچا اور اس میں ہیگل کا کیا کردار رہا۔ جب یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے دوران سائنس اور فلسفے کا احیا ہوا تو مادیت کا پلڑا بھاری تھا۔ فرانسس بیکن، جان لاک اور روسو جیسے مفکرین نے مادیت کو ایک معراج پر پہنچا دیا۔ دوسری طرف سائنس میں میکانیات خوب پروان چڑھی۔ اس میکانیات کا اثر خود مادیت پر بھی پڑا اور مادیت بہت محدود اور بے لچک ہو کے رہ گئی جس کا فائدہ خیال پرست فلسفہ دانوں نے اٹھایا۔ جیسے کانٹ جو ایک جرمن خیال پرست فلسفہ دان تھا۔ اس نے سارے فلسفے کا تنقیدی جائزہ لیا‘ خاص کر منطق کا۔ کانٹ نے منطق کو خوب کھنگالا اور اس کے بنیادی قضیوں میں پوشیدہ تضادات کو ظاہر کیا۔ لیکن وہ ان کو حل کرنے میں ناکام رہا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا کے بارے میں حقیقی علم کا جاننا نا ممکن ہے۔ یہ وہی پرانی خیال پرستانہ سوچ تھی کہ میں دنیا کو اپنی آنکھ، کان، ناک کے ذریعے جانتا ہوں اور بس اتنا ہی جانتا ہوں جتنی میری حس مجھے بتاتی ہے۔ اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ میری حس سے باہر کوئی مادی دنیا وجود بھی رکھتی ہے یا نہیں۔

کانٹ فلسفے میں جہاں منطق کے تضادات میں الجھ گیا وہاں سے ہیگل نے پیش رفت شروع کی۔ ہیگل نے کہا کہ کانٹ نے جن تضادات کا ذکر کیا ہے ان کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ تضادات اپنا وجود رکھتے ہیں۔ فکر کے میدان میں بھی اور حقیقی دنیا میں بھی۔ دوسرا ہیگل نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ انسانی ذہن حقیقی دنیا کو جاننے سے قاصر ہے۔ یہاں ہیگل نے سوچنے کے لئے جدلیاتی طریقہ کار کا احیا کیا۔ وہ طریقہ کار جو قدیم یونانیوں کے بعد دنیا ترک کر چکی تھی اور بے لچک منطق سے چمٹی بیٹھی تھی۔ ہیگل نے کہا کہ جدلیاتی فلسفہ عوامل کو سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ الگ تھلگ واقعات کو۔ لیکن ایک خیال پرست ہونے کی وجہ سے ہیگل اس شاندار طریقہ کار کا اطلاق سائنسی طور سے حقیقی دنیا پر کرنے میں ناکام رہا۔ اینگلزکے بقول ہیگل کی جدلیات فلسفے کی دنیا میں ”اسقاطِ حمل“ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ یہاں آپ درست خیالات کو سر کے بل کھڑا دیکھتے ہیں۔ مارکس کہتا ہے کہ ہیگل کے نزدیک ”خیالِ مطلق“ ایک الگ وجود رکھتا ہے۔ حقیقی دنیا اس ”خیالِ مطلق“ کی ایک ظاہری اور مظہری شکل ہے۔ جبکہ میرے نزدیک خیال محض انسانی ذہن کا منعکس کردہ مادی دنیا کا عکس ہے جو فکر کی مختلف اشکال میں ظاہر ہوتا ہے۔

جہاں ہیگل جدلیات کو ایک خیالِ مطلق کے روبرو الٹا کھڑا کر دیتا ہے وہاں مارکس اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ مارکس خود ہیگل کے مکتب فکر سے تعلق رکھتا تھا۔ جہاں ہیگل نے کانٹ کی منطق اور میکانیات سے تنِ تنہا دو بدو مقابلہ کیا وہاں مارکس کو چومکھی لڑائی لڑنا پڑی۔ مارکس نے نہ صرف یہ کہ سر کے بل کھڑی ہیگل کی جدلیات کو سیدھا کھڑا کیا بلکہ معاشرے اور تاریخ کا مادیت کی نظر سے مطالعہ بھی کیا اور ساتھ ہی محنت کشوں کو وہ فکری اور نظریاتی بنیاد فراہم کی جس سے وہ سرمایہ داری کے چنگل سے خود کو آزاد کر کے غیر طبقاتی سماج کے تعمیر کر سکیں۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مارکس کو ایک عظیم انقلابی استاد کے طور پر تو تسلیم کیا جاتا ہے اور سرمایہ داری کے نقاد کے طور پر بھی سراہا جاتا ہے لیکن ایک فلسفہ دان کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جدلیاتی مادیت کے ذریعے مارکس کو فلسفہ میں وہی مقام حاصل ہے جو ہیگل کو ہیرکلیٹس اور کانٹ کے مقابل حاصل ہے۔ جہاں ہیگل اپنی خیال پرستی کی وجہ سے جدلیات کا مادی دنیا پر اطلاق نہ کر سکا وہاں مارکس نے جدلیاتی مادیت کے ذریعے ہیگل کے فلسفے سے نہ صرف حقیقی دنیا کی تشریح کی بلکہ ایک بہتر دنیا کی تشکیل کا راستہ بھی دکھایا۔

مارکس اور اینگلز جدلیاتی مادیت، جسے وہ فطرت کے فلسفے کا نام دیتے تھے، پر مزید کام کرنا چاہتے تھے مگر انہوں نے تحریکوں کے ایسے ہیجان خیز دور میں وقت گزارا کہ وہ اس کے لئے زیادہ وقت نہ نکال پائے۔ لیکن انہوں نے فلسفے کو درسگاہوں کے لیکچروں سے نکال کے محنت کشوں کی تحریکوں کے میدان میں لا کھڑا کیا۔ مارکسزم پرولتاریہ کی انقلابی تحریک کی سائنسی تھیوری ہے جس کا مقصد سرمایہ داری کو اکھاڑ کر استحصال سے پاک ایک غیر طبقاتی سماج کی بنیاد رکھنا ہے۔ اور جدلیاتی مادیت مارکسزم کی فلسفیانہ بنیاد ہے۔ عین ویسے ہی جیسے نشاۃِ ثانیہ کی مادیت نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں انقلاب فرانس کے ذریعے جاگیرداری کا تختہ الٹنے کے لئے نظریاتی بنیاد فراہم کی تھی۔