ذیشان خان
گزشتہ چار دہائیوں سے حکمران طبقہ سرمایہ دارانہ نظام کے پیدا کردہ تما م مسائل کا واحد حل نیو لبرل ازم کو ہی بتاتا آیا ہے۔ نیو لبرل ازم سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے والا ایسا پالیسی ماڈل ہے جو اس بات کی وکالت کرتا ہے کہ منڈی کی معیشت کے اندر کسی بھی طرح کی ریاستی مداخلت منڈی کی حرکیات کو متاثر کر کے معیشت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ آزاد منڈی کے اندر اگر کوئی اُتار چڑھاؤ آتا ہے تو منڈی خود کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور معاشی استحکام منڈی کو ریاستی مداخلت سے آزاد رکھ کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نیو لبرل ازم کو عموماً ڈی ریگولیشن، مانیٹرازم، ٹریکل ڈاؤن اکنامکس، نجکاری، کٹوتیوں اور ریگنامکس کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں عالمی سرمایہ داری کو ایک نئے طرز کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ جب یورو زون اور امریکہ کی معیشتیں آئل پرائس شاک اور توانائی کے بحران کی وجہ سے بُری طرح متاثر ہوئیں۔ معیشت منجمد رہی اور افراط زر میں لگاتار اضافہ ہوتا رہا۔ روایتی اقدامات کے باوجود افراط زر میں کمی نہ آ سکی اور نہ ہی معیشت بحال ہو سکی۔ دائیں بازو کے چند معیشت دان (جن میں خاص کر ملٹن فرائڈمین قابل ذکر ہے) ہمیشہ سے ہی مروجہ کینشین پالیسیوں کے خلاف رہے تھے۔ انہوں نے حکومت کی معاشی پالیسیوں کو بحران کی وجہ قرار دیتے ہوئے نیو لبرل اصلاحات کو بحران کے حل کے طور پر تجویز کیا۔ اُس وقت کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے ان ’شکاگو بوائز‘ کی پالیسیوں کو اپنے سیاسی پروگرام کا حصہ بنا لیا جو کہ نیولبرل ازم کی طرف ایک پیراڈائم شفٹ تھا۔ اب پوسٹ وار بُوم اور اصلاحات کا دور ختم ہو چکا تھا۔ اب سرمایہ داری کے جمہوری نعروں کا وقت گزر چکا تھا۔ ٹریڈ یونینوں کو یورپ اور امریکہ میں جو جگہ ملی تھی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹیوں کو جو اقتدار ملا تھا اس کی معاشی بنیادیں ختم ہو چکی تھیں۔
نیو لبرل ازم کو سب سے پہلے تجربے کے طور پر لاطینی امریکہ کے ملک چلی میں لاگو کیا گیا۔ چلی میں 1973ء میں پنوشے (Pinochet) کی آمریت کے دوران معاشی پالیسیاں شکاگو سکول آف اکنامکس کے معیشت دانوں کے تقریباً مکمل کنٹرول میں تھیں (جو امریکی دانشوروں بالخصوص ملٹن فرائڈمین کی تیار کردہ تھیں)۔ جنہوں نے چلی میں بہت تیزی سے نجکاری کا عمل شروع کیا۔ اس دوران پنوشے کی سربراہی میں ہر مزاحمت کو بے دردی سے کچلا گیا، شرح سود کو 178 فی صد بڑھا دیا گیا اور کرنسی کی سپلائی کو محدود کر دیا گیا۔ ان اقدامات سے افراط زر میں کمی تو ہو گئی لیکن محنت کشوں کی بہت بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے گر گئی۔ 1980ء تک تقریباً 45 فی صد آبادی غربت سے نیچے گر چکی تھی اور 10 فیصد اشرافیہ کی آمدن میں 83 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔
برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر نیو لبرل اصلاحات کے لئے مشہور ہے۔ تھیچر کی حکومت میں برطانیہ کے اندر مانیٹراسٹ پالیسیاں لاگو کی گئیں۔ شرح سود کو آسمان تک پہنچا دیا گیا جس سے معاشی سرگرمیاں منجمد ہو کر رہ گئیں اور اشیا عالمی منڈی میں مقابلے کے قابل نہ رہیں۔ اس طرح سے جان بوجھ کر برطانیہ کی پیداواری صنعت کو بیرون ملک منتقل کیا گیا تاکہ ملک کے اندر ہونے والی یونین سازی کاراستہ روکا جا سکے۔ برطانیہ میں 80ء کی دہائی میں کوئلے کے محنت کشوں کی تحریک کو کچلنے پر دائیں بازو کے حزب مخالف نے بھی تھیچر کی تعریف کی۔ تھیچر نے کان کنوں کی ہڑتال کو غیر قانونی قرار دے کر پویس کے ذریعے ریاستی جبر کا وسیع استعمال کیا۔ کان کنوں کی یونین برطانیہ میں محنت کشوں کی سب سے مضبوط یونین تھی۔ مستقبل میں کسی ہڑتال سے بچنے کے لئے تھیچر نے برطانیہ کی سینکڑوں سال پرانی کوئلے کی صنعت کا خاتمہ کر دیا۔ 1980ء میں برطانیہ میں تقریباً 174 کوئلے کی کانیں تھیں، جن میں سے آج ایک بھی فنکشنل نہیں ہے۔ آج برطانیہ کے غریب ترین علاقے وہ ہیں جو ماضی میں کوئلے کی صنعت سے منسلک تھے۔
ارجنٹائن میں 1976ء میں نیو لبرل معاشی پروگرام کا آغاز کیا گیا اور سرکاری اخراجات کو کم سے کم کرنے کے لئے کٹوتیوں کی پالیسی متعارف کروائی گئی۔ 1976-82ء تک کے چھ سالوں میں غربت کی شرح 9 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد ہو گئی۔ ارجنٹائن میں بھی حکومت ان پالیسیوں کے تحت کسی بھی معاشی ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ امریکہ کے چالیسویں صدر رونلڈ ریگن نے بھی 80ء کی دہائی میں نیو لبرل معاشی اصلاحات کا امریکہ میں نفاذ ممکن بنایا۔ اسی بنا پر اس معاشی پالیسی کو ریگنامکس کا نام دیا گیا۔ ریگن نے بھی تھیچر ہی کی طرح شرح سود کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا اور ڈالر کی سپلائی کو کم کر کے سرمایہ کاری کا گلہ گھونٹ دیا۔ جس کے نتیجے میں اشیا کی پیداواری لاگت بڑھ جانے سے پیداواری صنعت امریکہ سے باہر منتقل ہو گئی۔ سامراجی اداروں آئی ایم ایف، عالمی تجارتی تنظیم اور عالمی بینک نے امریکی سامراج کی ایما پر نیو لبرل پالیسیوں کو اپنا مستقل ایجنڈا بنا لیا اور تیسری دنیا کے ممالک پر جبراً مسلط کر نا شروع کر دیا۔ آئی ایم ایف نے بھی نیو لبرل اصلاحات کو لازمی شرط کے طور پر مسلط کیا۔ جسے بعد میں ’اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ‘کا نام دے دیا گیا۔ بلند شرح سود کی وجہ سے بہت سے پسماندہ ممالک جو سامراجی قرضوں کی زد میں تھے‘ دیوالیہ ہو گئے۔ اس میں بالخصوص لاطینی امریکہ کے میکسیکو سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔ لاطینی امریکہ کی معیشت کی نمو کو دیکھا جائے تو نیو لبرل اصلاحات کے بعد 80ء سے 90ء کی دہائی میں کم و بیش منجمد ہو کے رہ گئی۔
پاکستان میں بھی بھٹو کے بعد آنے والی تمام حکومتوں نے نیو لبرل ایجنڈا محنت کشوں پر مسلط کیا۔ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت، پاکستان کی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کی ایما پر ہی تشکیل پاتی رہیں۔ 1991ء میں نواز شریف کی حکومت میں ’نجکاری پروگرام‘کا آغاز کیا گیا۔ پبلک سیکٹر اور بڑے سرکاری ادارے جیسے کے الیکٹرک اور پی ٹی سی ایل کے حصص بیچے گئے۔ 1990-93ء کے دوران تقریباً 115 صنعتی یونٹوں، دو بڑے بینکوں اور سوئی ناردرن گیس کے 10 فیصد حصص کی نجکاری کر دی گئی۔ 93ء کے بعد بے نظیر حکومت نے بھی انہی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے پاور سیکٹر کی نجکاری کر کے آئی پی پیز کو متعارف کروایا۔ بے نظیر حکومت کے اختتام تک تقریباً 20 صنعتی اکائیاں، ایک مالیاتی ادارہ اور پی ٹی سی ایل کے 12 فیصد حصص کی نجکاری مکمل کر لی گئی۔ مشرف دور میں سب سے تیر رفتار نجکاری کا عمل جاری رہا اور مشرف کی حکومت کے خاتمے تک تقریباً 77 فیصد مالیاتی سیکٹر نجی کنٹرول میں چلا گیا، نجی کارپوریٹ میڈیا کو پروان چڑھایا گیا، پی ٹی سی ایل کے مزید حصص فروخت کر دئیے گئے جبکہ سٹیل مل کی نجکاری کی کوشش کو سپریم کورٹ کے حکم پر روک دیا گیا۔ اس کے بعد آنے والی تمام حکومتوں نے بھی سرکاری اداروں کی نجکاری کی پالیسی برقرار رکھی۔
تحریک انصاف کی حکومت نے نجکاری میں مزید تیزی لانے کے علاوہ بیرونی قرضوں کا نیا ریکارڈ بھی قائم کیااور روپے کی قدر میں بڑی گراوٹ کے باوجود بھی بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بہت سی کمپنیاں جو پہلے سے ملک میں کام کر رہی تھیں اب اپنا سرمایہ باہر منتقل کر رہی ہیں۔ پاکستان کا صنعتی شعبہ مسلسل بحران کا شکار ہے اور حکومت ترقیاتی بجٹ میں کٹوتیاں کر رہی ہے جس کی وجہ سے معیشت منجمد ہے اور کوئی حقیقی معاشی نمو نہیں ہو پا رہی۔ اگر حکومت بیرونی سرمائے کے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اس سے محض مٹھی بھر سرمایہ داروں کی تجوریاں ہی بھرنی ہیں۔ محنت کشوں کی وسیع پرتوں کو اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہونے والا۔ چونکہ آج سرمایہ داری پیداواری شعبے کی بجائے مالیاتی سرمائے کے ذریعے شرح منافع کی دوڑ میں ہے۔ عالمی سرمایہ کاری کا بہت بڑا حصہ ڈیٹا، پراپرٹی، سٹاک اور بانڈز جیسے ’محفوظ‘شعبوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ اگر کہیں پیداواری شعبے کی ملازمتیں ہیں بھی تو کم سے کم محنت کشوں کے استحصال کو بڑھا کر منافع نچوڑا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیوں نے عالمی سطح پر 12 ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کاغذی کارپوریشنوں میں کر رکھی ہے اور تیل پیدا کرنے والے چند غیر مستحکم ممالک کے سرمایہ کاروں نے 7 ہزار ارب ڈالر کی دولت ٹیکس ہیونز میں رکھی ہوئی ہے۔ اس طرح بیرونی سرمایہ کاری کا بہت بڑا حصہ مصنوعی کمپنیوں کی مد میں مالیاتی سرمائے کی شکل میں موجود ہے جو کسی بھی پیداواری عمل میں استعمال نہیں ہو پا رہا۔ جوکہ بڑے سرمایہ کاروں کے خود اس نظام پر اعتماد نہ ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ ان حالات میں تحریک انصاف کی تمام معاشی پالیسیاں منفی اثرات پر ہی منتج ہوئی ہیں۔ حکومت ٹیکس جمع کرنے کے تمام اہداف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی۔ تحریک انصاف کی حکومت میں آئی ایم ایف سے لیا جانے والا اربوں ڈالر کا قرضہ پہلے سے زیادہ سخت گیر شرائط پر حاصل کیا گیا۔ جہاں سالانہ بجلی کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ، اشیائے خوردونوش، گیس اور ایندھن کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔ دوسری جانب سرکاری اخراجات کو کم کرنے کے لئے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو منجمد رکھا گیا جبکہ حکومتی اخراجات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق حقیقی تنخواہوں میں رواں مالی سال کے دوران 9 فی صد کمی ہوئی ہے۔ بیشتر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں گزشتہ تین سال کے دوران تقریباً 300 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کے برعکس افراط زر کے تناسب سے تنخواہوں میں گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ تحریک انصاف کی حکومت میں افراط زر کی شرح 10 فیصد کے آس پاس رہی ہے جو تاریخی طور پر بلند ہے۔
آج پاکستانی معیشت 1970ء کی دہائی کی طرح سٹیگفلیشن کا شکار ہے۔ جبکہ تمام بورژوا معیشت دانوں کی طرف سے اس بحران سے نمٹنے کا وہی 70ء میں ناکام ہوجانے والا فارمولا بتایا جا رہا ہے اور اس کا انجام بھی ارجنٹائن، چلی اور میکسیکو سے زیادہ مختلف نہیں ہونے والا۔ آج سرمایہ دارانہ منافعوں کو بحال رکھنے کے لئے نہ صرف محنت کشوں کی بہت بڑی تعداد کو نجکاری اور دوسری پالیسیوں کے ذریعے بے روزگار کیا جا رہا ہے بلکہ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کو بھی منافعے کے حصول کے لئے نجی کاروباریوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 352000 بچے بھوک سے مر رہے ہیں جن کی عمر پانچ سال سے کم ہے۔
حکومت بلند و بانگ دعوے کر رہی ہے کہ ملک ترقی کی راہ پر چل پڑا ہے، ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں ہے اور جی ڈی پی کی شرح نمو چار فی صد ہو چکی ہے۔ لیکن دوسری طرف وسیع تر عوام معیشت کی بنیادی اصطلاحات سے نابلد ہے، جنہیں یہ نہیں پتا کہ جی ڈی پی کیا ہے؟ کرنٹ اکاؤنٹ کیا ہے؟ یا یوں کہیے کہ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 94 فیصد لوگ جی ڈی پی کی اصطلاح سے نا بلد ہیں۔ محنت کش عوام نہ صرف حکمرانوں کا یہ سب کھیل تماشا دیکھ رہی ہے بلکہ اس سب سے عملاً سیکھ بھی رہی ہے۔ اور جب یہی 94 فی صد پسا ہوا محنت کش طبقہ اپنے حقوق کے لئے طبقاتی جدوجہد کا رُخ کرے گا تب سٹیج تو یہی ہو گا مگر کردار بدل جائیں گے۔