ولادیمیر لینن (مارچ 1913ء)

مارکس کی تعلیمات تمام مہذب دنیا میں سرکاری اور لبرل، دونوں قسم کی بورژوا سائنس کی نفرت اور عداوت کو بیدار کر دیتی ہیں۔ بورژوا سائنس کی نظر میں مارکسزم ایک ”مہلک فرقہ“ ہے۔ اس کے سوا اور کسی قسم کے رویے کی امید بھی نہیں کی جاسکتی کیو نکہ ایک ایسے سماج میں ”غیر جانبدار“ سماجی سائنس کا وجود نا ممکن ہے جس کی بنیاد ہی طبقاتی کشمکش پر مبنی ہو۔ تمام سرکاری اور لبرل سائنس کسی نہ کسی طرح سے اجرتی غلامی کا دفاع کرتی ہے، جبکہ مارکسزم نے تو اس غلامی کے خلاف بے رحم جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اجرتی غلامی کے سماج میں سائنس سے یہ امید رکھنا کہ وہ غیر جانبداری برتے گی، بالکل ایسی ہی نادانی ہے جیسے کار خانہ دار سے اس سوال پر غیر جانبداری کی امید رکھنا کہ کیوں نہ سرمائے کا منافع کم کرکے مزدوروں کی اجرت بڑھا دی جا ئے۔

مگر با ت یہیں ختم نہیں ہوتی۔ فلسفے اور سماجی سا ئنس کی تاریخ بالکل واضح کرتی ہے کہ مارکسزم میں ”فرقہ پرستی“ (Sectarianism) قسم کی کو ئی چیز ان معنوں میں موجود نہیں ہے کہ یہ کوئی تنگ نظر اور جامد نظریہ ہے جو دنیا کے تمدن کے ارتقا کی روش سے الگ تھلگ ابھرا ہے۔ اس کے برعکس مارکس کی بصیرت خاص طور پر اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اس نے ان سوالوں کا جواب تیار کیا جو نسل انسان کے سب سے ممتاز دماغوں کی جانب سے اٹھا ئے گئے تھے۔ مارکس کی تعلیمات فلسفے، سیاسی معاشیات (Political Economy) اور سوشلزم کے عظیم ترین نمائندوں کی تعلیمات کا بر ا ہ راست او رفوری تسلسل ہیں۔

مارکس کا نظریہ طاقتور ہے کیونکہ وہ سچا ہے۔ یہ نظریہ مکمل اور مربوط ہے او ر لوگوں کو ایک ایسا باضابطہ عالمی نقطہ نظر مہیا کرتا ہے جو توہم پرستی، رجعت اور بورژوا جبر کے دفاع کی ہر شکل سے ناقابل مصالحت ہے۔ یہ نظریہ ان بہترین خیالات کا جا ئز وارث ہے جو بنی نوع انسان نے انیسویں صدی کے جرمن فلسفے، انگریزی سیاسی معاشیات اور فرانسیسی سوشلزم کی صورت میں تخلیق کئے تھے۔

مارکسزم کے انہی تین سرچشموں، جو اس کے اجزائے ترکیبی بھی ہیں، کی ہم مختصراً وضاحت کریں گے۔

I

مارکس ازم کا فلسفہ مادیت (Materialism) ہے۔یورپ کی جدید تاریخ کے تمام ادوار میں اور بالخصوص اٹھارویں صدی کے آخر میں فرانس میں، جہاں قرون وسطیٰ کی ہر قسم کی خرافات کے خلاف، اداروں اور نظریات میں جاگیر داری کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کی گئی، مادیت نے ثابت کر دیا ہے کہ یہی ایک ایسا فلسفہ ہے جو مربوط اور بااصول ہے، جو طبعی سائنس کی تمام تعلیمات سے مطابقت رکھتاہے اور توہم پرستی کا مخالف ہے۔ چنانچہ جمہوریت کے دشمنوں نے اپنا سارا زور ہمیشہ مادیت کی ”تردید“، اس کی بیخ کنی اور اسے بدنام کرنے پر لگایا ہے۔ انہوں نے فلسفیانہ خیال پرستی) Idaelism (کی مختلف شکلوں کی وکالت کی ہے جوہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں مذہب کے دفاع یا اس کی حمایت کے مترادف تھی۔

مارکس اور اینگلز نے نہایت ثابت قدمی سے فلسفیانہ مادیت کا دفاع کیا اور بار بار وضاحت کی کہ اس بنیاد سے انحراف کس قدر سنگین غلطی ہے۔ ان کے نظریات اینگلز کی تصانیف ’لڈوگ فا ئر باخ‘ او ر ’اینٹی ڈیورنگ‘ میں سب سے واضح اور جامع انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ یہ تصانیف ’کمیونسٹ مینی فسٹو‘ کی طرح ہر طبقاتی شعور رکھنے والے محنت کش کے لئے بنیادی ہدایت نامے کا درجہ رکھتی ہیں۔

لیکن مارکس نے اٹھارویں صدی کی مادیت پر بس نہیں کی: اس نے فلسفے کو آگے بڑھا کر ایک بلند تر مقام پر پہنچایا۔ اس نے فلسفے کو جرمن کلاسیکی فلسفے کی دریافتوں، بالخصوص ہیگل کے اُس نظامِ فکر سے مالا مال کیا جس نے خود فا ئر باخ (Feuerbach) کے نظریہ مادیت کو جنم دیا تھا۔ سب سے کلیدی کارنامہ جدلیات (Dialectics) یعنی سب سے مکمل اور سب سے گہری شکل میں ارتقا کا نظریہ ہے۔ یہ انسانی علم کی اضافیت (Relativity) کا نظریہ ہے جو ہمیشہ سے ارتقا پذیر مادے کی عکاسی کرتا ہے۔ فرسودہ اور زوال پذیر خیال پرستی کی طرف ”نئی“ واپسی پر مبنی بورژوا فلسفیوں کی تعلیمات کے باوجود طبعی سائنس کی تازہ دریافتیں (ریڈیم، الیکٹران او ر عناصر کی ایک دوسرے میں تبدیلی) حیرت انگیز حد تک مارکس کی جدلیاتی مادیت کی تصدیق کرتی ہیں۔

مارکس نے فلسفیانہ مادیت کو گہرا ئی اورنشوونما بخشتے ہو ئے مکمل کیا اور فطرت کے ادراک کو انسانی سماج کے ادراک تک وسیع کر دیا۔ اُس کی تاریخی مادیت سائنسی فکر میں ایک عظیم کارنامہ تھا۔ تاریخ اور سیاست کے پہلے سے مروجہ نظریات پر جس انتشار اور من مرضی کا راج تھا اس کی جگہ غیر معمولی طور پر کامل اور ہم آہنگ سا ئنسی تھیوری نے لے لی، جو واضح کرتی ہے کہ کیسے پیداواری قوتوں کی بڑھوتری کے نتیجے میں سماجی زندگی کے ایک نظام میں سے ایک دوسرا زیادہ ترقی یافتہ نظام برآمد ہوتا ہے۔ مثلاً جاگیر داری میں سے سرمایہ داری کیونکر برآمد ہوئی۔

جیسے انسان کا علم اُس فطرت (یعنی ارتقا پذیر مادے) کی عکاسی کرتا ہے جو اس سے آزادانہ طور پر وجود رکھتی ہے، بالکل اسی طرح انسان کا سماجی علم (یعنی اس کے مختلف فلسفیانہ، مذہبی اور سیاسی خیالا ت اور نظر یات وغیرہ) سماج کے معاشی نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ سیاسی ادارے معاشی بنیاد پر کھڑے بالائی ڈھانچے ہوتے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جدید یورپی ریاستوں کی مختلف سیاسی شکلیں پرولتاریہ پر بورژوازی کے غلبے کو مضبوط کرنے کا کام سرانجام دیتی ہیں۔

مارکس کا فلسفہ اعلیٰ درجے کی فلسفیانہ مادیت ہے، جس نے نسل انسان، بالخصوص محنت کش طبقے کو آگاہی کا طاقتور اوزار عطا کر دیا ہے۔

II

یہ سمجھ لینے کے بعد کہ معاشی نظام ہی وہ بنیاد ہے جس پر سیاست کا بالائی ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے، مارکس نے اپنی سب سے زیادہ توجہ اس معاشی نظام کے مطالعے پر مرکوز کر دی۔ مارکس کی کلیدی تصنیف ’سرمایہ‘ (Capital) جدید سماج یعنی سرمایہ دار سماج کے معاشی نظام کے مطالعے کے لئے وقف ہے۔

مارکس سے پہلے کلاسیکی سیاسی معاشیات برطانیہ میں مرتب ہوئی تھی، جو تمام سرمایہ دارانہ ملکوں میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ ایڈم سمتھ اور ڈیوڈ ریکارڈو نے معاشی نظام کی چھان بین کر کے ’محنت کے نظریہ قدر‘ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ مارکس نے اُن کے کام کو جاری رکھا۔ اُس نے اِس نظرئیے کا ثبوت پیش کیا اور اسے تسلسل کیساتھ آگے بڑھایا۔ اُس نے واضح کیا کہ ہر جنس (Commodity) کی قدر کا تعین اس کی پیداوار پر صرف ہونے والی ’سماجی طور ضروری محنت کے وقت‘ کی مقدار سے ہوتا ہے۔

جہا ں بورژوا معیشت دانوں نے چیزوں کے درمیان تعلق (ایک جنس کا دوسری سے تبادلہ) دیکھا وہا ں مارکس نے انسانوں کے درمیان تعلق کو آشکار کیا۔ اجناس کا تبادلہ منڈی کے ذریعے انفرادی پیداکاروں (Producers) کے تعلق کا اظہار کرتا ہے۔ پیسہ اس بات کا اظہار ہے کہ یہ تعلق زیادہ سے زیادہ قریبی ہوتا جا رہا ہے اور الگ الگ پیداوار کرنے والوں کی ساری معاشی زندگی کو ناقابل علیحدگی طور پر ایک کُل میں جوڑ رہا ہے۔ سرمایہ اس تعلق میں مزید پیش رفت کا اظہار ہے: انسان کی قوتِ محنت بھی ایک جنس بن جاتی ہے۔ اجرتی مزدور اپنی قوتِ محنت کو زمین، فیکٹریوں اور آلاتِ محنت کے مالک کو بیچتا ہے۔ مزدور کام کے دن کا ایک حصہ اس لاگت کو پورا کرنے میں صرف کرتا ہے جو اسے اور اس کے خاندان کو زندہ رکھنے پر آتی ہے (یعنی اُس کی اجرت)، جبکہ دن کا دوسرا حصہ وہ بغیر اجرت کے کام کرتا ہے اور سرمایہ دار کے لئے قدر زا ئد (Surplus-Value) پیدا کرتا ہے، جو سرمایہ دار طبقے کے منافعے اور دولت کا ماخذ ہوتی ہے۔

قدر زائد کا نظریہ مارکس کے معاشی نظر ئیے کا بنیادی پتھر ہے۔

مزدور کی محنت سے پیدا ہونے والا سرمایہ‘ چھوٹے کاروباری لوگوں کو برباد اور بیروزگاروں کی فوج کھڑی کر کے مزدور کو ہی کچلتا ہے۔ صنعت میں بڑے پیمانے کی پیداوار کی فتح فوراً نظر میں آ جاتی ہے لیکن یہی مظہر زراعت میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جہاں بڑے پیمانے کی سرمایہ دارانہ زراعت کی فوقیت بڑھتی جاتی ہے۔ مشینری کا استعمال بڑھتا جاتا ہے، مالیاتی سرما ئے کی جکڑ میں کسانوں کی معیشت زوال پذیر ہو جاتی ہے اور اپنی پسماندہ تکنیک کے بوجھ تلے غرق ہو جاتی ہے۔ زراعت میں چھوٹے پیمانے کی پیداوار کا زوا ل صنعت سے مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے، لیکن یہ زوال بہرحال ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔

چھوٹے پیمانے کی پیداوار کو تباہ کر کے سرمایہ‘ محنت کی بارآوری (Productivity) کو بڑھاتا ہے اور بڑے سرمایہ داروں کی انجمنوں کو اجارہ دارانہ مقام عطا کرتا ہے۔ خود پیداوار زیادہ سے زیادہ سماجی ہوتی جاتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں مزدور ایک باقاعدہ معاشی وجود میں ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں، لیکن اس اجتماعی محنت کی پیداوار پر مٹھی بھر سرمایہ دار قابض ہوتے ہیں۔ پیداوار کا انتشار، بحران، منڈیوں کا غضبناک تعاقب اور عوام کی زندگیوں کا عدم تحفظ شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔

سرمائے پر محنت کشوں کا انحصار بڑھا کر سرمایہ دارانہ نظام محنت کی جڑت کی عظیم طاقت کو جنم دیتا ہے۔

مارکس نے اجناس پر مبنی بالکل ابتدائی معیشت، یعنی سادہ تجارت سے اس کی اعلیٰ اشکال یعنی بڑے پیمانے کی پیداوار تک سرمایہ داری کے ارتقا کا سراغ لگایا۔

اور نئے و پرانے تمام سرمایہ دارانہ ممالک کا تجربہ سال بہ سال محنت کشوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کے سامنے مارکسی نظرئیے کی سچائی کو واضح طور پر آشکار کر رہا ہے۔سرمایہ داری تمام دنیا میں فتح حاصل کر چکی ہے، لیکن یہ فتح محنت کی سرمائے پر فتح کا پیش خیمہ ہے۔

III

جب جاگیرداری کو اکھاڑ پھینکا گیا اور دنیا میں ”آزاد“ سرمایہ دارانہ سماج نمودار ہوا تو فوراً ہی واضح ہو گیا کہ اس آزادی کا مطلب محنت کش عوام پر جبر اور اُن کے استحصال کا نیا نظام تھا۔ اِس جبر کے خلاف احتجاج کے اظہار کے طور پر کئی قسم کے سوشلسٹ نظریات فوراً نمودار ہونے لگے۔ تاہم ابتدائی سوشلزم یوٹو پیا ئی یا خیالی سوشلزم تھا۔ وہ سرمایہ دارانہ سماج پر تنقید کرتا تھا، اس پر لعنت و ملامت کرتا تھا، اس کی بربادی اور ایک بہتر نظام کے خواب دیکھتا تھا اور امیروں کو اس بات پر قا ئل کرنے کی سخت کوشش کرتا تھا کہ استحصال ایک بد اخلاقی اور بدکاری ہے۔

لیکن یوٹوپیائی سوشلزم حقیقی حل پیش کرنے سے قاصر تھا۔ وہ سرمایہ داری کے تحت اجرتی غلامی کی حقیقی نوعیت کی وضاحت کرنے سے عاری تھا۔ وہ سرمایہ دارانہ ارتقا کے قوانین کو آشکار کرنے یا پھر یہ واضح کرنے سے قاصر تھا کہ کونسی سماجی قوت ایک نئے سماج کی خالق بننے کے قابل تھی۔

اسی دوران پورے یورپ اور بالخصوص فرانس میں جاگیر داری کے انہدام کے ساتھ برپا ہونے والے طوفانی انقلابات نے زیادہ سے زیادہ واضح طور پر آشکار کیا کہ طبقاتی جدوجہد ہی تمام تر ارتقا کی قوت محرکہ ہے۔

جاگیر دار طبقے کے خلاف سیاسی آزادی کی کوئی ایک بھی فتح سخت مزاحمت کے بغیر حاصل نہیں کی گئی تھی۔ سرمایہ دارانہ سماج کے مختلف طبقات کے درمیان زندگی موت کی لڑائی کے بغیر کوئی ایک بھی سرمایہ دارانہ ملک آزاد اور جمہوری بنیادوں پر استوار نہیں ہوا۔

مارکس کی عظیم بصیرت یہ ہے کہ اُس نے سب سے پہلے وہ سبق حاصل کیا جو عالمی تاریخ سکھاتی ہے اور پھر اس سبق کو مستقل مزاجی اور تسلسل سے منطبق کیا۔ اُس نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ طبقاتی جدوجہد کا نظریہ ہے۔

لوگ ہمیشہ سے سیاست میں فریب اور خود فریبی کے بے عقل شکار بنتے رہے ہیں اور اُس وقت تک بنتے رہیں گے جب تک کہ وہ یہ پتا چلانا نہ سیکھ لیں کہ تمام تر اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور سماجی لفاظی، اعلانات اور وعدوں کے پیچھے کسی نہ کسی طبقے کے مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اصلاحات اور بہتری کے حامیوں کو پرانے نظام کے رکھوالے ہمیشہ بیوقوف بناتے رہیں گے، جب تک کہ وہ یہ حقیقت نہ جان لیں کہ ہر پرانا ادار ہ، چاہے وہ کتنا ہی وحشیانہ اور گلا سڑا نظر آتا ہو، مخصوص حکمران طبقات کی قوتوں کی جانب سے جاری رکھا جاتا ہے۔ اور ان طبقات کی مزاحمت کو توڑنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہمارے ارد گرد موجود سماج میں سے ہی وہ قوتیں تلاش کی جائیں جو ایسی طاقت تشکیل دے سکتی ہیں (اور اپنی سماجی حیثیت کے پیش نظر انہیں تشکیل دینا ہو گی) جو پرانے سماج کا صفایا اور نیا سماج تخلیق کرنے کے قابل ہو۔

صرف مارکس کی فلسفیانہ مادیت نے ہی پرولتاریہ کو اس روحانی غلامی سے نجات کا راستہ دکھایا جس میں تمام محکوم طبقات آج تک نڈھال رہے ہیں۔ صرف مارکس کے معاشی نظرئیے نے ہی سرمایہ داری کے کُل نظام میں پرولتاریہ کے حقیقی مقام کی وضاحت کی ہے۔

امریکہ سے جاپان اور سویڈن سے جنوبی افریقہ تک پرولتاریہ کی آزاد تنظیمیں ساری دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ پرولتاریہ طبقاتی جدوجہد کا علم بلند کر کے باشعور اور تربیت یافتہ ہو رہا ہے۔ وہ بورژوا سماج کے تعصبات کو جھٹک رہا ہے۔ وہ اپنی صفوں کو زیادہ سے زیادہ یکجا کر رہا ہے اور اپنی کامیابیوں کے معیارات کا تعین کرنا سیکھ رہا ہے۔ پرولتاریہ اپنی قوتوں کو فولاد بنا رہا ہے اور ناقابلِ مزاحمت طور پر نشونما پا رہا ہے۔