ذکا اللہ راؤ

2 جولائی 2021ء کو رات کے آخری پہر امریکی افواج کا آخری فوجی دستہ بگرام ائیر بیس سے روانہ ہونے کے ساتھ ہی افغانستان میں باقاعدہ 20 سالہ امریکی جارحیت کے اختتام کا فیصلہ کن مرحلہ اپنی تکمیل کو پہنچا۔ افغانستان میں امریکی فوجی مشن امریکی تاریخ کا طویل ترین ”فوجی آپریشن“ تھا۔ بگرام ائیر بیس سے انخلا کے وقت امریکی قید میں موجود پانچ ہزار طالبان قیدی بھی رہا کر دئیے گئے۔ امریکی افواج کے مکمل انخلا نے کابل انتظامیہ اور علاقائی ممالک کو ایک نئی غیر یقینی صورتحال سے دو چار کر دیا ہے۔ اس وقت افغانستان میں 650 امریکی فوجی کابل میں امریکی سفارت خانے کی حفاظت اور سفارتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں موجود ہیں۔ منصوبے کے مطابق آنے والے کچھ دنوں میں وہ بھی افغانستان سے چلے جائیں گے۔ امریکی انخلا کے فوری بعد طالبان نے افغانستان کے کئی صوبوں اور تجارتی سرحدی گزر گاہوں پر قبضہ حاصل کر لیا ہے۔

سوویت یونین اور پی ڈی پی اے

افغانستان میں موجودہ خانہ جنگی کا آغاز افغان ثور انقلاب کے خلاف ”جہاد“ سے شروع ہوا۔ ثور انقلاب افغانستان میں جاگیردارانہ ذلت، مذہبی جبر، قبائلی پسماندگی اور سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA)سے ہمدردی رکھنے والے فوج کے افسران اور جوانوں کی مسلح بغاوت تھی۔ جو سوشلسٹ بنیادوں پر مستقبل کے افغانستان کی تعمیر چاہتے تھے۔

سال 1979ء اس خطے (پاکستان، ایران، افغانستان) میں امریکی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے انتہائی اہم سال تھا۔ اس خطے میں سامراجی مفادات کے تحفظ کے لئے امریکی و سعودی امداد سے ”افغان مجاہدین“ کی تشکیل کا عمل شروع کیا گیا اور پشاور (پاکستان) میں 7 سے زائد جہادی تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی۔ جنہیں افغانستان اور اس خطے میں سامراجی مفادات کے حصول کے لئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بعد ازاں سوویت یونین کے خلاف برسرپیکار ہونا تھا۔

سوویت فوجوں کے افغانستان میں داخلے کے بعد 9 سالہ ”جہاد“ میں تقریباً 10 لاکھ افغان شہری،90 ہزار افغان مجاہدین، 18 ہزار افغان فوجی اور 4 ہزار سوویت فوجی ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ 55 لاکھ سے زائد افغان شہری دنیا بھر میں مہاجرین کی ذلت آمیز زندگی گزانے پر مجبور ہوئے۔

اپریل 1988ء میں جنیوا معاہدے کے تحت افغانستان سے سوویت انخلا اور جنگ بندی کا طریقہ کار طے پایا۔ اس معاہدے کی رو سے افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے جبکہ امریکہ پاکستان کے ذریعے سے افغان مجاہدین کو دی جانے والی امداد پر پابندی عائد کر دے گا۔ کیونکہ افغان مجاہدین جنیوا معاہدے کا حصہ نہیں تھے اس لئے انہوں نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور 1989ء میں جب سوویت افواج کی واپسی تقریباً مکمل ہو چکی تھی تو افغانستان میں خانہ جنگی کا دوسرا دور شروع ہوا۔ افغان مجاہدین نے کابل میں موجود ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے لئے افغان فوج (پیپلز ڈیموکریٹک آرمی) پر حملے شروع کر دئیے جو جنیوا معاہدے کی صریح خلاف ورزی تھی۔ سوویت انخلا کے بعد فروری 1989ء سے اپریل 1992ء تک نجیب اللہ حکومت نے کامیابی سے افغان حکومت اور کابل کا دفاع کیا۔ لیکن 1992ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کا بھی کابل سے خاتمہ ہو گیا۔ اس انہدام کی بہت سی داخلی وجوہات بھی تھیں۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے ساتھ ہی افغانستان میں ریاست بھی انہدام کا شکار ہو گئی۔

افغان مجاہدین کابل میں

اپریل 1992ء میں مختلف افغان مجاہدین گروہوں کے درمیان ”معاہدہ پشاور“ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت صبغت اللہ مجددی 3 ماہ کے لئے افغانستان کے عبوری صدر (اپریل 92ء سے جون 92ء تک)، جبکہ اگلے تین ماہ کے لئے برہان الدین ربانی کو افغانستان کا صدر ہونا تھا۔ احمد شاہ مسعود عبوری حکومت کے وزیر دفاع قرار پائے۔ گلبدین حکمت یار (حزب اسلامی)، عبدالرسول سیاف (اتحاد اسلامی)، عبدالعلی مزاری (حزب وحدت) اور مولوی خالص (حزب اسلامی خالص) نے پشاور معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے کابل پر قبضے کے لئے پیش قدمی شروع کر دی۔ جس کے بعد افغان مجاہدین کے درمیان کابل پر قبضے کے لئے لڑائی کا آغاز ہو گیا۔ گو کابل میں ایک عبوری حکومت قائم تھی لیکن اس عبوری حکومت کو کبھی بھی مکمل اختیارات منتقل نہیں ہو سکے اور نہ ہی یہ دیگر مجاہدین گروہوں کے درمیان کسی قابل عمل سمجھوتے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔

مارچ 1993ء میں سعودی عرب اور پاکستان کی مداخلت سے افغان مجاہدین کے درمیان معاہدہ مکہ طے پایا۔ اس معاہدے کی دستاویز کعبہ کی دیوار پر لٹکا کر فریقین سے دستخط لیے گئے۔ ماہ رمضان میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت عبوری حکومت کے وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا جبکہ گلبدین حکمت یار کو عبوری حکومت کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا اور برہان الدین ربانی بدستور عبوری حکومت کے سربراہ قرار پائے۔ معاہدہ مکہ بھی افغانستان میں دیر پا امن کا ضامن نہیں بن سکا اور جلد ہی برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمت یار کے درمیان اختلافات نے سر اٹھانا شروع کر دیا جس کے باعث ایک بار پھر احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار کی افواج کے درمیان کابل میں لڑائی شروع ہو گئی۔ افغان مجاہدین کے درمیان کابل پر قبضے کی اس لڑائی کے دوران 50 ہزار سے زائد افغان شہری ہلاک ہوئے اور دونوں اطراف سے کابل شہر پر کی جانے والی اس بمباری نے کابل کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا۔ 1994ء کے وسط تک 20 لاکھ سے زائد آبادی کے شہر کابل کی آبادی محض 5 لاکھ نفوس تک محدود ہو کر رہ گئی۔

تحریک طالبان افغانستان

کابل پر قبضے کی لڑائی کے دوران باقی ماندہ افغانستان بالخصوص جنوبی و شرقی (پشتون اکثریتی علاقے) افغانستان میں مختلف جنگجو کمانڈروں نے اپنی مقامی حکومتیں قائم کر لیں۔ جس کے باعث لوٹ مار اور قتل و غارت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اگست 1994ء میں دیو بند مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا ایک نئے جہادی گروہ کے طور پر قندھار کے مضافات میں منظم ہونا شروع ہوئے۔ اس جہادی گروپ کا مقصد بد عنوان جنگجو کمانڈروں کا خاتمہ اور افغانستان میں اسلامی شریعت کی بنیاد پر ”اسلامی امارات“ کا قیام تھا۔ افغانستان کے صوبے قندھار میں جنم لینے والی یہ تنظیم ”تحریک طالبان افغانستان“ تھی جس کے سربراہ دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل ایک مذہبی عالم ملا محمد عمر تھے۔ تحریک طالبان افغانستان کو منظم کرنے میں حزب اسلامی خالص اور حرکت انقلاب اسلامی کے سابقہ کمانڈروں کا اہم کردار تھا۔ نومبر 1994ء میں طالبان نے پہلی اہم کامیابی قندھار شہر پر قبضے سے حاصل کی جس کے بعد (پاکستانی اور امریکی حمایت اور پشت پناہی سے) جنوری 1995ء تک افغانستان کے 12 صوبوں پر طالبان نے قبضہ حاصل کر لیا۔ کابل پر متعدد حملوں کے بعد بالآخر ستمبر 1996ء میں ایک خون ریز لڑائی کے بعد طالبان کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کے بعد طالبان نے افغانستان کو ایک ”اسلامی امارات“ قرار دیتے ہوئے شرعی قوانین کا نفاذ کر دیا۔

جنگی نقطہ نظر سے بعض قوتوں کا یہ گمان تھا کہ کابل میں کسی ایک گروہ کا قبضہ افغانستان کے طول و عرض میں قیام امن کے لئے مفید ہو گا۔ لیکن 70 فیصد افغانستان پر طالبان کے قبضے کے باوجود امن کی راہ ہموار نہ ہو سکی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے علاوہ القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی حمایت بھی حاصل تھی۔

طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف اور افغانستان کے شمال میں اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے احمد شاہ مسعود نے رشید دوستم کے ساتھ ”یونائیٹڈ فرنٹ“ قائم کیا جس میں تمام افغان اکائیاں تاجک، ازبک، ہزارہ اور پشتون شامل تھے۔ اسے عام طور پر ”شمالی اتحاد“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شمالی اتحاد کو بھارت، ایران، روس، ترکی اور تاجکستان کی حمایت حاصل تھی۔

اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق 1996ء سے 2001ء تک طالبان افواج کے ہاتھوں 15 بڑے منظم قتل عام کے واقعات پیش آئے۔ جس میں سب سے بڑا واقعہ 8 اگست 1998ء کو ’مزار شریف‘ میں پیش آیا، جہاں ایک دن میں 8 ہزار سے زائد شہری طالبان نے قتل کیے۔ 2001ء تک شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان یہ لڑائی جاری رہی۔ شمالی اتحاد کی فوجوں نے مغربی و شمالی افغانستان کا کامیابی سے دفاع کیا۔ 9 ستمبر 2001ء کو احمد شاہ مسعود کو مبینہ طور پر القاعدہ نے ایک خودکش حملے میں ہلاک کر دیا۔ 11 ستمبر 2001ء کو امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے دہشت گرد حملوں نے نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا بھر میں سیاسی حالات کو تبدیل کر دیا۔

9 /11 کے بعد افغانستان

7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر القاعدہ اور طالبان کے زیر قبضہ علاقوں پر امریکا اور اتحادی افواج کی بمباری سے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا آغاز ہوا۔ امریکا اور اتحادی افواج کی فوجی طاقت کے سامنے جلد ہی کابل کی طالبان حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے۔ طالبان نے باقاعدہ جنگ کے بجائے ”چھاپہ مار جنگ“ کی حکمت عملی اپناتے ہوئے اپنی مرکزی شوریٰ اور تنظیم کو تحلیل کر دیا۔ 13 نومبر 2001ء کو شمالی اتحاد کی افواج‘ امریکی و اتحادی افواج کی مدد سے فاتح کے طور پر کابل میں داخل ہوئیں جہاں انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

دسمبر میں سقوط کابل کے بعد افغانستان میں ریاست کی بحالی کے لئے جرمنی کے شہر بون میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں طالبان مخالف پشتون جنگجو کمانڈر، شمالی اتحاد کے رہنما اور عالمی اداروں سے منسلک افغان ٹیکنو کریٹ شامل تھے جس میں ”عبوری افغان اتھارٹی“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس عبوری اتھارٹی کے ذمے اگلے چھ ماہ میں ”لویہ جرگہ“ کے انعقاد کے ذریعے ”عبوری حکومت“ کا قیام عمل میں لانا تھا۔ جو اگلے 18 ماہ میں ملک میں ایک نئے آئین کا نفاذ کر کے انتخابات کے ذریعے افغانستان میں ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لائے گی۔ بون کانفرنس بنیادی طور پر عالمی اداروں سے منسلک ٹیکنوکریٹ اور افغان سیاسی اشرافیہ (بشمول طالبان مخالف جنگجو کمانڈروں) کے درمیان اختیارات و وسائل کی تقسیم کا فارمولا تھا جس کے ضامن امریکا و اتحادی ممالک تھے۔ امریکی سی آئی اے سے اپنے گہرے مراسم کے باعث حامد کرزئی ”عبوری اتھارٹی“ اور ”عبوری حکومت“ کے سربراہ نامزد ہوئے۔ اس کے بعد 2004ء میں ہونے والے پہلے صدارتی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی۔ بون کانفرنس نے بنیادی طور پر جمہوریت کے نام پر افغانستان پر انہی لوگوں کو مسلط کر دیا تھا جنہوں نے اقتدار پر قبضے کی خاطر 80ء اور 90ء میں کابل کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔

افغانستان میں 2004ء کے بعد قائم ہونے والے جمہوری نظام نے بنیادی طور پر ایک ایسی اشرافیہ کی حکمرانی مسلط کر دی ہے جو اپنے ذاتی مفادات سے آگے بڑھ کر دیکھنے کی صلاحیت سے ہی محروم تھی۔ 2004ء، 2009ء، 2014ء اور 2019ء کے انتخابات میں با آسانی یہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی (سابقہ ورلڈ بینک ٹیکنوکریٹ) جو افغان ٹیکنوکریٹوں کے مفادات کے نمائندہ ہیں اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ جو تاجک اشرافیہ اور شمالی اتحاد کا نمائندہ ہے، کے علاوہ کسی تیسرے گروہ اور پارٹی کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں تھی۔

بڑے پیمانے کی بیرونی امداد اور افغان ریاستی انتظامیہ پر مخصوص گروہوں کی اجارہ داری نے افغانستان میں نا قابل یقین حد تک کرپشن میں اضافہ کر دیا جس کا اندازہ 2009ء کے کابل بینک سکینڈل اور اس ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جو وکی لیکس کے ذریعے منظر عام پر آیا اور برطانوی اخبار گارڈین نے اسے رپورٹ بھی کیا۔ جس کے مطابق سابقہ افغان نائب صدر احمد ضیا مسعود کو ڈالروں سے بھرے بیگ کے باعث پوچھ کچھ کے لئے روکا گیا تو ان کے پاس اس رقم کے بارے میں کوئی واضح جواب نہیں تھا کہ وہ کہاں سے حاصل کی گئی اور کہاں لے جائی جا رہی ہے۔ ان کے بیگ میں 52 ملین ڈالر نقد موجود تھے۔ افغانستان میں عالمی امداد میں ہونے والی بدعنوانیوں کی تفصیل امریکی سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان کی آڈٹ رپورٹ سے حاصل کی جا سکتی ہے جس میں افغان سیاسی اشرافیہ کے علاوہ عالمی اداروں سے منسلک اہلکاروں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے جس نے اس عالمی امداد کو کبھی عام افغانوں تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔

افغان سکیورٹی فورسز

2001ء کے بعد افغانستان میں جاری جنگ میں ایک لاکھ سے زائد افغان ہلاک ہوئے اور تقریباً اتنی ہی بڑی تعداد میں لوگ معذور و زخمی ہوئے۔ ان ہلاک و زخمی ہونے والے افراد کی اکثریت افغان و امریکی افواج کی کاروائیوں سے زیادہ متاثر ہوئی۔ افغان سکیورٹی فورسز کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ افغان نیشنل پولیس، افغان نیشنل سکیورٹی فورس اور افغان ایلیٹ فورس۔ کابل میں افغان نیشنل پولیس پر کی جانے والی اسٹڈی کے مطابق افغان پولیس کے اندر کرپشن اور بدعنوانی نے پولیس کے معیار کو انتہائی پستی میں گرا دیا ہے۔ جہاں پولیس میں بھرتی کے لئے نہ صرف پیسے طلب کیے جاتے ہیں بلکہ پولیس کے اندر ”منظم جرائم“ کے ایسے گروہ موجود ہیں جو لوگوں کو تحفظ دینے کے بجائے ان سے بھتہ اور تاوان وصول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغان پولیس میں ”گھوسٹ سپاہیوں“ کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ داخلہ کی وزارت میں کابل انتظامیہ (اشرف غنی) کی بندر بانٹ نے پولیس کی کار کردگی کو شدید متاثر کیا ہے۔

افغان نیشنل سکیورٹی فورس کا سالانہ بجٹ پانچ بلین ڈالر ہے جو افغانستان کے کل سالانہ ریونیو کا دو گنا ہے۔ افغان نیشنل سکیورٹی فورس کی کارکردگی پر تسلسل کے ساتھ تمام آزاد عالمی مبصرین اپنی رائے کا اظہار کر تے رہے ہیں جس میں اس نکتے پر سب کا اتفاق موجود تھا کہ امریکی افواج و فضائیہ کے بغیر افغان نیشنل سکیورٹی فورسز طالبان کے خلاف ایک غیر موثر قوت ہے جس کی ایک جھلک جولائی2021ء کے پہلے ہفتے میں امریکی انخلا کے بعد نظر بھی آئی۔ لیکن یہاں بھی افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کی کارکردگی سے زیادہ کابل انتظامیہ کی نا اہلی و بد عنوانی کا بڑا عمل دخل ہے۔ افغان نیشنل سکیورٹی فورس کے اہم عہدوں پر اقربا پروری کے باعث تعیناتی نے اس فوج کی کارکردگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ یہاں بھی پولیس کی طرح گھوسٹ سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ کابل سے دور دراز علاقوں میں فوج کے سپاہیوں کو جنگ کے لئے درکار ضروری فوجی ساز و سامان کی شدید کمی کا سامنا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ سپاہیوں کو مناسب علاج و خوراک تک میسر نہیں۔ جولائی میں امریکی انخلا کے وقت بھی افغان فوج کے سپاہیوں کی بڑی تعداد کو پانچ سے چھ ماہ کی تنخواہ کی ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔ ایسے حالات میں دنیا کی کسی بھی فوج کا سپاہی اپنے دشمن سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ افغان سکیورٹی فورسز کا تیسرا اہم ستون افغان ایلیٹ فورس ہے جس کی کارکردگی کو بہر حال عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس کی اکثریت کو مستقبل میں طالبان کے حملے کے پیش نظر کابل کی حفاظت کے لئے مختص کر دیا گیا ہے۔

دوحہ مذاکرات کے بعد

فروری 2020ء میں امریکا کے ساتھ امن مذاکرات طالبان کی سیاسی محاذ پر بڑی کامیابی تھی۔ امریکا کے ساتھ امن مذاکرات نے طالبان کو عالمی سطح پر افغانستان میں ایک طاقتور سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے تسلیم کروا دیا ہے۔ جس نے افغانستان میں ایک بڑا سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے۔ اس وقت افغانستان میں تین بڑے سیاسی گروہ ہیں جن کے درمیان ”انٹرا افغان ڈائیلاگ“ میں مستقبل کی افغان حکومت کے خدوخال طے پانے ہیں۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ 2014ء اور 2019ء کے انتخابات کے نتائج پر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان شدید اختلافات رہے ہیں۔ امریکی مداخلت سے دونوں فریقین کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے ذریعے حکومتی معاملات کو اب تک چلانے کی کوشش کی جا رہی تھی لیکن دونوں فریقین کے درمیان اب بھی اعتماد کا شدید فقدان ہے۔

طالبان کا سیاسی کمیشن عبدالغنی برادر کی قیادت میں بیک وقت روس، چین اور ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہا ہے اور مستقبل میں کابل کی طالبان حکومت کے حوالے سے ان ممالک کے خدشات اور ان کے حمایت یافتہ گروہوں کی طالبان حکومت میں شمولیت اور اختیارات کی تقسیم کے فارمولے اور علاقائی سکیورٹی کے مسائل پر بات جاری ہے۔ دوسری طرف روس اور چین امریکی انخلا سے پیدا ہونے والے خلا کو افغانستان میں پر کرنے کے لئے اپنی پالیسی وضع کر رہے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ چین اور روس کو دیگر ممالک میں جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے نعروں سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ تاہم یہ دونوں ممالک افغانستان میں ایسے دہشت گرد گروہوں جو ان کے لئے خطرہ ہوں کے خاتمے کے حوالے سے اپنی پالیسی کو ہر صورت ممکن بنائیں گے۔

افغانستان میں امن اور اختیارات کی تقسیم کے معاہدوں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہاں کوئی معاہدہ طویل المدتی بنیادوں پر کامیاب نہیں ہو سکا۔ ہمیشہ جنگجو کمانڈروں اور سیاسی اشرافیہ کے ذاتی مفادات افغان عوام کے اجتماعی مفاد پر غالب رہے ہیں۔ افغان عوام کے خون سے ڈالر کشید کرنے کی پالیسی افغانستان میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

افغان نسل نو ”امید کی کرن“

اکتوبر 2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک 2.7 ٹریلین ڈالر سے زائد رقم امریکا اور عالمی اداروں نے خرچ کی ہے۔ لیکن اس رقم کا بڑا حصہ تباہی و بربادی پر ہی خرچ کیا گیا ہے۔ لیگاٹم انسٹیٹیوٹ کی پروسپریٹی انڈیکس رپورٹ کے مطابق 167 ممالک میں سے افغانستان کا سکیورٹی رینک 166 ہے جبکہ گورننس میں 142، صحت میں 156، تعلیم میں 153، معیار زندگی میں 155 اور سوشل کیپٹل میں 167 ہے۔ یو این پاپولیشن ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی آبادی کا 60 فیصد 25 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ ہر سال 4 لاکھ سے زائد نوجوان افغانستان کی محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں افغانستان کے دیہاتوں میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی واقع نہیں ہو سکی۔ وہاں لوگ آج بھی کم و بیش وہی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو دو دہائی قبل انہیں میسر تھی۔ البتہ امن و روزگار کی تلاش میں شہروں کی طرف ہجرت کرنے والوں اور پہلے سے موجود افغان شہریوں کی ایک نئی نسل پروان ضرور چڑھی ہے۔ جو جدید علوم و ٹیکنالوجی سے فیضیاب ہے۔ جس نے ایک جدید دنیا کو انتہائی قریب سے دیکھا اور فکری و سماجی آزادیوں کو محسوس کیا ہے۔ وہ کسی صورت 90ء کی دہائی کے افغانستان کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ وہ ہر اس قوت کے خلاف پوری طاقت سے مزاحمت کریں گے جو انہیں دوبارہ بربریت میں دھکیلنے کی کوشش کرے گی اور ہر اس قوت کو گلے لگائیں گے جو امن کا پرچم بلند کیے آگے بڑھے گی۔ ایک دائمی امن کی خواہش افغانستان کے قصبوں، دیہاتوں اور شہروں میں موجود نوجوانوں میں یکساں طور پر موجود ہے اور وہ اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ مستقبل میں ”امن کا سوال“ افغانستان میں سب سے اہم نعرہ بن کر ابھرے گا جس کے گرد طبقاتی بنیادوں پر نئی صف بندی ہو گی۔ یہ نئی نسل مستقبل کی اس داخلی صف بندی میں سب سے اہم کردار ادا کرے گی۔ ان نوجوانوں کو نہ صرف مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بلکہ افغان سیاسی و عسکری اشرافیہ اور سامراجی قوتوں کے خلاف بھی طبقاتی بنیادوں پر اپنے سیاسی و سماجی حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا پڑے گی۔ اس سلسلے میں خطے کے دوسرے اہم ممالک بالخصوص پاکستان اور ایران میں ہونے والی انقلابی تبدیلیاں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ افغان نوجوانوں کی اس نسل کو ”ثور انقلاب“ کی کھوئی ہوئی میراث کو پانا ہے، اسے نئے خطوط پر دوبارہ استوار کرنا ہے، اس ادھورے سفرکو مکمل کر کے افغانستان سے محرومی و محکومی کا خاتمہ کرنا ہے۔ افغانستان کے خوشحال اور مستحکم مستقبل کی یہی ایک امید ہے۔