گلزار

پتہ نہیں درشن سنگھ کیوں پاگل نہیں ہو گیا؟ باپ گھر پر مر گیا اور ماں اس بچے کھچے گوردوارے میں کھو گئی…اور شاہنی نے ایک ساتھ دو بچے جن دیئے دو بیٹے، جڑواں۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ہنسے یا روئے۔ اس ہاتھ لے اس ہاتھ دے کا سودا کیا تھا قسمت نے۔
سنتے تھے آزادی آ چکی ہے یا آ رہی ہے۔ تو لائل پور کب پہنچے گی، پتہ نہیں چلتا تھا۔ ہندو سکھ سب چھپتے چھپاتے گوردواے میں جمع ہو رہے تھے۔ شاہنی دن رات درد سے کرلاتی رہتی تھی۔ آخری آخری دن تھے زچگی کے اور پہلی پہلی اولاد…
درشن سنگھ روز نئی نئی خبریں لاتا تھا فسادات کی۔ باپ ڈھارس دیتا۔ ”کچھ نہیں ہو گا بیٹا۔ کچھ نہیں ہو گا۔ ابھی تک کسی ہندو سکھ کے مکان پر حملہ ہوا ہے کیا؟“
”گوردوارے پر تو ہوا ہے نا بھاپا جی۔ دو بار آگ لگ چکی ہے۔“
”اور تم لوگ وہیں جا کر جمع ہونا چاہتے ہو؟“
اس بات پر درشن سنگھ چپ ہو جاتا۔ پر جسے دیکھو وہی گھر چھوڑ کے گوردوارے میں جمع ہو رہا تھا…
”ایک اکٹھ ہو نے سے بڑا حوصلہ ہوتا ہے بھاپا جی۔ اپنی گلی میں تو اب کوئی بھی ہندو یا سکھ رہ نہیں گیا۔ بس ہمیں ہیں…اکیلے!“
دس پندرہ دن پہلے کی بات تھی۔ رات کے وقت بھاپا جی کے گرنے کی آواز آئی آنگن میں اور سب اٹھ گئے۔ دور گوردوارے کی طرف سے ”بولے سو نہال“ کے نعرے سنائی دے رہے تھے۔ بھاپا جی کی اسی سے آنکھ کھل گئی تھی اور وہ چھت پر دیکھنے چلے گئے تھے۔ سیڑھیاں اترتے پاؤں پھسلا اور بس…آنگن میں کھڑی کدال سر میں گھس گئی تھی…!
کسی طرح بھاپا جی کے سنسکار پورے کئے اور جو کچھ مالیت تھی ایک تکئے میں بھری اور باقی تینوں نے گوردوارے میں جا کے پناہ لی۔ گوردوارے میں خوفزدہ لوگوں کی کمی نہیں تھی اس لیے حوصلہ رہتا تھا۔ اب اسے ڈر نہیں لگتا تھا۔ درشن سنگھ کہتا…”ہم اکیلے تھوڑا ہیں اور کوئی نہیں تو واہگورو کے پاس تو ہیں۔“
نوجوان سیوا داروں کا جتھا دن بھر کام میں جٹا رہتا…لوگوں نے اپنے اپنے گھر سے جتنا بھی آٹا، دال، گھی تھا اٹھوا لیا تھا۔ لنگر دن رات چلتا تھا۔ مگر کب تک؟ یہ سوال سب کے دل میں تھا…لوگ امید کرتے تھے سرکار کوئی کمک بھیجے گی۔
”کون سی سرکار؟“ ایک پوچھتا ”انگریز تو چلے گئے۔“
”یہاں پاکستان تو بن گیا ہے لیکن پاکستان کی سرکار نہیں بنی ابھی۔“
”سنا ہے یہاں ملٹری گھوم رہی ہے ہر طرف اور اپنی حفاظت میں شرنارتھیوں کے قافلے بارڈر تک پہنچا دیتی ہے۔“
”شرنارتھی؟…وہ کیا ہوتا ہے؟“
”رفیو جی!…“
”یہ لفظ تو پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔“
دو تین پریواروں کا ایک جتھا، جن سے دباؤ برداشت نہیں ہوا، نکل پڑا…”ہم تو چلتے ہیں سٹیشن پر۔ سنا ہے ٹرینیں چل رہی ہیں۔ یہاں بھی کب تک بیٹھے رہیں گے؟“
”ہمت تو کرنی پڑے گی بھئی۔ واہگورو موہنڈوں (کندھوں) پر تو بیٹھا کر نہیں لے جائے گا؟“
ایک اور نے گرو بانی کا حوالہ دیا…”نانک نام جہاز ہے، جو چڑھے سو اترے پار۔“
کچھ لوگ نکل جاتے تھے۔ خلا کا ایک بلبلا سا بن جاتا ماحول میں۔ پھر کوئی آ جاتا تو باہر کی خبروں سے یہ بلبلا پھوٹ جاتا۔
”سٹیشن پر تو بہت بڑا کیمپ لگا ہوا ہے جی!“
”لوگ بھوک سے بھی مر رہے ہیں اور کھا کھا کے بھی۔ بیماری پھیلتی جا رہی ہے۔“
”پانچ دن پہلے ایک ٹرین گزری تھی یہاں۔ تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں تھی، لوگ چھتوں پر لدے ہوئے تھے۔“
سویر سنکرانت کی تھی۔ گوردوارے میں دن رات پاٹھ چلتا رہتا تھا۔ بڑی شبھ گھڑی میں شاہنی نے اپنے جڑواں بیٹوں کو جنم دیا۔ ایک تو بہت ہی کمزور پیدا ہوا۔ بچنے کی امید بھی نہیں تھی۔ لیکن شاہنی نے ’نابھی‘ (ناڑی) کے زور سے باندھے رکھا اسے۔
اسی رات کسی نے کہہ دیا…”سپیشل ٹرین آئی ہے۔ رفیوجیوں کو لینے، نکل چلو۔“
ایک بڑا سا ہجوم روانہ ہو گیا۔ گوردوارے سے۔ درشن سنگھ بھی! شاہنی کمزور تھی بہت۔ لیکن بیٹوں کے سہارے چلنے کو تیار ہو گئی۔ ماں نے ہلنے سے انکارکر دیا۔
”میں آ جاؤنگی بیٹا۔ اگلے کسی قافلے کے ساتھ آ جاؤں گی…تو بہو اور میرے پوتوں کو سنبھال کر نکل جا۔“
درشن سنگھ نے بہت ضد کی تو گرنتھی نے سمجھایا، سیوا داروں نے ہمت دی۔ ”نکل جاؤ سردار جی۔ ایک ایک کر کے سب بارڈر پار پہنچ جائیں گے۔ بی جی ہمارے ساتھ آ جائیں گی۔“
درشن سنگھ نکل پڑا سب کے ساتھ۔ ڈھکن والی ایک بید کی ٹوکری میں ڈال کر بچوں کو سر پہ یوں اٹھا لیا جیسے اپنے پریوار کا خوانچہ لے کر نکلا ہوا۔
سٹیشن پر گاڑی تو تھی لیکن گاڑی میں جگہ نہیں تھی۔ چھت پر لوگ گھاس کی طرح اگے ہوئے تھے۔ مگر بیچاری نئی نئی نحیف و نزار ماں اور نوزائیدہ بچوں کو دیکھ کر لوگوں نے چھت پر چڑھا لیا اور جگہ دے دی۔
قریب دس گھنٹے بعد گاڑی میں ذرا سی حرکت ہوئی۔ شام بڑی سرخ تھی۔ لہو لہان، تپا ہوا، تمتمایا ہوا چہرہ۔ شاہنی کی چھاتیاں نچڑ کر چھلکا ہو گئیں۔ ایک بچے کو رکھتی تو دوسرا اٹھا لیتی۔ میلے کچیلے کپڑوں میں لپٹے دو بچوں کی پوٹلیاں۔ لگتا تھا کسی کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا لائے ہیں…کچھ گھنٹوں بعد جب گاڑی رات میں داخل ہوئی تو درشن سنگھ نے دیکھا، ایک بچے کے ہاتھ پاؤں تو ہلتے دکھتے ہیں، کبھی کبھی رونے کی آواز بھی آتی ہے لیکن دوسرا بچہ ساکت تھا۔ پوٹلی میں ہاتھ ڈال کے دیکھا تو کب کا ٹھنڈا ہو چکا تھا!
درشن سنگھ جو پھوٹ پھوٹ کر رویا تو آس پاس کے لوگوں کو بھی معلوم ہو گیا۔ سب نے چاہا کہ شاہنی سے اس بچے کو لے لیں۔ لیکن وہ تو پہلے ہی پتھرا گئی تھی۔ ٹوکری کو جپھا مار کر بیٹھ گئی…
”نہیں۔ بھائی کے بغیر دوسرا دودھ نہیں پیتا۔“ بہت کوشش کے باوجود شاہنی نے ٹوکری نہیں چھوڑی…
ٹرین دس بار رکی، دس بار چلی۔
لوگ اندھیرے میں اندازے ہی لگاتے رہے…
”بس جی…خیر آباد نکل گیا…“
”یہ تو گوجرا نوالہ ہے جی…“
”بس ایک گھنٹہ اور۔ لاہور آیا کہ سمجھو پہنچ گئے۔ ہندوستان!…“ جوش میں لوگ نعرے بھی لگانے لگتے…
”ہر ہر مہادیو…“
”جو بولے سو نہال…“
گاڑی ایک پل پر چڑھی تو لہر سی دوڑ گئی۔
”راوی آ گیا جی…“
”راوی ہے؟…لاہور آ گیا…!“
اس شور میں کسی نے درشن سنگھ کے کان میں پھسپھسا کر کہا…”سردار جی…بچے کو یہیں پھینک دو راوی میں، اس کا کلیان ہو جائے گا۔ اس پار لے جا کر کیا کرو گے؟“
درشن سنگھ نے دھیرے سے ٹوکری دور کھسکا لی اور پھر یکلخت ہی پوٹلی اٹھائی اور واہگور کہہ کر راوی میں پھینک دی…
اندھیرے میں ہلکی سی آواز سنائی دی…کسی بچے کی۔
درشن سنگھ نے گھبرا کے دیکھا شاہنی کی طرف۔
مردہ بچہ شاہنی کی چھاتی سے لپٹا ہوا تھا…
پھر سے ایک شور کا بگولہ اٹھا…
”واگھا…واگھا…!“