اداریہ جدوجہد

امریکی جارحیت اور تسلط کی تباہ کاریوں کے تقریباً بیس سال بعد افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضے نے اس بدنصیب اور برباد ملک کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا آغاز کر دیا ہے۔ 30 اگست کو امریکی فوجوں کے ہنگامی نوعیت کے انخلا کی تکمیل سے قبل ہی اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکی تھی اور طالبان کابل میں موجود تھے۔ کابل سے امریکی انخلا کو بالکل درست طور پر 1975ء میں سائیگون (ویتنام) سے امریکی عملے اور افواج کے دم دبا کر بھاگنے سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ تاہم سائیگون کے برعکس کابل پر کوئی ترقی پسند پروگرام رکھنے والی کمیونسٹ فوج نہیں بلکہ ایسی وحشت مسلط ہوئی ہے جو سماج کو کئی ہزار سال پیچھے دھکیل دینا چاہتی ہے۔ یہ سارا عمل جہاں ایک انتہائی رجعتی انداز میں امریکی سامراج کی بدترین شکست کی غمازی کرتا ہے وہاں اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سامراجی قوتوں کی ہزاروں ارب ڈالروں کی عسکری اور مالیاتی سرمایہ کاری بھی کٹھ پتلی ریاستوں کے دوام اور استحکام کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ ہر طرح کے عوام دشمن، کاسہ لیس اور جابر وار لارڈز، جن میں سے بیشتر سابقہ ڈالر جہادی گروہوں کے سرغنہ ہیں، کے درمیان مصنوعی طور پر قائم کردہ نحیف توازن پر مبنی کٹھ پتلی افغان ریاست اوپر سے نیچے تک بدعنوانی اور بدانتظامی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ یہ طالبان کی قوت اور لڑاکا صلاحیت سے زیادہ اس ریاست کا داخلی بحران، کھوکھلا پن اور عدم مقبولیت تھی جس کے پیش نظر یہ ایک معمولی ٹھوکر سے ہی زمین بوس ہو گئی۔ لبرل قوم پرستی اور اصلاح پسندی کی خوش فہمیاں بھی ساتھ ہی اس کے ملبے میں غرق ہو گئیں۔ یہ سب کچھ امریکی سامراج کے گھاگ ترین ماہرین کے لئے بھی بہت غیر متوقع اور اچانک تھا۔ امریکی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ ان کی کٹھ پتلی ریاست اگر کئی سال نہیں تو کم از کم کئی مہینے طالبان کے سامنے مزاحمت کر پائے گی۔ جس سے انہیں نہ صرف ’فیس سیونگ‘ کا موقع میسر آئے گا بلکہ طالبان سے بھی بہتر شرائط پر ڈیل کی جا سکے گی۔ پلاننگ اور حساب کتاب کی اس فاش غلطی سے پتا چلتا ہے کہ وقت اور حالات بڑی سے بڑی سامراجی قوت کو بھی کس قدر بے بس کر سکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ افغانستان کے معاملے میں امریکی سامراج کے اوسان خطا ہو چکے تھے۔ بالخصوص ایسے حالات میں جب اس کا نظام بھی ایک تاریخی زوال پذیری اور بحران کا شکار ہے۔ مارکس نے ہندوستان پر اپنی تحریروں میں واضح کیا تھا کہ تاریخ کے مکافات کا اوزار ظالم خود تیار کرتا ہے۔ تاریخ کا یہ قانون نہ صرف انقلابی بلکہ رجعتی اور ردِ انقلابی شکل میں بھی اپنا اظہار کرتا ہے۔ افغانستان میں امریکی سامراج کو انہی تاریک قوتوں نے ناکام و نامراد کیا ہے جنہیں اس نے 1978ء کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے خود پروان چڑھایا تھا۔ امریکی انخلا کے فیصلے کو ڈونلڈ ٹرمپ یا جو بائیڈن کی شخصیات یا حکومتوں تک محدود کر دینا بھی درست نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ امریکی سامراج کے پاس اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کم از کم ایک دہائی قبل واضح ہو چکا تھا کہ امریکہ‘ افغانستان میں اپنے اعلانیہ و خفیہ اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ تاہم جس ذلت آمیز انداز میں یہ عمل اپنے اختتام کو پہنچا ہے اس کی توقع امریکی پالیسی سازوں کو نہیں تھی۔ جو بائیڈن، جسے غیرسنجیدہ اور بدتمیز ٹرمپ کے بعد بڑا مہذب اور فصیح و بلیغ ”سٹیٹس مین“ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا‘ پوری دنیا کے سامنے تضحیک اور تمسخر کی علامت بن کے رہ گیا ہے۔ اپنی اس خفت کو مٹانے اور سرمایہ داری کے پولیس مین کے طور پر اپنا تشخص اور غلبہ قائم رکھنے کے لئے آنے والے دنوں میں امریکی سامراج کسی بھی انتہا تک جا سکتا ہے۔ لیکن پوری دنیا میں رجعتی قوتوں کے حوصلے بلند کر دینے والی طالبان کی فتح بھی اندر سے بہت کھوکھلی ہے۔ یہ 1995ء کا افغانستان نہیں ہے۔ طالبان کو روزِ اول سے عوامی احتجاجوں، جن میں خواتین پیش پیش ہیں، کی شکل میں مزاحمت کا سامنا ہے۔ اب تک اگر وہ بڑے پیمانے کا جبر یا قتل عام کرنے سے باز رہے ہیں تو اس کی وجہ ان کا تہذیب یافتہ ہو جانا نہیں بلکہ بکھری ہوئی (اور زیادہ تر مجہول) مزاحمت کے یکجا ہو کر بغاوت میں امڈ آنے کا خوف ہے۔ جس کا اظہار کابل اور دوسرے شہروں میں عام لوگوں کو غیر مسلح کرنے کی کوششوں سے بھی ہوتا ہے۔ طالبان کے تحت افغانستان میں کسی دوررس استحکام یا ترقی کا تناظر خارج از امکان ہے۔ ان کے پاس ایسا کوئی ارادہ، اہلیت، پروگرام اور لائحہ عمل نہیں ہے۔ وہ ”انسانی حقوق“کو مغرب کے ساتھ سودے بازی میں ایک بارگینگ چِپ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن ان کا وجود ہی قدامت پرستانہ جبر و تشدد سے مشروط ہے۔ بالخصوص چین اور پاکستان کی طرف جھکاؤ کی کیفیت میں مغربی قوتوں کی جانب سے انہیں تسلیم کیے جانے کے امکانات کم ہی ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کی داخلی دھڑے بندی بھی نئی انتہاؤں کو پہنچ گئی ہے جو تصادم کی شکل اختیار کر کے نئی خونریری اور بربادی کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی طرح سامراجی قوتوں کی آپسی چپقلش شمال میں جمع ہونے والے طالبان مخالف گروہوں کو ایک مربوط پراکسی میں بدل کے نئی خانہ جنگی کا آغاز کر سکتی ہے۔ داعش موجودگی میں یہ صورتحال مزید گھمبیر شکل اختیار کر سکتی ہے۔ طالبان کے کنٹرول میں دوسری قومیتوں اور مذہبی گروہوں کی حکومت میں شمولیت بھی ایک جعل سازی ہی ہو گی جس سے ان کے اقتدار کو کوئی عوامی مقبولیت نہیں مل پائے گی۔ پاکستانی ریاست کا قدامت پسند اور حاوی دھڑا طالبان کی فتح کی خوشی سے سرشار ہے لیکن لمبے عرصے میں اس سے نہ صرف پاکستانی سرمایہ داری کا بحران گہرا ہو گا بلکہ پورا خطہ ایک نئے عدم استحکام اور انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ بائیڈن انتظامیہ کا وزیر خارجہ پہلے ہی پاکستان کی طرف سخت رویہ اپنانے کا عندیہ دے چکا ہے۔ ان خدشات کو لے کر ریاست کے اندر ایک تقسیم اور تذبذب کی کیفیت موجود ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں بڑی اتھل پتھل کا باعث بن سکتی ہے۔ ان حالات میں ایک بات طے ہے کہ سامراجی یلغار کی تباہ کاریوں اور بنیاد پرستی کی وحشتوں نے جس سرمایہ دارانہ نظام کے بطن سے جنم لیا ہے وہ اس خطے کو مزید بربادی، عدم استحکام اور بحران میں ہی دھکیل سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تاریکیوں میں بھی انقلابی رجائیت سے سرشار ہو کر طبقاتی جدوجہد کے وہ چراغ روشن کیے جائیں جو ایک سوشلسٹ سویرے کی نوید بن سکیں۔