قمرالزماں خاں

پاکستانی ریاست کا بحران اس کے تمام ذیلی حصوں پر پوری شدت سے اثر انداز ہو چکا ہے۔ جہاں ریاستی ادارے اپنی صحت مند زندگی سے محروم ہو کر سماج کیلئے افادیت کھوتے جا رہے ہیں‘ وہیں ملکی سیاست کی زوال پذیری‘ ریاستی بحران میں دن بدن شدت لاتی جا رہی ہے۔ بنظر غائر فقط کردار اور حرکات سے معلوم کرنا مشکل ہے کہ سیاسی افق پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں کیا فرق باقی رہ گیا ہے۔ کسی کورے کاغذ پر کھینچے گول دائرے پر ایک دوسرے کے پیچھے چلتی سیاسی پارٹیاں بار بار وہی دہرانے پر مجبور ہیں جن کو وہ پہلے اپنا کر ناکام ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ اقتدار سے باہر رہتے ہوئے جن پالیسیوں کی مخالفت کی جاتی ہے بعد میں اقتدار میں آ کر انہی پالیسیوں پر چلنا اور وہی طرز عمل اختیار کرنا ثابت کرتا ہے کہ رائج نظام کی سیاست، معیشت اور طرز حکمرانی عہد حاضر کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہو کر بوسیدگی کا شکار ہوچکی ہے۔ اگر ان پارٹیوں کے نام مختلف نہ ہوں تو اپنے پروگرام اور نظریاتی مقام کی بنا پر کسی قسم کے فرق کو ظاہر نہیں کر سکتیں۔ ایک دوسرے پر حملے اور دشنام طرازی کی بنا پر یہ پارٹیاں اپنی شناخت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ دورہ جنوبی پنجاب ایسے ہی نظریاتی، ریاستی اور سیاسی بحران کی شدت میں کیا گیا ہے۔ جب نہ صرف پارٹیوں کی جداگانہ شناخت کا بحران روز بروز بڑھتا جا رہا ہے بلکہ ملک میں ’سیاسی متبادل‘ کی ضرورت کی خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔ بطور خاص پچھلی دو دہائیوں سے سیاسی پارٹیوں نے پالیسی ساز اداروں کی بجائے مخصوص گروہوں یا خاندانوں میں ہی پالیسی سازی کا کام نمٹانا شروع کر دیا ہے۔ اس کیفیت میں پارٹیوں میں نیچے اگر کہیں ڈھانچے ہیں بھی تو قطعی طور پر غیر موثر اور زائد المعیاد ہو چکے ہیں۔

پنجاب کے جنوبی اضلاع میں چیئرمین پیپلز پارٹی کا دورہ ”لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ“ کے مصداق تو کامیاب رہا مگر کئی دنوں پر محیط اس دورے سے پارٹی میں کوئی نئی روح پھونکنے جیسی صورتحال نظر نہیں آتی۔ حالیہ دنوں پنجاب میں کنٹونمٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بدترین شکست کے پیش نظر بلاول کی تمام دھواں دھار تقاریر ریت پر بارش ثابت ہوئیں۔ کہاں بلاول اپنی تقریروں میں پنجاب اور پاکستان میں حکومت بنانے کے دعوے کر رہے تھے اور نتیجہ مذکورہ الیکشن میں کم ترین ووٹوں کے ملنے کی صورت میں نکلا۔ ملک بھر میں 212 میں سے پیپلز پارٹی نے صرف 17 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ سندھ کے 53 وارڈز میں پارٹی نے صرف 14 سیٹوں پر فتح حاصل کی۔ یہ تحریک انصاف کی کامیابی کے برابر نتیجہ ہے۔ پختونخواہ کے 37 وارڈز میں سے پارٹی نے صرف 3 سیٹیں حاصل کیں۔ بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کوئی سیٹ حاصل نہ کر سکی۔ مگر خاص طور پر پنجاب جہاں پارٹی چیئرمین عام الیکشن میں جیت کا دعویٰ کر رہے تھے میں بھی پارٹی کو ایک بھی نشست حاصل نہیں ہو سکی۔

پنجاب کے جنوبی اضلاع کے دورے میں بلاول بھٹو زرداری نے نہ صرف عوامی مسائل کے حل پر مبنی متبادل معاشی پروگرام پر کوئی واضح بات نہیں کی بلکہ اپنی پارٹی کی ماضی کی تینوں حکومتوں کی ناکامی کی بھی وضاحت نہیں کی۔ اسی طرح پارٹی مستقبل میں معاشی، جمہوری اور انتظامی مسائل سے کیسے نمبردآزما ہو گی پر بات کرنے کی بجائے اپنے پچھلے اقتدار میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے ایک پوائنٹ کو ہی بار بار دہرایا گیا۔ یہ یقینی طور پر قابل ستائش بات ہے اور اس کو برملا تسلیم کیا جانا چاہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت میں ملازمین کی تنخواہوں میں ریکارڈ اضافہ کیا گیا تھا۔ مگر پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں میں سرکاری ملازمین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام ادوار میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں حکومتی سطح پر اضافے سے کسانوں کو مستفید کیا جاتا رہا ہے۔ یہ بات بھی ابھی تک ریکارڈ میں ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ ادوار میں کچھ نہ کچھ ملازمتیں فراہم کی گئی ہیں۔ دوسری طرف اسی حکومت میں مہنگائی نے بھی عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا تھا۔ لوڈشیڈنگ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ آئی ایم ایف اسی طرح پاکستان پر حملہ آور تھا جس طرح آج کل ہے۔ حفیظ شیخ اور شوکت ترین نے سرمایہ داروں کو نوازنے کی پالیسیوں سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو اتنا گہرا کر دیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنان اور ووٹرز تک پارٹی سے لا تعلقی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بے روزگاروں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا گیا۔ فصلوں کی قیمتیں کسانوں کیلئے بڑھا دی گئیں مگر کروڑوں غریب صارفین انہی اجناس کو دگنی قیمت پر خریدنے پر مجبور تھے۔ نجی بجلی بنانے والی کمپنیوں کی لوٹ مار دن رات جاری تھی۔ عام لوگوں کی زندگی بہتر بنانے اور ان کو وسیع تر روزگار مہیا کرنے کی بجائے انہیں ’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ کی بھیک پر لگادیا گیا۔ جس کو آج بھی بڑے فخر سے ایک کارنامہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ شرم کا مقام ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں معیشت، کاروبار اور صارف کو اسی طرح نچوڑتی رہی ہیں جیسے اب نچوڑ رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی غریبوں کے مفت علاج معالجے کے سرکاری اداروں اور ہسپتالوں کو بتدریج نجی ملکیت میں دیے جانے والی پالیسی کو آگے بڑھایا گیا۔ سرکاری ہسپتالوں میں مہیا کی جانے والی سہولیات کے دام مقرر کر دیئے گئے۔ نام نہاد ’خود مختاری‘ کے نام پر بتدریج عوام سے مفت علاج چھیننے کی اس پالیسی کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے بنیادی منشور کے مطابق کسی قسم کی مزاحمت کی بجائے خود اس عمل کو آگے بڑھانے میں مدد دی۔ اسی طرح طلبہ یونین پر پابندی ہٹانے کی تقریر کے بعد اس ’بیان‘ کو عملی جامہ پہنانے میں پانچ سال تک کوئی سنجیدہ حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی۔ بلکہ تعلیمی اداروں کی نجکاری کی منصوبہ بندی کو آگے بڑھایا گیا۔ ملک کو درپیش معاشی بحران کو پیپلز پارٹی کے بنیادی پروگرام میں دیئے گئے انقلابی و عوامی لائحہ عمل کی بجائے سامراجی مالیاتی اداروں کے نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ اور بڑھا دیا گیا۔ یہ سارے عوامل تھے جن کے پس منظر میں وہ پارٹی جس نے 2008ء کے الیکشن میں بھاری مینڈیٹ حاصل کیا تھا 2013ء تک غیر مقبولیت کی ساری حدیں پار کر چکی تھی۔ ساتھ ساتھ اومنی گروپس، شوگرملز مافیا، کمیشن، رشوت، چور بازاری اور اسی قسم کے الزامات تھے جن میں اگر سارے سچ نہیں ہیں تو سارے جھوٹ بھی نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ پارٹی اپنی ناکامیوں اور شکست کا حقیقت پسندی سے تجزیہ کرتے ہوئے نئے سرے سے لائحہ عمل تیار کرتی۔ مگر لگتا ہے کہ پارٹی قیادت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

عمومی طور پر کسی بھی پارٹی کے سربراہ یا رہنماؤں کے مختلف صوبوں اور اضلاع میں دوروں، جلسوں، میٹنگوں اور پریس کانفرنسوں سے نہ صرف سیاسی افق پر موجود موضوعات اور ایشوز پر پارٹی کا موقف عوامی سطح پر پھیلانا مقصود ہوتا ہے بلکہ بطور خاص جب ملک میں عام انتخابات کی تیاری مقصود ہو تو پھر مخالف سیاسی قوتوں کی پالیسوں کے مد مقابل اپنا منشور پیش کیا جاتا ہے۔ اس وقت جب تحریک انصاف کی حکومت اپنے تین سالہ دور حکومت میں مہنگائی کے پے در پے وار کر کے عوام کو بالعموم اور محنت کش طبقے کو بالخصوص غربت اور افلاس کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل چکی ہے۔ ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی میں ناکامی کے ساتھ ساتھ اپنے وعدوں کے ایک نکتے پر بھی عمل کرنے سے معذورہو چکی ہے۔ ہر قسم کی عوامی ہمدردی اور حمایت کا جواز کھو چکی ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں‘ بطور خاص عمران خان کے بلند وباگ دعوے مذاق بن چکے ہیں۔ آج گلی کوچوں میں اور سوشل میڈیا پر عمران خان کی تقریروں اور ٹاک شوز میں کی گئی باتوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ ایسی کیفیت میں اپوزیشن پارٹیوں (اگر وہ واقعی متبادل سیاسی قوت ہوں تو) کے پاس بہترین مواقع ہیں کہ وہ عوامی رابطہ مہم میں ان عوامل کی تشریح کریں جن کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری میں آئے روز اضافہ ہوتا ہے اور کرنسی ڈالر کے مقابلے میں روز بروز حقیر ہوتی جا رہی ہے۔ بطور خاص ان ذلتوں بھرے مسائل میں عالمی مالیاتی اداروں کا کردار زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔ جب عمران خان اپوزیشن میں تھا تو برملا کہتا تھا کہ وہ خود کشی کر لے گا مگر اقتدار میں آ کر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گا۔ ایسے میں خاص طور پر پیپلز پارٹی کی قیادت کے پاس عوامی رابطہ مہم میں یہ موقع ہے کہ وہ وضاحت کے ساتھ بتائے کہ آخر اس نظام میں وہ کون سی خرابیاں ہیں جن کی بنا پر پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے اور اس خوفناک مالیاتی ادارے کا راستہ کیسے روکا جا سکتا ہے؟ جہاں سیاسی پارٹیوں کے پاس جمہوری اقتدار تک رسائی کے راستوں میں مختلف قسم کی رکاوٹوں، الیکشن سے قبل اور بعد میں دھاندلی، پارٹیوں میں نقب زنی اور اکثریت کو اقلیت میں بدل دیئے جانے کا سنگین الزام ہے وہاں عوام کا مقدمہ یکسر مختلف نوعیت کا ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت، مہنگائی، بے روزگاری نے عوامی شعور کو صرف اور صرف اپنی بقا کے مسئلے پر مرتکز کیا ہوا ہے۔ ایسے وقت میں نام نہاد جمہوریت کے مسائل یا پھر شکست خوردہ ”پی ڈی ایم“ اور پیپلز پارٹی کے فروعی اختلاف پر مبنی لڑائیوں سے کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ مشہور زمانہ دھاندلی جو کہ ووٹوں سے قبل ہی کر لی جاتی ہے اور ایک اقلیتی جماعت کو اقتدار کے سنگھاسن پر جس واردات سے بٹھا دیا جاتا ہے کا حل کبھی بھی سسٹم کے اندر رہ کر کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کے دورے کا سب سے سنگین پہلو ان کا مقامی سیاسی وار لارڈز کو سیاسی کارکنوں پر ترجیح دینا، ان کی میزبانی میں رہنا اور کارکنان کے نام پر ہونے والے کنونشنوں میں کارکنان کو خاردار باڑسے پیچھے رکھ کر ہر قسم کی رائے دینے کی ممانعت کا تھا۔ نام نہاد مقامی قائدین (جو بڑے جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں اور ٹکٹ ہولڈروں کو کہا جاتا ہے) اور قومی قیادت کے رویے سے کسی طور سمجھ نہیں آتا کہ وہ نظریاتی زوال پذیری کے ساتھ تنظیمی انہدام کے بڑے بحرانوں سے نکلنے کی خواہاں ہے۔ بہت سطحی قسم کے موضوعات پر جلسوں اور تقاریر میں بات کی گئی۔ قومی پارٹی نے بعض حلقوں کی طرف سے’’سرائیکی صوبے“ کے مطالبے پر بھی گول مول بات کر کے اپنے مبہم موقف کی نشاندہی کی۔ کسی بھی قومی قیادت کو قومی محرومی کے حقیقی مسئلے پر پوری وضاحت سے بات کرنی چاہئے تا کہ سطحی قسم کی سیاسی سوچ یا نعروں کی بجائے ایسے سنجیدہ موضوع کو گہرے تجزیے اور حل کے ساتھ پیش کیا جائے۔ قومی محرومی کی وجوہات اور اس کے تدارک پر بات نہ کرنے کا مطلب ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی جنوبی پنجاب میں ”صوبہ صوبہ“ کھیل پر ہی یقین رکھتی ہے۔ جہاں پارٹی قیادت کو صوبے کے مطالبے اور قیام کے روڈ میپ پر پارٹی پوزیشن پیش کرنا چاہئے تھی وہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری تھا کہ قومی استحصال کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے۔ مگر شاید اس قسم کا ہوم ورک پیپلز پارٹی کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ پنجاب روز اول سے ہی پیپلز پارٹی کا گڑھ بنا تھا۔ اس کی وجہ وہ انقلابی تاسیسی پروگرام تھا جو حکومتوں کو نہیں نظام کو بدلنے کی بات کرتا تھا۔ اس پروگرام میں پوری صلاحیت تھی کہ ملک کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کر سکے۔ وہ انقلابی پروگرام ہی تھا جس نے پاکستان کے نہتے محنت کشوں کو دو فوجی حکومتوں کو للکارنے، ان سے لڑنے اور جیتنے کی شکتی دی تھی۔ اس پروگرام سے انحراف کی کہانی دراصل پاکستان پیپلز پارٹی کے مسلسل زوال کی کہانی ہے۔ پاکستان میں وہی پارٹی اب اکثریتی محنت کش طبقے کی توجہ، حمایت، آشیرباد اور طاقت حاصل کر سکتی ہے جس کے پاس سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنے اور ختم کرنے کا پروگرام ہو۔ وگرنہ سطحی قسم کی چیخم دھاڑ سے لوگ بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سرمایہ دار قیادت خود کو پارٹی کے انقلابی نظریات کے بعد درجہ بدرجہ تنظیموں اور سندھ کے چند اضلاع کے علاوہ پورے پاکستان کی سیاست سے الگ کر چکی ہے۔ بنظر غائر پارٹی قیادت کا پنجاب کے جنوبی علاقوں کا دورہ ایک دو سیاسی وار لارڈز کو ہنوز پارٹی کے ساتھ منسلک رکھنے اور مقتدرہ کو ہمہ گیر سیاسی قوت کا تاثر دینے کیلئے کیا گیا ہے۔ آج یہ بات ایک عام سیاسی کارکن بھی جانتا ہے کہ اس سماج کے محنت کش اور غریب عوام اس نظام سے عاجز آ چکے ہیں جس میں صرف طبقہ بالا کی زندگی آسان ہو اور غریبوں کو ہر روز نئی ذلتوں اور محرومیوں کا سامنا ہو۔ لوگ اس ظالمانہ نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ لیکن مروجہ پارٹیوں کی قیادتیں اس عوام دشمن نظام کو قابل قبول بنانے کیلئے ”اصلاحات“ کی تگ و دو کر رہی ہیں۔ یہی تضاد عوام اور مروجہ سیاست کے درمیان موجود ہے۔ بجائے اس کے کہ سامراجی اداروں کے سہولت کار بننے کیلئے گیٹ نمبر چار کے راستے تلاش کیے جائیں‘ ضرورت ہے کہ محنت کش عوام کی طبقاتی نجات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ راستہ اب بھی پیپلز پارٹی کے بنیادی پروگرام کی دستاویزات میں موجود ہے۔