آصف رشید
عالمی معیشت اس وقت گہرے بحران کی زد میں ہے۔ کورونا ویکسین لگائے جانے اور لاک ڈاؤن میں نرمی نے کسی حد تک معیشت کے کھلنے کے امکانات پیدا کیے ہیں جس سے کافی حد تک معاشی سرگرمی کا دوبارہ آغاز ہوا ہے۔ لیکن کورونا کے ڈیلٹا ویرینٹ نے ایک بار پھر تذبذب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں شرح نمو کسی حد تک کورونا وبا سے پہلے والی کیفیت پر بحال ہوئی ہے۔ لیکن تیسری دنیا اور ابھرتی ہوئی معیشتیں شدید گراوٹ کا شکار ہیں۔ قرضوں میں بے پناہ اضافے کے باوجود شرح نمو کی بحالی بہت ہی نحیف ہے۔
امریکہ اور چین کی معیشت میں تیز ترین بحالی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ معیشت اور تجارت کی دوبارہ بحالی کے باعث اجناس کی طلب میں ہونے والا اضافہ ہے۔ امریکہ میں جو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے دیے جانے والے مالیاتی پیکیج اور کارپوریٹ قرض نے معاشی نمو کی بڑھوتری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس پیکیج نے لوگوں کی گرتی ہوئی آمدنی اور کمپنیوں کو کافی حد تک سہارا دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس طریقہ کار کو کب تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق یہ مضبوط شرح نمو ہے جس کی بنیادی وجہ کورونا کی وجہ سے بند معیشت کا دوبارہ کھلنا ہے۔ لیکن اس شرح نمو کو لمبے عرصے تک اس رفتار کے ساتھ جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مریض کو گلوکوز لگانے سے وہ عارضی طور پر صحت مند ہو جا تا ہے لیکن جونہی اس کے اثرات ختم ہوتے ہیں تو وہ پھر سے بستر پر لیٹ جاتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے آتے ہی معیشت کی بہتری اور نئی نوکریاں تخلیق کرنے کے لئے بہت بڑے انفراسٹرکچر پروگرام کا اعلان کیا تھا۔ دو ہزار ارب ڈالر کا یہ پیکیج بظاہر بہت بڑا لگتا ہے لیکن اس کو پانچ سے دس سال پر تقیسم کیا جائے تو یہ امریکہ کی سالانہ پیداوار کے آدھے فیصد کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ساڑھے چار ہزار ارب ڈالر کے سماجی اور تعمیراتی مالیاتی منصوبے پر امریکی کانگرس میں ایک نورا کشتی بھی چل رہی ہے۔
بائیڈن کا یہ پیکیج معیشت کو وقتی سہارا تو دے سکتا ہے لیکن طویل مدتی شرح نمو پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ معیشت کورونا سے پہلے والی کمزور شرح نمو پر واپس آ جائے گی۔ اس سے پیداواریت اور اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔
کورونا کی وجہ سے پچھلے دو سال میں پیداوار، وسائل، آمدنی اور نوکریوں میں بہت بڑے پیمانے کا نقصان ہو ا ہے۔ بہت سی نوکریاں تو ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی ہیں۔ وبا نے عالمی سطح پرمزید 15 کروڑ لوگوں کو انتہائی غربت میں دھکیل دیا ہے۔ یہ دو سال محنت کشوں کے لئے کسی المیے سے کم نہیں تھے۔ ان دو سال میں ہونے والا نقصان شاید کبھی نہ پورا کیا جا سکے۔
عالمی معیشت کی شرح نمو کورونا سے پہلے بھی بہت سست رفتار تھی اور 2021ء کی وقتی بحالی کے بعد پھر صورتحال پہلے والی سطح پر آ جائے گی۔ کیونکہ سرمایہ داری کی مستحکم اور دیر پا ترقی صرف اسی صورت مین ممکن ہے جب شرح منافع مسلسل بڑھتی رہے۔ لیکن اوسط شرح منافع کورونا سے پہلے ہی بہت کم تھی اور بہت سے ملکوں میں تو یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی کم ترین سطح سے بھی نیچے تھی۔
اس وقت روزگار اور آمدنیوں میں اضافے کے لئے جو سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اس سے شرح منافع کو بحال نہیں کیا جا سکتا۔ کورونا صورتحال کی نسبت اس میں کچھ اضافہ تو ہے لیکن یہ پچھلے سال کی سطح سے اوپر نہیں جا سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے عرصے میں سرمایہ کاری اور شرح نمو میں اضافے کا امکان نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں منافع معاشی ترقی کا تعین کرتاہے۔ لیکن منافع کا موجودہ رحجان عالمی معیشت کے لئے تشویشناک ہے۔
اس وقت امریکہ میں جی ڈی پی کا محض 15 فیصد پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری ہے اور پبلک سیکٹر میں سرمایہ کاری سالانہ محض 3 فیصد کے برابر ہے۔ اگر بائیڈن کے پیکیج کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس میں صرف 0.5 فیصد اضافہ ہو گا۔ امریکی کانگریس بجٹ آفس کے تخمینے کے مطابق جی ڈی پی کی حقیقی شرح نمو اگلی ایک دھائی کے لئے 1.8 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ یہ تخمینہ پیداوار اور روزگار کے تخمینے کے مطابق لگایا گیا ہے۔
سرمایہ دارانہ بنیادوں پر شرح منافع میں اضافہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ سرمایہ داری کے ناکارہ حصوں کو بند کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر ایسی کمپنیاں جو صرف قرض کے ذریعے قائم ہیں۔ جنہیں ”زومبی“ کمپنیاں کہا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ان کمپنیوں کی تعداد 15 سے 20 فیصد کے قریب ہے۔ یہ کمپنیاں مجموعی پیداور کو کم کرتی ہیں اور معیشت کے کارگر حصوں کی بڑھوتری اور ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ یہ نیم مردہ کمپنیاں عالمی کارپوریٹ سیکٹر کے قرضوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے کی عکاسی کرتی ہیں۔ تمام ترقی یافتہ دنیا میں کارپوریٹ قرضے اس وقت دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کی اپنی بلند ترین سطح پر ہیں۔ شرح سود اس وقت تاریخ کی کم ترین سطح پر ہونے کے باوجود کمپنیوں پر قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہے کہ وہ پیداواری سرگرمی کو بڑھانے میں سرمایہ کاری نہیں کر پا رہیں۔
اتنے بڑے قرضے منافع پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ جب پیداواری شعبے میں منافع گرتا ہے تو سرمایہ مالیاتی سیکٹر کی طرف چلا جاتا ہے تاکہ سٹے بازی کے ذریعے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ کورونا وبا کے دوران امیر ترین سرمایہ داروں نے اس عمل کے ذریعے بے پناہ منافعے کمائے ہیں۔ صرف امریکہ میں ارب پتی سرمایہ داروں کی دولت میں پچھلے 18 ماہ میں ایک ہزار آٹھ سو ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔
جب ایک مالیاتی بحران آتا ہے تو دیوالیے کارحجان بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اگر پیداواری شعبہ مضبوط ہو تو معاشی گراوٹ کا امکان کم ہوتا ہے۔ لیکن اگر پیداواری شعبے میں شرح منافع پہلے سے ہی کم ہو تومالیاتی بحران پیداواری شعبے کو بھی بحران میں دھکیل دیتا ہے جیسا کہ ہم نے 2008ء کے بحران میں دیکھاتھا۔
قرضوں اور کم شرح منافع کے بوجھ کو ”تخلیقی تباہی“ کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔ مقروض اور غیر موثر کمپنیوں کو تحلیل کر کے شرح منافع کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے بہت بڑے پیمانے پر قرضوں کو ختم کرنا پڑے گا تاکہ ایک نئے ابھا ر کے حالات پیدا کیے جا سکیں۔ ابھی تک اس طرح کی صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی کیونکہ یہ حکومتوں اور فیصلہ سازوں کے لئے جان جوکھوں کا کام ہے۔ کمزور کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کی شرح بھی بہت کم ہے۔ حکومتیں اس کے سیاسی مضمرات سے خوف زدہ ہیں۔ پیداوار اور منافع کی شرح میں سست رفتاری کے باوجود حکومتیں بڑے پیمانے پر قرضے دے رہی ہیں تاکہ ان کمپنیوں کو چلایا جا سکے۔ تاکہ بڑے پیمانے کی بیروزگاری سے بھی بچا جا سکے۔
بہت سے لوگوں کے لئے کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والا بحران بہت تباہ کن تھا لیکن بہت سے لوگوں نے اس دوران بچتیں بھی کی ہیں جن کو اب وہ معیشت کے کھلنے کے بعد تصرف میں لائیں گے۔ جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ہر قسم کی اجناس اور خدمات کی مانگ میں اضافہ ہو گا اور موجودہ کیفیت میں رسد اس قابل نہیں کہ وہ مانگ کو پورا کر سکے۔ پہلے ہی افراط زر کافی اوپر جا چکا ہے۔ خاص طور پر درآمدات کی قیمتوں میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کیونکہ ابھی تک سپلائی چین مکمل بحال نہیں ہو سکی ہے۔
1980ء کی دہائی کے آخر میں زیادہ تر ترقی یافتہ ملکوں میں افراط زر ڈبل ڈجٹ تک پہنچ گئی تھی لیکن پچھلی دو دہائیوں سے افراط زر ان ملکوں میں 2 فیصد کے آس پاس رہی ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ پھر بڑھنے کی طرف جا سکتی ہے۔ مانیٹرازم کے مطابق پیسے کی رسد بڑھنے سے افراط زر میں اضافہ ہوتاہے لیکن موجودہ حالات میں یہ بات غلط ثابت ہو چکی ہے۔ تمام مرکزی بینک بغیر قیمتوں میں اضافے کے کمرشل بینکوں اور کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر پیسے دے رہے ہیں۔ جتنا پیسے کے حجم میں اضافہ ہو رہا ہے اس کی گردش اتنی ہی سست ہو رہی ہے۔ یہ پیسہ بینکوں میں پڑا ہوا ہے جو کہ کمپنیوں کو نہیں دیا جا رہا۔ بڑی کمپنیوں کو اکثر پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی اور چھوٹی کمپنیاں کم شرح سود کے باوجود ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اس صورتحال میں بینک اس پیسے کو مالیاتی سٹے بازی میں استعمال کرتے ہیں۔ مالیاتی اثاثوں کی قیمتیں اس وقت آسمان سے باتیں کر رہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ صورتحال کب تک جاری رہے گی۔
اس کا جواب کافی مشکل ہے۔ لیکن دو ایسی وجوہات ہیں جو فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک طرف تو یہ کہ معیشت میں کتنی قدر موجود ہے اور اس کا کتنا حصہ منافع کی شکل میں سرمایہ دار کے پاس جا رہا ہے اور کتنا حصہ اجرت کی شکل میں مزدوروں کے حصے میں آتا ہے۔ یہ عوامل کسی بھی معیشت میں مجموعی طلب کا تعین کرتے ہیں۔ سرمایہ دار سرمایہ دارانہ اجناس اور مزدور ضروریات کی اجناس کی مانگ کرتے ہیں۔ اجرت اور منافع کا حجم اس کیفیت میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن پیسے کی مجموعی رسد بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کیونکہ پیسے کی رسد منافعوں کی کمی کے باعث طلب پیدا کرنے میں اہم کردار اد اکرتی ہے۔
پیداواری صلاحیت میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ قوت محنت پر کم اور ذرائع پیداوار پر زیادہ سرمایہ کاری کی جائے گی جس کے باعث سرمائے کی نامیاتی ساخت میں اضافہ ہوتا ہے۔اس کا اثر منافع اور اجرت دونوں پر پڑتا ہے اور طلب کم ہوتی ہے اور یوں ترقی کی شرح سست ہو جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں سرمایہ داری کے اندر قیمتوں میں کمی کا رحجان جنم لیتا ہے۔ مرکزی بینکوں نے اس رحجان کو ختم کرنے کے لئے پچھلے 30 سال سے بہت بڑے پیمانے پر پیسہ پھینکا ہے لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔
کینیشین ازم کے حامیوں کی دلیل ہے کہ اجرت میں اضافہ افراط زر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ موجودہ کیفیت اس دلیل کی نفی کرتی ہے۔ مارکس نے ایک دفعہ ایک سوشلسٹ ٹریڈ یونینسٹ تھومس ویسٹن کے ساتھ اس موضوع پر گفتگوکی تھی۔ ویسٹن کا کہنا تھا کہ اجرت میں اضافے کی جدوجہد قیمتوں میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہے۔ مارکس نے جواب دیا تھا کہ اجرت میں اضافہ منافع میں کمی کا موجب بنتا ہے۔ افراط زر صرف اسی صورت میں ہوتا ہے جب ایک ہی وقت میں منافع اور اجرت میں اضافہ ہو رہا ہو۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کا دور سرمایہ داری کا ایک انوکھا فیز تھا۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں مکمل روزگار کی کیفیت تھی۔ معیار زندگی، شرح منافع اور تجارت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اگر ہم سرمایہ داری کی پوری تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ایسے ادوار ہمیں کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے سنہری ادوار کا خاتمہ کیونکر ہوا؟ بہت سے بورژوا اور نام نہاد بائیں بازوکے معیشت دان اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ اصلاح پسند بائیں بازو کے معیشت دانوں کے مطابق ایسا اس لئے ہوا کہ کینیشین ازم کو ختم کر دیا گیا اور حکومتوں نے اخراجات میں کمی کر دی اور معیشت میں اپنے کردار کو کم کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ حکومتوں نے ایسا کیو ں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بڑے سرمایہ دارانہ ممالک میں ترقی کی وجہ سے بڑے پیمانے کے سرمائے کی شرح منافع میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی تھی۔ جس کے باعث سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی۔ اس کے نتیجے میں بڑے سرمایہ داروں نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ نیو لبرل ازم کا راستہ اختیار کریں۔
مارکسی تنقیدکا بنیادی نکتہ قدر کا قانون ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کمپنیاں سرمایہ کاری صرف اس وقت کرتی ہیں جب ان کو معقول منافع حاصل ہو رہا ہو۔ ان کی سرمایہ کاری کا بنیاد مقصد منافع کا حصول ہے نہ کہ لوگوں کی ضروریات کی تکمیل۔ پیداواری عمل میں منافع مزدوروں کے استحصال سے حاصل ہوتا ہے۔ محنت سے تمام اجناس اور خدمات پیدا ہوتی ہیں جن کو منڈی میں فروخت کیا جاتا ہے۔ لیکن اس عمل میں سرمایہ دار دوسرے سرمایہ داروں کے ساتھ ایک مسلسل مقابلہ بازی میں ہوتا ہے۔ کمپنیاں مسلسل اس کوشش میں ہوتی ہیں کہ وہ نئی تکنیک اور استحصال کے نئے طریقہ ہائے کار اپنائیں۔
تمام بورژوا اور بائیں بازو کے کینیشین اسٹ معیشت دانوں کے نزدیک منافع کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کے نزدیک طلب، سٹے بازی اور مالیاتی سرمایہ کاری ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ ان چیزوں کی ابھی اپنی اہمیت ہے لیکن سرمایہ دارانہ طرز پیداوار اور سرمائے کے ارتکاز کو سمجھنے کے لئے منافع کا کردار سب سے اہم ہے۔ شرح منافع سے ہی اس بات کا اندازا لگایا جا سکتاہے کہ ایک معیشت کتنی مضبوط ہے۔ پچھلے 50 سال سے شرح منافع میں ایک گراوٹ کا رحجان موجود ہے۔ یہ رحجان سیدھی لکیر میں نہیں بلکہ اتار چڑھاؤ کے ساتھ نیچے کی طرف ہے۔
ٹیکنالوجی کمپنیوں ایمازون، ایپل اور ایلفابیٹ کی بلند شرح منافع نے عالمی سرمایہ دارانہ معیشت میں منافع کے مسئلے کو وقتی طور پر چھپایا ہوا ہے۔ لیکن بیشمار زومبی کمپنیاں ہیں جہاں شرح منافع یا تو موجود ہی نہیں ہے یا مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ یہ سب سے بنیادی وجہ ہے جس نے سرمایہ کاری کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہوا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں موجودہ بحران کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ ہزاروں ارب ڈالر کے قرضے اور مالیاتی انجکشن بھی معیشت کو بحال کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ دنیا ایک نئے اور زیادہ گہرے بحران کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس تمام تر بحران کی قیمت محنت کش طبقے کو بیروزگاری، کٹوتیوں اور مہنگائی کی صورت میں چکانی پڑے گی۔ محنت کشوں کے پاس اس نظام کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ دنیا میں سوشلسٹ انقلاب کی قیادت تو ابھی شاید کمزور ہے لیکن آنے والا طبقاتی کشمکش کا میدان ان قوتوں کی بڑھوتری کے لئے حالات تیار کرے گا۔ یہ وقت انقلابی متبادل کی سنجیدہ تیاری کا متقاضی ہے۔