شانی

پاکستان مسلم لیگ نواز کی سیکر ٹری اطلاعت اور ممبر قومی اسمبلی مریم اورنگزیب نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ بجلی کے گھریلو صارفین کو پچھلے 8 ماہ سے ”37 دن کی کھپت“ کی بنیاد پر جو ”ماہانہ بل“ ارسال کیے جا رہے ہیں وہ دن دیہاڑے ڈکیتی کی واردات کے مترادف ہے اور وزیر اعظم عمران خان اس کے براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ اسی حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی نائب صدر اور سینیٹر شیری رحمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ”یہ سب ظلم و زیادتی حکومت کی ناک تلے برپا کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں حکومتی عہدے داروں کی زباں بندی اس بات کا اظہار ہے کہ موجودہ حکومت اس واردات میں برابر کی شریک ہے۔“ پاکستان کی ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین کا یہ بیانیہ عوام سے محبت سے زیادہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ان دونوں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں بجلی کے شعبے کے ذریعے جس طرح عوام کا عرق نچوڑا ہے اُس پر ہم آگے چل کر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

موجودہ جدید ٹیکنالوجی کا عہد جہاں مشینوں کے استعمال کی بدولت زائد پیداواریت کا عہد ہے وہیں تقریباً ہر انسان کا ہر کام (کچن سے لے کر کام کاج والی ہر جگہ) کسی نہ کسی مشین سے جڑا ہوا ہے اور ان مشینوں کی رگوں میں دوڑتی ہے بجلی۔ یعنی دوسرے الفاظ میں بجلی سماج میں وہی کام کرتی ہے جو انسانی جسم میں خون کا کردار ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں لوڈ شیڈنگ کی اذیت انسانی سماج کو نیم زندگی اور نیم موت کے مابین رگیدتی رہتی ہے۔

برصغیر کے سامراجی بٹوارے کے بعد نئی مملکت خدادادِ پاکستان میں 1958ء میں پارلیمان کے ذریعے واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (WAPDA) کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد ملک کے طول و عرض میں بجلی کی پیداوار اور پانی و بجلی کی ترسیل کے نظام کو چلانا اور بتدریج بڑھانا تھا (البتہ یہاں ہماری گفتگو بجلی تک محدود رہے گی)۔ اس ادارے کے قیام کے دو سال کے بعد ہی منظرِ عام پر آنے والی دونوں ریاستوں یعنی پاکستان اور بھارت کے مابین دریاؤں کی تقسیم کے حوالے سے 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ہوا جس کی رو سے تین مغربی دریاؤں دریائے سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا اور ستلج، راوی اور بیاس بھارت کے حصے میں آئے۔ اس کے بعد ہی ورلڈ بینک کے تعاون سے دو بڑے ڈیموں کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھنا ممکن ہوا۔ ان ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان میں بجلی کی زیادہ تر پیداوار کا دارومدار اگلی تقریباً دو دہائیوں تک ہائیڈل پاور جنریشن (پانی سے بجلی کے حصول کا طریقہ کار) پر رہا۔ 1980ء کی دہائی میں بجلی کی کھپت میں 12 فیصد سالانہ کا اضافہ اور پیداوار میں 8 فیصد کا اضافہ تھا جس سے نمٹنے کے لیے 1989ء میں بے نظیر کی پہلی حکومت نے نجی شعبہ کے تعاون سے حب کے مقام پر پہلا فرنس آئل سے بجلی بنانے کاکارخانہ لگانے کا منصوبہ مکمل کیا جس کی تعمیر 1997ء میں مکمل ہوئی اور پیداوار کا آغاز ہوا۔ نجی ملکیت میں بجلی کی پیداوار کا اب یہ دوسرا بڑا کارخانہ ہے (پہلے نمبر پر ’KAPCO‘ ہے)۔

اس طرح جہاں بجلی کی پیدوار پر اجارہ داری رکھنے والے ریاستی ادارے ’WAPDA‘ کو پیداواری عمل کے میدان میں نجی سرمایہ داروں سے مقابلہ بازی کا سامنا کرنا پڑا وہیں بینظیر کی دوسری حکومت کی انرجی پالیسی کے تحت کیے گئے انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) سے معاہدے عوام کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے۔ کیونکہ جہاں ان کارخانوں کی تعمیر کے حوالے سے ریاست نے بے تحاشہ سپورٹ کی وہیں ان معاہدوں میں ایک شِق کے تحت حکومت پاکستان ان اداروں کو ’Capacity Payment‘ کی مد میں 60 فیصد ادائیگی کرنے کی ہر صورت پابند رہے گی۔ یہ ساری رعایتیں اور ادائیگیوں کا طریقہ کار سرمایہ دار گِدھوں کی رال ٹپکانے کے لیے بہت خوش کن تھا اور عام عوام کے لیے یہ درحقیقت پھانسی کا پھندہ ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد ملکی خزانے پر ایک نئی مد میں بوجھ کا اضافہ ہونا شروع ہو گیا جس کو گردشی قرضہ کہتے ہیں۔ جس کے گرداب میں پورا پاکستانی سماج ایسا پھنسا ہوا ہے کہ جس سے نکلنے کی کوئی راہ کسی کو بھی سُجھائی نہیں دیتی اور نہ ہی اس سفاک اور تاریخی طور پر متروک شدہ نظامِ زَر کی حدود میں رہتے ہوئے کسی کو سجھائی دے سکتی ہے۔

بجلی کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ہی صارفین تک اُس کی ترسیل کے لیے ملک کے طول و عرض میں ٹرانسمیشن لائنیں بچھائی گئیں۔ مگر ان کا پھیلاؤ کسی طویل مدتی منصوبہ بندی کے بغیر ہونے کی وجہ سے آج لائن سٹاف کی بے تحاشہ اموات کا سبب بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ مشرف آمریت کے دورِ حکومت میں واپڈا کے حصے بخرے کر کے 8 ڈسٹری بیوشن کمپنیوں اور ایک نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ یہ وہ طریقہ واردات تھا جس کے ذریعے بعد کے آنے والے عرصے میں اس ادارے کے مختلف حصوں کو ایک ایک کر کے نجی ملکیت میں دینے کی بنیاد رکھی گئی کیونکہ ملکی سطح کے اس دیو ہیکل ریاستی ادارے کی یک مشت فروخت اربابِ اختیار کے لیے ممکن نہ تھی۔ مشرف دور کے آخر میں بالآخر کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری اونے پونے داموں کر کے 4500 مزدوروں کو نوکریوں سے جبراً بے دخل کر دیا گیا اور ان کو بقایا جات کا مطالبہ کرنے پر شدید ریاستی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

مشرف دور میں خصوصاً سال 2003ء سے 2007ء تک بجلی کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھا گیا جس کی وجوہات سیاسی تھیں۔ اسی دور میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بجلی کی پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں پیداواری لاگت اُس نرخ سے تجاوز کر گئی جس نرخ پر بجلی فروخت کی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ اُس وقت میں گھریلو صارفین کے بلوں پر جنرل سیلز ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گردشی قرضہ منظرِ عام پر آیا جو 2006ء کے اختتام پر 111 ارب روپے تھا۔ اس کے ساتھ ہی عوام کو ایک اور عفریت کا سامنا رہا جس کو لوڈشیڈنگ کہتے ہیں۔ یہ گردشی قرضے اور لوڈ شیڈنگ آج تک عوام پر مسلط ہیں۔

مشرف آمریت کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت نے بھی جب آئی ایم ایف جیسے عالمی ساہوکاروں سے قرض کی درخواست کی تو اُن کے اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت بجلی کے گھریلو صارفین پر جنرل سیلز ٹیکس 16 فیصد کے حساب سے نافذ کر دیا گیا۔ بنیادی ٹیرف میں 2007ء سے بڑھوتری پہلے ہی کی جا چکی تھی۔ اس کے باوجود جنوری 2010ء میں گردشی قرضہ 150 ارب روپے اور پیپلز پارٹی کی حکومتی مدت ختم ہونے تک 503 ارب روپے ہو چکا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی 2013ء کی حکومت نے ابتدا میں ہی گردشی قرضوں کی مد میں 480 ارب روپے (342 ارب روپے نقد اور 138 ارب روپے کی بک ایڈجسٹمنٹ) کی یک مشت ادائیگی اس بیانئے کے ساتھ کی کہ یہ قرض اُتار کر ایسا طریقہ کار اپنایا جائے گا جو اس مد میں قرضوں کو مجتمع ہونے سے روک سکے۔ جس کے لیے پھر سے عام گھریلو صارفین کو بَلی کا بکرا بنانے کا پلان ترتیب دیا گیا۔ اس یک مشت ادائیگی کے مضمرات عام گھریلو صارفین پر کچھ اس طرح ڈالے گئے کہ بجلی کے بل میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کر کے اُسے 17 فیصد کر دیا گیا اور پیپلز پارٹی دور میں سلیب وائز سبسڈی دینے کا طریقہ کار ختم کر کے ڈائریکٹ (700 تک استعمال شدہ یونٹ کے حساب سے) سب سے زیادہ والی سلیب کا ریٹ سارے یونٹس سے ضرب دیا جانے لگا۔ اس کے علاوہ اس دوران کیمرے سے میٹر ریڈنگ کا آغاز بھی کیا گیا۔ ریڈنگ کی تصاویر بھی بلوں پر چسپاں کی جانے لگیں اور پہلے سے اوور بلنگ والے میڑوں کی تصویر اور چارجڈ ریڈنگ میں مطابقت پیدا کرنے کے لیے کاغذوں میں اُن کی ریڈنگ کو پیچھے کیا گیا جس سے صارفین اُن یونٹس سے محروم ہو گئے جن کی وہ ادائیگی کر چکے تھے۔ مزید برآں اسی دور میں سب سے غریب سطح کے صارفین (50 یونٹس سے کم استعمال والے) کو جرمانے کی مد میں یونٹس ڈال کر پیسے بٹورے اور لائن لاسز کی بہتری کا جواز بھی میسر آیا۔ ان سب وارداتوں کے باوجود بھی 2018ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے خاتمے کے وقت گردشی قرضہ 1.15 ٹریلین روپے پر پہنچ چکا تھا۔

تبدیلی والی پارٹی کے ابتدائی دو سالوں میں یہ قرضہ تقریباً ڈبل ہو کر 2.15 ٹریلین روپے پر پہنچ چکا تھا۔ سال 2019-20ء میں گردشی قرضے کے بڑھنے کی رفتار 1.5 ارب روپے روزانہ رہی۔ یعنی اس میں 45 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے اضافہ ہوا ہے۔ 2020-21ء کے اندر کافی ساری ادائیگیوں کے باوجود جون 2021ء تک یہ قرضہ 2.38 ٹریلین روپے ہو چکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق تحریکِ انصاف کی حکومتی مدت کے اختتام تک یہ قرضہ 4.5 ٹریلین روپے ہو جائے گا۔ حالانکہ گردشی قرضے کو بریک لگانے کے لیے تبدیلی والی پارٹی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کی شرائط کے تحت سرمایہ داروں کی دلالی کرتے ہوئے مئی 2021ء سے ہر سلیب کی بنیادی فی یونٹ قیمت میں 2 روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔ مزیدبرآں آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضوں کی شرائط کے تحت پی ٹی آئی کی حکومت 300 سے 700 یونٹ تک کی سلیب کو توڑ کر مزید چار سلیب بنا رہی ہے جس میں ہر سلیب کے حساب سے سبسڈی کا بتدریج خاتمہ اور قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جن گھریلو صارفین کے بل کی رقم 25000 روپے تک پہنچ جائے تو اُن کو اب اُسی بل میں 7.5 فیصد کے حساب سے انکم ٹیکس بھی لگایا جا رہا ہے۔ یہ طریقہ ایف بی آر کی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے اپنایا گیا ہے۔ مزید ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضوں کی شرائط کے تحت نجکاری کرنے کے اقدامات کر رہی ہے جس میں تین ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں پرائیویٹ چیف ایگزیکٹو افسر تعینات کیے گئے ہیں۔ اس سارے عرصے میں سرمایہ داروں کو بتدریج ٹیکس چھوٹ ہر جمہوری اور آمرانہ حکومت نے ہر دور میں مہیا کی حالانکہ ان سرمایہ دار طفیلیوں کی شرح منافع کی بنیاد پہلے ہی بجلی اور ٹیکس چوری پر ہے۔

یونین، مزدور اور حل

ریاستی اداروں میں اگر کہیں مزدوروں کی کوئی ایک یونین موجود ہے تو وہ واپڈا میں آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین بطور سیاسی روایت عرصہ دراز سے چلی آ رہی ہے۔ مزدوروں کی یہ روایت ملک کے پہلے آمر جنرل ایوب خان کے خلاف اُٹھنے والی عوامی بغاوت کے دوران ظہور پذیر ہوئی جب 25 مارچ 1969ء کو بانی ہائیڈرو یونین بشیر بختیار کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے واپڈا کے مزدوروں نے حکمرانوں کے ایوانوں کی بجلی منقطع کی۔ تب ہی ایوب خان جیسے آمر کو اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن ہو سکا۔ اُس کے بعد عہد کے جبر اور مزدور تحریک میں پسپائی آنے کے بعد ہائیڈرو یونین بطور روایت سی بی ایے کا سٹیٹس انجوائے کرتی رہی مگر عالمی ساہوکاروں کی عوام دشمن پالیسیوں اور ریاست کے جابرانہ مزدور دشمن اقدامات کے خلاف کوئی خاطر خواہ مزاحمت نہ کی گئی۔ جس سے مزدوروں میں نچلی سطح پر بد دلی کا پھیلاؤ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ادارے میں نئی بھرتیوں کا نہ ہونا، کام کے اوقاتِ کار میں اضافے کا دباؤ اور اس سے ہونے والے ناقابلِ تلافی نقصان، دفاتر کی ناگفتہ بہ حالت، مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ اور تنخواہ میں معمولی اضافہ مزدوروں میں ایک نئی بغاوت کے پنپنے کا کامل نسخہ ہے۔ آئی ایم ایف جیسے عالمی ساہوکاروں سے لیے گئے قرضوں کی بدولت کی جانے والی یہ ”اصلاحات“ عوام کے ساتھ ساتھ ادارے کے مزدوروں کے بھی معاشی قتل کا سبب ہیں۔ ایک مہینے سے زیادہ دنوں کی ریڈنگ بھی اتھارٹی کے دباؤ کے تحت یونٹ پورے کرنے کے لیے کروائی جاتی ہے کیونکہ اتھارٹی دو دو دفعہ اور بعض اوقات تین تین دفعہ بھی میٹر ریڈنگ کے حصول کے لیے مزدوروں کو فیلڈ میں بھیجتی ہے تاکہ لائن لاسز کی کمی کو کاغذوں میں بہتر بنایا جا سکے۔ اس عمل میں بھی مزدوروں کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے گا۔ اس لیے آج بجلی کے مزدوروں کے کندھوں پر یہ تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کا ادراک کریں کہ وہ ہی ایسا طبقہ ہیں جن کی قوت کی بدولت اس سامراجی جکڑ بندیوں کو توڑا جا سکتا ہے۔ جس کے ذریعے ہنگامی بنیادوں پر انقلابی اقدامات اُٹھاتے ہوئے گردشی قرضوں سمیت ہمہ قسمی سامراجی قرضوں کو ضبط کر لیا جائے اور بجلی کی تمام پیداوار اور ترسیل کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دے کر اس معاشرے کو حقیقی معنوں میں روشن کیا جا سکے۔ اور یہ ہو کر رہے گا۔ جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ہے:

اُدھر فلک کو ہے ضد بجلیاں گرانے کی
اِدھر ہمیں بھی ہے دُھن آشیاں بنانے کی