سعد الحسن
پاکستان میں میڈیکل اور پری میڈیکل سے جڑے طلبہ کے حالیہ عرصے میں اپنی نوعیت کے یہ کوئی پہلے احتجاجی مظاہرے نہیں ہیں بلکہ ستمبر 2020ء میں جب پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کو ایک نام نہاد آرڈیننس کے ذریعے اتوار والے دن تحلیل کر کے پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) کا قیام عمل میں لایا گیا تب سے طلبہ اپنے حق کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ میڈیکل کے شعبے کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ اس دن سے پاکستان میں میڈیکل کے طلبہ کو اپنا مستقبل تاریک ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پی ایم ڈی سی جو کہ پاکستان میں میڈیکل کے شعبہ کو ریگولیٹ کرنے کا ادارہ تھا اس کے پاس میڈیکل یونیورسٹیوں اور کالجوں کے نصاب، ڈاکٹروں کولائسنس کے اجرا اور رجسٹریشن جیسے تمام معاملات کے اختیارات تھے۔ مگر پی ایم سی کے قیام نے اس ادارے کی بنیادی ساخت کو تبدیل کرتے ہوئے اسے طلبہ دشمن پالیسی ساز ادارے کے طور پر سامنے لایا۔ اس آرڈیننس کے نفاذ سے پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کو غیر معمولی اختیار تفویض ہو گئے جس کے تحت وہ اپنی مرضی سے فیسوں کا تعین کر سکیں گے۔ حکومت کی جانب سے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں انتخابات کروانے کی بجائے اسے ختم کر دیا گیا اور اپنے من پسند لوگوں کو شعبہ میڈیکل پر تھوپنے کی تیاری کر لی گئی۔ یہ آرڈیننس سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری (MTI Act) کے خلاف سراپا احتجاج ڈاکٹروں سے سختی سے نمٹنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ یاد رہے کہ 2019ء میں وزارت برائے قومی صحت (این ایچ ایس) نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے پاکستان میڈیکل کونسل کی عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور کونسل کے رجسٹرار سمیت 220 ملازمین کو برطرف کر دیا گیا تھا۔ آرڈیننس کی شق 19 کے مطابق میڈیکل یا ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لئے تمام امیدواروں کو نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (NMDCAT) پاس کرنا ہو گا جو ملک بھر میں ایک ٹیسٹ ہو گا۔
اس طرح پی ایم سی کا قیام پرائیویٹ مافیا کی خوشنودی کے لئے عمل میں لایا گیا ہے اور اپنے آغاز سے ہی اس ادارے نے طلبہ دشمن پالیسیاں بنانا شروع کر دی ہیں۔ منافع خوری کی ہوس میں ایم بی بی ایس (MBBS) کے طلبہ پر این ایل ای (NLE) کی صورت میں ایک امتحان مسلط کیا گیا ہے جس کی فیس 12 ہزار روپے رکھی گئی ہے اور اس ٹیسٹ کو پاس کیے بغیر کوئی بھی ڈاکٹر اپنی پریکٹس کا آغاز نہیں کر سکتا۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے نہ صرف پیسے بٹورے جائیں گے بلکہ یہ بنیادی طور پر اس نظام اور حکومت کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے کہ جہاں اس قسم کے مختلف بیریئر لگا کر طلبہ کو روزگار سے دور رکھا جا رہا ہے۔ میڈکل کا شعبہ جو کہ ایک دور میں انتہائی ’معتبر‘سمجھا جاتا تھا آج بدحالی کا شکار نظر آتا ہے۔ البتہ اس ٹیسٹ کو رکھنے کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس سے میڈیکل فیلڈ اور ڈاکٹروں کے معیار کو بہتر کیا جائے گا حالانکہ یہ بیانیہ سراسر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے اور کسی حد تک مضحکہ خیز بھی ہے کہ جہاں پہلے ہی پانچ سال میڈیکل کے طلبہ اس معاشرے سے کٹ کر بھاری بھرکم کتابیں پڑھ کر اپنی ڈگری مکمل کرتے ہیں وہاں ان کو اب ایک اور امتحان کا سامنا ہو گا۔ یہ امتحان بنیادی طور پر اس تعلیمی نظام کے لئے نہ صرف ایک سوالیہ نشان ہے بلکہ اس کے منہ پر ایک تمانچہ ہے۔ مسئلے کا حل طلبہ کے اوپر نت نئے ٹیسٹ مسلط کرنے سے نہیں ہو گا بلکہ اس پورے طبقاتی اور منافع خوری پر مبنی تعلیمی نظام کو بدلنا ہو گا۔
اگر ہم پاکستان میں میڈیکل میں داخلے کے طریقہ کار کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ طلبہ کو میڈیکل میں داخلے کے لئے کڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے جسے ایم ڈی کیٹ (MDCAT) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں نوے فیصد سے زائد نمبر لے کر ہی آپ پاکستان کے کسی میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکتے ہیں اور پچاسی فیصد سے زائد نمبر بھی شاید آپ کو میڈیکل کالج میں داخلہ نہ دلوا سکیں۔ پاکستان کے بوسیدہ نظام تعلیم میں اتنی گنجائش نہیں کہ یہ طلبہ کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق ایدجسٹ کر سکے۔ داخلہ ہو جانے کے بعد پانچ سالہ کیریئر میں آپ کو پانچ پروفیشنل امتحان دینے پڑتے ہیں۔ اگر اس سب کے بعد بھی گریجویشن کرنے والے طلبہ کی قابلیت پر سوال اٹھایا جائے تو یہ مضحکہ خیز لگتا ہے۔ ہمیں وہ مقاصد سمجھنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے یہ امتحان لیا جا رہا ہے۔ بنیادی طور پر ان امتحانات سے کروڑوں روپے فیسوں کے نام پر طلبہ سے وصول کیے جاتے ہیں۔
این ایل ای کے اطلاق پر پاکستان بھر کے ڈاکٹروں اور میڈیکل طلبہ نے شدید غصے کا اظہار کیا ہے اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (YDA) اور دیگر طلبہ تنظیموں نے شاندار احتجاجی تحریک کا آغاز کر رکھا ہے جس کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیل چکا ہے۔ پی ایم سی نے جب 26 اگست کو امتحان منعقد کروانے کی کوشش کی تو طلبہ نے امتحانی مرکز کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا جس پر ریاستی تشدد کی بدترین مثال قائم کی گئی اور اس امتحان کو ملتوی کر دیا گیا۔ دو دن بعد دوبارہ امتحان لیا گیا اور اس بار جبر کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے ریاست نے سلفیورک ایسڈ اور پپر سپرے کا استعمال کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ امتحان بالآخر کنڈکٹ ہوا اور امتحان میں فارن گریجویٹس کو چھوڑ کر پاکستانی گیارہ ہزار گریجویٹس میں سے صرف تین سو نے امتحان میں حصہ لیا اور یوں بڑی تعداد نے اس امتحان کا بائیکاٹ کیا۔ یاد رہے یہ امتحان پہلے صرف فارن گریجویٹس سے لیا جاتا تھا جسے اب بہت ہی چالاکی سے پاکستانی میڈیکل طلبہ پر بھی مسلط کر دیا گیا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور دیگر میڈیکل طلبہ تنظیموں نے آنے والے عرصے میں تمام امتحانی مراکز کو بند کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے اور امتحان کو روکنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کا عندیہ دے رکھا ہے۔
اسی طرح پی ایم سی نے داخلی امتحان کے اندر بے شمار تبدیلیاں کیں اور ٹیسٹ کو آن لائن کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ٹیسٹ جو کہ پہلے ایک ہی دن میں ہوتا تھا اس دفعہ تقریباً ایک مہینے تک روزانہ دو شفٹوں میں چلتا رہا جو کہ اس کرپٹ نظام میں اس ٹیسٹ کی شفافیت پر خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کے اندر جہاں اتنی زیادہ ڈیجیٹل تقسیم موجود ہے اور وبا کے دوران یونیورسٹی طلبہ بھی آن لائن کلاسوں کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں وہیں پر پری میڈیکل کے طلبہ کے اوپر اس قسم کے تجربے کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ٹیسٹ لینے کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی ٹی ای پی ایس (TEPS) کو دیا جاتا ہے اور ٹھیکے کا اس کمپنی کو ملنا بھی اپنے اندر ایک بہت بڑی کرپشن ہے جس میں اس کمپنی کی رجسٹریشن ہی مقررہ تاریخ کے بعد ہوتی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اپنے من پسند لوگوں کو نوازانا تھا۔ جس کے بعد اس کمپنی نے ٹیسٹ کی فیس تین ہزار سے بڑھا کر چھ ہزار کر دی۔ تقریباً 2 لاکھ کے قریب طلبہ نے اس ٹیسٹ کی رجسٹریشن کروائی اور اس حساب سے یہ کل رقم 1.5 ارب کے قریب بنتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بلاجواز اس کمپنی کو حکومت کی طرف سے 115 ملین روپے بھی ایڈوانس میں دیے جاتے ہیں۔
اس آن لائن امتحان کے لئے طلبہ اور اساتذہ کی کوئی تربیت نہیں کی گئی اور یوں طلبہ کو بالکل کسی منصوبہ بندی کے بغیر ایک نئے تجربے میں ڈال دیا گیا۔ ایف ایس سی (FSc) کا دورانیہ کسی بھی طالبعلم کے تعلیمی کیریئر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس دوران ان کے ساتھ اس قسم کی ناانصافیاں اور تجربات سراسر ناقابل قبول ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی کروڑوں بچے اپنی بنیادی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔ اس دوران جو طلبہ معاشی مسائل کے باوجود اپنا اور اپنے والدین کا پیٹ کاٹ کر اس مرحلے تک پہنچتے ہیں ان کے ساتھ یہ سلوک روا رکھنا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
ٹیسٹ کے انعقاد کے فوراً بعد ہی طلبہ کی طرف سے بے شمار شکایات موصول ہوئیں۔ سسٹم کی سست روی، انٹرنیٹ کی سست رفتار اور دیگر بے شمار مسائل طلبہ کے لئے درد سر بنے رہے۔ اسی طرح سکپ (Skip) کیے گئے سوالات دوبارہ شو نہیں ہوتے تھے۔ سوالات سلیبس سے باہر سے بھی آئے اور نتائج کو بار بار تبدیل کیا گیا۔ ان تمام تر بے ضابطگیوں کے خلاف طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے آن لائن ٹیسٹ کو مسترد کر دیا اور این ایم ڈی کیٹ کو دوبارہ ایک ہی دن پورے ملک میں کنڈکٹ کرنے اور آنسرز کی (Answers Key) مہیا کرنے کا مطالبہ کیا۔ جو پی ایم سی نے مہیا نہیں کی۔ جب طلبہ کے تحفظات دور نہیں کیے گے تو طلبہ نے سڑکوں کا رخ کیا اور احتجاجی مظاہروں کا دور شروع ہوا۔ جس میں پری میڈیکل طلبہ کا احتجاجی دھرنا ایک چنگاری ثابت ہوا جب طلبہ پر لاٹھی چارج ہوا اور کئی طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی شہروں میں مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ طلبہ نے ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنا بھی دے رکھا ہے۔ ملک بھر سے طلبہ ان مظاہروں میں شریک ہو رہے ہیں۔ طلبہ دو بنیادی نکات کے گرد احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک تو ایم ڈی کیٹ کو دوبارہ ایک ہی دن فزیکلی کنڈکٹ کیا جائے اور ساتھ جوابات کی ’کی‘مہیا کی جائے۔
پاکستان تحریک انصاف کی ناکام اور بوکھلائی ہوئی حکومت پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل حل کرنے میں نہ صرف ناکام رہی ہے بلکہ مسائل میں مزید اضافہ کرتے ہوئے عام انسان کے لئے اس زمین پر زندہ رہنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کورونا وبا کے دوران بھی طلبہ کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا اور ایچ ای سی (HEC) کے بجٹ میں 50 فیصد تک کٹوتیاں کی گئیں اور اس طرح تعلیم کو عام عوام کی پہنچ سے مسلسل دور کیا جا رہا ہے۔ ان تمام تر حالات میں سماج کے اندر بے چینی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور کوئی بھی معمولی سا واقعہ ایک انقلابی تحریک کو جنم دے سکتاہے جس میں طلبہ، مزدور اور کسان کا اتحاد اس سرمایہ دارانہ نظام کو پاش پاش کرنے کے لئے کافی ہو گا۔