مائیکل رابرٹس

ترجمہ : حسن جان

چین کا ایورگرینڈ گروپ (Evergrande Group) ملک کا دوسرا بڑا پراپرٹی ڈویلپر ہے جو اب دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ایور گرینڈ نے ری سٹرکچرنگ کے لیے مشاورین کی خدمات حاصل کی ہیں اور خبر دار کیا ہے کہ گرتی ہوئی فروخت کی وجہ سے اس کی لیکویڈیٹی شدید دباﺅ کا شکار ہے۔ انہیں گھر خریدنے والوں اور ریٹیل سرمایہ کاروں کی جانب سے احتجاج کا سامنا ہے۔ جنوبی چین کے شہر شینزن میں موجود ایور گرینڈ کو 300 اَرب ڈالر کے واجبات ادا کرنے ہیں۔

اس کے حصص کی قیمت سال کے شروع کے مقابلے میں 76 فیصد گر گئی ہے۔ اگست میںایور گرینڈ کے بانی اور چین کے سب سے دولت مند اشخاص میں سے ایک ’شو جیاین‘ نے گروپ کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ شنگھائی میں کمپنی کے بانڈز کی فروخت معطل ہو چکی ہے۔ پولیس شینزن میں ایور گرینڈ کے دفتر میں اس وقت داخل ہوئی جب کمپنی کی مصنوعات میں سرمایہ کاری کرنے والے افراد ادائیگی کا مطالبہ کرنے آئے تھے۔

ایورگرینڈ کا زوال چین کی معیشت کے سرمایہ دارانہ شعبے میں پراپرٹی کی بے لگام سٹہ بازی کے خطرات کی غمازی کرتا ہے۔ ایور گرینڈ اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے گاہکوں کی ادائیگیوں پر انحصار کرتی ہے۔ ایورگرینڈ بنیادی طور پر ایک طرح کی پونزی اسکیم (Ponzi Scheme) ہے جس میں کمپنی اپارٹمنٹ کی ’پری سیل‘ اور ہزاروں انفرادی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کے ذریعے رقم اکٹھی کرتی ہے۔ کسی بھی پونزی سکیم کی طرح یہ اُس وقت تک کام کرتی رہی جب تک یہ آگے بڑھ رہی تھی۔ لیکن جب منڈی میں مندی آتی ہے تو رقم آنے کی رفتار مزید رقوم کی طلب کے مقابلے میں سست پڑ جاتی ہے۔ اس وقت ایورگرینڈ کے 800 نامکمل منصوبے ہیں اور تقریبا ً بارہ لاکھ لوگ ان کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اپنے نئے گھر میں بس سکیں۔

ایور گرینڈ کے ایک بڑے منصوبے وینس پراپرٹیز (شنگھائی سے 90 کلومیٹر دور ساحل پر واقع) کی مثال لیتے ہیں۔ 2012ءمیں فروخت کے آغاز کے بعد اس کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور مجموعی طور پر 80 فیصد اپارٹمنٹ فروخت ہوچکے ہیں۔ اگرچہ ایک تہائی میں ابھی تک کوئی نہیں رہتا۔ لیکن اس سال فروخت میں کمی آئی ہے۔ کیڈونگ (Qidong) میونسپل ہاﺅسنگ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 15 فیصد رعایت کے باوجود فروخت کے لیے پیش کیے جانے والے اپارٹمنٹس کا صرف 60 فیصد فروخت ہواہے۔ ایورگرینڈ نے اب اپنے تمام اپارٹمنٹس کی قیمتوں میں 30 فیصد تک ڈسکاﺅنٹ کی آفر دی ہے اور اپنی ذیلی کمپنیوں کے شیئرز کے فروخت کے ذریعے رقم اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایورگرینڈ کی یہ صورتحال شہر بسانے (Urbanization)کی اُس مہم کا اختتام ہے جو چینی عوام کو رہائش فراہم کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ اربنائزیشن شرح 2011ءمیں 50 فیصد کے مقابلے میں پچھلے سال 60 فیصد سے زیادہ تھی جس نے چین کے شہروں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ لیکن چونکہ شہر سازی نجی شعبے کی جانب سے منافع خوری کے لیے تھی اور اس کی بنیاد مالک کے قبضے پر تھی (90 فیصد چینی کسی رہن کے بغیر اپنے گھروں کے مالک ہیں) اس لئے رہائشی مکانات کی تعمیر جی 7 ممالک کی مانند مالیاتی اثاثوں کی سرمایہ کاری کا ایک ذریعہ بن گئی تھی۔ اس ’مالیاتی دھندے‘ کا آغاز 1990ءکی دہائی میں ہوا تھا جب حکومت نے ریاستی کمپنیوں کے رہائشی اثاثوں کو اپنے ملازمین کو منتقل کرنے کی پالیسی اپنائی۔اس کے پیچھے یہ فکر کارفرما تھی کہ آج کے بعد رہائش ریاست کی بجائے نجی شعبے کی ذمہ داری ہوگی۔

اس سے رہائش کا شعبہ شی جن پنگ کے الفاظ میں، ”گھر بسانے “ کی بجائے ”سٹہ بازی“ کا ایک ذریعہ بن گیا۔ بہت کم لوگ ایورگرینڈ کے مکانات اُن میں رہنے کے لیے خریدتے ہیں۔ ایورگرینڈ خوشحال چینیوں کی دلچسپیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی اسکیموں کے لیے ایسے علاقوں کا انتخاب کرتی ہے جہاں ایک فرد کے زیادہ مکانات خریدنے پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ ان مکانات کی تشہیر دوسرے گھر کے طور پر کی جاتی ہے۔ پورے چین میں کلرکوں اور فیکٹری مزدوروں تک کے پاس بھی ایورگرینڈ کے خالی اپارٹمنٹ ہیں جنہیں وہ منافع پر بیچ کر اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات یا اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کے اخراجات پورے کرنا چاہتے ہیں۔

ساحلی شہروں، جہاں اچھی نوکری اور بہترین تنخواہیں ملتی ہیں، میں پراپرٹی کی قیمتیں پچھلے دس سالوں میں دگنی ہوچکی ہیں۔ شینزن میں اپارٹمنٹس کی اوسط قیمت ہانگ کانگ سے بھی بڑھ چکی ہے۔ حالانکہ ہانگ کانگ کی پراپرٹی کی قیمتیں دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ 2015ءکے بعد سے چین کے بڑے شہروں میں رہائشی مکانات کی قیمتیں 50 فیصد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں چوٹی کے دس شہروں میں فی رہائشی کے حصے میں آنے والی اوسط زمین 230 مربع فٹ ہے۔ یعنی ایک عام ہوٹل کے کمرے سے تھوڑی زیادہ‘ یا چین میں فی کس اوسط رہائشی زمین کے 60 فیصد سے بھی کم۔

سٹہ بازی کی بھرمار رہی ہے۔ مقامی حکومتیں فنڈز کے حصول کے لیے پراپرٹی ڈویلپرز کو زمینیں بیچتی ہیں جو غیر قانونی بینکوں سے کم شرح پر قرضے لے کر تعمیرات کرتے ہیں۔ چینی معیشت کے ایک ماہر کے مطابق، ”چین میں مالیاتی خطرات اور دولت کی نابرابری کے سب سے اہم ماخذوں میں سے ایک پراپرٹی ہے۔“ یہ بات درست ہے۔

پراپرٹی کے شعبے میں زیادہ تر سٹہ بازی کا مقصد رہائش کے مسئلے کو حل کرنے کی بجائے کاروباری مقاصد حاصل کرنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوکل حکومتوں کے نزدیک سب سے اہم کام اپنی آمدنی بڑھانا ہے۔ اگر وہ زیادہ کاروباریوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں اور وہ کاروباری منافع کماتے ہیں تو اس سے لوکل گورنمنٹ کو کارپوریٹ ٹیکسوں کی مد میں زیادہ آمدنی ملے گی۔ اسی اثنا میں رہائشی زمین کی ترسیل جان بوجھ کر قلیل رکھی جاتی ہے تاکہ رہائشی زمین کی فروخت سے زیادہ پیسے کمائے جاسکیں۔

آج رئیل اسٹیٹ کا شعبہ معیشت کا 13 فیصد ہے (1995ءمیں 5فیصد تھا) اور مجموعی قرضوں کا 28 فیصد اسی شعبے سے متعلقہ ہے۔ مقامی حکومتوں کے ذمے 10 ٹریلین ڈالر کے قرضے ہیں اور زمینوں کی فروخت قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے ان کا سب سے اہم اور قابل اعتماد ذریعہ آمدن ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پراپرٹی کے شعبے میں کسی طرح کی منفی تبدیلی مقامی حکومتوں کو دیوالیہ کر سکتی ہے۔

پراپرٹی کے نجی شعبے کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ وہ بڑی مقدار میں قرضے لے کر زیادہ سے زیادہ زمینیں خریدتے ہیں۔ ایورگرینڈ کے پاس اتنی زمین ہے کہ وہ پرتگال کی آبادی کے برابر لوگوںکو رہائش دے سکتے ہیں۔ ایورگرینڈ کے قرضوں کا مسئلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت کی ”سرمائے کے بے ہنگم پھیلاﺅ“، بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں، رئیل اسٹیٹ اور دیگر شعبوں کی طرف پالیسی تبدیل ہوئی ہے۔ وزارت ہاﺅسنگ نے پراپرٹی کے شعبے کو سخت قاعدے میں لانے کے لیے تین سالہ چھان بین مہم کا آغاز کیا ہے۔ پچھلے سال حکومت نے ایک سخت پالیسی لاگو کی تاکہ پراپرٹی ڈویلپرز کے قرضوں کو کم کیا جاسکے جو چین کے بینک ریگولیٹر کے مطابق ملک کو درپیش سب سے بڑا مالیاتی خطرہ ہیں۔ بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گروی(Mortgage) کے ریٹ بڑھا دیں۔ مقامی حکومتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حکومتی سبسڈی کے حامل کرائے کے مکانات کی تعمیر کو فروغ دیں۔ انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ڈویلپرز کو دیئے جانے والے قرضوں، نئے مکانات کی قیمتوں اور جائیدادوں کی منتقلی کی سخت جانچ پڑتال کریں۔

مالیاتی شعبے کی کلاسیکی طرز پر ایورگرینڈ نے اپنے معمولات کو چلانے کے لیے ’ویلتھ مینجمنٹ پراڈکٹس‘ کا اجرا کیا جو دراصل چینی اور غیر ملکی انفرادی سرمایہ کاروں کے لیے گروی والے بانڈز ہیں جن کی شرح سود بلند ہے (7 سے 9 فیصد)۔ اب کمپنی اپنے ان واجبات کو ادا کرنے سے معذوری کا اعلان کر رہی ہے۔ ایورگرینڈ اور دیگر پراپرٹی کمپنیوں کے بے تحاشہ قرضوں کے اس پھیلاﺅ کو چین کی ریگولیٹری اتھارٹی نے پہلے نظر انداز کیا ۔ بالکل 2008ءکے بحران سے پہلے امریکہ کی طرح۔

ایورگرینڈ کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں کیا ہو گا؟ کیا دیگر پراپرٹی کمپنیاں بھی دیوالیہ ہو جائیں گی؟ کیا چین اور ممکنہ طور پر پوری دنیا میں ایک دیوہیکل مالیاتی انہدام ہونے جا رہا ہے جس کی وجہ چین کے پراپرٹی کے ابھار کا اختتام ہوگا؟ دراصل چار اور چینی پراپرٹی کمپنیاں ہیں جو دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ ان کمپنیوں کے جاری کردہ ڈالر بانڈز کی قیمتیں عالمی سرمایہ کاروں کے اس خوف سے گر گئی ہیں کہ بانڈز کی میچورٹی کے بعد انہیں ادائیگی نہیں ہو سکے گی۔ جس کا مطلب دیوالیہ ہونا ہے۔ یعنی ان بانڈز کے بیرونی سرمایہ کار زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ اور یہ کمپنیاں نئے قرضے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہیں گی۔

لیکن میرے خیال میں چین میں مالیاتی کریش نہیں آئے گا۔ حکومت تقریباً تمام چیزوں کو کنٹرول کرتی ہے بشمول مرکزی بینک، چاربڑے ریاستی کاروباری بینک (جو دنیا میں سب سے بڑے ہیں)، نام نہاد بیڈ بینک (Bad Banks) (جو ناقابلِ واپسی قرضوں کو جذب کرتے ہیں)، بڑے ایسیٹ منیجنگ ادارے اور زیادہ تر بڑی کمپنیاں وغیرہ۔ حکومت ان چار بینکوں کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ ناقابل ادا قرضوں کا حصہ داری سے تبادلہ کرکے انہیں بھول جائیں۔ مرکزی بینک یعنی پیپلز بینک آف چائنہ کو معاملات کو کسی بھی طریقے سے سنبھالنے کا کہا جاسکتا ہے۔ ریاستی ایسیٹ منیجنگ اداروں اور پنشن فنڈز کو حکم دیا جاسکتا ہے کہ وہ حصص اور بانڈز خریدیں تاکہ قیمتوں کو سنبھالا اور کمپنیوں کو فنڈ مل سکے۔ ریاستی بیڈ بینکوں (Bad Banks) کو کمرشل بینکوں کے ناقابل ادا قرضے خریدنے کا حکم دیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا معاشی بحران کا امکان نہیں ہے۔ کیونکہ ریاست بینکنگ کے نظام کو کنٹرول کرتی ہے۔

لیکن اگر معاشی بحران نہیں آتا تو پراپرٹی کے شعبے کے انہدام اور اس کے بے تحاشہ قرضوں کا کیا ہوگا؟کیا اس سے چین کی تیز ترقی اور آئندہ پانچ سال کے معاشی نمو کے اہداف متاثر نہیں ہوں گے؟ مغربی معاشی ماہرین کو یقین ہے کہ قرضے اتنے زیادہ ہیں اور چین کا پیداواری شعبہ اب اتنا کمزور ہے کہ اگر چین مالیاتی بحران سے بچ بھی جاتا ہے اس کے باوجود گھریلو آمدنی اور سرمایہ دارانہ شعبے کو پہنچنے والے نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ سرمایہ کاری اور شرح نمو کم ہوجائے گی۔ کساد بازاری نہ سہی‘ چین میں معاشی جمود آنے والا ہے۔

یہ بات سچ ہے کہ حالیہ سالوں میں چین کے قرضے بہت بڑھ گئے ہیں جن کا بہت بڑا حصہ پراپرٹی کے شعبے سے متعلقہ ہے۔ 2020ءمیں مجموعی قرضے جی ڈی پی کا 317 فیصد تھے۔ لیکن ان قرضوں کا بیشتر حصہ مقامی کرنسی میں ہے اور ایک ریاستی ادارے نے دوسرے ریاستی ادارے کا قرضہ دینا ہے۔ یعنی لوکل گورنمنٹ کے ریاستی بینکوں سے اور ریاستی بینکوں کے مرکزی حکومت سے لیے ہوئے قرضے۔ جب سب کو منہا کیا جائے تو گھریلو قرضے (جی ڈی پی کا 54فیصد) اور کارپوریٹ قرضے اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ جبکہ مرکزی حکومت کے قرضے عالمی معیارات کے مطابق کم ہیں۔ اس کے علاوہ ڈالر کی شکل میںبیرونی قرضے جی ڈی پی کا محض 15 فیصد ہیں۔ درحقیقت باہری دنیا کے چین سے لیے ہوئے قرضے کہیں زیاد ہ ہیں۔ یعنی کل عالمی قرضوں کا 6 فیصد۔ چین دنیا کو قرضہ دینے والا بڑا ملک ہے اور اس کے پاس ڈالر اور یورو کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جو اس کے بیرونی ڈالر کے قرضوں سے 50 فیصد زیادہ ہے۔

چین کی حکومت قرضوں کو کم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ یہ دو صورتوں میں ممکن ہے۔ یا تو پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کر کے بلند شرح نمو لائی جائے ۔ یا غیر پیداوار شعبوں جیسے پراپرٹی کی سٹہ بازی میں دیئے جانے والے قرضوں کو کم کیا جائے۔ آخر الذکر کا نتیجہ چین کے سرمایہ دارانہ شعبے کے شرح منافع میں کمی کی صورت میں نکلے گا۔ جس سے اس شعبے میں پیداواری سرمایہ کاری کے امکانات کم ہوں گے۔ یعنی پراپرٹی کا بلبلہ پھٹنے سے منافع اور گھریلو آمدنی متاثر ہوگی جس سے پیداواری نمو اور آمدنی پر دباﺅ آئے گا۔

اس پیشین گوئی کی بنیاد اس سوچ پر ہے کہ چینی حکومت ترقی کے لیے اپنے سرمایہ دارانہ شعبے پر انحصار جاری رکھے۔ لیکن جی 7 ممالک کی معیشتوں کی طرح چین کا سرمایہ دارانہ شعبہ بھی مختلف مسائل کا شکار ہے۔ سرمایہ دارانہ شعبے کی شرح منافع گر رہی ہے اور اپنی کم ترین سطح پر ہے۔ اس کی بیشتر سرگرمیاں غیر پیداواری شعبوں میں مرکوز ہیں۔

جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ چین کی معیشت کا بنیاد تضاد سرمایہ کاری اور کھپت یا نمو اور قرضے کے بیچ نہیں ہے۔ اس کا بنیاد تضاد شرح منافع اور پیداواریت کے درمیان ہے۔ چین میں سرمایہ دارانہ شعبے کا بڑھتا ہوا حجم اور اثر و رسوخ معیشت کی کارکردگی کو متاثر کر رہا ہے اور عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ میرے خیال میں چینی معیشت اب اتنی طاقتور ہے کہ نمو کے لیے بیرونی سرمایہ کاری یا غیر پیداواری سرمایہ دارانہ شعبے پر انحصار نہ کرے۔ منصوبہ بندی اور ریاستی سرمایہ کاری، جو پچھلے ستر سالوں میں چین کی معاشی کامیابی کی بنیاد رہی ہے، کی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔