ذیشان خان

یوں تو ماحولیات میں منفی تبدیلیوں کا رجحان صنعتی انقلاب سے تیز رفتاری سے جاری و ساری ہے مگر پچھلی چند دہائیوں میں اس کے اثرات انتہائی شدید اور واضح ہو رہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں شمال مشرقی ایشیا میں آباد ملک چین میں آنے والا سیلاب، مغربی خطوں میں یورپ، کینیڈا اور امریکہ وغیرہ میں مختلف قدرتی آفات، درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ، ہیٹ ویوز، ترکی کے جنگلات میں لگنے والی آگ (جو یونان سے ہوتی ہوئی یورپ کے دیگر ممالک میں پھیل گئی)، دو سال قبل آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ، بر اعظم امریکہ میں آنے والے حالیہ طوفان جن کی وجہ سے نیو یارک اور نیو جرسی، وینزویلا، کیوبا، کولمبیا اور شمالی امریکہ کے دیگر حصے بری طرح متاثر ہوئے۔

21-22 اگست 2021ءکو چین کے شہر ہینان میں آنے والے اس سیلاب نے 300 سے زائد انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیا جبکہ 30 لاکھ سے زائد افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ اس سیلاب کی وجہ موسلا دھار بارش تھی جو کہ چین کی جدید تاریخ کی شدید ترین بارشوں میں سے ایک تھی۔

اسی طرح مغربی ملک کینیڈا میں موسم گرما کے دوران ہیٹ ویوز کی وجہ سے تاریخ کے بلند ترین درجہ حرارت دیکھنے کو ملے۔ مثلاً کینیڈا میں 2021ءکے موسم گرما کے دوران 49.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا جو کہ کینیڈا کی تاریخ میں درجہ حرارت کی بلند ترین سطح تھی۔ اس سے قبل پچھلے عرصے میں کینیڈا کے درجہ حرارت میں مستقل طور پر عمومی درجہ حرارت کی نسبت 4 سے 5 ڈگری کا اضافہ دیکھنے کو ملا۔

2019ءمیں آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے 3 بلین جانور اور لاکھوں ایکڑ کے جنگلات جل کر خاکستر ہو گئے۔ امریکہ میں آنے والے حالیہ طوفان ’IDA‘ کے دوران ہوا کی رفتار 240 کلو میٹر فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی جو کہ تاریخ کی تیز ترین آندھیوں میں سے ایک تھی۔ اسی طرح اس طوفان سے ہونے والا نقصان بھی تاریخی تھا۔ اس طوفان کی وجہ سے 117 افراد ہلاک اور لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔ اسی طرح اس طوفان سے 50.648 بلین ڈالروں کی املاک کا نقصان بھی غیر معمولی تھا۔ اس طوفان نے براعظم کے بہت سے ممالک میں تباہی مچا کے رکھ دی۔ جن میں وینزویلا، کیوبا، کولمبیا اور شمالی امریکہ کی دیگر ریاستیں اور ممالک شامل ہیں۔ اس سے نیو یارک اور نیو جرسی جیسے ترقی یافتہ شہر مکمل طور پر زیر آب آ گئے۔ 2020ءمیں آنے والے طوفان’ Laura‘ نے بھی 80 افراد کی جان لے لی تھی جبکہ اس کی وجہ سے 19 بلین ڈالروں سے زائد کی املاک کو نقصان پہنچاتھا۔

ماحولیاتی بحران کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجوہات میں گرین ہاوس گیسوں کا زائد اخراج شامل ہے۔ گرین ہاوس گیسوں کا زائد اخراج زمین کے گرد ایک تہہ بنا کر اسے غلاف کی طرح ڈھک لیتا ہے۔ زمین کی حرارت کو یہ غلاف زمین کی طرف واپس منعکس کر دیتا ہے۔ اس طرح ہمارے ماحول سے درجہ حرارت کا اخراج نہیں ہو پاتا اور زمین سمیت پورا ماحول مزید گرم ہوتا رہتا ہے۔

گرین ہاوس گیسوں کا 65 فیصد حصہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔ جس کا اخراج ایندھن (کوئلہ، خام تیل اور تیل کی دیگر مصنوعات) کے جلنے کے دوران ہوتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا 73 فیصد توانائی کے شعبے سے وابستہ ہے جبکہ 5.2 فیصد دیگر صنعت اور 18.4 فیصد فارمنگ اور زراعت وغیرہ سے منسلک ہے۔ گرین ہاوس گیسوں میں دوسری بڑی گیس میتھین ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 84 فیصد زیادہ ماحول کو گرم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں نائٹروجن آکسائیڈ اور مختلف فلورینیٹڈ گیسیں بھی شامل ہیں۔ جن کی مقدار نسبتاً کم ہے مگر ماحول کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ ان میں سے میتھین کا اخراج تیل اور گیس کے ذخائر کی کشیدگی، بڑے ڈیموں کی تعمیر اور جانوروں کی فارمنگ کے دوران ہوتا ہے۔

اس وقت کرہ ارض کا درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے بعد 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ چکا ہے۔ آئی پی سی سی کی اگست 2021ءمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کا درجہ حرارت جلد 1.5 ڈگری تک بڑھنے کا قوی امکان ہے جو آنے والی دہائیوں کو مزید گرم بنا دے گا۔ اس کے بعد اگر گرین ہاوس گیسوں کا فوری اخراج روک بھی دیا جائے تب بھی 1.5 ڈگری پر تقریباً 10 کروڑ انسان سالانہ ہیٹ ویوز کا شکار ہوں گے جبکہ اربوں انسانوں کو خشک سالی کا سامنے کرنا پڑے گا۔ جانوروں اور پودوں کی کئی نسلیں معدوم ہو جائیں گی۔ کورل ریفز (آبی ایکو سسٹم) کے مرنے کے واقعات میں مزید تیزی آتی جائے گی۔ فوری طور پر گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کو نہ روک پانے کی صورت میں اگلی چند دہائیوں میں دنیا کا درجہ حرارت 4 سے 5 ڈگری تک بڑھ جانے کا بھی امکان موجود ہے۔ موجودہ درجہ حرارت پر جو طوفان 10 سال بعد آ رہے ہیں وہ صنعتی انقلاب سے قبل 50 سال بعد آتے تھے۔ 1.5 ڈگری پر یہ طوفان ہر پانچ سال بعد آئیں گے جبکہ درجہ حرارت کے 2 ڈگری تک بڑھ جانے کے بعد اس طرح کے طوفان ہر سال کا معمول بن جائیں گے۔

گرین ہاوس گیسوں کے علاوہ ماحول کو پلاسٹک کی صورت میں بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام ’UNEP‘ نے پلاسٹک کو گرین ہاوس گیسوں کے بعد سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ پلاسٹک محض زمین اور پانی کو ہی نہیں بلکہ ہوا کو بھی آلودہ کر رہا ہے۔ یہ درجہ حرارت کو بھی بڑھانے میں اہم کردار ادا رہا ہے۔ گارڈین کی شائع کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباً 5 ارب پلاسٹک بوتلیں، ہر منٹ میں 10 لاکھ بوتلیں جبکہ ہر سیکنڈ میں 20 ہزار بوتلیں فروخت ہوتی ہیں اور اس کی فروخت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس سال کے اختتام تک پلاسٹک کی پیداوار میں 20 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ 2016ءمیں فروخت ہونے والی 480 بلین بوتلیں اس سے قبل 10 سال کی 300 بلین بوتلوں کی نسبت بہت زیادہ اضافہ ہے۔ دنیا میں موجود پلاسٹک کے تمام کچرے کو اٹھا لیا جائے تو زمین سے سورج کے فاصلے کے تقریباً نصف فاصلے کا مینار تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ہر سال 5 سے 13 ملین ٹن پلاسٹک سمندر بُرد کیا جاتا ہے اور اس مقدار سے سمندروں میں موجود پلاسٹک 2050ءتک مچھلیوں کے وزن سے بڑھ جائے گا۔ ہر سال پوری دنیا کے انسانوں کے وزن کے برابر یا اس سے بھی زائد پلاسٹک پیدا کیا جا رہا ہے۔ پیٹرو کیمیکل سے بنائی جانے والی پلاسٹک کی فطری عمر ہزاروں سال ہے جبکہ اس کا صرف 7 فی صد ہی آج تک ری سائیکل ہوا ہے۔ ری سائیکل ہونے والا پلاسٹک بھی دوسری شکلوں میں اسی زمین پر موجود ہے۔ یہ صرف آبی حیات کے لئے آکسیجن پیدا کرنے والے الجی کی موت کا باعث نہیں بن رہا بلکہ ہماری خوراک میں شامل ہو کر کینسر جیسے موذی امراض کا باعث بھی بن رہا ہے۔ سمندری خوراک کے ذریعے ہر سال پلاسٹک کی خطرناک مقدار ہمارے جسم تک پہنچتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ زمین پر فصلوں میں شامل ہو کر ہمارے جسم تک بھی پہنچ رہا ہے۔ پیٹرو پلاسٹک جیسے خطرناک طریقے سے پلاسٹک کو بنائے جانے میں تیل کی اجارہ داریوں کے مفادات شامل ہیں۔ حالانکہ اس کے متبادل کے طور پر بھنگ سے پلاسٹک تیار کرنے سے ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بھنگ سے بنی پلاسٹک خود بخود ماحول میں تحلیل ہو جاتی ہے اور اس کی پیداواری لاگت بھی پیڑو پلاسٹک سے زائد نہیں ہے۔ اسی طرح کپڑے کی صنعت میں بھی بھنگ کو کپاس سے تبدیل کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر قابل کاشت زمین اور پانی کو بچایا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود بھنگ کی کاشت پر پابندی اور پیڑو کیمیکل اجارہ داریوں کو ریاستوں کی طرف سے بھاری سبسڈیز دی جا رہی ہیں۔ اگر فوری طور پر پلاسٹک کا مسئلہ حل نہیں کیا جاتا تو درجہ حرارت میں مزید اضافے، آبی حیات کو نقصان پہنچنے، قابل کاشت زمین کے بنجر ہونے اور پانی کی قلت جیسے مسائل شدت اختیار کر سکتے ہیں۔

آئی پی سی سی کی 2019ءمیں ماحولیاتی مسئلہ پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ماحول میں ہونے والی 9 ایسی تبدیلیوں کا امکان بڑھ گیا ہے جو اس کرئہ ارض سے انسانوں سمیت ہر طرح کی زندگی یا حیات کے خاتمے کا باعث بن سکتیں ہیں۔ ان میں ایمازون کے جنگلات کا خاتمہ، کورل ریفز کا مرنا، گلف کینال کا خاتمہ، بوریل جنگلات کا خاتمہ، شمالی قطب میں گرین لینڈ کا خاتمہ، مشرقی اور مغربی انٹارکٹیکا کے برفانی گلیشیئر کا پگھلنا شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک تبدیلی ماحولیاتی بحران کو ناقابل حل سطح تک بگاڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر برازیل کی گوشت کی صنعت کے لئے فارمنگ اور تیل اور گیس کے ذخائر کے لئے ایمازون کے جنگلات کی صفائی اسی طرح جاری رہی تو اگلے چند سال میں ایمازون کے جنگلات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ایمازون دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے جسے زمین کے پھیپڑے بھی کہا جاتا ہے اور یہ زمین کے درجہ حرارت کو بھی کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ جنگل دنیا میں سب سے زیادہ جانوروں کی انواع کی آماجگاہ بھی ہے۔ جانوروں کی بہت سی انواع ایسی بھی ہیں جو دنیا میں محض ایمازون کے جنگلات میں ہی پائی جاتی ہیں۔ ماحولیاتی سائنسدانوں کے مطابق ایمازون کے جنگلات کا خاتمہ زندگی کے خاتمے پر منتج ہو سکتا ہے۔

اسی طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھنے سے سمندری پانی کی تیزابیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سمندری پانی کا پی ایچ تقریباً 8.4 ہوتا ہے اور اس اساسی پی ایچ کی وجہ سے اپنے گرد سخت حصار بنا کر رہنے والے جاندار اپنے شیل کے لئے کیلشیم اور کاربونیٹ جمع کر پاتے ہیں۔ ان میں کورل ریفز بھی شامل ہیں جو کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ایکو سسٹم ہے۔ کورل ریفز ماحول میں ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے اپنے اندر سے الجی کو نکال باہر کرتے ہیں۔ اس سے ان کا رنگ سفید پڑ جانے کے بعد بالآخر وہ مر جاتے ہیں۔ کورل ریفز سمندر کے حجم کا محض 0.1 فیصد ہونے کے باوجود ایک تہائی سمندری جانداروں کی آماجگاہ ہیں۔ کورل ریفز براہ راست 50 کروڑ سے زائد انسانوں کے روزگار کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ کھربوں ڈالروں کی پیداوار، سیاحت اور ماہی گیری کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر کرئہ ارض کا درجہ حرارت 2 ڈگری تک بڑھتا ہے تو کورل ریفز کی بڑی مقدار کا خاتمہ ہو جائے گا جو کہ ماحولیات میں ناقابل واپسی تبدیلی ہو گی۔

عالمی ماحولیاتی سائنسدانوں، اقوام متحدہ و دیگر عالمی اداروں اور ہالی ووڈ سمیت دیگر ذرائع نے ماحولیاتی بحران کے بارے بہت سارا مواد شائع کیا مگر کوئی بھی مستقل حل دینے یا وقتی حل پر عمل درآمد کروانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ ماحولیاتی بحران جس نہج پر پہنچ چکا ہے یہاں پر کرئہ ارض اور انفرادی لالچ پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام میں سے کسی ایک ہی کی بقا اب ممکن رہی ہے۔ ہالی ووڈ کی ماحولیات پر بننے والی زیادہ تر فلموں میں بھی نسل انسانی اور دیگر حیات کو بچانے کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کا تناظر ہی دکھایا گیا ہے۔ انفرادیت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام میں اگر کوئی حل دیا بھی جاتا ہے تو وہ انفرادی ہیرو اور عظیم شخصیات کی صورت میں قرار دیتے ہوئے بڑی صفائی اور مہارت سے اکثریت کو اس مسئلے سے بیگانہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماحولیاتی مسئلے پر عالمی شہرت حاصل کرنے والی بچی گریٹا تھنبرگ کی صورت میں موجودہ وقت میں بھی اس مسئلے کی ’کاموڈیفیکیشن‘ کر دی گئی ہے۔ تمام عالمی ماحولیاتی سائنسدان اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ’ انسان‘ ہی اس مسئلے کی وجہ بن رہا ہے۔ مگر بڑی ڈھٹائی اور کمال مہارت سے انسان کا لفظ استعمال کر کے اس کے پیچھے عالمی حکمران طبقے، اجارہ داریوں، بڑے سرمایہ کاروں اور سامراجی طاقتوں کے جرائم اور ان کی پیدا کردہ غلاظتوں کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ توانائی و صنعت سے جڑے شعبے کی وجہ سے ہونے والے اخراج میں سب سے زیادہ ہاتھ بڑی صنعتی سامراجی ریاستوں کا ہے جہاں خاص کر جنگی صنعت کے پھیلاو میں تیز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 73 فیصد گرین ہاوس گیسوں کا اخراج توانائی کے شعبے سے وابستہ ہے جہاں تیل اور گیس جیسی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ حالانکہ یہاں بھی ’فیوژن‘ کی شکل میں متبادل طریقہ موجود ہے۔ فیوژن ایک ری نیو ایبل انرجی (قابل تجدید توانائی) کی شکل ہے جو پوری دنیا کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے سب سے محفوظ اور ممکن طریقہ کار کی صورت میں موجود ہے۔ یہ محض کوئی تھیوری نہیں بلکہ چین کے اندر حالیہ عرصہ میں 120s فیوژن ٹیکنالوجی کے ذریعے کامیاب تجربہ کیا گیا ہے جو کہ توانائی کے شعبے میں ایک سنگ میل عبور کرنے کے مترادف ہے۔ فیوژن بہت جلد توانائی کا متبادل ذریعہ بن کر ابھر سکتی ہے بشرطیکہ اس میں سرمایہ کاری کی جائے۔ لیکن توانائی کے شعبے میں بھی تیل کی اجارہ داریوں کے کھربوں ڈالروں کے منافعے داو پر لگ سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار کا مقصد منافع اور شرح منافع کا حصول ہے اور منڈی کی حرکیات ہی اس بات کا فیصلہ کرتی ہیں کہ سرمایہ کاری کہاں کی جائے اور کہاں نہیں۔

جریدے گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لئے اگلی دو دہائیوں میں 300-500 بلین ڈالروں کی سالانہ سرمایہ کاری درکار ہے۔ اسی طرح پلاسٹک کو دنیا سے صاف کرنے کے لئے تقریباً 25 بلین ڈالر کے سالانہ اجرا کی ضرورت ہے۔ جو کہ کوئی بھی سرمایہ دار کہیں منافع خوری کے لئے تو لگا سکتا ہے مگر کرئہ ار ض کو بچانے کے لئے نہیں کیونکہ کرئہ ارض کو بچانا کسی انفرادی سرمایہ دار کا مقصد نہیں ہو سکتا۔ اس وقت پوری دنیا کی کل دولت کا نصف محض دنیا کے 7 سرمایہ داروں کے قبضے میں ہے جو انسانیت کے کسی استعمال میں نہیں اور دوسری طرف ریاستوں کے پاس ماحولیاتی مسئلے سے نمٹنے کے لئے وسائل موجود نہیں ہیں اور دنیا کی کم و بیش تمام ریاستیں خود نجی سرمایہ داروں کی مقروض ہیں۔

ہمیشہ کی طرح اس سال بھی آئی پی سی سی کی 26 ویں ماحولیاتی کانفرنس نومبر میں منعقد ہونے جا رہی ہے۔ اس سے قبل بھی ہونے والی کانفرنسیں اختلافات کے باعث کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائیں۔ جو تھوڑا بہت اتفاق ہوا بھی اس پر عملدرآمد کے لئے ریاستوں کے پاس وسائل ہی موجود نہیں تھے۔ اس مرتبہ بھی دنیا کی دو بڑی معیشتوں میں جاری تجارتی اور سرد جنگ اس کانفرنس کی ناکامی کے بہانے کے طور پر سامنے آ سکتی ہے۔ اس کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی امریکہ اور چین کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی شروع کر دی گئی ہے۔ خصوصاً امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کو ماحولیات کے مسئلے کی وجہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے چین پر اقتصادی پابندیاں بڑھانے کی مانگ کر دی ہے۔ ان خصی سرمایہ دارانہ ریاستوں و قومی نمائندگان کی بنیاد پر ماحولیاتی مسئلے کا حل کسی صورت ممکن بھی نہیں ہے۔ اس سے قبل کورونا وبا کے پھیلاو کے دوران بھی ہمیں نظر آیا کہ کس طرح امریکی صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ بظاہر مضحکہ خیز مگر حقیقتاً ایک مجرمانہ لڑائی بنا کر نیشنلزم کی بنیاد پر ایک عالمی مسئلے کو حل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ ایک عالمی تعاون کی فضا میں کورونا کے نقصان کو کم کیا جا سکتا تھا مگر ایسا عالمی تعاون سرمایہ دارانہ معیشت اور سیاست کے ذریعے ممکن نہیں تھا۔ ماحولیات جیسا عالمی اور اہم مسئلہ حل کرنا اس انفرادی مفادات پر مبنی نظام کی گنجائش سے باہر ہو چکا ہے۔ یہاں منڈی کا غیبی ہاتھ ہی اقوام عالم کے درمیان تعلق کا تعین کرتا ہے۔

اس کرئہ ارض کی بقا اور نسل انسانی کو آگے بڑھانے سمیت دیگر مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے کہ لالچ اور انفرادیت پر مبنی اس سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جہاں منصوبہ بند معیشت کے ذریعے فیصلہ سازی میں 99 فیصد انسانوں کی رائے اور مفاد شامل ہو۔