حسن جان

کچھ عرصہ پہلے 100 سے زائد نوبل انعام یا فتگان اور 75 سابق عالمی رہنماﺅں نے امریکی صدر جو بائیڈن کو ایک خط میں کووڈ 19 کی ویکسین کے پیٹنٹ (Patent) کی معطلی پر زور دیا تھا تاکہ غریب ممالک خود ویکسین تیار کر سکیں کیونکہ وہ بڑی دوا ساز کمپنیوں سے اپنی پوری آبادی کے لیے ویکسین خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ بل گیٹس نے پہلے پیٹنٹ کی معطلی کی مخالفت کی۔ لیکن بعد میں اپنے اس مو¿قف سے دستبردار ہوا۔ اسی طرح جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا اور یورپی یونین کی حکومتوں نے بھی پیٹنٹ کی معطلی کی مخالفت کی۔ یہ مخالفت سرمایہ دارانہ پیداوار کی حقیقی فطرت یعنی پیداوار برائے منافع خوری کو واضح کرتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا اس موذی وائرس سے نبرد آزما ہے دنیا کی بڑی معیشتیں ”انٹیلکچول پراپرٹی“ (Intellectual Property) اور ”پیٹنٹس“ کے نام پر اپنی منافع خوری کو برقرار رکھنے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں۔ یہ غیر معمولی حالات بے نظیر عالمی تعاون اور علمی اشتراک کے متقاضی ہیں تاکہ اس وائرس سے لڑا جا سکے۔ لیکن زیادہ سے زیادہ منافع کمانے اور انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس اور پیٹنٹس کے ذریعے ان کے تحفظ کی اندھی دوڑ اس وائرس سے انسانوں کی نجات کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔

دوسری طرف امریکی صدر کا پیٹنٹس کی معطلی کی جانب جھکاﺅ کسی خیر خواہی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے پیچھے بھی وہی کارپوریٹ ہوس زر ہی ہے جس کی وجہ سے دیگر نے معطلی کی مخالفت کی تھی۔ کورونا کی وبا سے بظاہر عالمی معاشی بحران نے جنم لیا جس سے کاروبار تباہ ہوئے اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور کروڑوں لوگ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے جس سے پہلے سے شکستہ سماجی و معاشی نظام کے انہدام کا خطرہ تھا۔ انہیں امید ہے کہ تیز اور بڑے پیمانے پر ویکسینیشن سے ’معمول‘ بحال کرنے اور معیشت کو پٹڑی پر لانے میں مدد ملے گی جو ماہرین کے مطابق 2025ءسے پہلے ممکن نہیں ہے۔

ویکسین کے لیے مہم چلانے والوں نے جو بائیڈن کے اس اقدام کی تعریف کی ہے لیکن وہ اس بات سے مطمئن نہیں ہیں کہ صرف پیٹنٹس کی معطلی سے غریب ممالک کو بڑے پیمانے پر ویکسین کی فراہمی ممکن ہو گی جنہیں ویکسین کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ویکسین کے فارمولے کے ساتھ ساتھ اس کی تیاری کے مراحل اور ٹیکنالوجی کی بھی ضرورت ہے۔ دوا ساز کمپنیاں پیٹنٹس کی معطلی کے سخت خلاف ہیں کیونکہ اس کا ایک ہی مطلب ہے: اپنے اربوں ڈالر کے یقینی منافعوں سے ہاتھ دھونا۔ یہ کمپنیاں اپنی منافع خوری کی ہوس کو اس ’دلیل‘ کے پیچھے چھپاتے ہیں کہ انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس ”ایجادات“ اور ”سرمایہ کاری“ کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انٹیلکچول پراپرٹی کے بغیر ایجادات اور سرمایہ کاری رک جائے گی۔ حالیہ واقعات پر ایک سرسری سی نظر بھی اس دعوے کو جھوٹا ثابت کرتی ہے۔ ایک حالیہ تجزیے کے مطابق اسٹرازینیکا ویکسین پر ہونے والی ریسرچ کی 97 فیصد فنڈنگ عوامی پیسے سے ہوئی ہے۔ یہی بات بیسویں اور اکیسویں صدی کی تمام اہم ایجادات کے بارے میں بھی درست ہے جسے بعد میں زیر بحث لایا جائے گا۔

انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس (پیٹنٹس، کاپی رائٹس، ٹریڈ مارکس)

سرمایہ داری ایک ایسا سماجی معاشی نظام ہے جس کی بنیاد اجناس کی پیداوار اور منافع خوری پر ہے۔ جب سے سرمایہ داری غالب معاشی نظام کے طور پر دنیا میں نمودار ہوئی ہے اس وقت سے ذاتی ملکیت نے نئی جہتیں اختیار کی ہےں اور اس کے دائرے میں وہ چیزیں بھی شامل کی گئی ہیں جنہیں اس سے قبل سماج کی مشترکہ ملکیت تصور کیا جاتا تھا۔ انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس اپنی موجودہ شکل میں سرمایہ داری کے ساتھ ظہور میں آئے۔ انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس ایسے خصوصی حقوق ہوتے ہیں جو ٹیکنالوجی، فنی اور ادبی کام وغیرہ کے تخلیق کاروں کو مخصوص مدت کے لیے دیئے جاتے ہیں۔ اس کی مختلف اقسام ہیں لیکن سب سے اہم پیٹنٹس، کاپی رائٹس، ٹریڈ مارکس اور تجارتی راز ہیں۔

پیٹنٹ ایک ایسی انٹیلکچول پراپرٹی ہے جسے حکومت کسی ایجاد (ایسی ایجاد جو نئی، نادر اور صنعتی طور پر قابل اطلاق ہو) کے موجد کو مخصوص وقت کے لیے دیتی ہے۔ اس کے بدلے میں موجد اس بات کا پابند ہو گا کہ وہ اپنی ایجاد کی تمام تر اہم تفصیلات اور معلومات کو عوامی دسترس میںلائے۔ پیٹنٹ کے مالک کو ایک مخصوص عرصے (عام طور پر بیس سال) کے لیے یہ حق اور اختیار حاصل ہو گا کہ وہ اپنی ایجاد کی پیداوار اور فروخت کے حقوق کس کو دے اور کس کو نہ دے۔ اسی طرح کاپی رائٹس انٹیلکچول پراپرٹی کی ایک اور قسم ہیں جو فنی کام، موسیقی اور ادب وغیرہ سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ ٹریڈ مارکس بھی ہیں جو ایک ایسی علامت، نشان یا برانڈ کا نام ہے جو کوئی کمپنی اپنے لیے استعمال کرتی ہے اور جو اسے دیگر سے ممتاز کرتا ہے۔ تجارتی راز بھی ایک انٹیلکچول پراپرٹی ہے جو کسی کمپنی کا ایک ایسا فارمولا، معلومات یا راز ہے جسے وہ خفیہ رکھ کر مارکیٹ میں اپنے حریفوں پر سبقت لینے کی کوشش کرتی ہے۔

غالب بورژوا معاشی نظریے کے مطابق ان حقوق کا مقصد ایجادات اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ موجد، چاہے وہ کوئی فرد یا کمپنی ہو، کو اپنے علمی کام پر ہونے والے اخراجات کی قیمت اور منافع ملنا چاہیے۔ بورژوا نقطہ نظر کے مطابق انٹیلکچول پراپرٹی کے بغیر موجد میں کام اور تخلیق کی ترغیب پیدا نہیں ہو گی کیونکہ یہی ان کو منافعوں کی ضمانت دیتی ہے۔ یعنی ہوس ِ زر کے بغیر انسان ایجادات اور تخلیق کرنا بند کر دے گا۔

کیا انٹیلکچول پراپرٹی واقعی ایجادات کو فروغ دیتی ہے؟

آزاد منڈی کے متوالوں کی یہ بات انتہائی احمقانہ ہے کہ منافع اور لالچ کے محرک کے بغیر انسان ایجادات نہیں کر سکتا۔ یہ انسانی سماج کے ارتقائی عمل سے مکمل لاعلمی کی غمازی کرتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ انسانی سماج میں ایسے ذہین دماغ ہوتے ہیں جو غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں جن کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دماغ آسمان سے نہیں ٹپکے بلکہ ان کی تمام تر ذہانت اور علم گزری ہوئی انسانی نسلوں کے تجربات، مشاہدات اور علوم کی بنیاد پر ہی ممکن ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ان ذہین دماغوں کی خوراک، رہائش اور زندگی کی دیگر بنیادی ضروریات سماجی پیداوار کے عمل کے ذریعے ہی پوری ہوتی ہیں۔ تمام تر ایجادات نسل انسان کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس ایک نسبتاً نیا تصور ہے جسے بیسوی صدی میں باقاعدہ قانون کی شکل دی گئی۔ ان قوانین کے اعلانیہ مقاصد کے برعکس ان کا اصل مقصد زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا اور ”نووارد“ لوگوں کو ان ایجادات کو استعمال کر کے منافعوں میں شراکت داری سے روکنا ہے۔ اس کا ایجادات اور تخلیق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ تصور کہ لالچ اور ہوس انسان کی قوت محرکہ ہے ایک غیر سائنسی سوچ ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان فطرتاً خود غرض ہے۔ 2013ءمیں ایک جامع سائنسی تحقیق نے یہ بات واضح کی کہ اگر لالچ انسان کی قوت محرکہ ہوتی تو نسل انسان کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ پوری انسانی تہذیب باہمی تعاون کی بنیاد پر ہی ترقی کر سکی ہے۔

اس کے برعکس انٹیلکچول پراپرٹی کی حالیہ تاریخ دکھاتی ہے کہ ایجادات کو فروغ دینے کی بجائے یہ ان کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔ ہر طرف پیٹنٹس کی بھرمار ہے جو ایجادات کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ ہر سال معمولی آئیڈیاز سے لے کر تمام اقسام کی ایجادات تک کے پیٹنٹس حاصل کیے جا رہے ہیں۔ سال 2020ءمیں صرف امریکہ میں 388900 پیٹٹنس جاری کیے گئے۔ ان میں سے بیشتر چھوٹی بڑی کمپنیوں کو عدالتوں میں گھسیٹنے اور ہرجانہ اینٹھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کچھ صرف عدالتوں میں دفاعی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ کتاب ”انٹیلکچول اجارہ داری کے خلاف“ کے مصنف ڈیوڈ لیوین نے کہا ہے، ”زیادہ تر پیٹنٹس اس لیے حاصل نہیں کیے جاتے کہ اپنی ایجادات کا تحفظ کر کے مارکیٹ میں اپنے حریفوں پر سبقت حاصل کی جا سکے۔ بہت سی کارپوریشنز زیادہ تر پیٹنٹس اس لیے حاصل کرتی ہیں تاکہ دیگر کمپنیاں پیٹنٹس کی خلاف ورزی پر انہیں عدالتوں میں نہ کھینچ سکیں۔“

پیٹنٹس نے تحقیق اور ایجادات کے شعبے کو پیٹنٹس کی بارودی سرنگوں سے بھر دیا ہے۔ اگر آپ کسی پر قدم رکھیں تو عدالتی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جیس جورڈن بمقابلہ آر آئی اے اے (RIAA) کا بدنام زمانہ کیس انٹیلکچول پراپرٹی کی خلاف ورزی کے حوالے سے ایک عمدہ مثال ہے۔ 2002ءمیں ریکارڈنگ انڈسٹری ایسو سی ایشن آف امریکہ (RIAA) نے رینسیلر پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ نیو یارک کے چار آئی ٹی طلبہ پر کاپی رائٹ شدہ گانوں کو غیر قانونی طور پر ڈاﺅن لوڈ کرنے پر مقدمہ دائر کیا۔ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں چاروں طلبہ پر مجموعی طور پر 100 اَرب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ طلبہ نے ایسو سی ایشن کے ساتھ معاملات عدالت کے باہر ہی حل کر لیے لیکن یہ کیس انٹیلکچول پراپرٹی کی تاریک دنیا کی درست تصویر کشی کرتا ہے۔

ایجادات اور تحقیق کو بڑھانے کی آڑ میں کمپنیاں اپنے حریفوں سے مقابلے میں سبقت لے جانے کے لیے لاتعداد پیٹنٹس حاصل کرتی ہیں۔ جیسا کہ دی اکانومسٹ نے لکھا ہے، ”ٹیکنالوجی کی صنعت میں کمپنیاں بے شمار پیٹنٹس کے لیے درخواستیں دیتی ہیں تاکہ اپنے حریفوں کا راستہ روک سکیں۔ اگر آپ اپنے ہزاروں پیٹنٹس میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی پر مجھ پر مقدمہ دائر کریں گے تو میں بھی اپنے لاتعداد پیٹنٹس کا استعمال کرتے ہوئے آپ پر مقدمہ کروں گا۔ اس طرح کے تنازعات نئے آنے والوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ 2001ءکی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ نووارد مائیکرو چپ بنانے والی کمپنیوں کو انٹیلکچول پراپرٹی کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے 200 ملین ڈالر خرچ کرنا پڑے تاکہ عدالتی کاروائیوں سے بچ سکیں۔ یہ صورت حال مارکیٹ میں پہلے سے موجود لوگوں کے لیے تو ٹھیک ہو گی لیکن مقابلہ بازی اور عوامی مفاد میں نہیںہو گی۔ لیکن اس بات کا بھی امکان ہے کہ ان کے مفاد میں بھی نہیں ہو گی۔ بعض تحقیقات کے مطابق پیٹنٹس کی بھرمار تمام کمپنیوں کے لیے نئی مصنوعات لانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔“

آگے جا کر اسی رسالے میں واضح کیا گیا ہے کہ ایجادات کا تعلق پیٹنٹس سے ہرگز نہیں ہے۔ ”جب ایجادات کی شرح میں تبدیلی آتی ہے تو ان کا تعلق پیٹنٹس سے نہیں ہے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کیمیکلز سے لے کر گاڑی اور کمپیوٹر سافٹ ویئر کی صنعت تک ایجادات کی لہر اختراعیت میں ابھار کے ساتھ آتی ہے۔ پیٹنٹس کی درخواستیں تو سالہا سال بعد دائر ہوئیں جب ایجادات کم ہونا شروع ہوئیں اور مارکیٹ میں پہلے سے موجود کمپنیوں نے نئے آنے والوں کو روکنے اور اپنے حریفوں کی قانونی کاروائیوں سے بچنے کی کوششیں شروع کیں۔ پیٹنٹس کامیاب ایجادات کا نتیجہ ہیں۔“

پبلک ریسرچ بمقابلہ پرائیویٹ ریسرچ

ایجادات ایک سماجی مظہر ہے جو بالآخر اپنا اظہار ایک فرد یا گروہ کی ذہانت کی شکل میں کرتا ہے۔ انٹیلکچول پراپرٹی کے بے سروپا تصورات انفرادی اولوالعزمی کو مبالغہ آرائی سے پیش کرتے ہوئے انفرادی ذہانت کو سماجی رابطوں سے مبرّا پیش کرتے ہیں۔ ان کی تخلیقیت اور ذہانت کو خالصتاً انفرادی محنت کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام تر ایجادات جن سے ہماری جدید دنیا وجود میں آئی ہے دراصل عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ہی ممکن ہو سکی ہیں۔

نیو لبرل معاشیات نجی شعبے اور انفرادی کاروبار کی ”صلاحیتوں“ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے۔ وہ ڈی ریگولیشن اور معیشت میں ریاست کی مداخلت کو کم کرنے اور نجی شعبے کو لامحدود کردار دینے کی بات کرتی ہے جو اُن کے مطابق ترقی اور ایجادات کی کنجی ہے۔ لیکن کورونا کی وبا نے نجی شعبے کے اِس تصور کو پاش پاش کر دیا اور صحت کے شعبے میں زیادہ ریاستی مداخلت کی حامل ریاستیں اس وبا سے آسانی سے نمٹ سکیں جبکہ آزاد منڈی اور انفرادی کاروبار پر زور دینے والی ریاستوں کے صحت کے شعبے منہدم ہو گئے۔ پچھلی اور موجودہ صدی کے دوران جدید ٹیکنالوجی میں ہونے والی ایجادات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر حکومتوں کی جانب سے بے دریغ فنڈنگ نہ ہوتی تو یہ ٹیکنالوجی کبھی بھی وجود میں نہیں آ سکتی تھی۔ کچھ مثالیں اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہوں گی:

٭ ایپل کا آئی فون وجود میں نہیں آتا اگر امریکی حکومت کی بے دریغ فنڈنگ نہ ہوتی۔ ایپل کمپنی نے اپنا آغاز امریکی حکومت کی جانب سے ملنے والے 500,000 ڈالر سے کیا جس سے کمپنی آگے بڑھنے کے قابل ہوئی۔ براہ راست فنڈنگ کے علاوہ امریکی حکومت کی بالواسطہ کمک نے بھی آئی فون کو اس کی موجودہ شکل میں پہنچایا۔ ظاہر ہے امریکی حکومت کے یہ پیسے امریکی عوام سے جمع کیے گئے ٹیکس کے پیسے ہی ہیں۔

٭ گلوبل پوزیشنگ سسٹم (جی پی ایس) کو امریکی محکمہ دفاع نے عسکری نقل و حرکت میں بہتری لانے کے لیے بنایا تھا جسے بعد میں سویلین مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ تاہم آج بھی اس کا انتظام امریکی ایئر فورس کے پاس ہے اور اس میں مزید بہتری لانے کے لیے سالانہ 1.8 اَرب ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ 1973ءسے 2000ءکے دوران امریکی حکومت نے جی پی ایس کو بنانے کے لیے مجموعی طور پر 5.6 اَرب ڈالر خرچ کیے۔ آج یہ آئی فونز کا ایک لازمی جزو ہے۔ آئی فون کے دیگر اہم حصے جیسے ٹچ سکرین، انٹرنیٹ، ریم میموری، ہارڈ ڈیسک ڈرائیو، ایل سی ڈی، لیتھیم بیٹری اور مائیکرو چپس وغیرہ ناسا، نیشنل سائنس فاﺅنڈیشن، سی آئی اے اور امریکی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹ ایجنسی (DARPA) کی مرہون منت ہیں۔ حتیٰ کہ سیلیکون ویلی اپنی تمام ایجادات کے لیے امریکی حکومت کی فنڈنگ پر انحصار کرتی ہے۔

٭ اسی طرح امریکی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ ایک حکومتی ادارہ ہے جو دوا سازی اور عوامی صحت میں تحقیق کے لیے سالانہ 42 اَرب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ سالانہ 75 فیصد جدید ادویات یہی ادارہ تیار کرتا ہے۔ ہیپاٹائیٹس بی کی ویکسین اسی ادارے کی فنڈنگ اور ریسرچ سے ہی ممکن ہو سکی۔

٭ ایلون مسک کی الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی ٹیسلا قائم ہی نہ ہو پاتی اگر امریکی حکومت کی جانب سے مختلف اوقات میں اسے 4.9 اَرب ڈالر نہ ملتے۔ لیکن مضحکہ خیزی یہ ہے کہ ایلون مسک نے حال ہی میں امریکی حکومت کی جانب سے امریکی شہریوں کو براہ راست امدادی رقم کی ادائیگی کی شدید مخالفت کی ہے جبکہ اس کی اپنی کمپنی امریکی حکومت کی جانب سے کورونا کی مد میں بیل آﺅٹ رقوم سے مستفید ہوتی رہی۔

٭ گوگل بھی امریکی حکومت کی فنڈنگ کی وجہ سے آج اس مقام پر پہنچ سکا ہے۔

مختصراً یہ کہ تمام تر اہم ایجادات جن کے بغیر جدید زندگی کا تصور ناممکن ہے سب کی سب حکومتی فنڈنگ اور امداد سے ممکن ہو سکی ہیں۔

نجی شعبہ فطری طور پر تنگ نظر واقع ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ طویل المدت منصوبے اور سرمایہ کاری کرنے سے قاصر ہے۔ ایجادات اور ٹیکنالوجی کا فروغ طویل المدت اور صبر آزما کام ہے جس کے دوران بے شمار تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات دہائیاں لگ جاتی ہیں اور بعض دفعہ یہ منصوبے اور سرمایہ کاری ناکام بھی ہو سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے نجی شعبہ اپنی تنگ نظری، قلیل مدتی اور فوری منافع کی ذہنیت کی وجہ سے ایسے منصوبوں میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ نتیجتاً جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا‘ تمام تر اہم ایجادات حکومتی فنڈنگ کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکیں۔’The Entrepreneurial State‘ کی مصنف اور معیشت دان ماریانہ مازوکیٹو نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ”حکومتی فنڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کسی منصوبے کے ابتدائی دنوں میں ہائی رسک فنانس (High Risk Finance)کی فراہمی لازمی ہے۔ جبکہ روایتی بینک ایسے پرخطر منصوبوں کے لیے پیسے نہیں دیتے کیونکہ وہ قلیل مدت یعنی تین سے پانچ سال میں منافع کی توقع رکھتے ہیں۔ سائنسی ایجادات تین سال نہیں بلکہ پندرہ سے بیس سال لیتی ہیں…اہم ایجادات صبر آزما اور طویل المدت فنڈنگ کی متقاضی ہےں۔ اس طرح کی فنڈنگ تنگ نظر نجی شعبے کے پاس نہیں ہے۔“

اس کے باوجود نجی شعبے کے حمایتی اس شعبے کے لیے ٹیکس کٹوتیوں کی کوششیں کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی خیالی تخلیقیت کو فروغ دیا جا سکے۔

انٹیلکچول پراپرٹی اور مشترکات کی ضبطگی

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ سرمایہ داری کی ہوس زر نے ان تمام چیزوں کو نجی ملکیت کے دائرے میں لا کر برباد کر دیا جو پہلے کے نظاموں میں سماج کی مشترکہ ملکیت ہوتی تھیں۔ مشترکات بھی انہی میں سے ایک تھے۔ مشترکات دراصل ایسی زرعی زمینیں، چراگاہیں، جنگلات اور دیگر قدرتی وسائل (پانی وغیرہ) ہوتے تھے جو کسی قبیلے یا کمیونٹی کی مشترکہ ملکیت ہوتے تھے۔ لفظ مشترکات کا ماخذ انگلینڈ ہے جہاں سرمایہ دارانہ ارتقا کے نتیجے میں مشترکات کو تباہ کر کے انہیں نجی ملکیت میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ نئے بورژوا ملکیتی رشتوں کو سابقہ ملکیتی رشتوں کے خلاف ایک وحشیانہ جنگ لڑنی پڑی کیونکہ وہ نئے ابھرتے ہوئے بورژوا طبقے کے تنگ نظر خود غرضانہ مفادات سے بیگانہ تھے۔ اس عمل کو احاطہ بندی کی تحریک (Enclosure Movement) کہا جاتا تھا جس کے تحت قبائل کو ان کی پشتینی مشترکہ ملکیتی زمینوں اور وسائل سے بے دخل کیا گیا۔ اسکاٹ لینڈ کی کوہستانی زمینوں میں احاطہ بندی کی اس تحریک کے بارے میں کارل مارکس نے لکھا، ”کوہستانی علاقوں کے کیلٹ مختلف قبائل میں منظم تھے۔ ہر قبیلہ جس زمین پر آباد تھا اسی کا مالک تھا۔ قبیلے کا سربراہ اس زمین کا برائے نام مالک تھا جس طرح ملکہ انگلینڈ پوری قومی سرزمین کی مالکن ہے۔ اٹھارویں صدی میں گیلز قبائل کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے گلاسکو اور دیگر صنعتی شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور کیا گیا۔“ (سرمایہ جلد اﺅل)

برصغیر ہندوستان میں بھی برطانوی سامراج نے اسی طریقے سے قدیم ایشیائی طرز پیداوار کو برباد کیا۔ قدیم ہندوستانی سماج اور حتیٰ کہ مغلوں کے دور میں بھی زمین کی کوئی نجی ملکیت نہیں ہوتی تھی۔ زمین خودمختار دیہی برادریوں کی ملکیت ہوتی تھی۔ یہ دیہی برادریاں یا قبائل مرکزی حکومت کو اپنی پیداوار کا ایک مخصوص حصہ بطور خراج ادا کرتے تھے۔ جیسا کہ مارکس نے واضح کیا تھا، ”ایشیائی طرز پیداوار میں فرد کی جائیداد نہیں ہوتی تھی بلکہ صرف قبضہ ہوتا تھا۔ اصل مالک کمیون ہوتا تھا یعنی صرف مشترکہ ملکیت وجود رکھتی تھی۔“ (گرنڈرائس، باب نمبر 9)

ہندوستان کی برطانوی نو آبادکاری نے یہاں کے قدیم ملکیتی رشتوں کو برباد کر کے اس کی جگہ جاگیردارانہ ملکیتی رشتوں کو مسلط کیا۔ انگریزوں نے اپنے مقامی گماشتوں کو ایک نئے جاگیر دار طبقے میں تبدیل کیا اور انہیں زمینیں عنایت کی گئیں۔ مشترکات کی یہ ضبطگی اور ان کی نجی ملکیت میں تبدیلی دراصل آج کی انٹیلکچول پراپرٹی کی ابتدائی شکل تھی۔ مشترکہ زمینوں اور چراگاہوں کی اس ضبطگی اور قبضہ گیری کو ”مشترکات کا المیہ“ جیسے احمقانہ نظریات کے ذریعے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نظریے کو انیسوی صدی کے معیشت دان ویلیم فارسٹر لوئیڈ نے پیش کیا تھا جس کے مطابق چراگاہوں پر بے دریغ چرنے اور مشترکات کا بے تحاشہ استعمال ان کے انہدام پر منتج ہو گا۔ اگر یہ معیشت دان تھوڑی سی بھی تحقیق کر لیتا تو یہ بات جان لیتا کہ مشترکات پر مبنی یہ قبائل اپنے مشترکات کے وسائل کو انتہائی منظم اور منصوبہ بند انداز میں استعمال کرتے تھے۔ ایسا نظم و ضبط حتیٰ کہ آج کی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھی ناپید ہے جو دنیا کے وسائل کو بے دریغ انداز میں لوٹ رہی ہیں۔

سرمایہ داری: انسانی صلاحیتوں کا ضیاع

سرمایہ داری کے معذرت خواہوں کے تمام تر ایسے دعوﺅں کے باوجود کہ یہ نظام انسانی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داری انسانی صلاحیتوں کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ منافع کی بڑھتی ہوئی ہوس نہ صرف ہماری قابلیتوں کو کچل رہی ہے بلکہ سماج کی دولت اور وسائل کو بھی ضائع کر رہی ہے۔ جیسا کہ دی اکانومسٹ نے خود لکھا ہے، ”امریکی نظام صحت نے 2005ء میں نسخہ جاتی ادویات پر 210 اَرب ڈالر خرچ کیے۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق پیٹنٹس کی غیر موجودگی میں یہی ادویات جنیرک شکل میں 50 اَرب ڈالر میں مل سکتی تھیں۔ یعنی 160 اَر ب ڈالر کی بچت۔“ (دی اکانومسٹ، 8 اَگست 2015ء)

عالمی تجارتی قوانین کو تشکیل دینے والے عالمی اداروں کے دعوﺅں کے برعکس عالمی تجارتی قوانین دراصل انسانی ذہانتوں اور قابلیتوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں اور سماج کا وسیع حصہ ان صلاحیتوں سے محروم رہتا ہے جبکہ سرمایہ داروں اور کارپوریشنوں کا ایک اقلیتی ٹولہ ان صلاحیتوں سے دیو ہیکل منافع کما رہا ہے۔ ان کارپوریشنوں میں کام کرنے والے سائنسدان اور ماہرین قانونی طور پر اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنی ریسرچ اور ایجادات کو خفیہ رکھیں اور کمپنی سے باہر کسی کے ساتھ شیئر نہیں کریں۔

اسی طرح انٹیلکچول پراپرٹی کی حفاظت سے متعلق ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا قانون ’TRIPS Agreement‘ ترقی پذیر ممالک کے سروں کے اوپر ایک اور لٹکتی ہوئی تلوار ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم کے ممبر ممالک کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ ٹرپس ایگریمنٹ کے تحت اپنے آئین میں ضروری تبدیلیاں لائیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے زیادہ تر پیٹنٹس ترقی یافتہ ممالک کے پاس ہیں۔ جس کے نتیجے میں پسماندہ ممالک کی پسماندگی مزید گہری ہو گی۔

انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس کے معذرت خواہان یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ قوانین اس لیے ضروری ہیں تاکہ ٹیکنالوجی یا علم کی چوری کو روکا جا سکے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی چوریاں ہوتی ہی کیوں ہیں؟ اس طرح کی چوریاں اور جعل سازیاں سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا لازمی جزو ہیں کیونکہ یہ نظام ہی انسانی محنت کی چوری پر قائم ہے۔ منافع خوری کی اس اندھی دوڑ سے انسانیت کی وسیع اکثریت کی زندگی صرف زندہ رہنے کی تگ و دو تک محدود ہے۔ ایک ایسا سماج جہاں بنی نوع انسان کی مشترکہ محنت سے بنائی گئی ٹیکنالوجی کی حاصلات سے تمام انسان مشترکہ طور پر مستفید ہوں وہاں ایسی چوری چکاری اور جعل سازی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ذاتی ملکیت کا خاتمہ

زمین کے وسائل کی لوٹ مار اور منافعوں کی دوڑ میں سرمایہ داروں نے کرہ ارض کا چہرہ ہی مسخ کر دیا ہے۔ قدرتی وسائل کو بے رحمی سے لوٹا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ تباہ کاری کے پچھلے ایک سو سال میں ہزاروں جانوروں اور پودوں کی انواع ناپید ہو چکی ہیں۔ کارپوریٹ فارمنگ نے جنگلات کا صفایا کر دیا ہے۔ ان عوامل کے ساتھ ساتھ تابکار ہتھیاروں کے اندھا دھند تجربوں نے اِیکو سسٹم کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک طرف سرمایہ دار ایجادات اور ٹیکنالوجی کی انٹیلکچول پراپرٹی کا سختی سے دفاع کرتے ہیں اور کسی بھی صورت میں اس سے دستبردار نہیں ہوتے تو دوسری طرف اپنی کرتوتوں کی وجہ سے کرئہ ارض کو پہنچنے والے نقصانات کی ذمہ داری انتہائی منافقانہ انداز میں تمام انسانوں پر ڈالتے ہیں۔ وہ انتہائی شاطرانہ انداز میں کہتے ہیں کہ ”ہم“ انسانوں کے لالچ کی وجہ سے کرہ ارض تباہ ہو رہا ہے۔“ صرف اسی موقع پر سرمایہ دار طبقات اشتراک پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی اپنے طبقے کے جرائم کو پوری انسانیت پر ڈال کر بری الزمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ منافقت کی بلند ترین سطح ہے۔ سرمایہ داروں کے گماشتہ ماہرین ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم انسان فطرتاً لالچی اور خود غرض ہیں اور اس ماحولیاتی تباہ کاری کی تمام تر ذمہ داری ”ہم“ انسانوں پر عائد ہوتی ہے۔ وہ شاطرانہ انداز میں ماحولیاتی بگاڑ کی تمام تر ذمہ داری پوری انسانیت پر ڈال دیتے ہیں حالانکہ کرئہ ارض کی ماحولیاتی تباہ کاری کی تمام تر ذمہ داری اقلیتی سرمایہ دار طبقے پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے منافع کی ہوس میں زمین کا چہرہ ہی مسخ کر دیا ہے۔ محنت کش اور غریب طبقہ قطعاً اس تباہ کاری میں حصہ دار نہیں ہے۔ یہ سرمایہ دار طبقہ ہی ہے جو ایمازون کے جنگلات کو برباد کر رہا ہے اور یہ سرمایہ دار ہی ہیں جنہیں کورونا وائرس کی وبا کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔

کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا ہے، ”کمیونزم کا طرہ امتیاز عمومی طور پر ملکیت کا خاتمہ نہیں بلکہ بورژوا ملکیت کا خاتمہ کرنا ہے۔ لیکن جدید بورژوا ذاتی ملکیت مصنوعات پیدا کرنے اور تصرف میں لانے کے اس نظام کا آخری اور سب سے مکمل اظہار ہے جو طبقاتی کشمکش اور چند لوگوں کے ہاتھوں اکثریت کے استحصال پر مبنی ہے۔ ان معنوں میں کمیونسٹوں کے نظریے کا ایک جملے میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے: نجی ملکیت کا خاتمہ۔“

آج ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت نہ صرف انسانی ترقی کے سامنے رکاوٹ بن چکی ہے بلکہ تمام تر انسانی تہذیب کی حاصلات کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔ انٹیلکچول پراپرٹی، پیٹنٹس اور کاپی رائٹس ان جھوٹے تصوارت پر مبنی ہےں کہ ان سے غیر معمولی دماغ اور ذہین افراد پیدا ہوتے ہیں۔ تمام تر انسانی سماجوں میں ترقی باہمی تعاون اور اشتراک سے ہی ممکن ہو سکی ہے۔ آج سرمایہ دارانہ خود غرضی اور لالچ کی وجہ سے کورونا کی وبا ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اگر سرمایہ دارانہ لالچ، پیٹنٹس اور پیسے کی ہوس نہ ہوتی تو یہ وبا کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ لیکن بورژوا تنگ نظری اور منافع خوری کی قیمت پوری انسانیت کو دینی پڑ رہی ہے۔

ایجادات اور تخلیق کو فروغ دینے کی بجائے سرمایہ داری ان کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ تصور کہ لالچ ہی انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاوا دیتا ہے مکمل طور پر یک طرفہ، غیر سائنسی اور انسانیت کی تذلیل کے مترادف ہے۔ اگرچہ سرمایہ داری میں کروڑوں لوگوں کے لیے زندگی ایک جبر مسلسل ہے اور انہیں انفرادی بقا کی جدوجہد پر مجبور کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود سائنس، فن، ادب اور دیگر شعبوں میں ایسے افراد ملیں گے جو بغیر لالچ اور صلے کی توقع کے بے لوث ہو کر کام کرتے ہیں۔ جنگوں اور انقلابات کے دوران محنت کش طبقات گولیوں اور توپوں کا جانفشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگیاں قربان کر دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ماہرین اس عمل کی وضاحت نہیں کر سکتے۔ انسانی تخلیق کے پاﺅں سے بندھی سرمایہ دارانہ بیڑیوں کو توڑنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارا جا سکے۔ سرمایہ داری کو سوشلسٹ بنیادوں پر اکھاڑ کر ہی ایسا سماج تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ سائنسی سوشلزم کے بانیوں نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا ہے، ”پرانے بورژوا سماج، اس کے طبقات اور طبقاتی کشمکش کی جگہ ہم ایسا سماج تعمیر کریں گے جہاں ہر شخص کی آزادانہ ترقی سب کی آزادانہ ترقی کی شرط ہو گی۔“