قمرالزماں خاں
جو بھی موجود ہوتا ہے، بدلتا رہتا ہے۔ حرکت، تبدیلی، ارتقا اور انقلابات سب کچھ بدل دیتے ہیں۔ مگر تبدیلی کے بھی کچھ قوانین ہوتے ہیں۔ کوئی ترتیب و ترکیب ہوتی ہے۔ لفظوں اور تراکیب کی حرمت دائمی نہیں ہوتی۔ بلکہ تاریخی تغیرات اور معاشی نظاموں کا تبدل سماج کی پرتوں کو اتھل پتھل کر کے نئی ترتیب کے ساتھ نئے حفظ مراتب تشکیل دیتا ہے۔
یہاں اپنے ہاں کچھ اور واقعہ ہے۔ عہد حاضر میں لفظ، لفظوں کے معنی، اصطلاحیں، القابات، خطابات حتیٰ کہ الزامات تک جتنے بے توقیر اور غیر اہم ہوئے ہیں اس کی مثال ماضی میں خال خال ملتی ہے۔ حب الوطنی اور غداری، پاکستانی وفادار یا انڈین ایجنٹ، پرامن سیاسی سرگرمیاں یا دہشت گردی، دیانتدار اور بد عنوان، کارآمد سیاسی کارندے اور بے کار مہرے، وطن پرست رہنما یا سکیورٹی رسک لیڈر، لٹیرے اور معزز سمیت کتنے خطابات، القابات اور الزامات ہیں جن کے معنی حسب منشا بدلے ہی نہیں جاتے بلکہ اس رقص بے ہنگم کو کبھی کپڑے پہنا کر اور کبھی برہنا کر کے میڈیا پر ناچ کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والا عام انسان تعین نہیں کر سکتا کہ ریاست کی طرف سے دہشت گرد کا الزام یافتہ ابھی بھی دہشت گرد ہی ہے یا کسی وزارت پر فائز ہو چکا ہے۔ یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ ایجنٹ ابھی تک انڈین حمایت یافتہ ہے یا ریاست نے اسے وطن پرستی کی چھتر چھاؤں مہیا کر دی ہوئی ہے۔ لٹیرا کب کسی عوامی منصب سے سرفراز ہو کر ’رہنما‘ بن چکا ہے، اس کی خبر میڈیا نہیں چلاتا بلکہ رہنمائی کے ان مناظر کو دیکھنے کی صعوبت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ کبھی اسی ہاتھ میں آتشیں اے کے 47 ہوتی ہے اور پھر یہی ہاتھ منصوبوں کی تختیوں کی نقاب کشائی کر رہے ہوتے ہیں۔ رگوں میں اندھیرا انڈیلنے والے نشے کے بیوپاری اور ہیرا پھیری کے رسوا کردار بڑی بڑی عبادت گاہیں اور شفا خانے بنانے کی بھی سعادت اور ’اطمینان‘ حاصل کرتے ہیں۔ پس پردہ یا پردے سے آدھا منہ نکالے طاقتور حکمران اور عدالتیں جس کو بدعنوانی کا طوق پہنا کر تخت سے اتارتے اور جیلوں میں ڈالتے ہیں پھر اگلی دفعہ نئی سیٹنگ سے اقتدار تک پورے احترام اور پروٹوکول سے رسائی بخشتے ہیں۔ یہاں تاریخ نے عجب واقعات دیکھے۔ اپنی شکست و حزیمت کے بدلے ذمہ داروں سے لینے کی بجائے ’اسے ہی پھانسی چڑھا دیا گیا‘ جس نے دشمن کے زندان خانوں کو کھلوایا، زنجیریں تڑوائیں اور اسیروں کو پھول پیش کیے تھے۔
پاکستانی معصوم طلبہ کے گلے کاٹنے والے ’قاتلوں‘ کے اقرار نامے کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ان کے ’نمائندے‘ کا لاڈ و پیار سے شرماتا لہراتا چہرہ ٹیلی وژن سکرینوں پر دکھایا جاتا ہے۔ گویا قاتل نہ ہو ہیرو ہو۔ پھر سینکڑوں اور ہزاروں بے گناہوں کے قاتلوں سے ’میثاق دوستی‘ کوئی جزا و سزا تو کیا بغیر شرمندگی و خفت کے کر لیے جاتے ہیں۔ نہ وضاحت، نہ جواز اور نہ ہی کسی سوال کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ماضی سے کوئی نہیں سیکھتا۔ 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو اسی عفریت نے راولپنڈی میں دن دیہاڑے قتل کر دیا تھا۔ حالانکہ سی آئی اے کے ہاتھوں ان ’جہادیوں‘ کی پیدائش کے پراجیکٹ میں محترم جنرل بابر نے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔
سرکاری الزام کے مطابق بھارت سے پیسے لے کر ملک میں فسادات، بلوے اور سرکاری اہلکاروں کے قتل کروانے والوں کو دھمکیاں دیتے دیتے یکا یک مستقبل کا سیاسی دوست ایسے قرار دے دیا گیا کہ سننے والوں کو حیران ہونے کا بھی موقع تک نہیں ملا۔
اپوزیشن اور اقتدار کی میوزیکل چیئر کے کھیل میں ’عہد‘ کی قرار دی جانے والی اخلاقی قدروں کو ہر مرحلے پر پامال کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن کا سچ اقتدار میں آ کر جھوٹ میں بدل جاتا ہے۔ اقتدار کی مجبوریاں، بد اعمالیاں، مفاہمتیں اور تاویلات اور ہوتی ہیں اور اقتدار سے نکلتے ہی مناظر کی تفہیم یکسر بدل دی جاتی ہے۔ آمریت کی کوکھ میں پلنے والے سول بالادستی کے دعوے کے ساتھ ساتھ رات کے اندھیروں میں غیر سویلین کی شفقت کے بھی طلب گار پائے جاتے ہیں۔
عیار طاقتور حلقے ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ لفظوں، معنوں، القابات، خطابات اور الزامات کی سر عام بے حرمتی کے بار بار واقعات کچھ اور اثرات بھی مرتب کرتے جاتے ہیں۔ مسلسل دھوکوں، چالاکیوں اور ’کہہ مکرنیوں‘ کا یہ کھیل حرمت و تقدس کے معنوں اور جذبات کو بھی کھوکھلا کر کے بے معنی بنایا جا رہا ہے۔ وہ جعلی حرمت اور تقدسات پہ مبنی نظریات، اخلاقیات اور خیالات، جن کو حکمرانوں نے اپنے تسلط کے لئے گھڑا (یا ماضی سے مستعار لیا تھا) اور ریاستی وسائل سے پروان چڑھایا اخلاق کے بحران کے باعث شکستگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ خود ساختہ اعلیٰ اقدار کی مالا کے دانوں سے گزرنے والا دھاگہ گل سڑ چکا ہے۔ ہلکے سے سماجی دھماکے سے یہ دانے بکھر کر مٹی میں مل جائیں گے۔ اس جعلی نظام کی بنیادوں میں اس سے مستفید ہونے والوں نے ہی اپنی ثقافتی گراوٹ کا ڈائنا مائٹ بچھا رکھا ہوا ہے۔ اگر کوئی نظام یا انتظام اپنے عہد کی ضروریات پورا کرنے کے قابل ہو تو وہ استحصال، جبر اور لوٹ مار کے باوجود طوالت اختیار کر جاتا ہے۔ مگر جو نظام اور اس کے حکمران اپنے زمانے کے لئے بے سود ہو کر ناکارہ ہو جائیں تو پھر ان کا مٹ جانا ناگزیر ہو جاتاہے۔