حیدر آباد (زارا حسین چانڈیو) ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ (آر ایس ایف) کی جانب سے پریس کلب آڈیٹوریم حیدر آباد میں ’انقلابی طلبہ کنونشن‘کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں سندھ بھر سے نوجوان طلبا و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کنونشن کی صدارت مرکزی آرگنائزر آر ایس ایف اویس قرنی نے کی جبکہ مہمان خاص جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر خلیل بابر تھے۔ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آر ایس ایف کے مرکزی آرگنائزر اویس قرنی،آر ایس ایف اسلام آباد کے آرگنائزر عمر عبداللہ، آر ایس ایف کراچی کے رہنما حاتم بلوچ اور فیاض چانڈیو، دادو کے رہنما سجاد جمالی، جامشورو/سندھ یونیورسٹی کے رہنما فیصل مستوئی اور سحر پیرزادو، حیدر آباد کے سہیل چانڈیو، رمیز مصرانی، نواب چانڈیو، عمران کنبھر، معظم کھوسو اور زارا حسین، پیپلز پارٹی کے رہنما ریاض حسین بلوچ، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے اکبر میمن، سارنگ جام اور جموں کشمیر این ایس ایف کے صدر خلیل بابر نے کہا کہ آج طلبہ اذیت ناک مسائل کا شکار ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے تعلیم کو ایک کاروباربنا دیا ہے۔ تعلیم کے پہلے سے انتہائی حقیر سرکاری بجٹ میں مزید کٹوتیاں کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے فیسوں میں آئے روز اضافہ ایک معمول بن چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ڈسپلن کے نام پر انتظامیہ کی دھونس نے طلبہ کی عزتِ نفس کو مجروح کر رکھا ہے۔ لیکن لاکھوں روپوں کے اخراجات اور مقابلہ بازی کے انتہائی کٹھن مراحل کے بعد جو طلبہ اپنی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ان کیلئے بھی روزگار کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ طلبہ یونین پر ضیا آمریت کی عائد کردہ پابندی آج تک برقرار ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت طلبہ کو ہر طرح کی سیاسی سرگرمی اور نظریاتی بحث سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ نہ تو اپنے حقوق کی آواز بلند کر سکیں‘ نہ ہی اس استحصالی نظام کو چیلنج کر نے کے قابل ہوں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ظلمتیں ہمارا مقدر نہیں ہیں اور انقلابی نظریات کی بنیاد پر منظم اور متحرک ہو کر طلبہ نہ صرف اپنے حقوق چھین سکتے ہیں بلکہ محنت کش طبقے کیساتھ مل کر اس سارے نظام کو ہی اکھاڑ پھینک سکتے ہیں جس میں پیداوار کا مقصد منافع خوری ہے اور جس میں مٹھی بھر افراد ساری دولت اور وسائل پر قابض ہیں۔

تقاریر کے بعد آر ایس ایف حیدرآباد اور سندھ یونیورسٹی جامشورو کی آر ایس ایف کی نو منتخب کابینہ کی حلف برداری تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ منتخب ہونے والے سندھ یونیورسٹی کے طلبہ میں فیصل مستوئی، معظم کھوسو، طاہر ناریجو، داؤد جمالی، توفیق پنہور، امام بخش اور سحر پیرزادو شامل تھے جبکہ حیدر آباد ضلعی کابینہ میں نواب چانڈیو، مشہود لغاری، وکرم کمار، مقصود علی، راہول ڈیسر اور زارا حسین چانڈیو نے حلف لیا۔

کنونشن سے قبل اولڈ کیمپس سندھ یونیورسٹی سے حیدر آباد پریس کلب تک ’طلبہ یونین بحال کرو‘ ریلی کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں سندھ بھر سے نوجوان طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر مہنگی و نجی تعلیم، طلبہ یونین پر پابندی اور ہراسمینٹ کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے شہید ناظم جوکھیو کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بھی مطالبہ کیا جبکہ وڈیرا شاہی اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بھی بھرپور نعرے بازی کی گئی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ طلبہ یونین پر پابندی فی الفور ختم کی جائے اور تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ نمائندگان کے انتخابات کروائے جائیں، سندھ یونیورسٹی کے ایم فل اور ماسٹرز پروگرام کی فیسوں اور لا کالج کی فیسوں میں حالیہ اضافہ فوری واپس لیا جائے، تمام یونیورسٹیوں میں بہتر اور مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے، ہاسٹلز کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے طلبہ کو معیاری بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں، فیسوں میں اضافے اور تعلیم کی نجکاری کا عمل بند کیا جائے اور تمام نجی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم فراہم کی جائے، تعلیم کے بجٹ میں کم از کم دس گنا اضافہ کیا جائے، جنسی ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کیلئے اداروں میں طلبا و طالبات کی شمولیت سے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، خواتین کو ہر شعبے میں یکساں مواقع فراہم کیے جائیں، ریاست ہر نوجوان کو باعزت روزگار یا کم از کم بیس ہزار روپے بیروزگاری الاؤنس ادا کرے، نصاب میں رجعتی اور قدامت پرستانہ مواد شامل کرنے کا عمل بند کیا جائے اور نظام ِ تعلیم کو یکساں بناتے ہوئے جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا جائے، ہر قسم کی قومی محرومی، تعصب اور جبر کا خاتمہ کیا جائے، طلبہ کو انقلابی نظریات سے لیس کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا سرگرم حصہ بنایا جائے۔