اداریہ جدوجہد

سال 2021ء کئی اہم واقعات اور پیش رفتوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ماضی کا قصہ ہو چکا ہے۔ اس دوران امریکی اسٹیبلشمنٹ نے بڑی مشکل سے ڈونلڈ ٹرمپ سے جان چھڑا کر کم از کم وقتی طور پر سکھ کا سانس لیا۔ لیکن امریکی سامراج اپنے نظام کے بحران کے تحت جس زوال پذیری کا شکار ہے اس میں دنیا کے طاقتور ترین اقتدار کی مسند‘ جو بائیڈن کے لئے کانٹوں کی سیج ہی ثابت ہو رہی ہے۔ مثلاً افغانستان سے امریکی انخلا جس شرمناک انداز سے اپنے انجام کو پہنچا وہ پوری دنیا میں امریکی سامراج کی سبکی اور ذلت کا باعث بنا۔ اس انخلا سے قبل ہی طالبان کابل میں داخل ہو چکے تھے۔ تقریباً دو دہائیوں کی جنگ، ہزاروں ارب ڈالر کے جنگی اخراجات اور لاکھوں انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد طالبان کا اقتدار پر دوبارہ قبضہ گزرے سال کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے جس کے اثرات آنے والے لمبے عرصے تک نہ صرف جنوب ایشیا بلکہ پوری دنیا میں محسوس کیے جائیں گے۔ اسی طرح ایرانی ریاست گزشتہ سال بھی اپنے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھاتی رہی، تباہ حال خطوں سے ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کا بحران جاری رہا، ماحولیاتی تباہی کا عمل شدت پکڑتا گیا، سفارتی و سیاسی بحران سامنے آتے رہے، ایک کے بعد دوسری ویکسین کی آمد سے کورونا وبا پر کسی قدر قابو پانے میں مدد ملی اور لاک ڈاؤن اٹھنے سے معیشتیں دوبارہ کچھ سرگرم ہوئیں۔ لیکن اس صورتحال میں ”سپلائی چینز“ کے خلل سے دنیا بھر میں مہنگائی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ صورتحال آنے والے عرصے میں بھی جاری رہ سکتی ہے۔ گزشتہ سال دنیا کے بیشتر ممالک میں بڑے احتجاجی مظاہرے اور تحریکیں بھی دیکھنے میں ملیں۔ ان میں برما، سوڈان، لبنان، ہندوستان، برازیل، چِلی، اٹلی، ایران، روس اور کیوبا سرِ فہرست ہیں۔ زیادہ تر احتجاج ترقی پسندانہ کردار کے حامل تھے جن میں عوام نے نیولبرل پالیسیوں، مہنگائی، بیروزگاری، آمرانہ طرزِ حکومت اور ریاستی جبر وغیرہ کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا۔ یا پھر محنت کشوں نے فوری طبقاتی مسائل کے گرد ادارہ جاتی تحریکیں چلائیں۔ ان میں کئی تحریکیں اور احتجاج کلّی یا جزوی طور پر اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن سرمایہ داری کی موجودہ کیفیت میں یہ کامیابیاں بھی زماں و مکاں میں بہت محدود کردار کی حامل ہیں۔ ایسے میں انقلابیوں کے لئے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ماضی سے چلے آ رہے عوامل آنے والے دنوں میں اپنا اظہار کن صورتوں میں کریں گے۔ اس کے لئے سب سے پہلے یہ کھوج لگانا ضروری ہے کہ عالمی سرمایہ داری آج کن تضادات کا شکار ہے اور کس مرحلے سے گزر رہی ہے۔ یا پھر کس مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ گزشتہ عرصے میں ویکسینیشن سے معمولاتِ زندگی کسی حد تک بحال ہوئے ہیں جس سے کاروباربھی چلے ہیں اور معیشتوں کی شرح نمو ایک گہری گراوٹ کے بعد اوپر کی طرف گئی ہے۔ ایسی صورتوں میں بحالی اس سے بہت بڑی دکھائی دیتی ہے جتنی کہ وہ ہوتی ہے۔ اسی لئے ہر طرف ایک نئے ”بوم“ کا چرچا سرمایہ داری کے ماہرین اور مبلغین کر رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے کہ جس کا موازنہ ماضی کی طویل معاشی خوشحالیوں سے کیا جا سکے۔ یہ ایک عارضی اور وقتی مظہر ہے۔ سرمایہ داری کے ایک طویل اور مستحکم عروج کے لئے جو حالات و شرائط درکار تھیں وہ یہ وبا پیدا نہیں کر پائی ہے۔ الٹا اس نے کئی حوالوں سے اس نظام کے بحران کو شدید تر کر دیا ہے۔ وبا کے دوران حکومتوں کی جانب سے بڑے پیمانے کے اخراجات اور (زیادہ تر سرمایہ دار وں کو) دی جانے والی سبسڈیوں کے معاشی و مالیاتی اثرات ایک وقت تک ہی قائم رہ سکتے ہیں۔ اس سے قرضوں کا مسئلہ گھمبیر بن چکا ہے۔ عالمی قرضہ بہت تیزی سے 300 ہزار ارب ڈالر (یا عالمی جی ڈی پی کے 360 فیصد) کی سطح کی طرف گامزن ہے۔ یہ معیشت کے اوپر ایک بہت بھاری دباؤ ہے۔ بالخصوص ایسی کیفیت میں جب سرمائے کی شرح منافع بھی ایک گراوٹ کا شکار ہے۔ ایسے میں سرمایہ کاری کی شرح کم ہے کیونکہ سرمایہ داری میں شرح منافع ہی سرمایہ کاری کی ضامن ہوتی ہے۔ اور پھر اسی سے معیشتیں پھلتی پھولتی ہیں۔ چنانچہ آنے والے عرصے میں سرمایہ دارانہ معیشتوں کی شرح نمو ایک وقتی عروج کے بعد دوبارہ کمی اور گراوٹ کا رجحان دیکھے گی۔ دوسرے الفاظ میں سرمایہ دارانہ معیشتوں کا یہ ”شوگر رش“ جلد ہی ختم ہو جائے گا اور عالمی سرمایہ داری بالعموم اسی ”معمول“ کی طرف لوٹ جائے گی جو 2008ء کے بعد شروع ہوا تھا۔ لیکن پھر اس کا کیا مطلب ہے؟ محنت کش طبقات کے لئے یہ پھر مہنگائی، بیروزگاری، تنگی، نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ جیسے معاشی حملے ہی ہیں۔ لیکن اس معاشی مظہر کے معانی کو بھی سماجی و سیاسی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نجکاری، ریاستی جبر، سنسر شپ، سرمایہ داری میں حاصل جمہوری و شہری حقوق کی سلبی اور فسطائی رجحانات کی پشت پناہی میں اضافہ ہی ہو گا۔ سرمایہ داری بہت تیزی سے ایسے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جہاں یہ ماضی کی لبرل جمہوری آزادیاں برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسے میں ہر وہ رجحان جو ترقی پسند ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا سرمایہ دارانہ رشتوں سے بغاوت کرنا ناگزیر ہے۔ اور ہر وہ نظریہ و رجحان جو سرمایہ داری کی حدود و قیود پہ یقین رکھتا ہے ناگزیر طور پہ رجعتی، پسماندہ اور متروک ہے۔ کورونا وبا بھی حتمی طور پر بیماری کا موثر علاج کرنے والی ادویات کی عام دستیابی سے ہی ختم ہو گی۔ اس میں ابھی وقت لگے گا۔ اس دوران وائرس کی نئی شکلیں (Variants)اور وبا کی نئی لہریں آتی رہیں گی۔ جو صورتحال کو مزید پرپیچ ہی بنائیں گی۔ مجموعی طور پر نہ صرف 2022ء کا نیا سال بلکہ یہ سارا عشرہ دھماکہ خیز واقعات سے لبریز ہو گا۔ ان میں عوامی بغاوتیں اور انقلابی تحریکیں بھی شامل ہیں۔ کیونکہ معاشرے کو چلانے والا نظام شدید عدم استحکام کا شکار ہے۔ جس سے ہر شعبہ اور ہر ادارہ ناگزیر طور پر متاثرہ ہے۔ انسانیت آج تاریخ کے ایک پرپیچ اور خطرناک ترین راستے کی مسافر ہے۔

2022ء کا سال ایک تاریخی حوالے سے بھی بہت اہم ہے۔ یہ سوویت یونین کے قیام کی100ویں سالگرہ کا سال ہے۔ بالشویک انقلاب کے قائدین کی طرف سے ”یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس“ (USSR) کا نام کسی ایک ملک یا ریاست کو نہیں بلکہ مستقبل کی ساری دنیا کو دیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسے سماج کا عبوری نقشہ تھا جو ان تمام مسائل، تضادات اور اذیتوں سے پاک ہو گا جن میں آج انسانیت پہلے سے کہیں زیادہ سلگ اور تڑپ رہی ہے۔ بہت سی موضوعی و معروضی وجوہات کی بنا پہ تاریخ ایک مختلف موڑ مڑ گئی لیکن اپنے پیچھے بہت سے اسباق بھی چھوڑ گئی۔ جن سے موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں سیکھتے ہوئے آج بھی دنیا بھر کی اقوام کی سوشلسٹ فیڈریشن کے خواب کو حقیقت بنایا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے محنت کشوں، محکوموں اور غریبوں کے پاس اس نظام کی نہ ختم ہونے والی ذلتوں سے نجات کا یہی راستہ ہے۔