مورا فجردو گالویز (سرمایہ داری مخالف تحریک چِلی)

ترجمہ: علی تراب

چلی میں محنت کشوں اور عوام نے ہر طرح کے حکومتی ہتھکنڈوں اور ابھرتے ہوئے پنوشے ازم کو شکست دیتے ہوئے ’کاسٹ‘ (انتہائی دائیں بازو کا مخالف صدراتی امیدوار) کے خلاف سڑکوں پر اور انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں ہم نتائج کا مزید گہرائی سے تجزیہ کریں گے۔ لیکن اس سے پہلے اس جائزے میں ہم ایک سرمایہ داری مخالف نقطہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کیا ہوا اور آگے کیا ہو گا۔

19 دسمبر 2021ء کے انتخابات نے سب سے بڑھ کر یہ ظاہر کیا ہے کہ سماج میں موجود پولرائزیشن شدت اختیار کر رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ کہ اس معاملے میں کم از کم بنیادی تحرک عوامی سرگرمی فراہم کر رہی ہے۔ یہ واضح ہے کہ ایک ایسے الیکشن میں کہ جس میں صرف دو امیدوار ہوں یہ ایک سادہ نتیجہ ہے۔ تاہم دوسرے مرحلے نے واضح کیا ہے کہ دونوں امیدوار یعنی سخت دایاں بازو اور اپروو ڈِگنیٹی (بائیں بازو کا اتحاد جس کا رہنما گیبریل بورک صدر منتخب ہوا ہے) روایتی پارٹیوں سے ہٹ کے بنائے گئے اتحادوں کے ساتھ الیکشن کی دوڑ میں شامل ہوئے۔ یہ اس پولرائزیشن کو ظاہر کرتا ہے جو آمریت اور ایک جعلی امن معاہدے کے بعد کے عبوری دور میں ابھرنے والی محدود جمہوریت میں وجود رکھتی ہے۔

اس پولرائزیشن کا اظہار پہلے مرحلے کے بعد خود رو طور پر شروع ہونے والی مہمات اور لوگوں کی جانب سے مرکزی بائیں بازو کے امیدوار کی توجہ اس طرف دلانے کی کوششوں سے اور زیادہ ہوا کہ ایک بہت اہم لڑائی آ رہی ہے۔ ”آسمانوں سے نیچے اترو“ اور اس کی تیاری کرو۔

انتخابات والے دن صبح سے ہی ایک انتہائی نازک صورتحال سامنے آنا شروع ہو گئی۔ دور دراز کے علاقوں میں کوئی بسیں موجود نہیں تھیں۔ واردات کچھ یوں تھی کہ دوپہر کے وقت حکومتی وزیر برائے ٹرانسپورٹ گلوریا ہٹ نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں اس نے بتایا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن سچ، جیسا کہ سڑکوں اور لائیو ٹیلی ویژن پر دیکھا جا سکتا تھا، یہ تھا کہ لوگ بس سٹاپوں پر گھنٹوں انتظار کرتے رہے جبکہ زیادہ تر بسیں ریاستی سبسڈی کی حامل پرائیویٹ کمپنیوں نے اڈوں پر ہی روکے رکھیں۔ یہ انتخابات میں مداخلت کی ایک بیہودہ واردات تھی کیونکہ زیادہ تر ایسے متمول علاقے جہاں تاریخی طور پر دائیں بازو کی جیت ہوتی ہے وہاں ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا نہیں تھا۔ ان اوچھے ہتھکنڈوں، دہشت گردی اور اشتعال انگیزیوں کے باوجود محنت کشوں نے شہروں اور محلوں میں ’کاسٹ‘ کو انتخابات میں شکست سے دو چار کیا۔ صرف پوینٹو آلٹو کمیون سے ہی بورک نے 70 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ دوسری جانب شمالی علاقہ جات جہاں پہلے راؤنڈ میں ایک الٹرا لبرل امیدوار پیریسی نے کامیابی حاصل کی وہیں دوسرا راؤنڈ بورک کے حق میں گیا۔ ان انتخابات میں عمومی طور پر پچھلے انتخابات کے مقابلے دس فیصد زیادہ شرکت تھی اور صدر کے امیدوار نے تاریخ کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

یہ اور دیگر ایسے اہم اعداد و شمار سے ہٹ کر یہ اجاگر کرنا ضروری ہے کہ یہ نتیجہ تاریخ میں ہمیشہ کی طرح نسبتاً پرانی شیرازہ بندی کے بکھرنے اور تعمیر نو کے آغاز کے عمل کا اظہار کرتا ہے۔ آمرانہ قوتوں کو ایک شدید دھچکا پہنچا ہے اور متحرک عوام کسی ریڈیکل اور سرمایہ داری مخالف قیادت کی غیر موجودگی میں ایک بنیادی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ لیکن ایک انقلابی بایاں بازو موجود ہے جو ووٹ کے ذریعے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔

شام 7 بجے اپروو ڈِگنیٹی کی انتخابی فتح یقینی ہو گئی۔ امیدواروں کے درمیان 10 پوائنٹس کا فرق تھا جو کہ 10 لاکھ ووٹوں کے برابر بنتا ہے۔ یہ مفروضہ کہ ووٹوں میں بہت کم فرق ہو گا غلط ثابت ہوا۔ کاسٹ نے اپنے ہیڈکوارٹر سے اپنی شکست قبول کر لی۔ لوگ یک دم خود رو طور پر سڑکوں پر نکل آئے اور بہت بڑی تعداد میں بورک کی مرکزی ریلی کی جانب مارچ کرنے لگے جہاں وہ تاریخ کے سب سے بڑے انتخابی ووٹ سے صدر بن گیا تھا۔

ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ اس فتح کی اصل طاقت محنت کش عوام کی مضبوط اور پرعزم جدوجہد ہے۔ اس فتح کا جشن اور خوشیاں منانے کے بعد ضروری ہے کہ اپنی توجہ ان مطالبات کے حل کی طرف لائی جائے جنہوں نے مثبت یا منفی انداز میں ان تاریخی انتخابات کی قوتِ محرکہ کا کردار ادا کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم میں سے وہ لوگ جنہوں نے اپنے تھوڑے بہت حقوق چھن جانے کے ڈر سے فسطائی رجحان کے خلاف ووٹ دیا اور جنہوں نے نئے حقوق اور پچھلے 30 سالہ دور سے مختلف‘ ایک نئے چلی کیلئے بورک کو ووٹ دیا وہ ان مقاصد کو عملی جامہ پہنتا دیکھنا چاہیں گے۔

اس عوامی ابھار کی اصل قوتِ محرکہ یہی اہداف ہیں جو بورک اور بائیں بازو کے اتحاد نے خود عوامی بغاوت کے دوران پیش کیے تھے۔ ان مطالبات پر پورا اترنے میں ناکامی بلاشبہ اس دائیں بازو کو مضبوط کرے گی جس نے کاسٹ کی صورت میں اپنا اظہار پایا ہے۔ 44 فیصد کی قابل غور قوت کے ساتھ وہ ایک بھوت کی طرح اس نئی سیاسی صورتحال پر منڈلاتا رہے گا۔ انتخابات نے سماج میں موجود سیاسی تناؤ کا مکمل اظہار کیا ہے جس کے کم ہونے کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں عوامی جدوجہد میں حصہ لینے سے کہیں زیادہ ضروری کام عوامی قوتوں کو آزادانہ طور پر منظم کرنا ہو گا۔

’سرمایہ داری مخالف تحریک‘ کی جانب سے ہم نے ہر اس چیز کے خلاف ووٹ کا نعرہ بلند کیا جس کی نمائندگی کاسٹ کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم نے بورک اور اس کے اتحادیوں کے پروگرام اور سمت کی طرف بھی تنقیدی رویہ رکھا۔ اپنی آخری تقاریر میں اس نے ایاندے (بائیں بازو کا منتخب صدر جس کی حکومت کو جنرل پنوشے نے اکھاڑ کر اسے قتل کر دیا تھا اور چِلی میں انتہائی رجعتی اور جابر آمریت کا آغاز ہوا تھا) کی کہانی دہرانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی اس کی غلطیاں بھی دہراتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوں اور سالوں تک بندوق کے زور پر ہمارے وسائل کو لوٹنے والے سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر ’متحدہ اور پرامن چلی‘ بنانے کے امکان پر زور دیا۔ اس کا اظہار اس نے پنیرا (سابقہ صدر) کو کال کر کے اور ریلی میں یہ کہہ کر کیا کہ انتہائی دائیں بازو کے امیدوار کاسٹ کی طرف ’پل بنائے جانے چاہئیں۔‘

ہم تھوڑی بھی ڈھیل دیے بغیر آنے والے واقعات کا انتظار کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی قوتوں کو منظم کر رہے ہیں اور آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ ہماری تنظیم کا حصہ بنیں۔ ہمیں چوکنا رہنا ہو گا تاکہ کسی کو ہماری فتح کا بند کمروں میں مذاکرات کے ذریعے سودا کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ ہم یہ کسی تعصب کی بنا پر نہیں کہہ رہے بلکہ حالیہ تاریخ یہی سکھاتی ہے کہ ہم صرف اپنی آزادانہ قوتوں پر ہی بھروسہ کر سکتے ہیں اور ہمیں ہتھیار ڈال کے سڑکوں سے بالکل نہیں ہٹنا چاہیے۔

آئیے اس فتح کی شکتی کے ساتھ آگے بڑھیں اور پورے نظام کو بدل ڈالیں۔